لیاری کو خوش حال اور پڑھا لکھا دیکھنا خواب ہے

لیاری سے جماعت اسلامی کے رکن صوبائی اسمبلی سید عبدالرشید سے خصوصی گفتگو

فرائیڈے اسپیشل: آپ نے جب اپنے پچپن میں لیاری کو دیکھا، اُس وقت وہ کیسا تھا؟
سید عبدالرشید: میری پیدائش پیدائش 24مارچ 1978بہارکالونی لیاری کی ہے پیدائش سے اب تک اسی گھر میں رہایش پذیر ہوں ۔میری شناخت لیاری ہے ۔ لیاری شروع ہی سے معاشرتی اور سماجی اعتبار سے ایک ممتاز مقام کا حآمل رہا ہے۔ اس میں بھائی چارہ، اخوت… یہ سب چیزیں موجود رہی ہیں۔ اِس وقت بھی لیاری میں وفا اور محنت کش دونوں ہی چیزیں پائی جاتی ہیں، اور صرف لیاری ہی نہیں بلکہ پورے شہر اور صوبے کی ترقی کا دارومدار لیاری پر ہے۔ بہت سی مثبت چیزیں یہاں موجود ہیں، بس کمی رہی تو ہمیشہ اس خطے پر اربابِ اختیار کی توجہ کی رہی ہے۔ یہاں کسی بھی شعبے میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ میرے جیسا عام آدمی بھی کوئی جگہ پکڑ لیتا ہے تو سمجھ لیں کہ بہت گنجائش ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: لیاری کی کراچی میں تاریخی اہمیت ہے۔ آپ یہاں کے لوگوں کی تاریخ، اور ان کی کراچی کے لیے خدمات کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
سید عبدالرشید: لیاری کی اہمیت یہ ہے کہ یہ ارتقائی عمل سے گزر کر کراچی بن گیا ہے، اور کراچی کی بیشتر آبادیاں لیاری کے لوگوں نے یہاں سے نکل کر آباد کی ہیں۔ اس کی جغرافیائی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے کیونکہ یہ بندرگاہ کے قریب ہے، شہر کا مرکز ہے، اولڈ سٹی ایریا ہے۔ اس علاقے نے مختلف سیاسی جماعتوں کو لیڈرشپ بھی دی ہے، جماعت اسلامی کے بہت سے رہنمائوں کا تعلق بھی لیاری سے ہے، خصوصاً عبدالستار افغانی… جن کا پہلا ابتدائی بلدیاتی دور شہر کے اندر ترقی کی مثال بنا۔ انہوں نے بلاتعصب پورے شہر کی خدمت کی۔
فرائیڈے اسپیشل: کہتے ہیں لیاری سیاسی تحرک کے ساتھ کھیلوں میں بھی بہت نمایاں رہا ہے؟
سید عبدالرشید: لیاری نے ہر شعبے میں لوگ دیئے ہیں۔ باکسنگ، فٹ بال کے بہت سے کھلاڑی یہاں سے ابھرے ہیں۔ یہاں کے لوگ فٹ بال کے ساتھ کرکٹ ، جمناسٹک اور سائیکلنگ میں نہ صرف دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ اچھی خاصی مہارت بھی رکھتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے حکومتی سطح پر ان کی کوئی سرپرستی نہیں ہوتی۔ یہاں کے لوگوں نے پاکستان بننے سے قبل تحریکِ خلافت سمیت برطانوی راج کے خلاف جدوجہد میں ایک نمایاں کردار ادا کیا۔ عبیداللہ سندھی کی ریشمی رومال تحریک بھی یہیں سے شروع ہوئی، اسی طرح جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے دنوں میں یہاں کے مشہور ککری گراؤنڈ میں جمہوریت کے لیے چلائی جانے والی اے آر ڈی تحریک کے اہم پروگرام منعقد کیے جاتے رہے۔ اس وقت لیاری میں تقریباً پانچ ہزار لوگ فٹ بال کھیلنے والے ہیں، اور پچیس ہزار کے قریب ایسے افراد ہیں جنہوں نے اپنی نوجوانی یا عمر کے کسی حصے میں فٹ بال کھیلی ہے، لیکن یہاں کا بہت بڑا ٹیلنٹ ضائع ہورہا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کے نزدیک لیاری کے بنیادی مسائل کیا ہیں؟
