ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ماں کا دماغی تناؤ اور پیچیدگیاں اگلی بلکہ اُس سے اگلی نسل تک بھی منتقل ہوسکتی ہیں۔ جامعہ آئیووا کے سائنس دانوں نے اس کے لیے کیچووں (راؤنڈ ورم) کو تختہ مشق بنایا ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ جب ان کیڑوں کو گرمی کے تناؤ کا سامنا ہوتا ہے تو اس کے نقوش ان کے جین تک پہنچتے ہیں اور وراثت کے تحت نہ صرف اُن کی اگلی نسل (اولاد) بلکہ اس کی بھی اگلی نسل تک جا پہنچتے ہیں۔
یونیورسٹی میں شعبہ حیاتیات کی پروفیسر وینا پرلاد نے بتایا کہ کسی خطرے، مثلاً درجہ حرارت میں تبدیلی کی صورت میں کیچوے اس کا فوری احساس کرتے ہیں، کیونکہ اس سے انہیں نقصان یا موت کا سامنا ہوسکتا ہے۔ خطرے میں وہ سیروٹونِن خارج کرتے ہیں جو مرکزی اعصابی نظام تک جاتا ہے اور وہاں سے غیربارآور انڈوں تک جاپہنچتا ہے۔ یہاں وہ انڈوں میں جمع ہوجاتا ہے اور ازخود بچوں تک منتقل ہوجاتا ہے۔ ذہنی تناؤ یا جسمانی ایذا کی یادداشت اتنی گہری ہوتی ہے کہ وہ جین میں ثبت ہوکر اگلی نسلوں تک جاپہنچتی ہے۔ اسی طرح خود جین کی یادداشت بھی ہوتی ہے اور ماحولیاتی آلودگی سے بھی ان پر یادداشت ثبت ہوجاتی ہے۔ پھر یہ نسل خیزی کے دوران دوسری نسل تک جاتا ہے۔