بابائے کراچی نعمت اللہ خان

 شہر کراچی کے لیے ان کی خدمات ایک یادگار انٹرویو کے چند اقتباسات

بابائے کراچی نعمت اللہ خان کا 89 سال کی عمر میں انتقال ہوا، آپ کراچی کے 26 ویں میئر تھے اور انہوں نے 2001 سے 2005 تک میئر کراچی کے طور پر خدمات انجام دیں۔اآپ اپنی پوری زندگی میں جوانوں کی طرح متحرک رہے ۔ پاکستان کی تاریخ میں اگر کسی پر مثالی ناظم کا خطاب جچتا ہے تو وہ خان صاحب تھَ ، ہمہ پہلو شخصیت کے مالک، لازوال خدمت کے کام جن کی زندگی کا سرمایا ہیں۔ شاہجہاں پور انڈیا سے تعلق رکھنے والے نعمت اللہ خان نے1948ء میںپاکستان ہجرت کی اور کراچی کے ہوکر رہ گئے۔ آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کیاجبکہ فارسی لٹریچر میں ماسٹر ڈگری کراچی یونیورسٹی سے حاصل کی۔ کراچی یونیورسٹی سے ہی آپ نے صحافت میں ڈپلومے کے علاوہ ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں انکم ٹیکس وکیل کے طور پر وکالت کا آغاز کیا، اور تب سے ایک کامیاب وکیل اور انکم ٹیکس کے معاملات کے ماہر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔زمانہ طالب علمی میں آپ نے تحریک پاکستان میں ایک فعال کارکن کے طور پر کام کیا۔ اسی زمانے میں آپ نے شاہجہاں پور کے مسلم رکن قانون سا زاسمبلی کے ہمراہ قائد اعظم کی سربراہی میں ہونے والی “آل انڈیا مسلم لیجسلیٹرز کانفرنس” میں شرکت کی۔1946ء سے قیام پاکستان تک آپ مسلم لیگ نیشنل گارڈ ضلع اجمیر کے منتخب صدر رہے۔ آپ نے 1957ء میں جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی،1985ء کے غیر جماعتی الیکشن میں آپ سندھ اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ اور اپوزیشن ارکان نے اسمبلی میں ’’اپوزیشن لیڈر‘‘ کے لیے آپ پر اعتماد کا اظہار کیا۔1988ء میں اسمبلی کی تحلیل تک تقریباً ساڑھے تین سال اپوزیشن لیڈر کے منصب پر فائز رہے۔ اس دوران آپ نے کراچی اور سندھ کے عوام کی ترجمانی کا حق ادا کیا اور بھرپور انداز میں عوامی مسائل اسمبلی میں اٹھائے۔2001 ء میں متعارف کرائے جانے والے ضلعی حکومتوں کے نظام کے بعد نعمت اللہ خان کراچی کے پہلے ناظم منتخب ہوئے۔ ایک نئے نظام میں منی پاکستان کہلانے والے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی نظامت ایک بہت بڑا چیلنج تھی لیکن آپ نے عزم و ہمت، انتھک محنت اور امانت و دیانت کے ذریعے شہر کراچی اور اس کے باسیوں کی بے مثال خدمت کرکے اپنے آپ کو اس منصب کا اہل ثابت کیا، اور4 سال کے مختصر عرصے میں کراچی کی شکل یکسر بدل کے رکھ دی۔ باوجود اس کے کہ آپ کو ایم کیو ایم جیسی فاشسٹ لسانی تنظیم کے گورنراور صوبائی وزرا کے معاندانہ رویّے کی وجہ سے شدید مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا تھا لیکن آپ نے جوانمردی اور استقامت سے ان کے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کیا اور کراچی کی خدمت اور اس کے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے کسی مصالحت سے ہمیشہ انکار کیا۔ آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ نے جماعت کی رکنیت کا حلف خانہ کعبہ میں اٹھایا۔ حلف لینے والے پروفیسر غفور احمد تھے۔ شاید اسی کا اثر ہے کہ آپ کی جماعت سے اٹوٹ وابستگی میں کبھی کوئی فرق نہیں آیا۔ اس کے بعد آپ کراچی جماعت کے نائب امیر اوردس سال تک امیر رہے۔ فرائیڈے اسپیشل کے قارئین کے لیے الیکشن 2013 ء میں لیے گئے یاد گار انٹرویو کے اقتباسات نذرِ قارئین ہے۔
