رسد اور طلب کی زنجیر ٹوٹ گئی ،بڑھتا ہوا عالمی اقتصادی بحران کورونا وائرس کے عذاب کا تسلسل

سرنامہِ کلام سے قارئین یہ توقع نہ فرمائیں کہ کالم کسی وحشی کے چھوٹنے، یا کسی جبار کے زمیں بوس ہونے کی روداد ہے۔ آج ہم اُس بحران کا ذکر کریں گے جس کی وجہ سے ساری دنیا میں خام تیل، پیٹرولیم مصنوعات اور اشیائے ضرورت کی قلت ہوگئی ہے۔ میلادِ حضرت مسیح یا ایامِ کرسمس کی آمد آمد نے مغرب میں اس معاملے کو اور بھی گمبھیر کردیا ہے۔ اکتوبر کے اختتام سے کرسمس کے لیے تحائف کی خریداری کا آغاز ہوتا ہے اور بازار آباد ہوجاتے ہیں، کہ دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے۔
تاہم خدشہ ہے کہ اِس بار دکانیں ویران رہیں گی۔ اس لیے نہیں کہ صارفین کے شوق یا قوتِ خرید میں کوئی کمی آگئی ہے، بلکہ ویرانی کا سبب گرانی سے زیادہ اشیاء کی عدم دستیابی ہے۔ اس وقت بھی بقعہ نور بنے بازاروں میں جگمگ کرتی دکانوں کے شیلف نصف خالی ہیں، کہ فراہم کنندگان کی جانب سے مال کی رسد میں خلل آگیا ہے۔
امریکہ میں معاملہ سب سے خراب ہے، کہ جہاں غسال و کفن بھی چین اور جاپان سے آتے ہیں۔ مال کے کال کی کیا وجہ ہے؟ یہ بنیادی طور پر نامراد کورونا وائرس عذاب کا تسلسل ہے۔ گزشتہ برس اس ستم پیشہ نے انسانی حیات کو ڈسا، اور اس خون آشام بلا سے بچ جانے والی دنیا کو اب اسبابِ حیات کی قلت کا سامنا ہے۔
جس زنجیر کا ذکر اس مضمون کا عنوان ہے وہ دراصل فراہمی کی زنجیر یا Supply Chain ہے۔ صنعتی اداروں میں افرادی قوت، سرگرمیوں، معلومات اور وسائل کے جامع نظام کے ذریعے مصنوعات کی صارف تک رسائی کو فراہمی کی زنجیر کہا جاتا ہے۔ یعنی جیسے چین (Chain) کی منظم و مربوط حرکت سائیکل کو آگے بڑھنے پر آمادہ کرتی ہے، ویسے ہی فراہمی کی زنجیر قدرتی و انسانی وسائل، خام مال اور اجزاء کو تیار شدہ مصنوعات میں تبدیل کرکے گاہک تک پہنچانے کے لیے لازمی ہے۔ اس زنجیر کا ایک حلقہ بھی اگر درست انداز اور سمت میں کام نہ کرے تو صارف تک مطلوبہ مصنوعات کی فراہمی رک جاتی ہے۔ نقل و حمل اس زنجیر کا ایک کلیدی حلقہ ہے جو کورونا سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔
حفاظتی ٹیکوں کی تیاری سے پہلے احتیاط ہی اس مہلک مرض سے بچائو کا واحد ذریعہ تھا۔ ماہرین کی سفارشات پر دنیا بھر میں حکومتوں نے لوگوں کے بلاضرورت گھر سے نکلنے پر پابندی لگادی۔ جہاں Lock Down کو ضروری نہ سمجھا گیااُن معاشروں میں بھی کروڑوں افراد نے احتیاطاً خود کو گھروں تک محدود کرلیا۔ امریکہ، کینیڈا اور یورپی ممالک نے اس دوران روٹی و روزی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے شہریوں کی فراخ دلی سے مدد کی، جس کی بنا پر محنت کشوں نے کام پر جلد از جلد واپسی کے لیے اصرار نہیں کیا۔ لاک ڈائون کے دوران لازمی خدمات کے جن اداروں کا کام جاری رہا وہاں بھی احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں جن میں سب سے اہم ”تن دوری“ یا Social Distancingکا اطلاق تھا۔
بندرگاہوں پر چونکہ مزدوروں کا ہجوم ہوتا ہے اس لیے وہاں محنت کشوں کی تعداد کو محدود کردیا گیا، اور زیادہ سے زیادہ افراد کو دیہاڑی کا موقع دینے کے لیے اوقاتِ کار کم کردیے گئے۔ امریکہ کی سب سے بڑی بندرگاہ لاس اینجلس پر چارچار گھنٹے کام کا عبوری نظام قائم ہوا، اور ہر نئی شفٹ کے آنے سے پہلے دفاتر، کرینوں، لفٹر اور دوسری مشینوں اور آلات کی خصوصی صفائی کا اہتمام کیا گیا۔