سید عبدالرشید: لیاری میں ویسے تو بہت سے مسائل ہیں، لیکن اِس وقت جو بہت بڑا مسئلہ ہے وہ منشیات کی لعنت ہے۔ منشیات فروشی اور اس کا استعمال بھی… اور اس کی بنیادی وجہ غربت اور پسماندگی ہے، جسے استعمال کرکے لوگ اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تیس سال سے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت رہی ہے، مگر لیاری کے لوکل اسٹرکچر پر عبدالستار افغانی کے بعد کوئی کام نہیں ہوا، جس کی وجہ سے انفرا اسٹرکچر ہر لحاظ سے بوسیدگی کا شکار ہوگیا ہے۔ سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ، پانی اور گیس کی عدم فراہمی سمیت بے شمار مسائل ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: جماعت اسلامی کی اس علاقے کے لوگوں کے لیے کیا خدمات ہیں؟
سید عبدالرشید: میں نے اپنی تنخواہ سے سیوریج اسپورٹس اور عوامی بہبود پر 55لاکھ روپے خرچ کیے ، میرے ایم پی اے بننے سے قبل اور حکومت میں رہے بغیر بھی جماعت اسلامی لیاری کے لوگوں کے لیے کئی منصوبوں پر کام کررہی ہے، ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت لیاری کے پندرہ ہزار سے زائد شہریوں کا مفت علاج کرایا،جماعت اسلامی کے ڈاکٹرز کی تنظیم پیما کے تعاون اور پی او بی اسپتال کی معاونت سے اب تک تیس ہزار سے زائد سفید موتیا کے مریضوں کا مفت آپریشن اور لینس فراہم کیے ،ماہانہ پانچ سو آپریشن کروائے جارہے ہیں۔ لیاری میں جماعت اسلامی کے چار میڈیکل سینٹر بھِی کام کررہے ہیں، اس کے علاوہ تین یوٹیلٹی اسٹور اور پانچ آر او پلانٹ بھی جماعت اسلامی کے تحت کام کررہے ہیں، جس سے روزانہ سات ہزار گھروں کو پینے کا پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ علاقے میں ایک ایجوکیشن پروٹیکشن سینٹر کے ساتھ یتیم بچوں کی کفالت کا ایک سینٹر بھی چل رہا ہے جس میں 450 سے زائد بچوں کی کفالت کی جا رہی ہے۔ اس سینٹر میں آنے والے بچوں کے پہلی سے بارہویں جماعت تک کے تعلیمی اخراجات جماعت اسلامی برداشت کرتی ہے۔ جماعت اسلامی کے زیر اہتمام گلستان کالونی کلاکوٹ رانگی واڑہ آگرہ تاج بہارکالونی موسی لین میں پانچ وویمن ووکیشنل سینٹرز ہیں اورعمر لین میں چھٹا ووکیشنل سینٹر بننے جارہاہے۔ کلاکوٹ نوالین بہارکالونی مین تین پرائمری اسکول جبکہ سات مزید پرائمری اسکول کھولنے جارہے ہیں صرف 200روپے ماہانہ پر سستی اور معیاری پرائمری تعلیم ہمارا ہدف ہے۔خد مت کی پوری ایک تاریخ ہے۔جماعت اسلامی کے منتخب سابق ایم پی اے بابو غلام حسین بلوچ نے اپنے دور میں گبول پارک سمیت فٹبال گراؤنڈز کاجال بچھایا کئی پارک تعمیر کروائے اور واٹر اینڈ سیوریج کا انفرااسٹرکچر ڈلوایا۔سابق یوسی ناظمین اور وارڈ کونسلر جب جب منتخب ہوئے مثالی کارکردگی نمایاں رہی سابق کونسلر بہارکالونی عبدالودود اشرف کی خدمات آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں وہ جب تک کونسلر رہے بہارکالونی میں غیر قانونی تعمیرات نہ ہونے دی اور مثالی سوسائٹی بنائی جسے بعد میں منتخب ہونے والوں عمارتوں کا جنگل بنادیا، سابق مئیر کراچی عبدالستار افغانی مرحوم کی خدمات لیاری کی سرکاری عمارتوں اور مختلف پروجیکٹس پر آج بھی تازہ ہیں، لیاری جنرل اسپتال بھی عبدالستار افغانی نے تعمیر کیا ،جسے بعد میں سندھ حکومت نے اپنے ذمے لے لیا ۔نعمت اللہ خان کے دور میں بلاتفریق لیاری کے تمام ناظمین جو وسائل فراہم کیے گئے۔