——
فرائیڈے اسپیشل: آپ کو بحیثیت ناظم کس حالت میں شہر ملا، اس کے بارے میں آپ سے جاننا چاہتے ہیں؟
نعمت اللہ خان : جب میں ناظم کراچی منتخب ہوا تو شہر کی آبادی 5 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی تھی، لیکن اس کے مقابلے میں شہر کے اندر شہری سہولیات کا فقدان اور ترقیاتی کاموں کا کہیں وجود نہیں تھا۔ شہری انفرااسٹرکچر تباہ حال تھا اور پورا شہر کسی اجاڑ جنگل کا منظر پیش کر رہا تھا۔ تقریباً تمام بڑی شاہراہیں اور اندرونی راستے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے، بڑی چورنگیوں پر گھنٹوں ٹریفک جام رہتا، سیوریج کا نظام ابتر تھا، اورکبھی روشنی کا شہر کہلانے والے کراچی کی سڑکیں تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ اس صورت حال سے گھبرانے کے بجائے بہتر حکمت عملی سے ہم نے اس تیز رفتاری سے ترقیاتی کام کرائے اور شہری سہولیات فراہم کیں کہ پاکستان اور اس خطے میں اس کی مثال نہیں پیش کی جاسکتی۔
فرائیڈے اسپیشل: تباہ حال اور اجڑے ہوئے کراچی کو چمکتا، دمکتا بنانے کی کیا تفصیلات ہیں؟
نعمت اللہ خان : ہم نے اربوں روپے کی لاگت سے بڑی شاہراہوں کو تعمیر کرایا، کروڑوں روپے کی لاگت سے چورنگیوں کی تزئین و آرائش کے بعد ان کو سگنلائزڈ کیا، اور شہر میں سڑکوں، فلائی اوورز، انڈر پاسز اور پلوں کا جال بچھادیا۔ ان شاہراہوں، چوراہوں اور گلیوں میں روشنی کا بہترین انتظام کر کے ہم نے ایک مرتبہ پھر کراچی کو ’’روشنیوں کا شہر‘‘ بنادیا۔ ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنانے کے لیے ’’اربن ٹرانسپورٹ اسکیم‘‘ شروع کی اور باہر سے بسیں درآمد کرنے کے علاوہ کئی پرائیویٹ کمپنیوں کو بسیں چلانے کے لائسنس دیے۔ پہلی دفعہ500 بڑی، کشادہ اور ائیرکنڈیشن بسیں کراچی کی سڑکوں پر رواں دواں نظر آئیں۔ ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیے درجنوں ’’پیڈیسٹرین برجز‘‘ کی تنصیب کے علاوہ ڈرائیوروں کی تربیت کے لیے ڈرائیور اکیڈمی کا قیام عمل میں لایا گیا، جبکہ470 مقامات پر خوبصورت بس شیلٹرز تعمیر کیے گئے۔ اسی طرح ماس ٹرانزٹ کے لیے ایک غیر ملکی کمپنی سے معاہدہ کیا گیا جس کے تحت87 کلومیٹر طویل مقناطیسی ریل چلائی جائے گی، جبکہ شہر میں سرکلر ریلوے کی بحالی کے ساتھ ساتھ اس کی اورنگی، بلدیہ، کورنگی اور نارتھ کراچی تک توسیع کا منصوبہ منظور کرایا۔ شہر کے انفرااسٹرکچر میں تبدیلی، خاص کر ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا اثر اب شہر میں نظر آرہا ہے۔ پانی کی کمی پوری کرنے کے لیے ’’کے تھری واٹر سپلائی پروجیکٹ‘‘ شروع کیا جس سے روزانہ دس لاکھ گیلن پانی شہریوں کو فراہم ہوسکے گا۔ اسی طرح واٹر ڈی سیلینیشن پلانٹ کی تنصیب اور سیوریج کے پانی کو ری سائیکل کرکے کارخانوں کے لیے قابلِ استعمال بنانے کے معاہدے کیے۔ سیوریج کے نظام کی بہتری کے لیے اربوں روپے خرچ کیے۔ 50 سال پرانی پائپ لائنوں کی بڑے پیمانے پر تبدیلی اور نئے پمپس کی تنصیب کرائی۔ کوڑا کرکٹ اور کچرا اٹھانے کے لیے 500 سولڈ ویسٹ ٹرانسفر اسٹیشن تعمیر کیے۔ شہر کی52 فیصد آبادی رکھنے والی کچی آبادیوں پر بھی میں نے خصوصی توجہ دی۔ میں نے 1999ء میں بڑھائے جانے والے لیز کے نرخ منسوخ کرکے 1989ء کے نرخ بحال کیے جس سے لاکھوں غریب لوگوں کو براہِ راست فائدہ پہنچا۔ لیکن اب پھر لیز کو غریب آدمی کے لیے مشکل بنادیا گیا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ نے جب کراچی کی نظامت سنبھالی تو عام آدمی پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا۔ پھر کس طرح سے وسائل پیدا کیے کہ چند سالوں میں شہر کا نقشہ ہی تبدیل ہوگیا؟
نعمت اللہ خان : میں نے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا اور جو ٹیکس پہلے سے طے تھا اس میں ریکوری کی اور لوگوں کے لیے کرپشن کے مواقع کم کیے۔ اس طرح 40 ارب تک بجٹ پہنچا۔ میں نے جو 29 ارب کاپیکج دیا تھا اس میں مربوط پلاننگ اور ویژن ہے۔ کراچی کے اندر بہت بڑے بڑے ادارے ہیں جن میں لاکھوں لوگ کام کرتے ہیں، لاکھوں لوگ بسوں میں سفر کرتے ہیں، سڑکوں کو استعمال کرتے ہیں، لیکن ہم کراچی کی تعمیر و ترقی کے لیے ان اسٹیک ہولڈروں سے ایک پیسہ نہیں لیتے، یہ سب بڑے ادارے ہماری سڑکیں توڑتے اور خراب کرتے ہیں لیکن ہم کچھ نہیں کہتے تھے۔ ہم نے لوگوں سے لینے کے بجائے اس طرح پلاننگ کی کہ جو ادارے اس شہر سے کما رہے ہیں ان سے بھی شہر کو فائدہ پہنچے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ میں نے اسٹیک ہولڈرز کو تعمیر و ترقی کے لیے تیار کیا۔ میرے دور میں پورٹ ٹرسٹ کے تعاون سے پل بنا ہے جس پر تقریباً ڈھائی ارب لاگت آئی۔ اس کے بعد دیگر ادارے بھی کام کرنے لگے۔ اس طرح اسٹیل مل کے ذمے دو کام لگائے تھے۔ اسٹیل مل نے قائد آباد کا فلائی اوور بنایا۔ پی آئی اے نے یونیورسٹی روڈ بنانے کے لیے 80کروڑ روپے دیے۔ اس طرح اللہ کا فضل ہے کہ بہت سے اداروں کی معاونت سے کراچی کی تعمیر و ترقی کے کام ہوئے۔ میں نے اپنی نظامت میں 38 کالج بنائے ہیں تین سال میں، اس کے علاوہ سڑکیں بنائیں اور وہ بھی دنیا کے مانے ہوئے معیار کے مطابق۔ پہلے ہماری سڑکیں ایک بارش میں خراب ہوجاتی تھیں۔ ہم نے جس معیار کے مطابق سڑکیں بنائی ہیں اس میں چار سے پانچ فٹ کھدائی کرکے پتھر بھرا جاتا ہے، اس طرح سڑک 15 سے 20 سال چلتی ہے۔
