کراچی کے نوجوان حال اور مستقبل نفسیاتی، سماجی اور تعلیمی تناظرمختلف شعبہ جات کے ماہرین کا اظہار خیال

کراچی کے ساتھ ریاست بے انتہا متعصب نظر آتی ہے
فہیم الزمانسابق ایڈمنسٹریٹر کراچی

کراچی کا نوجوان اپنے ماضی، حال اور مستقبل کے حوالے سے تلخ تجربات اور حالات کا سامنا کرتا ہے۔ ان حالات کا کئی حوالوں سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ان حقائق سے ہم سب واقف ہیں کہ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی تقریباً ایک کروڑ دکھائی گئی تھی۔ اُس وقت کراچی میں رجسٹرڈ گاڑیاں تقریباً تین لاکھ سے ساڑھے تین لاکھ اور تین لاکھ موٹر سائیکلیں اور بائیس ہزار بسیں رجسٹرڈ تھیں۔ آخری مردم شماری 2017ء میں ہوئی جو انتہائی فضول بلکہ جعلی ثابت ہوئی، وہ یوں کہ صرف ضلع وسطی میں تین ہزار میں سے تقریباً پانچ سو بیس مردم شماری بلاک ایسے تھے جہاں آبادی سے تقریباً دگنی تعداد میں ووٹر رجسٹرڈ ہیں۔ اصولاً اٹھارہ سال کے نوجوان آبادی کا نصف ہونے چاہئیں، اور اٹھارہ سال سے زائد ووٹرز بقیہ نصف ہونے چاہئیں۔ اس طرح آبادی کے مقابلے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد آدھی ہونی چاہیے۔ لیکن وہاں پر رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد آبادی سے آدھی نہیں بلکہ دگنی تھی۔ یہ ڈسٹرکٹ سینٹرل کی مثال ہے۔ دیگر تمام اضلاع میں کم و بیش یہی صورت حال رہی۔ آپ سمجھ لیں کہ شہری آبادی کس قدر کم شمار کی گئی۔ دوسری طرف 2018ء میں کراچی کی رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد جو پہلے تین لاکھ تھی، بڑھ کر پندرہ لاکھ سے زائد ہوگئی۔ موٹر سائیکلیں تین لاکھ سے بڑھ کر اکتالیس لاکھ سے زائد ہوگئیں، جبکہ بسوں کی تعداد بھی اسی تناسب سے بڑھنی چاہیے تھی جو بائیس ہزار سے بھی کم ہوکر صرف چھ ہزار رہ گئی۔ نتیجتاً کراچی کی آبادی کو جس طرح پھیلنا چاہیے تھا اس طرح سے نہیں پھیلی۔ اس کی وجہ پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم فراہمی ہے۔ سرجانی، نیو کراچی کے آ گے بھی مزید آبادیاں بسانا تھیں، لوگوں کو سستے گھر ملنے چاہیے تھے۔ لیکن ٹرانسپورٹ فراہم نہ کر نے کی وجہ سے وہاں تک آبادی نہیں پھیلی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کراچی میں کچی آبادیاں بہت بڑھ گئیں۔ آپ قیوم آباد کی مثال لے لیں، وہاں 80 گز کے گھر کی قیمت سوا کروڑ روپے سے زائد ہے۔ آٹھ آٹھ منزلہ عمارتیں بن گئیں۔ ایک کمرہ بھی کرایہ پر دیا جارہا ہے۔ یہ عمومی صورت حال ہے جس میں کراچی کا نوجوان زندہ رہنے پر مجبور ہے۔ تعلیم کے حوالے سے دیکھ لیں۔ میں محض اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کو تعلیم نہیں مانتا، ماحول اور معاشرے سے جو کچھ سیکھا جاسکتا ہے اس کا بہت اہم کردارہوتا ہے۔ لیکن اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کی اہمیت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پچھلے تیس پینتیس سال میں تعلیمی اداروں میں تعلیم شدید انحطاط کا شکار ہوئی ہے۔ آج اگر کوئی نوجوان ایم اے، بی اے کرتا بھی ہے تو اس کی بنیاد نقل پر ہوتی ہے، اور پھر اسے ملازمت کے مواقع بھی میسر نہیں ہیں۔ مختصر یہ کہ جملہ پہلوئوں سے دیکھا جائے تو کراچی کے ساتھ ریاست بے انتہا متعصب نظر آتی ہے۔ کراچی ٹیکس کی صورت میں سالانہ تقریباً تین ہزار ارب ریونیو کما کر حکومت کو دیتا ہے، اس کے مقابلے میں پورے ملک سے پانچ سے چھ ہزار ارب روپے ٹیکس حکومت کو جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کراچی کی آمدن بائیس تئیس فیصد درآمدات سے آتی ہے۔ یہ درست نہیں ہے کہ کراچی میں ٹیکس کسٹمز اور ڈیوٹی سے ہی آتے ہیں۔ کراچی کا جی ڈی پی آج بھی تقریباً ساٹھ فیصد ہے۔
وفاق، صوبے یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنا رویہ کراچی کے حوالے سے تبدیل کرنا ہوگا، اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر ہمارے پاس کچھ نہیں رہ جاتا ہے۔ کراچی کے اندر پیشہ ورانہ تربیت یا ہنر سکھانے کے اداروں کے قیام کی ضرورت ہے تاکہ کراچی کا نوجوان کارخانوں میں کام کرے، کاروبار کرے، کارخانے آباد کرے، دیگر شعبوں میں جائے۔ ہمارا نوجوان عموماً صرف میٹرک یا انٹر پاس ہوتا ہے، بمشکل لکھ اور پڑھ سکتا ہے۔ اس کی وجہ تعلیم کا بیڑہ غرق ہونا ہے۔ آج اس نوجوان میں کوئی اہلیت اور صلاحیت پیدا ہی نہیں ہوسکی۔ کراچی کے فلاحی اور تعلیمی اداروں کو سمجھنا چاہیے کہ جہاں نوجوانوں کو سائنس، آرٹس اور کامرس کے مضامین کی تعلیم دی جارہی ہے وہاں اکائونٹنگ اور فنانس کے ساتھ ساتھ انجینئرنگ کی تعلیم بھی دی جائے۔
اربابِ اقتدار کہتے ہیں کہ کراچی والے پہلے پاکستانی بننے کا ثبوت دیں۔ یقین جانیے کہ پاکستان کا کوئی ادارہ آپ کی مدد پر تیار نہیں ہے۔ آپ کو اپنی مدد آپ ہی کرنی پڑے گی۔ آپ کے معاشرے کو اپنے تمام معاملات خود ہی درست کرنا پڑیں گے۔ کراچی کو معاشرتی انصاف کے نظام کو خود ہی استوار کرنا ہوگا۔ یہاں دیکھنا یہ ہے کہ ہم کراچی والے یا کراچی کا باشندہ کسے کہتے اور سمجھتے ہیں۔ اس کے لیے کراچی کی آبادی کے حوالے سے کچھ اعداد و شمار دیکھنے ہوں گے۔ 1941ء میں کراچی کی، پاکستان بننے سے پہلے، مردم شماری ہوئی تھی۔ اُس وقت کراچی کی آبادی پونے تین لاکھ تھی۔ 1951ء کی مردم شماری میں اس شہر کی آبادی 9 لاکھ تھی۔ پھر 1961ء اور 1972ء کی مردم شماری میں یہاں کی آبادی بتدریج 53لاکھ ہوگئی تھی۔ 1960ء میں یہاں جو چھوٹی موٹی صنعتیں لگیں، پورٹ بنے، اس کے ساتھ ہی دوسرے شہروں سے لوگ کراچی آکر آباد ہوئے۔ وہ اور ان کے بچے بھی ایک سو ایک فیصد کراچی والے ہیں۔ ان کے علاوہ لاکھ دو لاکھ لوگ محنت مزدوری کے لیے ہر سال کراچی آتے ہیں، تاہم کچھ لوگ واپس بھی چلے جاتے ہیں، لیکن جو یہاں رہ جاتے ہیں، جو یہاں آباد ہوجاتے ہیں وہ یہیں کے بن جاتے ہیں، ان کے بچے یہاں تعلیم پاتے ہیں۔ ان کی مادری زبان خواہ کوئی ہو، وہ ایک زبان بولتے ہیں۔ اردو بولنے والے ہوں، پنجابی، پشتون اور سندھی ہوں ان بچوں کی زبان ایک ہے۔ یہ بات درست ہے کہ وہ اپنے آبائی علاقوں سے بھی تعلق ظاہر کرتے ہوں گے، مگر وہ ایسا اُس وقت کرتے ہوں گے جب اس شہر کے کچھ ٹھیکیدار ان کو مجبور کرتے ہوں گے، ورنہ وہ کراچی والے ہیں۔ اس شہر میں جس کرب کا شکار ایک اردو بولنے والا بچہ یا نوجوان ہے، اسی کرب سے دیگر زبانوں والے نوجوان گزر رہے ہیں، ان میں فرق نہیں ہے۔ چند جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے بچوں کی دنیا مختلف ہوسکتی ہے مگر باقی کراچی کے نوجوانوں کی زندگی بالکل ایک جیسی ہے۔ ان کے مستقبل کے مسائل ایک جیسے ہیں۔ اگر تعلیمی اداروں کی بات کی جائے تو آپ دیکھ لیں جامعہ کراچی اور کراچی کی نجی جامعات، کالج یا کسی بھی قسم کے تعلیمی ادارے ہوں اُن کو کوئی نہیں روک رہا کہ ان میں تکنیکی یا پیشہ ورانہ تربیت نہ دی جائے۔ جرمنی میں کوئی نوجوان علم سیاسیات میں ماسٹر کرتا ہے تو اس کی نصف تعلیم بزنس، انڈسٹری میں ہوتی ہے۔ وہ صرف کلاس روم میں نہیں ہوتی۔ دنیا میں آج تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر اور پیشہ ورانہ تربیت بہت بڑا عنصر ہے۔ کراچی والوں کو کس نے کہا ہے کہ آپ تعلیم کے ساتھ ہنر نہ سیکھیں! اگلے پانچ سال میں مجھے نظر نہیں آتا کہ کراچی کے طالب علم یا نوجوان کو سرکاری نوکری مل سکے گی۔ یہاں پبلک فیڈرل سروس کمیشن ہے، نہ پراونشل سروسز کمیشن… اور یہاں صوبائی اور وفاقی حکومت بھی اپنی روش بدلنے کو تیار نہیں۔ اس صورت حال میں ہم صرف ماتم کرسکتے ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم خود کچھ کرنا چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ کراچی کے نوجوان سے زیادہ پھرتیلا اور سمجھ دار نوجوان آپ کو پاکستان میں کہیں نہیں ملے گا۔ یہاں پرجو لوگ ہیں انہیں سوچنا چاہیے کہ کراچی کے نوجوان کی روش تبدیل کرکے مستقبل کی راہ کس طرح نکالی جائے۔ ایم کیو ایم نے اگر تیس پینتیس سال کراچی پر راج کیا تو کیا کرکے دکھایا؟ صرف واٹر بورڈ اور کے ایم سی میں جوڑ توڑ کی بنیاد پر نااہل لوگوں کو ملازمتیں دیں، جس سے کراچی میں مزید بگاڑ پیدا ہوا۔ کب تک آپ سرکاری ملازمتوں کے چکر میں رہیں گے! دیکھیں، کراچی کے مسائل اور سماجی ڈھانچہ بہت پیچیدہ ہے، اس پر آپ دو جمع دو چار کا کلیہ استعمال نہیں کرسکتے۔ اس کے باوجود کراچی ایک روشن خیال شہر ہے۔ آپ مذہبی اور نظریاتی لحاظ سے کچھ بھی ہوسکتے ہیں، آپ کی زبان کوئی بھی ہوسکتی ہے۔ ہالینڈ کی کوئی نظریاتی اساس نہیں ہے۔ ہالینڈ یا نیوزی لینڈ میں کوئی خود کو کرسچن یا مسلم نہیں کہتا۔ لیکن اُن کی حکومتیں سب کی یکساں خدمت کرتی ہیں۔ کراچی کے تمام تر مسائل کا حل کراچی میں موجود ہے۔ کراچی کی سول سوسائٹی کو اپنی قیادت خود سنبھالنی ہوگی، کراچی کے مسائل کو حل کرنا ہوگا، اور کراچی کے تمام رہنے والوں کو… چاہے وہ کوئی بھی زبان بولتے ہوں، ان کا تعلق کسی بھی علاقے سے ہو… کراچی کو اپنائیت دینا ہوگی، اسے اپنانا ہوگا ۔

بے روزگاری میں اضافے سے نوجوان مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں
آفتاب پٹھان ایڈیشنل آئی جی پی سندھ

