نظامِ شمسی کے پراسرار سیارچوں کی تلاش میں ناسا کا ”لوسی مشن“

ناسا نے افریقہ میں ملنے والے مشہور رکاز (فوسل) کے نام پر بنا ایک نیا خلائی جہاز زمین سے پرے بھیجا ہے جو سیارہ مشتری کے قریب اُن سیارچوں (ایسٹرائیڈز) کی شناخت کرے گا جو نظامِ شمسی کی تشکیل کی قدیم ترین باقیات میں سے ہیں، اور انہیں ماہرین نے نظامِ شمسی کے رکاز (فوسلز) قرار دیا ہے۔ کیپ کناورل سے الائنس اٹلس راکٹ سے بھیجے جانے والے اس خلائی جہاز کا کام سیارچوں کے دو گروہوں کی کھوج کرنا ہے جو گیسی دیو نما سیارے مشتری کے گرد گھوم رہے ہیں۔ خیال ہے کہ نظامِ شمسی کے تمام سیارے بن گئے تب بھی ان کی قسمت نہ بدلی اور وہ آوارہ اجسام کی مانند گردش کررہے ہیں۔ اس طرح نظامِ شمسی کی باقیات میں شامل ہیں۔ 12 برس بعد مشتری پہنچنے والے اس سیارے کا نام انسانی ارتقا کی ایک اہم دریافت پر رکھا گیا ہے۔ لوسی نامی رکاز افریقہ سے ملا تھا جو قدیم ترین انسانی فوسل بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلائی جہاز لوسی بھی نظامِ شمسی کی قدیم باقیات پر ہماری معلومات میں اضافہ کرے گا۔ ولڈر کولاراڈو میں واقع ساؤتھ ویسٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر ہال لیویژن کہتے ہیں کہ مشتری کے مدار سے 60 درجے پر رہتے ہوئے تمام سیارچے گردش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق تمام سیارچوں پر سورج اور مشتری دونوں کے ثقلی اثرات ہورہے ہیں۔ خلائی جہاز ان 12 سیارچوں کا رقبہ، شکل، حجم، درجہ حرارت، سطح اور ان کی دیگر تفصیلات نوٹ کرے گا۔ منصوبے سے وابستہ ایک اور سائنسدان ڈاکٹر کارلی ہووٹ کہتے ہیں کہ نظامِ شمسی کے یہ سیارچے اور اس جیسے دیگر اجسام کیوپر بیلٹ سے آتے ہیں اور وہیں تشکیل پاتے ہیں۔ لیکن ان بارہ سیارچوں پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔2027 ءاور 2028 میں خلائی مشن چند سیارچوں کے پاس سے گزرے گا اور 2033 ۓءمیں وہ تمام سیارچوں کے مجموعے کے قریب پہنچے گا۔ اس کے لیے لگ بھگ 6 ارب کلومیٹر کا سفر طے کرے گا۔