برطانیہ : پیٹرولیم بحران کے بعد غذائی بحران پاکستان اور برطانیہ قیمتوں کا تقابل

برطانیہ میں پیٹرولیم بحران کے بعد اب غذائی بحران سر اٹھانے کو ہے۔ اس سلسلے میں فوڈ چینز کے سربراہان نے حکومت سے فوری طور پر مدد کی اپیل کی ہے۔ گوکہ افراطِ زر اور طلب و رسد کی وجہ سے دنیا بھر میں قیمتوں کا اتار چڑھاؤ جاری رہتا ہے، لیکن برطانیہ میں بنیادی اشیائے خورونوش پر حکومت کوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں۔ اس سلسلے میں حکومت نہ صرف ان کی طلب و رسد کو یقینی بناتی ہے بلکہ ان کی قیمتوں میں بھی اضافہ نہیں ہونے دیتی۔ برطانوی ریڈیو بی بی سی کے مطابق گزشتہ تیس سالوں میں بنیادی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں عام فرد کی آمدن کے حساب سے کمی واقع ہوئی ہے۔ تیس سال قبل اشیائے خورونوش کی قیمتیں ایک عام فرد کی آمدن کا 14 فیصد تھیں جو اب کم ہوکر 8 فیصد رہ گئی ہیں۔ اس وقت برطانیہ میں (لندن کے سوا) ایک مزدور کی کم از کم فی گھنٹہ اجرت 8.91 پاؤنڈ ہے اور دودھ 3 پائونڈ میں 4 لیٹر دستیاب ہے۔ ڈبل روٹی (سب سے بڑی) صرف 0.49 پاؤنڈ، اسی طرح گوکہ گیس کی قیمتیں اس وقت عروج پر ہیں لیکن تین بیڈ روم کے مکان میں رہنے والا ایک عام آدمی سردیوں میں بھی گیس و بجلی کا بل اوسطاً 120 پاؤنڈ دے رہا ہے۔ گزشتہ تین ماہ میں عالمی مارکیٹ کی وجہ سے برطانیہ میں بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر فرق پڑا ہے، لیکن یہ اضافہ انتہائی کم ہے۔ پہلے پیٹرول اوسطاً 1.22 پاونڈ فی لیٹر پر دستیاب تھا، اب یہ اوسطاً 1.34 پاؤنڈ فی لیٹر ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ برطانیہ میں ہر پیٹرول اسٹیشن پر قیمت الگ الگ ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک عام آدمی بازار و ہوٹل سے پورے دن کا کھانا 8 پاؤنڈ میں بآسانی کھا سکتا ہے بلکہ اس کو اگلے دن کے لیے بچا بھی سکتا ہے۔ یعنی یہ کھانا اس کی صرف ایک گھنٹے کی مزدوری کی اجرت کے برابر ہے۔ اور اگر آپ خود گھر میں اپنے باورچی خانے کو استعمال کریں تو یہ 4-5 پاؤنڈ سے بھی کم ہوجاتا ہے۔
بیرونِ ملک پاکستانی پاکستان کی معیشت سے مغربی ممالک کا تقابل کرتے ہیں تو یہ تو بتاتے ہیں کہ روٹی 0.50 پاؤنڈ کی ہے لیکن ان کی فی گھنٹہ کم از کم اجرت نہیں بتاتے۔ اور دودھ کی حالیہ قیمت جو کہ اب ڈیری ایسوسی ایشن نے 155 روپے فی کلو مقرر کرنے کا عندیہ دیا ہے وہ برطانیہ سے بھی زیادہ ہے۔
اسی طرح جہاں ٹیکس کی بات ہوتی ہے وہاں بھی یہ تذکرہ ضرور ملتا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس کی شرح انتہائی کم ہے، لیکن پاکستان کی حکومت ٹیکس کے عوض جو سہولیات عوام کو دیتی ہے اور جو سہولیات مغرب اپنے عوام کو دیتا ہے ایک چھوٹا سا موازنہ اس کا بھی ہونا چاہیے۔