عام حالات میں یہاں پیر سے جمعہ روزانہ 16 گھنٹے کام ہوتا تھا۔ کورونا کے دوران چار چار گھنٹوں کی شفٹ عملاً تین گھنٹے رہ گئی، کہ ہر چار گھنٹے بعد صفائی اور جراثیم کُش اسپرے میں ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ صرف ہورہا تھا۔ کام کے دوران احتیاطی اقدامات کی وجہ سے جہازوں سے سامان کے اتار چڑھائو کے کام میں مزید سستی آئی، مثال کے طور پر کنٹینر اٹھانے کے لیے مزدور کرین کے کانٹے کو جب کنٹینر کے حلقوں میں پُروتے ہیں تو اس کے درست اور ٹھیک ہونے کو یقینی بنانا سپروائزر کی ذمہ داری ہے۔ عام حالات میں یہ کام ساتھ ساتھ ہورہا ہوتا ہے، لیکن تن دوری کے اطلاق کے لیے کانٹوں کو حلقوں میں پرونے کے بعد جب مزدور دور ہٹ جاتے ہیں تب معائنہ کار وہاں آکر اس کا مشاہدہ کرتے ہیں، جس کے بعد کرین آپریٹر کو سامان اٹھانے کا اشارہ کیا جاتا ہے۔ ان احتیاطی اقدامات کی وجہ سے بندرگاہوں کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی۔
یہی حال امریکہ کی دوسری بندرگاہوں کے ساتھ یورپ کی مصروف ترین بندرگاہ روٹرڈیم (Rotterdam) اور چینی بندرگاہوں کا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 100 سے زیادہ جہاز لاس اینجلس کے قریب گہرے پانیوں میں چکر لگاتے ہوئے ایندھن پھونک رہے ہیں۔ اس لیے کہ بندرگاہ کے قریب ایک بھی لنگر خالی نہیں جہاں وہ پڑائو ڈال سکیں۔ روٹرڈیم میں 20 اور چینی بندرگاہوں کے گرد منڈلاتے کنٹینر بردار جہازوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ کھلونوں، الیکٹرانکس، فیشن ایبل ملبوسات، بھاری مشینری اور دوسری مصنوعات سے لدے جہازوں کے ساتھ بہت سے تیل بردار ٹینکر بھی ان بندرگاہوں پر پھنسے ہوئے ہیں۔
بعد ازخرابی بسیار جو مال جہاز سے اتار لیا جائے اُس کی منزلِ مقصود پر فوری روانگی بھی آسان نہیں، کہ ٹرک ڈرائیوروں کی شدید کمی ہے۔ کورونا کے دوران نقل و حمل کا شعبہ بری طرح متاثر تھا جس کی وجہ سے ہزاروں ڈرائیور گھر بیٹھ رہے۔ اس دوران بہت سے ڈرائیوروں نے تنگ آکر ریٹائرمنٹ لے لی، اور کچھ Amazon، ڈی ایچ ایل، فیڈیکس (Fedex) جیسے اداروں سے وابستہ ہوگئے۔ یہ کام بین الصوبائی ٹرک ڈرائیوری کے مقابلے میں آسان ہے۔ نہ ہفتوں گھر سے دور رہنے کی آزمائش، اور نہ دن رات بھاری ٹرک چلانے کی مشقت۔ صبح سے شام دیہاڑی لگائی اور رات کو گھر واپسی۔ ایمیزون اور فیڈیکس کی تنخواہیں اور مراعات بھی بہتر ہیں۔
اس غیر معمولی ”بحری ٹریفک جام“ سے امریکہ اور یورپ کو جن مشکلات کا سامنا ہے وہ اپنی جگہ، لیکن اس کے نتیجے میں ساری دنیا متاثر ہورہی ہے۔ اس وقت دنیا کی مختلف بندرگاہوں پر پھنسے جہازوں میں ایک ہزار سے زیادہ کنٹینر لدے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے ہر جگہ کنٹینر کی شدید قلت ہے۔ کارخانوں میں تیار مال کا ڈھیر لگا ہے لیکن ان کو اٹھانے کے لیے کنٹینر دستیاب نہیں۔ چالیس فٹ کے کنٹینر جو کبھی ڈھائی ہزار ڈالر میں مل جاتے تھے اب دس ہزار میں بھی دستیاب نہیں۔ نقل و حمل کے اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔
تیل ٹینکروں اور پیٹرولیم مصنوعات سے لدے جہازوں کے پھنس جانے سے دنیا بھر میں تیل اور پیٹرول کی نقل و حمل بری طرح متاثر ہے۔ ایک ماہ کے دوران تیل کی قیمت 72 سے 83 ڈالر فی بیرل ہوگئی، جبکہ LNG کی قیمت 10 ڈالر فی mBtuسے بڑھ کر 100ڈالر mBtuہوچکی ہے۔ حالانکہ تیل کی مجموعی طلب یعنی 9کرؤڑ 49 لاکھ بیرل یومیہ کے مقابلے میں پیداوار 9 کروڑ 30 لاکھ بیرل کے قریب ہے اور اوپیک ممالک اپنی یومیہ پیداوار میں ہر ماہ چار لاکھ بیرل کا اضافہ کررہے ہیں۔ یعنی قیمتیں بڑھنے کا سبب طلب میں اضافہ نہیں بلکہ فراہمی کی زنجیر ٹوٹ جانے کے سبب رسد میں خلل واقع ہوگیا ہے۔
