مِری حسرتوں کی دِلّی …… مِرا بلدۂ کراچی

کراچی سے ترکِ سکونت کیے اب تیس برس سے زائد ہونے کو آتے ہیں۔ مگر اسلام آباد میں ہم آج تک’’کراچی والے‘‘ ہی کہے جاتے ہیں۔ گویاہم نے تو کراچی چھوڑ دیا، لیکن کراچی ہمیں نہیں چھوڑتا۔پر اب جب کبھی کراچی جاتے ہیں توشہر کی آسماں بوس عمارتوں اور آسماں پرواز راہ داریوں کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ جو کراچی ہمارے دل میں بسا ہوا ہے، یہ وہ کراچی نہیں ہے۔اُس کراچی کی یادیں تو بڑی دل فریب اور رومان انگیز ہیں۔ وہ کھلا ڈُلا شہر کراچی تو میرؔ کی دلّی کی طرح اُجڑ گیا۔ اب شاید اُس کراچی کی حسرت ہی کی جاسکتی ہے۔ ’’رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے‘‘۔ حسرتوں کی اُس دلّی، اُس عروس البلاد، بلدۂ کراچی میںکیسے کیسے نگینے لوگ بسے ہوئے تھے۔اوراب بقولِ جالبؔ: خاک میں مل گئے نگینے لوگ پورے ماضی کا احاطہ کرنا تو ممکن نہیں ہے۔ اُن بہت سے چہروں میں سے چند چہرے یاد آرہے ہیں جنھوں نے کراچی کی چہرہ تراشی کی تھی۔اور یہ سب ہی جانتے ہیں کہ:.چہرہ تراشی کھیل نہیں ہے، ہاتھ لہو ہو جاتے ہیں

ابھی لڑکپن کی دہلیز پر قدم رکھا ہی تھا کہ حکیم سعید صاحب سے تعارُف ہوگیاتھا۔ہمارے گھر بھی ماہ نامہ ’ہمدرد نونہال‘ آتا تھا۔حکیم صاحب سے پہلی بالمشافہ ملاقات جامعہ کراچی میں ہوئی۔ شعبۂ ریاضی جامعہ کراچی کی ’بزمِ ریاضی‘ کے تحت نکلنے والے میگزین ’میتھمٹیکا‘(Mathematica) کی تقریب اجرائی تھی، جس کے حصۂ اُردو کے ہم مدیر تھے۔ یہ تقریب جامعہ کے جمنازیم میں منعقد ہوئی تھی۔ صدرِ شعبہ اور ممتاز ماہر ریاضیات جناب این ایچ زیدی نے (جن کی اہلیہ محترمہ شائستہ زیدی اُن سے زیادہ مشہور ہوئیں) ہماری ذمہ داری تلاوت و ترجمہ و تشریح کی لگائی۔ حکیم سعید صاحب مہمانِ خصوصی تھے۔ اُنھوں نے مسلم ریاضی دانوں کے کارناموں پر بڑا وقیع لیکچر دیا۔چائے پر حکیم صاحب سے تعارف کرایا گیا تو اُنھوں نے از رہِ حوصلہ افزائی ہماری پیٹھ تھپتھپائی اور فرمایا:’’آپ نے سورۂ الم نشرح کی بڑی عمدہ تلاوت کی۔ ترجمہ اور تشریح بہت سلیس انداز میں بیان کی‘‘۔
اُن کے اتنے ہی کلمات ہمارے لیے اعزاز بن گئے۔اُس دن ہمیںپہلی بار پتا چلا تھا کہ حکیم صاحب کے لہجہ میں لکنت ہے۔
