نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 76 واں سالانہ اجلاس ختم ہوچکا ہے اور غیر ملکی وفود اپنے اپنے وطن واپس پہنچ چکے ہیں، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی اسلام آباد واپس آچکے ہیں۔ جنرل اسمبلی کا اجلاس ختم ہونے کے بعد وہاں ذیلی کمیٹیوں کے اجلاس شروع ہوجاتے ہیں جن میں جنرل اسمبلی کے دوران ہونے والے فیصلوں پر عمل درآمد کے طریق کار اور پیش کی گئی سفارشات کے قابلِ عمل ہونے کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح ہر ملک بھی جنرل اسمبلی میں ہونے والے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے اپنے ہاں اجلاس بلاتا ہے، اور جنرل اسمبلی میں ہونے والے فیصلوں پر غور کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے جنرل اسمبلی میں ہر سال دیگر امور کے علاوہ کشمیر پر لازمی اظہارِ خیال کیا جاتا ہے، اِس بار بھی عالمی غربت، عالمی امن، اور افغانستان، کشمیر کے علاوہ اس خطے میں استحکام پیدا کرنے کے لیے پاکستان نے تجاویز دیں اور سفارشات اقوام عالم کے روبرو پیش کی ہیں۔ حکومت کا اوّلین فرض ہے کہ وہ ان تمام امور کا جائزہ لے جو جنرل اسمبلی میں پاکستان کے مفادات سے متعلق زیربحث آئے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو نیویارک سے واپس آئے ہوئے تین ہفتے گزر گئے ہیں اور چوتھا ہفتہ شروع ہوگیا ہے، اس دوران قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس بھی ہوئے ہیں، مگر وزیر خارجہ نے پارلیمنٹ کے کسی بھی ایوان میں حکومت کی جانب سے کوئی پالیسی بیان نہیں دیا کہ وہ نیویارک میں جن عالمی رہنمائوں سے ملاقات کرکے آئے ہیں ان ملاقاتوں کے کیا متوقع نتائج مل سکتے ہیں۔
داخلی سیاست کا منظرنامہ یہ بنا ہوا ہے کہ وزیر داخلہ سمیت پوری حکومت ایک’’نوٹیفکیشن‘‘ کے نان ایشو پر لال پیلی ہورہی ہے، جو کام بند کمرے میں ہونے والا ہے اسے چوراہوں میں لے آئی ہے، اور دنیا میں پاکستان، افغانستان سے متعلق کیا سوچا جارہا ہے؟ اس پر پارلیمنٹ میں کوئی گفتگو نہیں ہورہی۔ پاکستان کی جانب بڑھنے والی کالی گھٹائوں کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے جنرل اسمبلی میں صدر بائیڈن کا خطاب کافی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا یہ اجلاس اس لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل تھا کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد یہ پہلا اجلاس تھا، مگر طالبان کو تو اجلاس میں شریک ہونے کا موقع ہی نہیں دیا گیا، اور امریکہ سمیت دنیا کے کسی بھی ملک نے افغانستان کے ساتھ مستقبل میں اپنے تعلقات پر کوئی واضح بات کی اور نہ اقوام عالم کے سامنے کوئی پالیسی بیان دیا۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے خطاب پر وہاں کی اپوزیشن نے امریکی کانگریس اور سینیٹ میں شدید ردعمل دیا ہے، وہاں حقیقی معنوں میں صدربائیڈن کو جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب پر اندرونی طور پر بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ڈیمو کریٹس اور ری پبلکن ممبرز افغانستان سے امریکی انخلا پر بھی شدید تنقید کررہے ہیں کہ افغانستان سے انخلا کے فیصلے نے امریکہ کی عالمی طاقت کی حیثیت پر داغ لگا دیا ہے۔ امریکی انتظامیہ اس امتحان سے باہر نکلنا چاہتی ہے، وہ حکمت اور صبر سے کام لے گی یا پاگل ہاتھی بنے گی؟ اس بارے میں ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔ متعدد امریکی عہدیدار سفارت کاری کی نئی صف بندی کے لیے اسلام آباد آئے، جن میں نائب وزیر خارجہ کا دورہ بہت اہم تھا، جس کے بعد اب امریکہ نے پاکستان میں اپنا سفیر بھی مقرر کردیا ہے، تاہم باہمی تعلقات تنائو کا شکار ہیں، امریکی رویّے کے باعث ہمارا خطہ بہت دبائو میں ہے، امریکہ بھارت کو ساتھ ملا کر چین اور پاکستان کے خلاف ایک محاذ کھڑا کرچکا ہے، وزیراعظم مودی کچھ معاملات طے کرنے ہی امریکہ گئے تھے۔
جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران نیویارک میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کی ملاقاتوں کا ایک لمبا سلسلہ تھا۔ دیگر ملاقاتوں کے علاوہ او آئی سی رابطہ گروپ کے ساتھ بھی اُن کی اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمائندے منیر اکرم کی رہائش گاہ پر ملاقات ہوئی تھی جس میں صدر آزاد کشمیر سلطان محمود اور کشمیر کمیٹی کے چیئرمین شہریار آفریدی بھی شریک ہوئے۔ بعد میں ان کی ملاقات امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کے ساتھ ہوئی۔ پاکستانی وفد میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر اسد مجید اور اقوام متحدہ میں مستقل مندوب منیر اکرم نے وزیر خارجہ کی معاونت کی، جبکہ حیران کن طور پر زلمے خلیل زاد ملاقات کرنے والی امریکی ٹیم کا حصہ تھے۔ امریکی وفد میں اُن کی شمولیت کا مقصد یہ تھا کہ وہ بتائیں کہ طالبان امریکہ مذاکرات میں کیا طے ہوا تھا اور کس کے ذمے کیا کام تھا۔ اس ملاقات کے لیے جو وقت مقرر تھا، ملاقات اُس سے کئی گنا طویل ہوئی اور مرکزی نقطہ افغانستان تھا۔ پاکستانی وفد نے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر بات کرنا چاہی مگر امریکی نمائندوں نے کوئی ٹھوس جواب نہیں دیا۔ یہ بات طے ہے کہ امریکہ پاکستان کو نظرانداز کرکے دبائو بڑھانے کی کوشش میں ہے۔ اس خطے میں امریکی مفادات اور عالمی منظرنامہ پارلیمنٹ میں زیربحث ہونا چاہے تاکہ امریکہ اور بھارت کے عزائم کا سدباب کیا جاسکے۔ پالیسی سازوں کو پارلیمنٹ سے رہنمائی طلب کرنی چاہیے کہ یہی بہترین فورم ہے، مگر حکومت اسے بری طرح نظرانداز کررہی ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ وزیر خارجہ پاکستان واپس پہنچ کر پارلیمنٹ اور پالیسی سازوں کو اعتماد میں لیتے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عالمی رہنمائوں سے ملاقات پر فالو اپ کے لیے کام کرتے، لیکن حکومت نے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا ہی گوارا نہیں کیا، قومی اسمبلی کا اجلاس اس موضوع پر بحث کیے بغیر ہی گزر گیا، اور ملک میں ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کی ایک ایسی بحث طول پکڑ رہی ہے جس کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی، یہ دراصل دو آئینی اداروں آرمی چیف اور وزیراعظم کے مابین حل ہونے والا معاملہ تھا۔ یہ معاملہ کابینہ میں لے جانے والا بھی نہیں تھا، مگر کابینہ کے بعد تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں زیربحث آیا، جس کے بعد اس وقت گلیوں، بازاروں اور چوراہوں میں زیربحث ہے۔ یہ معاملہ جس قدر جلد حل ہوجائے، بہتر ہوگا، ورنہ دونوں بڑوں کو بہت نقصان ہوگا۔
ہمارے ملک کی سیاست کے رنگ ہی نرالے ہیں، جن پر بحث ہونی چاہیے وہ امور کبھی زیربحث نہیں لائے جاتے، اور جو کام خاموشی سے کرنے والے ہوتے ہیں اُن کا چوراہوں میں ڈھنڈورا پیٹا جاتاہے۔ جو آئی ایس آئی کی ورکنگ اور فوج کے ڈسپلن سے واقف نہیں وہ تجزیہ کار بن کر سامنے آرہے ہیں۔ اگر ان تجزیہ کاروں سے یہ کہا جائے کہ ایران، بنگلہ دیش، چین، افغانستان کے خفیہ اداروں کے سربراہوں کے نام بتائو، تو جواب دینے کے بجائے ان کے منہ سے جھاگ نکل رہا ہوگا۔ حتمی بات یہ ہے کہ فوج کا ڈسپلن یہ ہے کہ کمان کا حکم نہ ماننے والا گھر چلا جاتا ہے، جنرل حمید گل اس کی ایک مثال ہیں، اور ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔
اگر آج سنجیدہ موضوع پر گفتگو کی جائے تو افغانستان کے حوالے سے پاکستان پر دبائو ایک نہایت سنجیدہ موضوع ہے، مگر حکومت اس پر خاموش ہے، اپوزیشن بھی خاموش ہے کہ ہماری دہلیز پر کیا خطرات موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے بعد اب مسلسل دو تین ماہ وہاں وہ تمام امور زیربحث لائے جائیں گے جن پر عالمی حکومتوں نے اتفاقِ رائے کیا ہے۔ عالمی رہنمائوں نے امن کے لیے جن خطرات کی نشان دہی کی ہے اب اقوام متحدہ کی مختلف کمیٹیوں کے اجلاسوں میں انہیں ختم کرنے کی تجاویز اور سفارشات مرتب کی جائیں گی۔ ہماری پارلیمنٹ کی ایک بہت بڑی اکثریت اس سے بے خبر ہے کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔ ہم عالمی فورم پر کس طرح زیربحث ہیں اور دنیا ہمارے متعلق کیا سوچ رہی ہے، یہ سب امور پارلیمنٹ میں آنے چاہئیں، مگر ایسا نہیں ہورہا۔ حکومت کو نوٹیفکیشن کے نان ایشو سے باہر نکلنا ہوگا، حکومتی پارٹی اپنے اختیارات پر تب اصرار کرے جب اُس نے تین سال کے دوران ملک میں انتہا درجے کی مقبولیت حاصل کرلی ہو، تب تو وزیراعظم عمران خان کلی اختیار اپنے ہاتھ میں رکھیں، اور اداروں کو کرکٹ ٹیم سمجھ کر جسے چاہیں کھلائیں اور جسے چاہیں میدان سے باہر بٹھائیں، اور ماضی کی مثالیں بھی مدنظر رکھیں۔ انہیں اچھی طرح علم ہے کہ وہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب تک کس طرح پہنچے ہیں۔ اگر انہوں نے کلی اختیار اپنے ہاتھ میں رکھنے کا آپشن لیا تو ماضی کے وزرائے اعظم کی طرح ناکامی ہوگی۔ ان کی تین سال کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔
جب سے تحریک انصاف حکومت میں آئی ہے، ملک میں تعمیراتی انڈسٹری کا مافیا راج کررہا ہے۔ شوگر، آٹا کے ذخیرہ اندوز ہر روز عید منا رہے ہیں اور سرمایہ دار دھڑلے سے پیسہ بنا رہے ہیں۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے ہاتھ میں کند چھری پکڑا دی ہے جس سے وہ عوام کو ذبح کررہا ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ حکومت میں قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا عزم ہی نہیں ہے۔ حکومت نے مافیا کو نفع کمانے کے لیے پورا موقع دے کر مارکیٹ کو اُس کے لیے کھلا چھوڑ رکھا ہے۔ ہر روز قیمتیں بڑھ جاتی ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ وزیراعظم کو علم ہونا چاہیے کہ فوج کی انتظامی ضروریات سیاسی انداز میں حل نہیں کی جاتیں۔ 18 اکتوبر کو فوج سے تین تھری اسٹار جرنیل ریٹائر ہوئے ہیں، اور ان کی جگہ نئی تقرری ہونی ہی ہونی ہے۔ نئی تقرریاں یا تبادلے ناگزیر تھے۔ یہ آرمی چیف کا استحقاق ہے کہ وہ کسے تھری اسٹار جنرل بنائے اور اسے کہاں تعینات کرے، اور کوئی بھی چیف کی حکم عدولی نہیں کرسکتا۔ آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری وزیراعظم کی اسی طرح صوابدید ہے جس طرح وہ آرمی چیف مقرر کرتا ہے۔ لیکن یہ اختیار اِس طرح استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس وقت پورا ہائبرڈ نظام نوحہ کناں ہے۔ وزیراعظم عمران خان گورننس میں ناکامی کے باعث قومی احتساب بیورو کی طرح الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں میں ایسے سربراہ چاہتے ہیں جو نہ صرف ان کی حکومت کے آلہ کار بنیں بلکہ ان کی اگلے انتخابات میں کامیابی یقینی بنائیں۔ ’’رائے عامہ کے دبائو‘‘ کی وجہ سے انہیں کندھا فراہم کرنے کا فیصلہ بھی واپس ہوچکا ہے۔ عمران خان ہر قیمت پر اگلا انتخاب جیتنا چاہتے ہیں۔ انتخابی مشین، بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے ووٹ کا حق جس طرح ان کی اولین ترجیح بنا ہوا ہے یہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کے ذہن میں کہیں نہ کہیں کوئی خوف موجود ہے، اسی خوف کے باعث وہ الجھ بھی رہے ہیں اور آئندہ الیکشن کے لیے جس طرح کی حکمت عملی تیار کی جارہی ہے، اس سے یوں لگ رہا ہے کہ بعض وزراء کی ضرورت سے زیادہ گفتگو اور سرگرمیاں خطرے کی علامت کے طور پر بھی لی جارہی ہیں۔ تحریک انصاف نے اپنے اتحادیوں کو مطمئن کرنے کے لیے مردم شماری کرانے کا اعلان کیا ہے۔ حکومت دسمبر 2022ء تک مردم شماری کروانے کا ارادہ رکھتی ہے، اور مردم شماری میں جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی ۔
