یہ دراصل پیٹرک بیچنن(Patrick Bucanan) کی نئی کتاب کا عنوان ہے۔ امریکی مصنف اور سیاست دان پیٹرک بیچنن نے تین امریکی صدور کے ساتھ کام کیا۔ مذکورہ کتاب میں وہ آنے والے دنوں میں مغرب کے زوال کی پیش گوئی کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ امریکہ ’’سیاسی اسلام‘‘ کو کس طرح سب سے بڑے خطرے کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ کم و بیش تین عشروں سے سیاسی اسلام کو ختم کرنے کی اُن کی کوشش بری طرح ناکام ہوئی۔ اُن کی ناکامی کی سب سے بڑی علامت امریکہ اور نیٹو کی افغانستان میں ہونے والی شرمناک شکست ہے۔ یہ کتاب دراصل اس شکست پر ردعمل ہے۔ بیچنن کا کہنا ہے کہ اگرچہ یورپ کا بھی یہی حشر ہوگا، لیکن امریکہ بطور خاص اخلاقی سطح پر اتنی گراوٹ کا شکار ہوجائے گا کہ سماج کو جوڑنے والے عامل کے طور پر خاندان کا تصور تحلیل ہوجائے گا۔ اس کے زوال کی بیان کردہ دوسری وجہ قدرتی اموات کی وجہ سے شہری آبادی کے تناسب میں برپا ہونے والی تبدیلیاں ہوں گی۔ مصنف اس صورت حال کو قدرتی اموات سے آبادی میں کمی قرار دیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ مغرب میں شرح پیدائش میں کمی پر افسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آبادی میں کمی بیرونی ممالک سے آنے والے نوجوان آبادکار پوری کریں گے۔ جس رفتار سے مغرب میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور وہ یہاں آکر آباد ہورہے ہیں، بہت جلد کچھ مغربی ممالک میں وہ اکثریت میں ہوجائیں گے، یا کم از کم ایک قابلِ ذکر اقلیت کے طور پر سامنے آئیں گے۔ اُن کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کو قبول کرنے کے علاوہ مغرب کو انقلاب کی ضد کے طور پر ماضی کی مذہبی اور اخلاقی اقدار کو بحال کرنا ہوگا۔ وہ مغربی عورتوں کی ماں بننے کی شرح پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عموی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ہر عورت اوسطاً دو بچوں کو جنم دے گی، لیکن عملی طور پر یہ شرح ایک سے بھی کم ہے۔ کم شرح پیدائش کی وجہ سے یورپ دم توڑ رہا ہے۔ مصنف زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تیسری دنیا کے ممالک، جیسا کہ چین، انڈیا اورلاطینی امریکہ، خاص طور پر مسلمان ممالک کی آبادی میں غیر معمولی رفتار سے، 80ملین سالانہ کا اضافہ ہورہا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ 2050ء تک تیسری دنیا کی کُل آبادی چار ارب سے تجاوز کرجائے گی۔ اس طرح مغرب کا ڈرائونا خواب سچ ہوجائے گاکہ یورپ کی سرزمین اُن لوگوں کی ملکیت بننے جارہی ہے۔ وہ حیران ہوتے ہوئے سوچتے ہیں کہ یورپی اقوام نے بچے پیدا کرنے کیوں چھوڑ دئیے؟ اس کا جواب مصنف خود دیتے ہیں کہ یہ مغرب کے تباہ کن کلچر، اور اخلاقیات کی موت کی وجہ سے ہے۔ یہ کلچر موت بن کر مغرب پر مسلط ہوچکا ہے۔ مصنف کسی بھی معاشرے کی اولین بنیادی اقدار کے زوال پر بحث کرتے ہیں۔ یہ اقدار خاندان، اخلاقی اور مذہبی اصول ہیں۔ وہ شادی کے بطور اخلاقی اور سماجی ادارے کی تباہی پر ماتم کناں ہیں۔ وہ تنقید کرتے ہیں کہ مغرب نے کس طرح غیر فطری جیسے مکروہ فعل کو قانونی طور پر جائز قرار دے دیا؟ اس نے معاشرے کے مرکزی ستون کو ڈھا دیا۔ آج 1960ء کی نسبت نوجوان امریکیوں میں خودکشی کی شرح تین گنا زیادہ ہے۔ اس میں منشیات کے عادی افراد کو شامل کرلیں تو صرف امریکہ میں ہی ان کی تعداد ساٹھ لاکھ کے قریب ہے۔