حکیم صاحب سے بے تکلفی کے تعلقات اُس زمانے میں پروان چڑھے جب ہم اسلام آباد میں تھے۔ دعوہ اکیڈمی کے ’شعبہ بچوں کا ادب‘ کے تحت حکیم صاحب کو (بچوں کے ادب کی نسل در نسل سرپرستی کرنے کے سبب)اکثر تقاریب کا صدر یا مہمانِ خصوصی بنایا جاتا تھا۔ بچوں کے لیے کہی جانے والی ہماری نظمیں حکیم صاحب نے پسند فرمائیں۔ خصوصاً … ’یہ بات سمجھ میں آئی نہیں‘… ان ہی تقاریب کے طفیل اُن سے خلوت و جلوت میں ملنے کا موقع ملا۔ذاتی تعلق پیدا ہوا تو بہت سے ذاتی قصے بھی اُن سے سننے کو ملے۔
ایک باربچوں کے لیے نمونۂ عمل بننے کے موضوع پر گفتگو ہو رہی تھی۔کہنے لگے کہ ہمدرد اسکول والوںکو اپنی سالانہ تقریب کے لیے کوئی مہمان خصوصی نہیں ملتا تو مجھے بلا کر کرسی ٔ صدارت پر بٹھا دیتے ہیں۔ ایسی ہی ایک تقریب کے اختتام پرمحترمہ پرنسپل صاحبہ نے اعلان کردیاکہ:’’ہر بچہ اپنی اپنی کرسی خود اُٹھا کر واپس ہال میں پہنچائے گا‘‘۔
’’میں کرسی ٔ صدارت پر بیٹھا تھا۔میں نے بھی بچوں کی طرح اپنی کرسی اپنے سرپر اُٹھالی۔ حاطب میاں! آپ کو شاید علم ہو کہ کرسی ٔ صدارت کتنی بھاری ہوتی ہے۔بچوں کی قطار میں اپنے سر پر اپنی کرسی لیے ہال کی طرف چلا جا رہا تھا کہ میں نے دیکھا ایک خاتون اپنے بچے سے کرسی چھین کر اُسے پرے پھینک رہی ہیں۔اُسی حالت میں (یعنی اپنی کرسی اپنے سر پر اُٹھائے ہوئے) میں تیزی سے اُن کے پاس پہنچا اور پوچھا:’’آپ یہ کیا کر رہی ہیں؟‘‘
یہ دیکھنے کے باوجود کہ میں نے خود اپنے سر پرایک کرسی لادی ہوئی ہے، مجھ سے کہنے لگیں:’’میں نے اپنے بچے کو آپ کے اسکول میں اس لیے داخل نہیں کیا ہے کہ وہ کرسیاں ڈھوئے!‘‘
میں نے اُن سے نرمی سے عرض کیا:’’پھرآپ کل سے اپنے بچے کو ہمارے اسکول نہ بھیجیں!‘‘
یقین کرو کہ میں نے اگلے روز فون کرکے معلوم کیا کہ وہ بچہ اسکول تو نہیں آیا؟‘‘
ایک بار ہم اپنے اہل خانہ کے ساتھ اسلام آباد سے کراچی پہنچے۔جہاز کی ٹیوب سے نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سامنے ہی حکیم سعید صاحب اپنے مخصوص انداز میںہاتھ باندھے کھڑے انتظار کر رہے ہیں۔ہمیں شوخی سوجھی۔سلام دُعا کے بعد بڑی سنجیدگی سے کہا:’’حکیم صاحب آپ نے ناحق زحمت فرمائی!‘‘
حکیم صاحب بے ساختہ مسکرا پڑے۔ مگر ہماری لاج رکھتے ہوئے کہنے لگے:’’میں نے سوچا کہ آپ کے بہانے مولانا سلمان ندوی کا بھی استقبال کر لوں گا‘‘۔
اتنے میں اُن کی نظر عمار میاں پر پڑی۔ ابھی اُنھوں نے تتلا تتلا کربولنا شروع کیا تھا۔ حکیم صاحب نے اُن سے سلام دُعا کی اور پوچھا:’’آپ کا کیا حال ہے؟‘‘
عمار میاں نے جواب دیا:’’ٹی ٹوں‘‘
حکیم صاحب ہنس پڑے۔ کہنے لگے یوں نہیں، یوں کہیے کہ:’’الحمدﷲ ! ٹھیک ہوں‘‘۔
اُنھوں نے اُس وقت تک عمار کا ہاتھ نہیں چھوڑا جب تک اُن سے کہلوا نہ لیا کہ:’’الحمد ﷲ ٹی ٹوں‘‘۔