فرائیڈے اسپیشل: لیاری ہمیشہ سے پیپلز پارٹی کا گڑھ رہا ہے، لوگ تاریخی طور پر پیپلز پارٹی کو جھولی بھر بھر کر ووٹ دیتے رہے۔ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو بھی الیکشن میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوچکی ہیں۔ لیکن لیاری بدلا، نہ یہاں کے لوگوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی آئی۔ آپ کیا کہتے ہیں؟
سید عبدالرشید: پیپلز پارٹی کو جو ووٹ ملا ہے وہ یہاں کے مجموعی طور پر جمہوری مزاج کی وجہ سے ملا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اسے کیش کروایا۔ اُن کا مقبول نعرہ تھا ”روٹی، کپڑا اور مکان“ جو یہاں کے لوگوں کی ضرورت بھی تھی، لہٰذا لوگ اس نعرے کے پیچھے چلتے چلے گئے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو یہاں کے لوگوں کو روزگار دیا، اُس وقت ہر دوسرے گھر کے فرد کے پاس سرکاری نوکری موجود تھی، جس نے فیملی اور کمیونٹی سسٹم کو معاشی طور پر بھی مضبوط کیا۔ دوسرا یہ کہ انہوں نے ابتدائی مراحل میں سماجی تعلق اور اس کے دبائو پر بھی بہت کچھ کیا۔ لیکن بعد میں وہ رویّے تبدیل ہوگئے۔ یہاں پیپلز پارٹی کے مقابل ہمیشہ مذہبی ووٹ رہا ہے۔ بڑی بڑی تحریکیں جیسا کہ میں نے کہا، چلی ہیں۔ ہوا یہ کہ ابتدائی دور میں تو لوگ بول لیتے تھے، جب گراس روٹ لیول پر ان کی ساکھ منظم ہوگئی تو پھر ووٹ لینے کی ضرورت نہیں پڑی، اور دہشت گردی کا ایک نیا کلچر پروان چڑھا۔ جعلی ووٹ ڈالنے کا کلچر پہلے لیاری کے اندر متعارف ہوا، بعد میں پھر شہر کے اندر ایم کیو ایم نے اس کو کاپی کیا تھا۔ یہاں شروع سے پیپلز پارٹی نے منشیات فروشوں کی سرپرستی کی ہے، اور اُن کے ذریعے پوری پوری آبادیوں کو یرغمال بھی بنایا۔ تیسری چیز یہاں پر کمیونٹی سسٹم تھا مختلف برادریوں اور قوموں کے درمیان، اور جس طرح جاگیرداروں کا سسٹم ہوتا ہے، اسی طرح برادریوں سے پنچ تھے، جن کی خرید و فروخت کے ذریعے پوری پوری برادریوں کو اپنی طرف موڑا جاتا رہا ہےلیکن پھربھی ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کو 39ہزار ووٹ ملے ہیں اور وہ یہاں سے شکست کھا گئی ہے، اس کے مقابلے میں جماعت اسلامی کو 86ہزار ووٹ ملے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: لیاری کے بنیادی مسائل کا حل کیا ہے؟
سید عبدالرشید: لیاری کے مسائل کا سب سے پہلا حل تو یہ ہے کہ اس کی آبادی کا درست شمار کرلیا جائے۔ گزشتہ مردم شماری میں یہاں کی آبادی کو 6 لاکھ 80 ہزار کے قریب شمار کیا گیا ہے، جبکہ یہاں18 لاکھ سے زائد لوگ آباد ہیں۔ جب تک شمار درست نہیں ہوگا اُس وقت تک وسائل کا انتظام بھی نہیں ہوگا۔ اس طرح 6 لاکھ لوگوں کے وسائل ہوں اور آبادی 18 لاکھ ہو تو لوگوں کو ریلیف کس طرح مل سکتا ہے؟ دوسرا یہ کہ آبادی درست شمار ہوگی تو نمائندگی بھی درست ہوجائے گی۔ نمائندگی درست ہونے پر ہی دیگر چیزیں بھی بتدریج درست ہوتی چلی جائیں گی۔ اس وقت بحیثیت رکن صوبائی اسمبلی میں نے لیاری کے ماسٹر پلان پر صوبائی اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کروائی ہے، اور بہرحال حکومت نے کئی تعمیراتی اسکیمیں میرے حلقہ انتخاب کی بھی شامل کی ہیں جن پر اب کام جاری ہے۔ لیکن کسی بھی کام کو کرنے کے لیے اس کی بنیادی اکائیوں کا درست ہونا ضروری ہے جس پر بہرحال اربابِ اختیار اور تمام سیاسی جماعتوں کے اسٹیک ہولڈرز کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کے حلقے میں مراکز صحت، اسکولوں اور تعلیمی اداروں کی کیا صورتِ حال ہے اور اس کے لیے آپ نے کیا کوششیں کی ہیں؟
