کیا قومیں اپنے ہیروز کو اس طرح رخصت کیا کرتی ہیں؟

میری ڈاکٹر صاحب سے کبھی کبھی ٹیلی فون پر بات ہوجاتی تھی، وہ سادگی کا مرقع تھے، فون ہمیشہ خود اٹھاتے تھے اور دیر تک بات کرتے تھے۔ آواز میں ہمیشہ توانائی ہوتی تھی۔ خاندان بھوپال سے آیا تھا، زندگی کے آخری دنوں میں بھوپال کا ذکر کثرت سے کرتے تھے، بھوپالی شہزادیوں کا تذکرہ بھی کرتے تھے اور تعلیمی اداروں کا بھی۔ 1952ء میں کھوکھرا پار کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے، جیب میں ایک پین اور سر پر ٹین کا بکسا تھا، یہ کُل اثاثہ تھا۔ تعلیم بڑی مشکل سے پائی۔ 1967ء میں ہالینڈ سے میٹالرجی میں ماسٹرز کیا، اور 1972ء میں بیلجیئم سے میٹالرجیکل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی۔ زبانیں سیکھنے کا شوق تھا۔ اردو، فارسی کے ساتھ ساتھ جرمن، ولندیزی، فرنچ اور انگریزی بھی جانتے تھے۔ ایمسٹرڈیم میں فزیکل ڈائنامکس ریسرچ لیبارٹری میں کام شروع کردیا۔
یادداشت فوٹو گرافک تھی، لہٰذا تمام جوہری راز ازبر کرلیے۔ 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو سے ملے اور پاکستان میں جوہری پلانٹ پر کام شروع کردیا۔ سیٹھ عابد کے بارے میں بھی بتایا کرتے تھے۔ یہ انھیں پرزے اور میٹریل بتاتے تھے اور سیٹھ عابد جیسے تیسے منگوا کر ان کے حوالے کردیتے تھے۔ جنرل اسلم بیگ نے اپنے دور میں پاکستان کے جوہری پروگرام کا آڈٹ کرایا، پتا چلا دس برسوں میں صرف 300 ملین ڈالر خرچ ہوئے ہیں، اور اتنی رقم میں سو میگا واٹ کا پاور پلانٹ نہیں آتا۔ یہ اس لحاظ سے دنیا کا سستا ترین ایٹمی پلانٹ تھا۔ ہمیں یہ حقیقت بھی ماننا ہوگی کہ ڈاکٹر عبدالقدیر نہ ہوتے تو پاکستان دنیا کی واحد اسلامی نیوکلیئر پاور نہ ہوتا، لیکن 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے وقت انھیں جان بوجھ کر نظرانداز کیا گیا۔ یہ اس پراجیکٹ کے بانی تھے، یہ نہ ہوتے تو پاکستان کبھی جوہری منزل نہ پا سکتا، لہٰذا یہ زیادہ عزت کے حق دار تھے۔ ہمیں ان پر جوہری راز بیچنے کا الزام نہیں لگانا چاہیے تھا، اور یہ اگر مجبوری تھی تو پھر مجبوری ختم ہونے کے بعد ہمیں یہ داغ دھو دینا چاہیے تھا۔ ہمیں انھیں اس دھبے کے ساتھ دنیا سے رخصت نہیں کرنا چاہیے تھا۔ وہ ہمارے محسن تھے، قائداعظم کی طرح محسن۔ قائداعظم نے ملک بنایا تھا اور ڈاکٹر عبدالقدیر نے ملک بچایا تھا۔ لیکن ہم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
ہم نے انھیں چور بناکر دنیا سے رخصت کردیا۔ دنیا میں آج تک جو آیا اس کو چلے جانا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر بھی 10 اکتوبر 2021ء کو چلے گئے، لیکن آپ بے حسی دیکھیے، محسنِ پاکستان کے جنازے میں صدر تھے، وزیراعظم تھے، اپوزیشن لیڈر تھے اور نہ ہی سروسز چیفس تھے۔ کیا قومیں اپنے ہیروز کو اس طرح رخصت کیا کرتی ہیں؟ ڈاکٹر عبدالقدیر کی گیلی قبر پورے ملک سے یہ سوال کررہی ہے۔ شاید اس اجتماعی بے حسی پر کوئی بول پڑے، کوئی ایک۔
(جاوید چودھری- ایکسپریس، منگل 12 اکتوبر 2021ء)