یہ بات سو فیصد درست ہے کہ جرائم پر قابو پانے کے حوالے سے کرمنل جسٹس ایڈمنسٹریشن میں پہلا نمبر پولیس کا آتا ہے، عدلیہ دوسرے نمبر پر ہے۔ یعنی جرم سرزد ہونے کے ساتھ ہی پولیس کا کام شروع ہوجاتا ہے، اس کے بعد مجرم کو سزا سنانے کا مرحلہ آتا ہے جو عدلیہ کے دائرئہ اختیار میں ہے۔ تاہم جرائم میں اضافے کے بہت سے سماجی پہلو بھی ہیں جن کا سامنا براہِ راست پولیس کو کرنا پڑتا ہے۔
پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ بے روزگاری جرائم کے رجحان میں اضافے کا بہت بڑا سبب ہے۔ بے روزگاری میں اضافہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ چونکہ اِس فورم میں کراچی کے نوجوانوں کے حال اور مستقبل پر بات ہورہی ہے اس لیے ہم کراچی شہر کے حوالے سے ہی جرائم میں اضافے کی سماجی، اقتصادی اور انتظامی وجوہات پر بات کرلیتے ہیں۔ جیسا کہ ہم سب واقف ہیں کہ ملکی ترقی کی شرح گھٹ کر منفی ہوچکی ہے، کراچی چونکہ پاکستان کو سب سے زیادہ ریونیو فراہم کرنے والا شہر ہے، اس کی آبادی بھی بہت زیادہ ہے، اسی تناسب سے اس کے نوجوانوں کی تعداد ملک کے دیگر شہروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے، جس کے لحاظ سے کراچی کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا نہیں کیے جاسکے۔ روزگار کے مواقع میسر نہ آنے سے یہاں کے نوجوانوں میں جرائم کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ کراچی میں جرائم میں اضافے کی دوسری بڑی وجہ امن و امان کی تباہ کن صورت حال ہے، جس میں بڑی حد تک بہتری آئی ہے، تاہم بے روزگاری میں تاحال کمی نظر نہیں آرہی ہے ۔ اس دوران کاروباری برادری میں بداعتمادی پیدا ہونا بالکل فطری ہے۔ نئےکاروباری یونٹس کا نہ لگنا، پرانوں کا بھی بند ہوجانا، ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کا رک جانا، سرمائے کا بیرون ملک منتقل ہونا جس کی سے سماجی اور اقتصادی سرگرمیاں برقرار نہیں رہیں، اس کا بھیانک نتیجہ بے روزگاری کی صورت میں سامنے آیا ہے، جس کے نتائج بھی جرائم کی شرح میں اضافے کی شکل میں برآمد ہوئے ہیں۔ یہ وہ چند وجوہات ہیں جن کی بنا پر روزگار میں بے تحاشا کمی اور جرائم میں بے قابو اضافہ ہوا ہے۔ ظاہر ہے بے روزگاری میں اضافے سے نوجوان مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں جس سے جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
کراچی کے نوجوان کو جرائم سے دور رکھنے کے لیے غیر جانب دارانہ پالیسی سازی کرنا ہوگی۔ عدالتی نظام کو عدل و انصاف کی فراہمی کی بنیاد پر استوار کرنا ہوگا۔ جب تک مجرموں کو سزا نہیں ملے گی تفتیش میں رکاوٹیں دور نہیں کی جاسکیں گی، حالات نہیں سدھریں گے۔ کرمنل جسٹس ایڈمنسٹریشن میں اصلاحات کی بھی اشد ضرورت ہے جو نہیں کی جاتیں۔ ایویڈنس ایکٹ میں بھی مناسب تبدیلی لانا ہوگی۔ اس وقت جرائم پیشہ اور دہشت گرد طبقہ اتنا طاقت ور ہوچکا ہے کہ سب کے سامنے قتل ہوجائے تو ڈر کے مارے عدالت میں کوئی گواہی نہیں دیتا۔ دوسری بات یہ کہ مشترکہ تفتیشی ٹیم گریڈ اٹھارہ کے افسران پر مشتمل ہونی چاہیے جس میں پولیس، رینجرز یا دوسرے محکموں کے افسران کو شامل کیا جانا ضروری ہے۔ 20 / 1300 تفتیشی ٹیم کے سامنے کیے جانے والے اعترافِ جرم کو عدلیہ قبول کرے اور اسی بنیاد پر سزا کا اطلاق ہونا چاہیے۔ مطلب یہ کہ جب تک جزا اور سزا کا نظام متحرک نہیں ہوگا امن و امان کا قیام ممکن نہیں ہے۔