17اکتوبر 1998ء کی صبح ’’نامعلوم افراد‘‘ نے حکیم صاحب کو اُس وقت گولیاں مار کر شہید کردیا جب وہ آرام باغ کرچی میں واقع اپنے مطب میں داخل ہونے کے لیے اپنی گاڑی سے اُترے تھے۔مگر23دسمبر 1998ء کو عدالت میں ایک عینی شاہد نے متحدہ قومی موومنٹ کے دو کارکنان امیر اﷲ شیخ اور زبیر کو اُن کے قتل میں ملوث ملزمان کی حیثیت سے شناخت کیا۔(The News, Dec 24, 1998)
اُسی زمانے میں کراچی کے ایک اُردو اخبار نے اپنے ذرایع سے اُن کے قتل کی سازش کی مکمل رُوداد معلوم کرکے مفصل شایع کی تھی۔ سازش کے شرکاء کی نام بنام تفصیل کے ساتھ بتایا گیا تھا کہ منصوبہ سازوں نے قاتلوں کو رات بھر برنس روڈ کی ایک قدیم عمارت کی چھت پرنشہ پلا پلا کردُھت رکھا۔ صبح سویرے اُن کو ایک گاڑی میں ’جائے واردات‘ پر لے جایا گیا۔ (اخباری رپورٹ میںگاڑی کا نمبر بھی دیا گیا تھا)۔حکیم صاحب کی گاڑی صبح پونے سات بجے وہاں آکر رُکی تو بتایا گیا کہ اس میں سے جو شخص اُترے گا، اُسی کو نشانہ بنانا ہے۔ ملزموں میں سے ایک نے اخباری نمائندے کو روتے ہوئے بتایا:
’’ہمیں واپس لے جاکر سلا دیا گیا تھا۔ شام کو اُٹھ کر جب میں اپنے گھر لیاقت آباد پہنچا تو میں نے اپنی ماں کو بری طرح روتے ہوئے دیکھا۔میرادل دھک سے رہ گیا۔میں نے پوچھا…’امّاں کیا ہوگیا؟ کیوں رو رہی ہو؟‘ … ماں نے ہچکیوں کے بیچ میں بتایا … ’آج صبح کسی بد بخت نے حکیم سعید کو شہید کر دیا ہے‘ … تب مجھے معلوم ہوا کہ وہ حکیم سعید تھے‘‘۔
٭٭٭
حکیم صاحب بلاشبہہ اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے۔ دیو قامت اور کوہ پیکر شخصیت کے حامل تھے۔ طبیب، ادیب، مصنف، محقق،مصلح اور بین الاقوامی شہرت کے حامل مدبر۔
انسانوں کے لیے ’ کوہ قامت‘ اور ’دیو پیکر‘ کی تشبیہات سنی تو بچپن ہی سے تھیں۔ سمجھ میں اُس وقت آئیں جب پہلی بار بابائے کراچی جناب عبدالستار افغانی کو دیکھا۔افغانی صاحب جو 1930ء میں لیاری میں پیدا ہوئے تھے، 2006ء میں ہفتہ 4؍نومبر کی صبح جب آغاخان اسپتال میں اِس دارِ فانی سے رُخصت ہوئے تواُس وقت بھی لیاری ہی کے ایک فلیٹ میں
حکیم صاحب نے گھرمیں آکر ابتدائی طبی امداد کا بکس اٹھایا اور آنے والے اجنبی سے اتا پتا پوچھے بغیر اُس کے ساتھ چل دیے۔ چار پانچ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ٹیکسی رکی۔ صاحب خانہ نے اسے کرایہ دے کر رخصت کیا۔ حکیم صاحب کو گھر میں لے گئے۔ مریضہ کا معائنہ کروایا۔ دوا دلوائی۔ انجکشن لگوایا۔ نسخہ لکھوایا۔ ممنون احسان ہوئے۔ شکریہ ادا کیا اور سلام ومصافحہ کر کے حق رخصتی ادا کردیا۔