سید عبدالرشید: جب کامیاب ہوا تو اپنے حلقے کے لیے میں نے چار گول سیٹ کیے تھے جن پر کام کی فوری ضرورت تھی، اور الحمدللہ اس پر خاصی پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ یہاں لوکل ریسورسز سے متعلق سیوریج اور پانی کے مسائل تھے، میرا پہلا گول ان کو اپ گریڈ کرنا اور ان پر کام کرنا تھا، اور اس میں بہت حد تک کامیابی مل چکی ہے، اور اس وقت سیوریج کا تمام انفرااسٹرکچر بنیادی گرائونڈ لائنیں ہیں، پمپنگ اسٹیشن ہیں جنہیں اپ گریڈ کیا جارہا ہے۔ایم پی اے کی حیثیت سےاس ضمن متعدد منصوبے منظور کروائے، دوسرا گول واٹر ریسورسز سے متعلق تھا، اس پر بھی کام شروع کیا ہے، اور کے تھری کے پانی کی تقسیم تھی 24 ڈانیا پر تھا اور جس پر پورے شہر میں چوری ہورہی تھی، سائٹ انڈسٹریل ایریا کو پانی جارہا تھا، اس پر کام کیا اور 32 ڈائیا کی ایک لائن لیاری ایکسپریس وے کے ساتھ لے کر آرہے ہیں جس سے پانی کے بنیادی مسائل بیس سال تک کے لیے حل ہوجائیں گے۔اس کے علاوہ اے ڈی پی اسکیم میں سات کلومیٹر طویل کے تھری کی لائن اوور گراؤنڈ 33 انچ ایم ایس پائپ کی منظوری لی چاکیواڑہ روڈ پر ساڑھے پانچ ہزار فٹ طویل 36انچ ڈانیا سیوریج لائن پانی کی بارہ بارہ ابچ کی دو لائنز منظور کروائیں ۔بہارکالونی اور دھوبی گھاٹ واٹر پمپنگ اسٹیشن کی آپ گریڈیشن کروائی۔اسی طرح بہت بڑے علاقے میں پینے کے پانی میں سیوریج کا پانی شامل ہورہا تھا جس کے لیے ڈریننگ سسٹم کی درستی اور دیگر چیزوں پر کام ہورہا ہے، اور امید ہے کہ پانچ چھ سال کے اندر وہ تمام چیزیں درست ہوجائیں گی۔ ہیلتھ سروسز کے حوالے سے یہاں لیاری جنرل گورنمنٹ اسپتال ہے جو 160بستروں پر مشتمل ہے جہاں مختلف شعبے قائم ہیں، اس کی روزانہ او پی ڈی میں یومیہ سات سے ساڑھے سات ہزار مریضوں کو دیکھا جاتا تھا لیکن وہ بنیادی سہولیات ڈاکٹرز، ادویہ و دیگر چیزوں سے محروم تھا۔ پیرا میڈیکل اسٹاف کام نہیں کرتا تھا، اس کو ٹارگٹ بناکر کام کیا، اور الحمدللہ آج لیاری جنرل اسپتال شہر کے اچھے سرکاری اسپتالوں میں شامل ہے، اس کے اندر ایک بہت بڑا بلاک پیشنٹس کا بھی موجود ہے۔ این آئی سی وی ڈی کا ایک سینٹر وہاں قائم کردیا گیا ہے، اس میں انجیوپلاسٹی، انجیو گرافی… یہ تمام سہولیات موجود ہیں۔ گزشتہ تین سالوں میں اے ڈی پی کی 2012ء سے چلنے والی اسکیموں کو فوکس کرکے اس پر کام کیا، اور اس وقت سندھ کا سب سے بڑا میڈیسن کولڈ اسٹور لیاری جنرل اسپتال میں قائم کردیا گیا ہے۔ اس وقت بھی تین سال کی دوائیں وہاں پر اسٹور ہے۔ اسی طرح وہاں پر فرنیچر اور نئی فیکلٹیز کا مسئلہ تھا، اس پر بھی کام کیا ہے۔ ڈسپلن قائم کرنے کے لیے سیاسی بھرتیوں سے اس ادارے کو نجات دلانے کی ضرورت ہے، جس کے نتیجے میں لیاری جنرل اسپتال ترقی کی سمت مزید آگے بڑھے گا اور شہریوں کو بہتر سہولیات فراہم ہوسکیں گی۔ اسی کے ساتھ یہاں پر مختلف میٹرنٹی ہومز، ڈسپنسریاں لوکل گورنمنٹ کے ماتحت کام کررہی ہیں، اور لوکل گورنمنٹ کے اس پورے سسٹم کے اندر تین سالوں میں کرپشن کے سوا کوئی چیز نہیں ہوئی۔ یہ تمام معاملات ہماری نظر میں ہیں جنہیں حل کرنے کے لیے کام کررہے ہیں۔