مزید یہ کہ جرائم پیشہ افراد بچوں میں جنسی ہیجانی کیفیت پیدا کرواتے ہیں، اس کی روک تھام کے حوالے سے سرکار کا کوئی کردار نظر نہیں آرہا، جس کی وجہ سے بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ فحش مواد تک انتہائی آسان رسائی ہے۔
پاکستان کے آئین کی دفعہ 37، سب سیکشن G میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں فحش مواد کی نشر و اشاعت کو روکنے کی شق موجود ہے جس پر بہرحال عمل درآمد کرنا ہوگا۔ اس مسئلے سے بھی نمٹنا ہوگا کہ معاشرے میں زنا آسان کردیا گیا ہے جس سے جرائم جنم لے رہے ہیں۔ اس نظام کو درست کرکے نکاح کو سستا ترین اور زنا کو مشکل ترین بنانا ہوگا۔ شادیوں، پارٹیوں میں ون ڈش سے زیادہ کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، اور بڑے بڑے فنکشنز کے لیے قانون سازی کی جائے۔ یہ تمام امور سوسائٹی اور حکومت دونوں کی ذمے داری ہے۔ باقی رہا منشیات کا استعمال اور کنٹرول… تو اس کے لیے ایک طرف تو منشیات کے عادی افراد کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے اور دوسری طرف منشیات کے کالے دھندے اور اسمگلنگ کو قانون کی گرفت میں لانا ہوگا۔ اس کے لیے قانون میں ترمیم کرنا ہوگی۔ ایک بڑی خرابی آپ کے تعلیمی نظام میں ہے کہ تعلیمی نظام آپ کا ایک نہیں ہے۔ تعلیمی نظام نظریات کے مطابق ہونا چاہیے۔ سٹی اسکول کچھ پڑھا رہا ہے، بیکن ہاوس کچھ اور پڑھا رہا ہے، سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کا کچھ اور ہی نصاب ہے، پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کا اپنا نصاب ہے۔ مہذب دنیا میں اس طرح نہیں ہوا کرتا۔ آپ تعلیمی نظام کی ایک سمت مقرر کریں کہ آپ کو اپنی قوم کو کیا بنانا ہے۔ آپ کو اپنی قوم کو ایک اچھا شہری اور پاکستانی بنانا ہے تو اپنے نوجوانوں کو قومی نظریات سے ہم آہنگ کرنا پڑے گا۔ ہمارے ہاں تعلیم ہے لیکن تربیت کا کہیں نام و نشان نہیں ہے۔ آپ کو تعلیم کے ساتھ تربیت کا بھی نظام بنانا پڑے گا۔ جب ہمارے شہر، صوبے اور ملک میں کسی کی ماہانہ آمدن دس پندرہ ہزار ہو تو آپ اس کے گھر کا بجٹ بناکر دکھادیں۔ بیوی بچوں کے ساتھ اس کے اخراجات پورے نہیں ہوں گے تو اس کی دین سے وابستگی اور خداخوفی قائم نہیں رہے گی۔ وہ لامحالہ جاکر چوری، ڈکیتی کرے گا۔ یہ آپ کے نظام کی خرابی ہے کہ کرمنل جسٹس ایڈمنسٹریشن باقاعدہ کام نہیں کررہا ہے۔ اس میں بھی مناسب ترمیم کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک ہمارا سماجی، معاشی اور قانونی نظام درست نہیں ہوگا یہ مسائل اسی طرح رہیں گے۔ ہمارے نوجوان کو دین سے قربت اختیار کرنا ہوگی، قرآن اور حدیث کا مطالعہ کرنا ہوگا، ہنر سیکھنے ہوں گے۔