اب حکیم صاحب باہر کھڑے ہیں۔ دور تک ہو کا عالم۔ بلکہ’ ’ہو ہو‘‘ کا عالم ہے۔ سناٹے میں کتے بھونک رہے تھے۔ سواری اور سوار تو درکنار ’پیدل‘ راہ گیر بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ حکیم صاحب نے اللہ کا نام لیا اور اپنا بکس سنبھالے پیدل ہی چل دیے۔ چار پانچ کلومیٹر کا فاصلہ قدم بدقدم طے کر کے گھر پہنچ گئے۔ اللہ اللہ خیر صلا! کوئی شکوہ نہ شکایت، داستان نہ حکایت۔ ہرجانہ یا جرمانہ تو درکنار، ان صاحب سے بے رخی اور بے اعتنائی تک نہ برت سکے ۔ وہ معالج تھے، اور معالج کا کام تکلیف واذیت کو دور کرنا ہے۔ لمحہ بھر کو سہی کسی کو زبانی کلامی بھی ایذا پہنچانا اُس کا منصب نہیں۔ خواہ خود کتنی ہی اذیت اور پریشانی برداشت کرنی پڑے۔
سفید براق لباس، سفید براق ڈاڑھی اور سفید بے داغ کردار۔ سرپر سر مئی جناح کیپ اوڑھے ایک عام سی موٹرسائیکل پر جو صاحب اُڑے چلے جارہے ہیں، یہی حکیم محمد یامین صدیقی ہیں۔ ابھی کوئی ہاتھ دے کر راہ روک لے گا، حال سنائے گا، نسخہ لکھوائے گا، اور دعا ئیں دے گا۔ بس حکیم صاحب
دیتی۔نتیجہ یہ کہ گھریلو خواتین بھی مولانا کے دلچسپ اور دل پزیر نکات سے محظوظ ہوتی رہتیں۔ رہے اُن سے جلنے والے … تو مولانا کا اپنا رویہ بھی یہی کہہ رہا ہوتا کہ …’’جلنے والوں کا منہ کالا‘‘…اور…’’ جلنے والے جلا کریں‘‘…سو وہ جلتے رہتے۔
مولانا کی ڈاڑھی اُن کی ٹھوڑی پر ’گنجان آباد‘ تھی مگر دائیں بائیں ’آبادی‘ کم تھی۔سرپر یا تو صافہ باندھتے یا سفید کپڑے کی بنی ہوئی سادہ سی دو پلّی ٹوپی اوڑھتے۔منبر پر بیٹھتے وقت کبھی کبھی عبا و قبا بھی زیب تن کر لیا کرتے۔یعنی خاص خاص مواقع پر جبہ و دستار کے ساتھ نمودار ہوتے۔مگر جب گلیوں کوچوں میں چلتے پھرتے نظر آتے تو کرتا اور پاجامہ پہنے نظر آتے تھے، سرپر وہی دو پلی ٹوپی۔ البتہ بھٹو صاحب کے برپا کیے ہوئے ’’عوامی لباس‘‘ والے انقلاب کے بعد مولانا بھی شلوار قمیص پہننے لگے تھے۔
مذہبی جماعتوں میں مسلکی جنگ تو صحیح معنوں میں 1970ء کے انتخابات کے موقع پر بڑے گھمسان سے برپا ہوئی تھی۔مولانا اُس جنگ کے فاتحین میں سے تھے۔سو،رُکن قومی اسمبلی منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچ گئے۔ شیخ الحدیث مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری ایک خاص قسم کا سیاسی ذہن رکھتے تھے۔تقریر و خطابت کے شہسوار تو تھے ہی، مگر تعلیم دینی مدارس سے باہر کی نہ تھی۔