میں نے اس مضمون کے لیے ڈاکٹر سلیم الخیرات کے تحریر کردہ جائزے سے استفادہ کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے، کیوں کہ مغربی ممالک میں آبادی کی کمی اور ان میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ایسے مسائل ہیں جو اُن کے لیے کسی ڈرائونے خواب سے کم نہیں۔ لیکن سیاسی اسلام تو تحلیل ہونے کے بجائے پھیل رہا ہے۔ اس کے پھیلائو میں خود امریکی پالیسیوں کا بھی عمل دخل ہے، کیوں کہ وہ جھنجھلاہٹ میں اپنی شکست کی ذمہ داری کے لیے قربانی کے بکروں کی تلاش میں ہے۔ بعض اوقات ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ افغانستان میں ایک اور شکست کا مزہ چکھنے کے لیے بے تاب ہورہا ہے۔ لیکن ایسی کوئی بھی حماقت اِس مرتبہ امریکہ اور مغرب کے لیے خودکشی سے کم نہیں ہوگی۔ میں نے حال ہی میں طالبان کے کور کمانڈر کا بیان سنا ہے۔(باقی صفحہ 41پر)
وہ امریکہ کا تمسخر اُڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کو شکست ہضم نہیں ہورہی، لیکن اگر اس مرتبہ امریکہ نے افغانستان پر جنگ مسلط کی تو وہ اُنہیں اُن کے ممالک میں جاکر شکست سے دوچار کریں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ طالبان جنگ کو امریکی سرزمین پر لے جائیں گے۔ پھر ممکن ہے کہ آپ کو مزید گیارہ ستمبر جیسے واقعات دیکھنے کو ملیں۔ اس لیے کسی کو آگے بڑھ کر امریکہ کو سمجھانا چاہیے کہ وہ عقل استعمال کرے۔ یہ اقوام متحدہ کا کام ہے لیکن وہ بے کار ادارہ بن چکا ہے۔ آخر میں، یہ امریکی عوام پر منحصر ہے کہ وہ اُس کو اس حماقت سے باز رکھیں۔ وہ افراد جو سوچ رہے ہیں کہ اب امن قائم ہوا چاہتا ہے، اُنہیں فکرمند ہونے کی ضرورت ہے، کیوں کہ افغانستان میں ایک اور کشمکش شروع ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ دیگر مقامات بھی سلگ رہے ہیں، جیسا کہ اسرائیل اور فلسطین، چین کا جنوبی سمندر اور تائیوان، روس اور یوکرائن۔ اس کے علاوہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر پر بھی تنائو موجود ہے۔ یہ سلگتے ہوئے مقامات کسی بھی وقت جوالا مکھی میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ اس لیے دنیا، خاص طور پر امریکہ کو اپنا ہاتھ روکتے ہوئے اپنی پالیسی کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ امریکی معیشت ڈگمگا رہی ہے۔ کانگریس آسانی سے بجٹ منظور نہیں کرنے جارہی، اور نہ ہی قرض کی حد بڑھائے گی، کیوںکہ وہ ایک اور شٹ ڈائون کی طرف جارہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ڈالر کی قدر میں کمی آئے گی جس سے تمام دنیا متاثر ہوگی، کیوںکہ ہم نے حماقت کرتے ہوئے ڈالر کو عالمی کرنسی کا درجہ دے رکھا ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے بہت سے ممالک اپنے پائوں پر کھڑے ہوجائیں گے۔
(ہمایوں گوہر۔جنگ12 اکتوبر 2021ء)