نوجوان کی زندگی کے معمولات غیر مناسب ہوگئے ہیں
پروفیسرآفریدی

فرائیڈے اسپیشل فورم کا موضوع ”کراچی کا نوجوان… حال اور مستقبل“ ہے، جو نہایت اہم ہے، تاہم نفسیات کا معالج ہونے کے ناتے میں کراچی سمیت ملک کے تمام نوجوانوں کے حال اور مستقبل کے حوالے سے بات کروں گا۔ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ ہماری آبادی کا خاصا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ شہر کراچی میں نوجوانوں کا تناسب بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔ اپنے نوجوانوں کا حال اور مستقبل سمجھنے کے لیے ہمیں ان کے نفسیاتی مسائل کو مختلف زاویوں سے دیکھنا ہوگا۔ دیکھا جائے تو کئی پہلوؤں سے ان کی ذہنی صحت انتہائی نامناسب ہے۔ میں بطور صدر پاکستان سائیکیٹری سوسائٹی کہنا چاہوں گا کہ سندھ حکومت نے کراچی کے لیے 11 سو ارب روپے مختص کیے ہیں، ان میں سے ایک فیصد یعنی صرف 11 ارب روپے ہی ذہنی صحت کی بہتری پر خرچ کرلیے جائیں تو ہمیں اس کا دس گنا فائدہ ہوگا۔ اس رقم سے نہ صرف کراچی بلکہ پورے سندھ کے نوجوانوں کی ذہنی صحت میں بہت بہتری آجائے گی، ہمارے نوجوانوں میں پائی جانے والی ذہنی بے چینی اور انتشار پر قابو پایا جاسکے گا۔ اگر ہمارا ڈرائیور پُرسکون ذہنی حالت میں گاڑی چلائے گا تو یقیناً حادثے بھی کم ہوں گے اور جانی و مالی نقصانات میں بھی کمی آئے گی۔ ذہنی اور جسمانی نقصانات کم ہونے سے خاندان کے خاندان تباہ ہونے سے بچ جائیں گے۔ نتیجتاً سماج کی اجتماعی صحت کا معیار بہتر ہوگا، نوجوانوں کو پھلنے پھولنے کے مواقع میسر آئیں گے، اس کے علاوہ بھی بے شمار فائدے حاصل ہوں گے۔ یہ بات بھی جاننا ضروری ہے کہ نوجوانوں کا حال اور مستقبل بنانے، بگاڑنے میں اہم کردار ماں باپ کا ہوتا ہے جو اپنے بچوں کی تربیت اپنی اپنی خواہشات کے مطابق کرنے کی کوشش کرتے ہیں، نوجوان کے رجحان کو اہمیت نہیں دیتے، جس کے باعث وہ ابتدا ہی میں ذہنی کشمکش اور دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس منفی صورتِ حال سے بچانے کے لیے ہمیں نوجوان نسل کے رجحانِ طبع کو اوّلین ترجیح دینی چاہیے۔
مذہبی اور سماجی نکتہ نظر سے بھی نوجوان کی زندگی کے معمولات غیر مناسب ہوگئے ہیں۔ کراچی کے نوجوان کو ہی لے لیں، رات کو دیر سے سونے کا عادی ہوگیا ہے، جبکہ اس کی صحت کے لیے ساڑھے سات سے نو گھنٹے کی نیند لینا ضروری ہے۔ آپ ہی بتائیں جب نوجوان رات بارہ ساڑھے بارہ بجے سوئے گا تو اس کی نیند کیسے پوری ہوگی! نیند پوری نہ ہو تو اسے نیند سے حاصل ہونے والا نفسیاتی اطمینان اور جسمانی آرام نہیں ملے گا، جس کی وجہ سے یقیناً چڑچڑا پن، جلد بازی، بے چینی اور تھکن ہوگی جس سے اس کی صحت متاثر ہوگی۔ دوسری جانب ناقص اور غیر معیاری غذائوں کا استعمال بھی تشویش ناک ہے، جس سے اس کی جسمانی اور نفسیاتی صحت برباد ہورہی ہے۔ پیشہ ورانہ حوالے سے بھی آپ دیکھ لیں ماضیِ قریب میں نوجوانوں کو ڈاکٹر اور انجینئر بننے کے سوا کچھ سُجھائی نہیں دیتا تھا، پھر ایم بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کی ہوا چلی، آج کل آئی ٹی کا بخار طاری ہے۔