انگریزی سے ناواقف تھے۔جدید دُنیا سے بھی اُن کی واقفیت بس واجبی سی تھی۔ اپنے مدرسے، مسجد اور سعودآبا د کی گلیوں سے نکل کر اچانک اسلام آباد کی بھول بھلیوں میں پہنچ گئے تھے۔ایوانِ اسمبلی اُنھوں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ پہلے دور میںاُن سے کئی لطائف سرزد ہوئے۔اکثر ایسا ہوتا کہ مولانا راولپنڈی اور اس کے گرد و نواح میں منعقد ہونے والی محافلِ میلاد میں مدعو کیے جاتے اور رات گئے تک خطاب فرماتے رہتے۔صبح اسمبلی میں پہنچتے تو رات کی جگار سے بھری ہوئی آنکھیں مُند جاتیں۔مولانا نیند میں خراٹے لینے کے عادی تھے(ممکن ہے کہ اُن کے خراٹوں کے شور سے ہم نشیں کی نیند میں خلل پڑتا ہو) چناں چہ اسپیکر صاحب سے شکایت کی جاتی اور مولانا بذریعہ ’’رولنگ‘‘ جگائے جاتے۔(بذریعہ ’رول‘ نہیں)۔
اُن کا ایک لطیفہ بہت مشہور ہواجو اکثر بلاحوالہ سنایا جاتا ہے۔جس روز مولانا کو قومی اسمبلی میں اپنا اوّلین خطاب کرنا تھا اُاس روز شیروانی زیب تن کرکے آئے تھے۔جب مولانا کی باری آئی اور فلور اُن کے حوالے کیا گیا تو وہ اُٹھے اور سخن سرا ہوگئے۔ہر چند کہ مولانا کی بلند آہنگ آواز مائک کی محتاج نہ تھی مگر شور پڑگیا کہ:’’مولانا بٹن دبائیے…مولانا بٹن دبائیے‘‘۔
مولانا نے اپنی شیروانی کے ہر بٹن پر نظر کی جو تمام کے تمام سلیقے سے بند تھے۔تاہم ’’پبلک کے پُرزور اصرارپر‘‘ اُنھوں نے ایک ایک بٹن دبا کر دیکھ لیا۔ جب اس پر بھی شور نہ تھماتو جھلّا کر پوچھا:’’ارے بھئی سب بٹن تو دبالیے، اب کون سا بٹن دباؤں؟‘‘
بالآخر ایک ساتھی نے اُٹھ کر مولانا کی ذات سے باہر کا ایک بٹن دبادیا اور مولانا کی خوش الحان آواز میں ’بازگشت‘کاآہنگ بھی شامل ہوگیا۔ اُن کی خوش گوئی و خوش گفتاری بلکہ لطیفے بازی سے اسمبلی میں رونق رہتی تھی۔مولانا کوثرؔ نیازی نے اُن کی شان میں ایک رُباعی بھی کہی تھی جس کے اب صرف دو مصرعے یاد رہ گئے ہیں:
واعظِ شیریں بیاں الازہری
نکتہ بین و نکتہ داں الازہری
علامہ مصطفی الازہری نہایت اعلیٰ درجہ کے لطیفہ گو تھے۔بھٹو صاحب کے دور میں جب شاہِ ایران آریا مہر رضاشاہ پہلوی اپنا ڈھائی ہزار سالہ جشن بادشاہت ’منوانے‘ کے لیے پاکستان آئے تو اُنھیںتمام صوبائی گورنروں سے متعارف کروایا گیا۔کیسے کروایا گیا؟ اس کا احوال ازہری صاحب اپنی مخصوص من موہنی مسکراہٹ کے ساتھ مزے لے لے کر سناتے تھے:سب سے پہلے گورنر سندھ ممتاز بھٹو ملوائے گئے۔ ترجمان نے اعلیٰ حضرت رضا شاہ پہلوی کو بتایا:’’اعلیٰ حضرتِ ہمایوں! ایں ممتازِ سندھ است!‘‘
