قوم آج کل ماہِ ربیع الاوّل کے حوالے سے رسولِ رحمت، محسنِ انسانیت، پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰؐ کی ولادت باسعادت اور دنیا میں تشریف آوری کی خوشیاں بھرپور انداز میں منانے میں مصروف ہے۔ رسول کریم ؐ ایک ایسے معاشرے اور ایسے ماحول میں تشریف لائے جو دنیا جہاں کی برائیوں سے آلودہ اور ہر طرح کی خرابیوں میں لتھڑا ہوا تھا۔ جھوٹ، فریب، قتل و غارت، نسلی تفاخر، قبائلی منافرت، دولت و امارت کا تکبر، غریب اور کمزور کا استحصال، سود و شراب، حرام خوری، جوا و زنا، غرض یہ کہ کون سی برائی تھی جو اس معاشرے میں موجود نہ تھی! عورتوں کوکمتر سمجھنا، حتیٰ کہ بے رحمی اور ظلم کا عالم یہ تھا کہ بچیوں کی پیدائش کو عار سمجھا جاتا تھا اور انہیں پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردینے تک کا انسانیت سوز رواج بھی موجود تھا۔ انسانی خون پانی سے بھی ارزاں تھا اور ذرا ذرا سی بات پر تلواریں سونت لی جاتی تھیں، قبائلی جنگیں سالہا سال چلتی رہتی تھیں، جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا چلن عام تھا۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں خالقِ کائنات نے اپنے محبوب رسول احمد مجتبیٰ، محمد مصطفیٰؐ کو مبعوث فرمایا، جنہوں نے مخلوق کو خالق سے رجوع کرنے کا پیغام دیا اور اعلیٰ ترین انسانی اقدار و صفات سے انسانیت کو روشناس کرایا۔ اس کے جواب میں وہ کون سا ظلم تھا جو آپؐ اور آپؐ پر ایمان لانے والوں پر نہیں ڈھایا گیا؟ مگر آپؐ نے نہایت اعلیٰ حکمت و تدبر کے ساتھ دعوت و تبلیغ اور اقامتِ دین کی جدوجہد جاری رکھی۔ آپؐ کو شعب ابی طالب کے ناقابلِ تصور مراحل سے گزارا گیا، قتل کی سازشیں کی گئیں، اور پھر آخر انہی اذیت ناک حالات میں آپؐ کو اپنا آبائی شہر مکہ مکرمہ چھوڑنا پڑا، اور آپؐ اپنے رب کے حکم پر ہجرت کرکے ’’یثرب‘‘ تشریف لے آئے جسے آپؐ کی آمد سے ’’مدینۃ النبیؐ‘‘ بننے کا شرف حاصل ہوا۔ یہاں آتے ہی آپؐ نے مدینہ کے اردگرد کے قبائل سے مثالی معاہدے کیے تاکہ مدینہ منورہ کو امن و امان اور ترقی و خوش حالی کا گہوارہ بنایا جاسکے۔ مگر اہلِ مکہ اور مشرکینِ عرب نے امن اور سلامتی کے داعی اس نبیِ مکرمؐ کو یہاں بھی چین نہیں لینے دیا، اور پے درپے جنگیں آپؐ پر مسلط کی جاتی رہیں، جن میں آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں کی جرأت و استقامت اور حکمت و تدبر کو اللہ تعالیٰ نے بے سرو سامانی اور دشمن کے مقابلے میں نہایت قلیل تعداد کے باوجود فتح و نصرت سے سرفراز کیا، اور چند ہی برس میں پورا عرب آپؐ کے زیرِ نگیں آ گیا۔ تاہم اس عظیم الشان کامیابی کے باوجود کسی فخر و کبر کا شکار ہوئے بغیر آپؐ نے اپنی تمام تر توجہ اپنے مشن کی تکمیل پر مرکوز رکھی، چنانچہ خطبۂ حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے خطاب میں رسولِ رحمت، خاتم النبیینؐ نے فلاحِ انسانیت کا جو ابدی منشور پیش فرمایا، دنیا اپنی تمام تر ترقی اور تہذیب کے دعووں کے باوجود آج بھی اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے، اور یقیناً خطبۂ حجۃ الوداع کا یہ منشور انسانی حقوق کے تحفظ اور شرفِ انسانیت کی بقا کے لیے تاابد عدیم النظیر رہے گا۔
آج ہم امتِ مسلمہ اور عالمِ اسلام خصوصاً پاکستان کے حالات کا جائزہ لیں تو ہر طرف مسائل کا انبار ہمارا منہ چڑاتا نظر آتا ہے، اور امت گمبھیر مصائب و آلام میں گھری دکھائی دیتی ہے۔ دوسری جانب اپنے اعمال و افعال کی جانب نظر دوڑائیں تو نہایت اذیت ناک صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں مگر دنیا کی کون سی برائی ہے جو ہم میں موجود نہیں؟ جو جو برائیاں عرب کے مشرک اور کافر معاشرے کا طرۂ امتیاز تھیں، آج کے مسلمان ان میں سے ایک ایک کو چن چن کر اپنے انفرادی اور اجتماعی کردار میں سمو چکے ہیں۔ پھر اگر آج ہمیں قبل از اسلام کے عالمِ عرب کی سی بدامنی، بدحالی اور بے چینی و بے قراری کا سامنا ہے تو حیرانی اور پریشانی کیوں؟ ہم جو بوئیں گے وہی کاٹنا پڑے گا۔ یہ فطرت کا اٹل اصول ہے۔
ہمارے حکمران بھی پاکستان کو ’’ریاست مدینہ‘‘ کے نمونے پر استوار کرنے کے داعی ہیں، مگر اس ضمن میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا وہ ’’مدینہ کے والیؐ‘‘ کے اسوۂ حسنہ کو بھی اختیار کرنے پر آمادہ ہیں؟ کسی خوفِ تردید کے بغیر کہا جا سکتا ہے کہ جواب نفی میں ہے۔ جنگِ خندق کے موقع پر خندق کی کھدائی کے دوران جب صحابہ کرامؓ نے بھوک اور کمزوری کا تذکرہ کیا تو فخرِ انسانیت ؐ نے اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھا دیا جہاں صحابہ کرامؓ کے پیٹوں پر بندھے ایک کے مقابلے میں دو پتھر رسول کریمؐ کی عظمتِ کردار کی گواہی دے رہے تھے… پھر آپؐ کے خلفائے راشدین کا دور آیا تو دنیا نے دیکھا کہ امیرالمومنین کا معاوضہ معاشرے کے ایک عام مزدور کے برابر طے پاتا ہے۔ آج ہمارا معاشرہ غربت و افلاس کی جس چکی میں پس رہا ہے، مہنگائی اور بے روزگاری کے جس عفریت نے عام آدمی کا جینا محال بنا رکھا ہے اُس سے نجات کا واحد اور سو فیصد کارگر راستہ یہی ہے کہ صاحبانِ اختیار و اقتدار عام آدمی کی سطح کا معیارِ زندگی اختیار کرنے پر آمادہ ہوجائیں، زکوٰۃ کی طرح اہلِ جاہ و حشم سے لے کر خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کے مسائل و مشکلات کم کرنے پر وسائل صرف کیے جائیں۔ کیا ’’ریاست مدینہ‘‘ کے داعی حکمرانوں سے اس کی توقع کی جا سکتی ہے؟
(حامد ریاض ڈوگر)