’’ سرجیکل اسٹرائیکس‘‘ یا آگ سے کھیلنے کی خواہش؟

بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایک بار پھر پاکستان کو سرجیکل اسٹرائیکس کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر سرحد پار سے دہشت گردی کے واقعات نہ رکے تو بھارت دہشت گردی روکنے کے لیے سرجیکل اسٹرائیکس کرے گا۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس کا ترنت جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کو ماضی کی سرجیکل اسٹرائیکس کا انجام نہیں بھولنا چاہیے۔ دفتر خارجہ نے اسے آر ایس ایس ذہنیت کی عکاسی قرار دیا۔
دونوں ملکوں کے درمیان دھمکی اور جوابی دھمکی کا یہ تبادلہ عین اُس وقت ہوا جب خطے کی صورتِ حال میں کشیدگی پوری طرح انتہائوں کو چھو رہی ہے۔ اِس بار کشیدگی دوقطبی یعنی پاکستان اور بھارت کے درمیان نہیں بلکہ چین کی شمولیت کے بعد ایک مثلث کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ چین اور بھارت کی فوجیں آمنے سامنے ہی نہیں بلکہ چین بہت خاموشی اور محتاط انداز میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر ان کی ٹھکائی بھی کررہا ہے۔ بھارت کو مار بھی پڑ رہی ہے مگر چین اسے رونے بھی نہیں دے رہا۔ چین نے چند روز قبل یہ بتایا ہے کہ بھارت کا واسطہ دو محاذوں سے نہیں بلکہ ڈھائی محاذوں سے پڑے گا۔ ڈھائی محاذوں سے مراد بھارت کے جغرافیائی ڈھانچے میں رہنے والے ناراض عناصر ہیں جو’’ سیون سسٹر اسٹیٹس‘‘ سے مشرقی پنجاب اور کشمیر تک پھیلی ہوئی ناراض اور مضطرب دنیا ہے۔
ایک طرف کشیدگی کا یہ پہلو ہے تو دوسری طرف مقبوضہ علاقے میں 5 اگست2019ء کے بعد سروں پر تنی خوف کی چادر میں چھید ہونے لگے ہیں اور بھارتی فوج کا ہنی مون پیریڈ ختم ہوتا ہوا معلوم ہورہا ہے۔ کشمیر میں اسلامی تہذیب کی سب سے توانا علامت سری نگر کی تاریخی جامع مسجد پانچ اگست سے پہلے ہی خاردار تاروں میں محصور ہے، اور اس کے صدر دروازے پر ایک موٹا تالا دور دور سے آنے والے نمازِ جمعہ کے تمنائیوں کا منہ چڑاتا ہے۔ اِس بار بھی نمازیوں کے ساتھ یہی ہوا، مگر اِس بار میڈیا نے ڈرتے ڈرتے اس پابندی کی کوریج کی۔ دور دراز سے نماز جمعہ کے لیے آنے والی خواتین دھاڑیں مارمار کر روتی اور آہ و زاری کرتی رہیں، یہاں تک کہ ایک شخص نے خوف کی چادر کو جھٹکتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر بھارتی حکومت نے یہ ناروا پابندی ختم نہ کی تو لاکھوں لوگ نکل کر اس پابندی کو توڑ دیں گے۔ بدلے ہوئے حالات میں میرواعظ عمر فاروق کی جامع مسجد سے یہ اعلان خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس دوران کئی علاقوں میں فوج اور حریت پسندوں کے درمیان جھڑپیں ہورہی ہیں اور فوج کا جانی نقصان ہونے لگا ہے۔ رواں برس فروری میں کنٹرول لائن پر جنگ بندی کے معاہدۂ 2003ء کی تجدید کرتے ہوئے فوجی حکام نے امن بحال کرنے پر اتفاق کیا تھا اور اس کے بعد کنٹرول لائن پر فائرنگ کا سلسلہ رک گیا تھا۔ یہ عارضی سکوت اور عارضی امن تھا۔ اب مقبوضہ علاقے کے اندر مسلح تصادم کے واقعات بڑھ گئے ہیں، وادی کے اندر ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے، اور پچھلے چند ماہ میں ایسے اٹھائیس واقعات رونما ہوئے جن میں آٹھ واقعات میں اقلیتی افراد مارے گئے، مگر بھارت نے اسے کشمیر میں اقلیتوں کے خلاف منظم مہم قرار دیا۔ اس مہم کو افغانستان میں طالبان کی واپسی کے ساتھ بھی جوڑا گیا۔ ایسے میں بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایک بار پھر سرجیکل اسٹرائیکس کی دھمکی دی ہے۔
سرجیکل اسٹرائیکس بھارت کا پرانا روگ اور شوق ہے۔ ممبئی حملوں کے بعد بھی بھارت نے اس شوق کی تکمیل کی کوشش اور خواہش کا اظہار کیا تھا، مگر پاکستان نے اس کا پوری قوت سے جواب دینے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد بھارت اس اقدام سے باز رہا تھا۔ چند سال بعد کنٹرول لائن پر نکیال سیکٹر میں سرجیکل اسٹرائیکس کا دعویٰ کیا گیا، مگر اس دعوے کا کوئی خاص ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا۔ افواجِ پاکستان کے ترجمان نے میڈیا کو اس مقام کا دورہ بھی کرایا تھا۔ ان تصوراتی سرجیکل اسٹرائیکس کی جو فلمیں میڈیا کو جاری کی گئیں وہ حقیقت میں کپواڑہ کے جنگلوں میں فلمائی گئی تھیں، اور اس کا بھانڈا کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی پھوڑا تھا۔ سرجیکل اسٹرائیکس کے مذاق بننے کے بعد بھارت کو بالاکوٹ طرز کی کارروائی کا خیال آیا تھا، مگر اس مہم جوئی کا جو انجام ہوا وہ دنیا نے دیکھا۔ ایک کوّا اور دو چار درخت تباہ کرانے کے بدلے بھارت اپنے دوجہاز گرا بیٹھا، اور ساری مہم جوئی سے ابھی نندن اور اس کا مشہورِ زمانہ جملہ ’’دی ٹی از فنٹاسٹک ‘‘برآمد ہوا۔ سرجیکل اسٹرائیکس کنٹرول لائن پر ہونے والی جھڑپوں کی ایک شکل ہے۔ ماضی میں ان کو جھڑپوں کا نام دیا جاتا تھا، اب فلم بندی کرکے سرجیکل اسٹرائیکس کا نام دے کر اپنی رائے عامہ کو خوش کیا جاتا ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر جو کچھ بھارت نے کرنے کی کوشش کی تھی بالاکوٹ کی صورت میں اس کا نتیجہ انتہائی بھیانک ہی برآمد ہوا۔ 1990ء کی دہائی میں بھارت امریکی طرز پر ’’ہاٹ پرسیوٹ‘‘ یا گرم تعاقب کی خواہشات کا اظہار کرتا تھا، اور اس کا نتیجہ کنٹرول لائن عبور کرکے معصوم افراد کو قتل کرنے کے واقعات بھی تھے۔ ایک ایسے ہی واقعے میں آزادکشمیر کے مقام لنجوٹ میں دو درجن افراد کو رات کی تاریکی میں شہید کیا گیا تھا۔ بھارت اس طرح کی کارروائیوں سے آگے کا سوچ بھی نہیں سکتا، اور ایسے میں جبکہ وہ ڈھائی محاذوں کے درمیان گھر چکا ہے، اُس کی کوئی بھی مہم جوئی جنوبی ایشیا کو امن کی منزل سے مزید دور کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