میرا کہنا ہے کہ نوجوان کی تعلیم و تربیت کو گنے چنے شعبوں اور پیشوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ انہیں اپنے اپنے رجحان کے مطابق تعلیم و تربیت لے کر عملی میدان میں آنا ہوگا۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہمارے نوجوان کو محض ڈگری کا طالب نہیں بن جانا چاہیے، بلکہ مفید، باکردار اور اہل انسان بننے کو ترجیح دینی چاہیے تاکہ وہ معاشرے میں فعال، مثبت اور صحت مند کردار ادا کرسکے۔ ہم نوجوانوں کے اس رخ کو بھی دیکھیں… فلموں، ڈراموں میں نوجوان لڑکا لڑکی ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار دکھائے جاتے ہیں۔ ایسے نوجوان حقیقی زندگی میں نفرت اور وحشت کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو اپنے فطری تقاضوں کو پروان چڑھانا چاہیے۔ ہمیں دوسروں کی نقل نہیں کرنی- اندھی تقلید معاشرے کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کی عزت کرنے والا ہونا چاہیے۔ کسی کو نقصان پہنچانے والا رویہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ کسی سے ناراض ہوئے تو خودکشی کرلی۔ دنیا بھر میں ہر سال 8 لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں، اس کے مقابلے میں کورونا سے بہت کم افراد مرے، لیکن دنیا میں ہلچل مچ گئی۔ بہ حیثیت ماہر طب نفسیات اس تلخ حقیقت کی جانب اشارہ کروں گا کہ ذہنی صحت کے حوالے سے پالیسی سازی کی اشد ضرورت ہے۔ اگر کوئی ذہنی طور پر خوش حال نہ ہو تو اُسے صحت مند نہیں کہا جاسکتا۔ ہمیں چار پہلوؤں سے خوشحال ہونے کے لیے آگاہ ہونا ہے، ان میں پہلا ضروری نکتہ یہ ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں سے آگاہ ہو، اُسے معلوم ہو کہ کیا بننا ہے اور کیا نہیں بننا۔ ہمیں بھی بچوں کو اُن کے رجحان کے مطابق آگے بڑھنے کے مواقع دینے چاہئیں۔ معاشرے کو ہر شعبے کا فرد درکار ہے، یہ تب ہی میسر آسکتے ہیں جب نوجوانوں کو اپنی مرضی کا شعبہ چننے کا اختیار ہو۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ نوجوان درپیش مسائل سے نمٹنے کی بہتر صلاحیت رکھتا ہو۔ اس کے لیے ہمارا ماحول بہت اچھا ہونا چاہیے۔ مسجدوں، اسکولوں، گھروں کی تربیت اور معاشرے، تجارتی اور کاروباری میدان میں ہم آہنگی ہونی چاہیے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ معاشرے میں ذہنی دباؤ کی بہت سی وجوہات ہیں، ان سے بچنے کے لیے ہمیں کام میں ٹانگ نہیں اَڑانا چاہیے، ایسے کاموں میں حصہ لینا چاہیے جو ہمارے محلے پڑوس سے لے کر پورے ملک کے لیے فائدے مند ہوں۔ اس کا چوتھا اور آخری نکتہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے ذہن میں ڈالا جاتا ہے کہ پلاٹ بناؤ، ڈگریاں لو، عہدے لو، بس زندگی کا مقصد یہی ہے۔ جبکہ اچھا تعلیم و تربیت یافتہ اور ہنرمند انسان معاشرے کے لیے سوچے، تبھی وہ جذباتی طور پر مضبوط ہوگا۔