اس وقت شہر کا اہم ترین مسئلہ آئس نشے کا ہے

میں فرائیڈے اسپیشل کا ممنون ہوں کہ اس انتہائی اہم موضوع پر مکالمے کا انعقاد کیا ہے۔ ”کراچی کے نوجوانوں کا حال اور مستقبل“ نہایت اہم موضوع ہے، اس پر گفتگو ہوتی رہنی چاہیے۔ میں جرائم رپورٹ کرتا ہوں، تاہم میں جرائم کے پس پردہ عوامل کو اجاگر کرنا چاہوں گا۔ پچھلے پینتیس چالیس برس سے اس شہر کے حالات بہت مخدوش رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارے اداروں کو سیاست زدہ کیا جانا ہے۔ اندازہ لگائیں معاشرے کا سب سے مہذب طبقہ اساتذہ کا ہوتا ہے۔ اس طبقے میں بھی سیاست کا زہر گھول دیا گیا۔ ظاہر ہے اس دوران جو نسل اعلیٰ تعلیمی اداروں سے نکل کر آئی اُن میں نوکریاں حاصل کرنے کی اہلیت ہی پیدا نہیں کی جا سکی۔ جو بھرتیاں ہوئیں وہ سیاسی بنیاد پر کی گئیں۔ کراچی کا نوجوان سیاست میں پڑ گیا جس کی بنا پر اہم عہدوں کے لیے مقابلے کے امتحانات میں بھی پورا نہیں اتر پارہا ہے۔ سی ایس ایس، فوج اور آئی ایس ایس بی کا امتحان بھی کراچی کا نوجوان پاس نہیں کرپاتا ہے۔ یہاں ایسا ماحول بھی نہیں کہ نوجوان کی رہنمائی کی جاسکے تاکہ وہ ڈگری یا نوکری کے لیے کوشش کرسکے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ موجودہ حالات میں کراچی کے نوجوان طبقے کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک وہ جو کسی نہ کسی طرح پڑھ گیا ہے اور ڈگری بھی حاصل کرلی۔ دوسرا محنت مزدوری کرنے والا طبقہ ہے۔ اس طبقے کے نوجوانوں کی اکثریت کا تعلق نیوکراچی، لانڈھی، لیاقت آباد سے ہے۔ یہاں کا نوجوان میٹرک سے پہلے یا فوراً بعد فیکٹریوں میں کام کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے یہ بچہ تنگ دستی کی وجہ سے مزدوری یا چھوٹی موٹی نوکری کرنے لگتا ہے جس سے اس کی ذہنی ترقی رک جاتی ہے، وہ تعلیم ترک کرکے مجبوراً پوری زندگی کھانے کمانے کے چکر میں پڑ جاتا ہے۔ جن نوجوانوں کو نوکری یا محنت مزدوری کے مناسب مواقع میسر نہیں آتے وہ چوری، ڈکیتی، رہزنی اور دہشت گردی جیسی وارداتوں میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ حالانکہ پہلے کے مقابلے میں یہاں امن و امان کی صورت حال بہت بہتر ہوگئی ہے، لیکن اسٹریٹ کرائم کی حالت اب بھی ٹھیک نہیں ہے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق 95فیصد لوگ جو منشیات کے عادی ہیں وہ نشہ آور اشیا حاصل کرنے کے لیے اسٹریٹ کرائم کرتے ہیں۔ ورکنگ کلاس میں بھی منشیات کی لت زور پکڑ رہی ہے جس کے باعث یہ طبقہ بھی مختلف جرائم میں ملوث ہوا۔ میں نے کرائم رپورٹر کی حیثیت سے کراچی کے نوجوانوں میں جرائم کے اسباب پر بات کی ہے، میں چاہتا ہوں کہ جرائم کے سدباب کے حوالے سے بھی بات کرلی جائے۔ اس ضمن میں بنیادی بات یہ ہے کہ کراچی کے نوجوانوں کو علم و ہنر حاصل کرنے کے بہترین مواقع فراہم کیے جائیں، کیونکہ نوجوان تعلیم و تربیت حاصل کرکے ہی اچھا مقام حاصل کرسکتا ہے۔ ورنہ اپنا وقت ضائع کرکےجرائم میں پڑ جائے گا یا منشیات کا عادی ہو جائے گا۔