گیس کا حال اس سے بھی برا ہے۔ گزشتہ دنوں جب پاکستان ایل این جی لمیٹڈ نے LNG کے لیے ٹینڈر جاری کیے تو ایک بھی پیشکش موصول نہیں ہوئی۔ صاف ستھرے ایندھن کے طور پر آج کل LNGبہت مقبول ہے، چنانچہ قارئین کی دلچسپی کے لیے اس کی ہیئت کے بارے میں چند سطور:
ایل این جی یا Liquefied Natural Gas کشید کرنے کے لیے قدرتی گیس سے پانی، بوجھل و کثیف ذرات(Heavy Hydrocarbons)، ہائیڈروجن سلفائیڈ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو نکال لیا جاتا ہے، اور پھر دبائو ڈال کو اسے رقیق حالت میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ اس عمل کا بنیادی مقصد نقل و حمل میں آسانی پیدا کرنا ہے تاکہ LNGکو ٹینکروں اور بحری جہازوں کے ذریعے پیداواری مقام سے دوردراز علاقوں یا بیرونی ممالک کو بھیجا جاسکے۔ LNG بنانے کے عمل میں قدرتی گیس کا حجم 600 واں حصہ رہ جاتا ہے۔ مقامِ مقصود پر پہنچنے کے بعد اسے دوبارہ گیس کی شکل دے دی جاتی ہے، تاکہ اسے سلینڈروں یا پائپ لائن کے ذریعے آگے تقسیم کیا جاسکے۔ اس عمل سے حاصل ہونے والی گیس کو Re-Gasified Liquefied Natural Gas (RLNG) کہا جاتا ہے۔
نقل و حمل میں دِقّت دراصل فراہمی کی زنجیر کے ایک کلیدی حلقے یعنی افرادی قوت میں خلل کا نتیجہ ہے۔ چین اور یورپی ممالک کے اعداد و شمار ہمارے پاس نہیں، لیکن امریکہ کے مختلف نجی اداروں میں 20 لاکھ اسامیاں خالی ہیں جن کے لیے افراد میسر نہیں۔ یہاں اوسطاً 130 نوکریوں کے لیے صرف 100افراد درخواستیں دے رہے ہیں۔”قحط الرجال“ کی وجہ پر بھی ماہرین کے درمیان اختلاف ہے۔قدامت پسند سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ کورونا لاک ڈاؤن کے دوران سرکار کی جانب سے دیا جانے والابے روزگاری الاؤنس تنخواہ سے زیادہ تھا، اور جب اچھی خاصی رقم گھر بیٹھے مل رہی ہو تو آدمی کاہے کو خون پسینہ بہائے! لیکن حال ہی میں جو جائزے شایع ہوئے ہیں ان کے مطابق بات اتنی سادہ نہیں۔
عمرانیات کے علماء کہہ رہے ہیں کہ خواتین کارکنوں کے نئے رجحان نے صورت حال کو مزید خراب کردیا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران ملازمت پیشہ خواتین کو اندازہ ہوا کہ ان کی ساری کی ساری تنخواہ بچوں کی دیکھ بھال (Child Care)، دفتر کے لباس، میک اپ، بازار کے کھانوں اور ٹیکس کی نذر ہوجاتی ہے۔ اگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک گھر بیٹھ کر امورِ خانہ داری سنبھال لے تو گھریلو اخراجات میں کمی کے ساتھ بچے خوش اور گھر کا کم قیمت و غذائیت سے بھرپور صحت بخش کھانا ایک اضافی نعمت۔ دن کو فراغت کی وجہ سے ضعیف والدین کی دیکھ بھال اور پیرخانوں (Senior living) کے دورے بھی آسان ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق پندرہ فیصد نوکری پیشہ خواتین نے ملازمتوں کو خیرباد کہہ کر گھر کا محاذ سنبھال لیا ہے جہاں محنت تو ملازمت سے کہیں زیادہ کرنی پڑتی ہے لیکن ”فردوس بر روئے زمیں است” کا اپنا ہی لطف ہے۔ ان خواتین کی تعداد تیس لاکھ کے قریب ہے۔ خواتین میں یہ جملہ بڑا عام ہوگیا ہے کہ “You earn living and we will make your life worth living” یعنی ”میاں جی! آپ اسبابِ زندگی فراہم کیجیے، ہم آپ کو جینے کی امنگ فراہم کریں گے۔“