پاکستانی اور برطانوی آئین کی رو سے بنیادی تعلیم حکومت کی ذمہ داری ہے، لیکن پاکستان کے بیشتر سرکاری اسکولوں اور کالجوں کی صورت حال یہ ہے کہ اب تو غریب اور نچلا طبقہ بھی ان اسکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھنے کے لیے نہیں بھیجتا۔ تعلیم کا پورا بوجھ نجی اسکولوں نے اٹھایا ہوا ہے، نتیجتاً عوام کی جیب پر شدید قسم کا دباؤ موجود ہے۔ پاکستان میں ایک اوسط درجے کے سرکاری اسکول کی صرف ماہانہ فیس 3 سے 5 ہزار روپے ماہانہ ہے، جبکہ سالانہ چارجز، کتابیں، کاپیاں اور یونیفارم اس کے علاوہ ہے۔ جبکہ برطانیہ میں عوام کی اکثریت سرکاری کالجوں اور اسکولوں کا رخ کرتی ہے، اس کے علاؤہ فلاحی ریاست برطانیہ عوام کو معاشی ریلیف یا الائونس کے علاؤہ بچوں کے لیے باقاعدہ وظیفہ بھی دیتی ہے جس کا آپ کی آمدن سے کوئی تعلق نہیں۔
اس کے علاوہ صحت کا شعبہ پورا حکومت کی ذمہ داری ہے، آپ کو ایک روپیہ بھی کسی قسم کے علاج اور آپریشن کے لیے خرچ کرنے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان میں صحت کی ناکافی سہولیات کی بناء پر عوام ایک چھوٹی سی بیماری کے لیے بھی نجی اداروں کا رخ کرتے ہیں۔ تعلیم کے بعد صحت عوام کی جیب پر ایک بڑا بوجھ ہے۔
پاکستان اور مغرب کا تقابل معاشی سطح پر کیا جائے تو یہ سراسر زیادتی ہوگی، لیکن یہ موازنہ صرف عوام کی رہنمائی کے لیے ہے۔ اصل پیمانہ اور موازنہ فی کس آمدنی اور اخراجات کا ہونا چاہیے تاکہ عام آدمی کے حالاتِ زندگی کا معلوم ہوسکے۔ پاکستان اور مغربی ممالک میں مہنگائی کا تقابل تو چھوڑ دیں، صرف بھارت اور پاکستان میں غذائی افراطِ زر کا ہی مطالعہ کرلیں کہ جہاں بھارت میں غذائی افراطِ زر 1.8 فیصد ہے وہیں پاکستان میں یہ شرح اب دس فیصد تک جاپہنچی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کا تعلق ایک زرعی ملک سے جوڑنا بھی درست نہیں۔ تادم تحریر ڈالر کی اڑان ایک بار پھر بہت اونچی ہوگئی ہے اور آج 18 اکتوبر 2021ء کو ڈالر 173 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔
اوورسیز پاکستانی زیادہ تر اپنے ممالک سے تقابل کرتے ہوئے ڈالر یا پاؤنڈ کی شرح مبادلہ سے تو چیزوں کی قیمت بتاتے ہیں لیکن اس کا موازنہ فی کس شرح آمدن سے نہیں کرتے۔ اس وقت گوکہ افراطِ زر دنیا بھر کا مسئلہ ہے لیکن مغرب اور خاص طور پر برطانیہ میں اس کا اثر بنیادی اشیائے خورونوش پر نہیں پڑتا۔ یہ حکومتی حکمت عملی ہی یہاں کے باشندوں کو ایک بہت بڑا ریلیف فراہم کرتی ہے، جبکہ دنیا میں گنے کی پیداوار میں سرفہرست پاکستان میں چینی کی قیمت میں دو سو فیصد اضافے کو بھی حکومت روکنے میں ناکام رہی۔ مغرب کی مضبوط معیشت کی بنیاد یہاں پر عوام کو اشیائے خورونوش پر دیا گیا حکومتی ریلیف ہے جوکہ عوام کا حکومت پر اعتماد بڑھاتا ہے، جبکہ پاکستان میں ہر نئی آنے والی حکومت پرانی حکومت کو تمام تر برائیوں کا ذمہ دار تو قرار دیتی ہے لیکن افراطِ زر پر قابو پانے یا عوام کو ریلیف دینے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