اعلیٰ حضرت نے دیکھا، خوش ہوئے اور فرمایا:’’بلے بلے خوب است!‘‘
اب گورنر بلوچستان غوث بخش رئیسانی کی باری تھی:’’اعلیٰ حضرتِ ہمایوں ایں رئیسانی ٔ بلوچستان است!‘‘
اعلیٰ حضرت نے دیکھا، خوش ہوئے اور فرمایا:’’بلے بلے خوب است!‘‘
حیات محمد خان شیر پاؤ گورنر صوبہ سرحد تھے۔ (اب یہ صوبہ خیبر پختونخوا ہے) ۔ اُنہیں متعارف کروایا گیا:’’اعلیٰ حضرتِ ہمایوں ایں شیر پاوِ صوبہ سرحد است!‘‘
اعلیٰ حضرت نے دیکھا، خوش ہوئے اور فرمایا:’’بلے بلے خوب است!‘‘
مگر جب گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر کے تعارُف کی باری آئی تو ترجمان بوکھلا گیا۔فارسی میں’’کھ‘‘ ہوتاہی نہیں۔اب کیا کرے؟ سوچنے کا موقع نہیں تھا۔ فیصلہ فوراً کرنا تھا۔سو اُس نے جھٹ تعارُف کرایا:
’’اعلیٰ حضرتِ ہمایوں ایں خرِپنجاب است!‘‘
اعلیٰ حضرت نے دیکھااورہکابکا رہ گئے۔
٭٭٭
کراچی سے تعلق رکھنے والے پارلیمینٹیرین حضرات میںتو پروفیسرعبدالغفوراحمد، مولانا ظفر احمد انصاری، مولانا شاہ احمد نورانی اور’’سوہنے مُنڈے‘‘ عبدالحفیظ پیرزادہ نے بھی بڑی شہرت پائی،مگر شہر کے قدیم ترین پارلیمنٹیرین، جن کو ہم نے دیکھا، محمود اعظم فاروقی صاحب تھے۔
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ دُور سے اُن کا صرف دبدبہ ہی دکھائی دیتا ہے۔پس،دُور سے اُن کا دبدبہ دیکھ کر ہم جیسے دبُّو لوگ اُن سے اور دُور بھاگتے ہیں۔مگر قریب جائیے تو پتا چلتا ہے کہ یہ رعب و دبدبہ تو دربان ہے ایک ایسی باغِ بہار شخصیت کا، جس کا دامن شادابی و شگفتگی کے رنگا رنگ پھولوں سے اَٹا اَٹ، پَٹا پڑا ہے۔
جناب محمود اعظم فاروقی کی شخصیت بھی ہمیں اوّل اوّل، اوّل الذکر سی لگی، مگر آخر آخر، آخر الذکر سی نکلی۔ وہ پاکستان میں گنتی کے چند پرانے اور پختہ کار پارلیمنٹرینز میں سے ایک تھے۔ نہایت منجھے ہوئے اور انتہائی تجربہ کار۔ ایوب خان کی مغربی پاکستان اسمبلی سے لے کر بھٹو صاحب کے پارلیمانی دور کی قومی اسمبلی تک اُن کی بہترین کارکردگی کے نقوش ریکارڈ پر ہیں۔ اُن کی پارلیمانی کارکردگی اور اُن کے سیاسی کارناموں کی ایک کتاب مرتب کرنے کی ضرورت ہے، مگر… کون اُٹھے اور کھڑکی کھولے؟
ضیاء الحق کے زمانے میں جب پاکستان قومی اتحاد نے ’عبوری کابینہ‘ میں شمولیت کا فیصلہ کیا تو پی این اے کی رُکن جماعت ہونے کی حیثیت سے جماعت اسلامی کو بھی چند وزارتوں کا کوٹا ملا۔ ان چند وزارتوں میں سے ایک، وزارتِ اطلاعات و نشریات بھی تھی، جس کے وزیر محمود اعظم فاروقی بنائے گئے۔