یہ نیا اور فطری اندازِ فکر جہاں صحت مند اور خوش و خرم خانگی ماحول کا نقطہ آغاز ہے، وہیں افرادی قوت میں کمی نوخیز نوجوانوں کے لیے بے حد خوش آئند ہے، کہ آجر عمدہ پیشکشیں لیے کھلی بانہوں سے ان کے استقبال کو موجود ہیں۔ کم سے کم اجرت میں اضافہ بھی ہوگیا ہے۔ دوسری طرف مزدور یونینوں نے اپنے حقوق کی جدوجہد تیز کردی ہے۔ گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں صدر ریگن کی بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد سے مزدور تحریک کمزور ہوتے ہوتے گزشتہ چند برس پہلے تک کچھ نعروں اور علامتوں تک محدود نظر آرہی تھی۔ لیکن بدلتی صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مزدور تنظیموں نے بھی قوت کا مظاہرہ شروع کردیا ہے۔ گزشتہ ہفتے سے زرعی مشینیں، ٹریکٹر، ڈیزل انجن اور انجینئرنگ کے دوسرے سامان بنانے والے ادارے جان ڈیر (John Deere)کے ملازمین نے تنخواہ اور مراعات میں اضافے کے لیے ہڑتال کررکھی ہے جو امریکہ میں کئی دہائیوں کے بعد پہلی کامیاب ہڑتال ہے۔ کئی دوسرے اداروں کی مزدور یونینوں نے بھی اپنی انتظامیہ کو اسی نوعیت کے انتباہی پیغامات دیے ہیں۔
مہنگائی اور قلت سے پیدا ہونے والی مشکلات کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ امریکی خواتین اور مزدوروں میں اپنے حقوق کا شعور پیدا ہورہا ہے، لیکن فراہمی کی زنجیر میں خلل سے امریکہ کے ساتھ ساری دنیا ایک بحران کی طرف بڑھ رہی ہے۔ امریکی قیادت کو اس کا احساس ہے۔ گزشتہ ہفتے صدر بائیڈن نے بندرگاہوں کے حکام، تاجروں، پورٹ مزدوروں کی تنظیم International Longshore and Warehouse Union(ILWU) کا مشترکہ اجلاس طلب کیا، جس میں اور باتوں کے علاوہ یہ بھی طے کیا گیا کہ امریکی بندرگاہیں 24 گھنٹے کام کریں گی۔ یونین نے اس پر آمادگی تو ظاہر کی لیکن ILWUکا کہنا ہے کہ اوورٹائم کی نئی شرح کے تعین کے بغیر یہ ممکن نہیں۔
امریکہ کے وزیر مواصلات پیٹ بیوٹیجیج (Pete Buttigieg) کا خیال ہے کہ بندرگاہوں پر صورت حال اگلے سال کے وسط سے پہلے معمول پر آنا مشکل ہے۔ ری پبلکن پارٹی الزام لگارہی ہے کہ حکومت اپنے بنیادی ڈھانچے پیکیج کو منظور کرانے کے لیے بندرگاہوں اور بین الریاستی ٹرانسپورٹ کی صورت حال کو خراب کررہی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے بندرگاہوں، ہوائی اڈوں، پلوں، ریلوے لائنوں اورشاہراہوں سمیت امریکہ کے بنیادی ڈھانچےکی مرمت وتعمیرنو کے لیے کانگریس سے 35 کھرب ڈالر طلب کیے ہیں۔ ری پبلکن پارٹی کا مؤقف ہے کہ مقروض ملک اس بھاری خرچ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ بندرگاہوں پر بحری ٹریفک جام کے نتیجے میں لوگ کرسمس خریداری کے حوالے سے پریشان ہیں۔ صدر بائیڈن حالیہ مشکلات کی وجہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار بندرگاہوں اور فرسودہ تنصیبات کو قرار دے رہے ہیں۔
مسائل و بحران کی من مانی تشریح اور مشکلات کا اپنے سیاسی عزائم کے لیے استعمال کوئی نئی بات نہیں، لیکن اگر فراہمی کی یہ زنجیر جلد درست نہ ہوئی تو ساری دنیا کو شدید مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش سمیت تیل درآمد کرنے ممالک اس سے بری طرح متاثر ہوں گے۔
………………
اب آپ ہماری فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comپر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