اگرچہ منشیات کی روک تھام اینٹی نارکوٹکس فورس اور دیگر متعلقہ اداروں کا کام ہے، لیکن تعلیم و تربیت سے نوجوانوں کو بگڑنے سے بچایا جاسکتا ہے۔ اس وقت شہر بھر میں منشیات بآسانی دستیاب ہے۔ اس وقت شہر کا اہم ترین مسئلہ آئس نشے کا ہے جو بڑی تیزی سے فروغ پارہا ہے، دیگر نشہ تو کسی جڑی بوٹی وغیرہ سے کشید کیا جاتا ہے جبکہ آئس مکمل طور پر کیمیکل ہے۔
منشیات کے استعمال میں اضافے سے بے روزگاری اور معاشی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ نوجوان کے پاس جب ذریعہ معاش نہیں ہوتا تو اس کو کوئی نہ کوئی شخص مل جاتا ہے جو کہتا ہے کہ میرے ساتھ چلو، تمہارے معاشی مسائل میں حل کردوں گا۔ اس طرح وہ اس کو نشے کی لت میں ڈال دیتا ہے۔ ادھر ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی جماعتوں نے اپنے لوگوں کو ہر محکمے میں کھپایا، اس کی وجہ سے دوسرے لوگوں میں احساسِ محرومی پیدا ہوا، اور ردعمل کے طور پر دیگر لوگ بھی اپنے علاقوں میں منشیات اور ٹرانسپورٹ مافیا سے منسلک ہوگئے۔ اس میں ہمارے اداروں کا کردار بہت اہم ہے۔ پینتیس چالیس برسوں میں جو بھی کچھ اس شہر میں ہوتا رہا، چاہے وہ قتل و غارت گری ہو، منشیات کا دھندا ہو، یا جرائم ہوں، اس کی پردہ پوشی کی جاتی رہی۔ یہ الگ بات ہے کہ حساس ادارے رپورٹیں تیار کرتے رہے، مگر اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ ایسا لگتا ہے پولیس ہو، رینجرز ہو یا کوئی دوسرا ادارہ… ان کے بہت سے لوگ براہِ راست جرائم میں ملوث نظر آتے ہیں۔ پولیس کے بہت سے لوگ پکڑے بھی گئے، ان کے خلاف ایف آئی آرز بھی درج ہوئیں۔ یہ منشیات، پیٹرول وغیرہ کی اسمگلنگ میں ملوث پائے گئے۔ یہ درست ہے کہ علاقہ تھانہ جرائم پیشہ لوگوں کی پشت پناہی کرتا ہے، لیکن سارے پولیس والے اس میں شامل نہیں ہوتے۔ پولیس کے اندر دو قسم کے افسران ہیں، ایک پی ایس پی ایک رینک افسران ہوتے ہیں۔ پولیس کے اندر ایک عام تاثر یہ ہے کہ پولیس کا سسٹم چلانے والے نیچے کے لوگ ہی ہیں، لیکن ان کو سرپرستی اوپر کے افسران کی حاصل ہوتی ہے۔ ظاہر ہے اس میں ہر ایک شامل نہیں ہے۔ اس حوالے سے تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ اگر پولیس کا کوئی بڑا افسر کسی جرم میں ملوث ہو تو اس کے خلاف کوئی بڑی کارروائی نہیں ہوتی، لیکن نچلے افسر کے خلاف پوری کارروائی ہوتی ہے۔ چھوٹے افسر کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ جب بڑے افسر کے خلاف کچھ نہیں ہورہا اور ہمارے خلاف کارروائی ہورہی ہے تو وہ جرائم کی پشت پناہی پر اتر آتا ہے۔ یہ خوفناک روش ختم کرنا ہوگی۔
جب تک جرائم کی پرورش کرنے والے مذکورہ اسباب کا سدباب نہیں کیا جاتا، کراچی میں جرائم کو کنٹرول کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