مردم شماری سے قبل وزیراعظم نے ایک صفحے پر ہونے والا دعویٰ پارہ پارہ کردیا ہے اور اس ماحول میں مردم شماری کے لیے ایسی افرادی قوت جس پر اعتماد ہو، حکومت کو کہاں سے ملے گی؟ عوام تین سال کے بعد جب پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو انہیں نظرآتا ہے کہ حکومت ملک میں مہنگائی بھی کنٹرول نہیں کر سکی، جن اصلاحات کا وعدہ کیا تھا وہ بھی نہیں ہوئیں،احتسابی محاذ پر بھی ناکامی ہوئی ،اور اب سول ملٹری تعلقات کا کریڈٹ بھی اس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ حکومت اب جتنا چاہے ایک صفحے پر ہونے کا دعویٰ کرے مگر حقائق یہی ہیں کہ ابہام کی دھند چھا گئی ہے اور ایک صفحے پر ہونے کے دعوے کا جواب یہی ہے کہ دھواں وہاں سے ہی اٹھتا ہے جہاں چنگاری سلگ رہی ہو،دونوں قیادتیں اہم خارجہ اور سلامتی امور پر ایک پیج پر نظر نہیں آرہی ہیں۔ اس کی ایک نہیں بہت سی وجوہات ہیں، کالعدم تنظیموں اور گروہوں سے مفاہمت کا معاملہ بھی ایک وجہ ہے۔،حکومتی جماعت کے متعدد ذرائع کا کہنا ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے سے قبل حکمراں جماعت کو اپنے اوپر لگی ”سلیکٹڈ کی مہر کو مٹانا بہت ضروری ہے۔ یہ کوشش ایک ایسی جماعت کی طرف سے ہے جس کی تین سال کی اب تک کی کارکردگی اور گورننس بھی ایک سوال ہے۔
حکومت چیف الیکشن کمشنر کے خلاف طے شدہ مہم کے تحت ایک آئینی ادارے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو متنازع بنا رہی ہے اور انتخابی عمل میں یک طرفہ تبدیلیاں مسلط کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ الیکشن کمیشن کے اعتراضات کو نظرانداز کرتے ہوئے وزیراعظم اگلے انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کی ضد لگائے بیٹھے ہیں۔ انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ سیاست کرکٹ نہیں، موقع سے فائدہ اُٹھانے کا کھیل ہے۔ سیاست کے اپنے اصول ہیں اور حکومت چلانے کے ضابطے سیاست سے بھی مختلف ہیں۔
حکومت بلدیاتی انتخابات کرانا چاہتی تھی مگر سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی ادارے بحال کردیے گئے ہیں۔ یہ اشارہ ہے کہ پارلیمنٹ مدت پوری کرے گی لیکن اب ایک پیج والی کہانی کہیں نظر نہیں آئے گی۔ حکومت مستقبل میں دبائو میں رہے گی، اپوزیشن جماعتوں کو پورا موقع میسر رہے گا کہ وہ دبائو بڑھاتی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم سمیت اپوزیشن کی ہر سیاسی جماعت نے کمر کس لی ہے۔ احتجاج اور حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی بات… یہ سب کچھ کسی اشارے کی پیداوار ہے۔ اس صورت حال پر مختصر تبصرہ یہی ہے کہ حکومت جادو سے چل رہی ہے اور اپوزیشن جماعتیں جادو کی چھڑی سے چل رہی ہیں۔ اگرچہ اپوزیشن جماعتیں احتجاج کررہی ہیں مگر اصل احتجاج تو خود ان کے خلاف ہونا چاہیے کہ یہ سب فیصلے کسی کا اشارہ پاکر کرتی ہیں، اور یہی سیاسی جماعتیں بے وزن حکمت عملی اور سسٹم کو چلنے دینے کے نام پر حکومت کی مددگار بن کر پارلیمنٹ میں چار ظالمانہ بجٹ پاس کراچکی ہیں۔ جس سسٹم کو چلانے میں اپوزیشن جماعتیں حکومت کے لیے آکسیجن اور لائف لائن بنی ہوئی ہیں یہی سسٹم عام آدمی کی عزتِ نفس کو سیوریج کی لائنوں میں بہا رہا ہے اور ان کی زندگیوں کو کھا رہا ہے۔