ایجوکیشن سسٹم بھی ہمارا ایک اہم گول تھا، جسے حاصل کرنے کے لیے میں خود سرکاری اسکولوں میں جاکر ہفتے میں ایک دن خود تدریسی عمل میں شامل ہوتا تھا۔ اپنی تنخواہ سے میں نے کئی اسکولوں میں ماڈل کلاسیں بنوائیں۔ اس کے بعد بدقسمتی سے کوڈ 19آیا جس نے ہمارے تعلیمی نظام کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ دوسرا یہاں پر بے نظیر شہید یونیورسٹی بنی ہے، بے نظیر میڈیکل کالج ہے، جن پر پوری توجہ ہے، اور ان تعلیمی اداروں کے نظام کو بھی بہتر کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ نعمت اللہ خان صاحب جب سٹی ناظم تھے تو انہوں نے لیاری کے اندر تین کالج تعمیر کیے تھے۔ پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ تھا، لیاری سائنس کالج تھا، لیاری کامرس کمرشل ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ تھا۔ کمرشل ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ میں تو اس وقت رینجرز موجود ہیں، وہاں ان کی کمپنی چل رہی ہے، جبکہ پولی ٹیکنک اور لیاری سائنس کالج کی عمارتیں یونیورسٹی بننے کے بعد آباد ہوگئی ہیں، لیکن فی الحال وہاں سہولیات کا فقدان ہے۔ یہاں پر بے نظیر ڈگری کالج کا قیام بھی 2012ء میں عمل میں آیا جو بنیادی سہولیات سے محروم تھا، اس میں فرنیچر اور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے بھی ہم نے کام کیا جس میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔ اسی طرح پرائمری اور پری پرائمری ایجوکیشن سے متعلق مسائل یہ تھے کہ اسکولوں کی تعداد بہت زیادہ تھی جن کو کیمپس میں تبدیل کرواکر بحال کرنے اور ان کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔ لیکن اب بھی آبادی کے لحاظ سے اسکولوں کا تناسب کم ہے، یہاں مزید ڈگری کالج اور گرلز کالج بنانے کی ضرورت ہے، اور میری خواہش اور کوشش ہے کہ اس پر فوری قدم اٹھایا جائے۔
چوتھا گول ہمارا یوتھ ڈیولپمنٹ کا تھا، ہم نے اسپورٹس سمیت ہنرمند تیار کرنے پر کام کیا اور لیاری کے گیارہ فٹ بال گرائونڈز کو اپنی مدد آپ کے تحت آباد کرنے کی کوشش کی ہے، جن میں بہت حد تک بہتری آئی ہے، جبکہ سرکاری وسائل خرچ کرنے کے لیے متواتر توجہ دلاتے رہے ہیں۔ لیکن بہرحال بیس پچیس سال کے پیپلز پارٹی کے اقتدار کے اثرات اور اس کے چیلے چپاٹے موجود ہیں جن کے باعث وہ ریسورسز عوام تک نہیں پہنچ پارہے ہیں جو مختض کیے جاتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: مستقبل میں لیاری کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں؟
سید عبدالرشید: میں نےلیاری کا ماسٹر پلان تشکیل دینے کی قرار داد سندھ اسمبلی سے منظور کروائی، 2040ء کا ایک بیس سالہ وژن دیا ہے۔ لیاری کو خوش حال اور پڑھا لکھا دیکھنے کا ایک خواب ہے، اور لیاری کے اندر بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے۔ اگر اس وقت سرکاری سطح پر لیاری کی کمیونٹیز کی بھی سرپرستی کی جائے اور خصوصاً ایجوکیشن سسٹم کی طرف توجہ دی جائے تو چیزیں بہتر ہوجائیں گی، لیکن ساتھ ہی منشیات کے خاتمے کے لیے ایک بڑے آپریشن کی ضرورت ہے۔