جب ضیاء صاحب نے1979ء کے آغاز میں انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کیا(بعد میں جن کے التوا کا اعلان کردیا) تو جماعت اسلامی ان وزارتوں سے استعفیٰ دے کر باہر آگئی۔ مگر اپنے مختصر دورِ وزارت میں فاروقی صاحب نے کئی ایسے اہم اقدامات کیے، جو دیرپا ثابت ہوئے۔ اُس وقت صرف سرکاری چینل ’پاکستان ٹیلی وژن کارپوریشن‘(عرف ’پی ٹی وی‘) ہی چلتا تھا اور ملک کے طول و عرض میں دلچسپی سے دیکھا جاتا تھا۔ سو،پاکستان کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ثقافت
(باقی صفحہ 00 پر)
کے مطابق فاروقی صاحب نے پی ٹی وی کی خاتون اناؤنسرز، خبرخواں خواتین اور اینکر پرسنز کو سر پر اوڑھنی لے کر ’آن ائر‘ جانے کی ہدایت کی۔جس پر محترمہ مہتاب راشدی نے (جو اُس وقت مہتاب چنّا کہلاتی تھیں) ٹی وی پروگراموں سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس سرکاری حکم کو اُنھوں نے اپنی ’شخصی آزادی میں مداخلت‘ جانا۔ حالاں کہ خاتون پڑھی لکھی تھیں۔ ماہرتعلیم تھیں۔ ہم کیسے مانیں کہ اُنھیں اس بات کا بالکل علم نہ ہوگا کہ مسلم خواتین کو سر پر اوڑھنی لینے کا حکم فاروقی صاحب نے نہیں، قرآنِ مجید نے دیا ہے۔قرآنِ مجید نے مہتاب راشدی کی’ ’شخصی آزادی میں مداخلت‘‘ کررکھی تھی۔
فاروقی صاحب سے پہلے ہر اختتامِ ہفتہ پر ٹیلی وژن سے عہد گزشتہ کی کوئی نہ کوئی ازکاررفتہ فلم نشر کی جاتی تھی۔ اُنھوں نے اس کی جگہ مشاعروں کی مرتی ہوئی ثقافت کا احیا کیا۔چند ایک بڑے شاعروں کو چھوڑ کر عصر حاضر کے جتنے نامور شاعر ہیں، ملک میں ان ہی مشاعروں سے روشناس ہوئے، ورنہ ادبی حلقوں سے باہر انھیں کون جانتا تھا؟اُن ہی کے زمانے میں ٹیلی وژن سے بچوں کو کسی مستند قاری سے ’ناظرۂ قرآن‘ کی روزانہ تعلیم دینے کا آغاز کیا گیا۔بہت سے بڑے بوڑھوں نے بھی اس پروگرام کی مدد سے قرآنِ کریم کو درست تلفظ کے ساتھ پڑھنا سیکھا۔اُس زمانے میں ٹیلی وژن دن رات کے چوبیس گھنٹے ’بک بک‘ نہیں کیا کرتا۔ کبھی گیارہ بجے اور کبھی بارہ ایک بجے شب، اس کی نشریات کا اختتام ہو جاتا تھا۔ فاروقی صاحب نے ہدایت کی کہ نشریات کے اختتام پر قومی ترانہ نشر کرنے سے قبل ناظرین کو ’فرمانِ الٰہی‘ بھی یاد دلایا جائے۔ سونشریات کا آخری پروگرام ’فرمانِ الٰہی‘ ہوتاتھا۔ اس کے بعد قومی ترانہ بجتا تھا۔ اسی طرح خبرنامے سے قبل فرمانِ رسولؐ، اقوالِ قائد اعظمؒ اور اشعارِ اقبالؔؒ کی روایت بھی پڑی۔