ہم نے سڑکیں اور فلائی اوور بنائے۔ میں نے 3 فلائی اوور بنائے جس میں سے دو فلائی اوور میں 12 کروڑ سے زائد بجٹ نہیں لگا۔ صرف شاہ فیصل کالونی والے میں اس سے کچھ زیادہ خرچ ہوا۔ جب کہ اس کے بعد کی گورنمنٹ نے اتنے ہی فلائی اوور بنائے اور کسی فلائی اوور میں 70 سے 80کروڑ سے کم بجٹ نہیں لگا۔ اس طرح میرے دور میں اسکولوں کی تعمیر اور مرمت کا کام ہوا۔ ہم نے اسکولوں کو اپ گریڈ کیا۔ اس وقت اسکول دیکھنے میں اچھے نہیں تھے۔ ہم نے مرمت اور رنگ و روغن کروایا۔ اس طرح ایک جگہ لڑکیوں کے اسکول میں ٹوائلٹ کا انتظام تک نہ تھا۔ وہ ہم نے تعمیر کروایا۔ میری نظامت سے قبل سرکاری اسکولوں کے محض150 سے 200 طلبہ اے یا اے ون گریڈ حاصل کر پاتے تھے۔ اسکولوں میں سہولیات کی فراہمی، اساتذہ کے مختلف جدید ٹریننگ کورسز اور ’’پروفیشنل ٹریننگ پروگرام‘‘ میں ہزاروں اساتذہ کی تربیت کے بعد یہ تعداد 2000 تک پہنچ گئی تھی۔ مجھ سے پہلے شہر میں88 کالج تھے، ہم نے 4 سال کی مختصر مدت میں ریکارڈ 32 نئے کالجوں کا اضافہ کیا، اور تمام کالجوں میں آئی ٹی لیب کی تعمیر کو یقینی بنایا۔ ایک اور قابل ذکر کام تعلیمی اداروں میں سیلف فنانس اسکیم ختم کرکے مرکزی داخلہ پالیسی کا نظام اپنانے کے بعد تمام کالجوں میں میرٹ پر داخلے کو یقینی بنانا ہے۔
اس طرح ہمارے دور میں ہونے والے کاموں سے شہر کا نقشہ بدل گیا تھا۔ اور آج 8 سال گزرنے کے بعد بھی لوگ پورے ملک میں جہاں بھی میں جاتا ہوں میرے کام کو سراہتے ہیں اور کراچی کی اس تبدیلی پر مجھے دعائیں دیتے ہیں۔ اگر میں جہاز میں سفر کروں تو ایئرپورٹ کا اسٹاف مجھ سے آگے بڑھ کر ملتا ہے اور گلے لگاتا ہے۔ لوگوں کو مجھ سے محبت ہے۔ نظامت کا ایک واقعہ سنائوں آپ کو کہ میرے ڈی سی او تھے شفیق پراچہ صاحب جو نظامت سے پہلے کمشنر کراچی تھے، پھر میرے ڈی سی او بن گئے تھے، وہ مجھ سے ایک دن کہنے لگے: ناظم صاحب آپ برا نہ مانیں تو ایک بات کہوں، آپ کی یہ عمر اور صحت آپ کی نظامت میں ایک مائنس پوانٹ ہے۔ پھر نظامت کے آخر زمانے میں مَیں نے اُن سے کہا کہ آپ نے یہ بات کہی تھی تو میں آپ کو بتائوں کہ کراچی کی نظامت میری زندگی کا سب سے بڑا پلس پوائنٹ ہے، کیونکہ میں نے اس سے پہلے زندگی میں اتنا بڑا کام نہیں کیا جس سے لوگ 10 سال تک مجھے دعائیں دیں۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ سب کچھ کیسے کیا آپ نے ؟
نعمت اللہ خان : میں نے جب باغ جناح میں حلف اٹھایا تو وہاں مجھے کہا گیا کہ تقریر کرنی ہے۔ میں نے اس تقریر میں صرف دعائیں کی تھیں اور آنکھوں سے آنسو برابر جاری تھے اور میں سوچ رہا تھاکہ کہیں یہ نظامت اللہ تعالیٰ کی آزمائش نہ بن جائے۔ سامنے رفیع عثمانی صاحب بھی موجود تھے، وہ بھی اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھ رہے تھے۔ وہ آج تک کہتے ہیں کہ میں فجرکی نماز میں آپ کا نام لے کر دعا کرتا ہوں۔
میں کراچی کو محبت کی آنکھ سے دیکھتا ہوں کیونکہ میں جب سے پاکستان آیا ہوں کراچی میں ہی رہا ہوں۔ اور میرا ترقی کے لیے جو ویژن تھا وہ یہاں کام آیا اور میں نے لوگوں سے کہا بھی کہ میں جماعت اسلامی کا ویژن پیش کررہا ہوں، اس کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ کیونکہ میں نے زندگی کے 40 سال جماعت میں گزارے ہیں اور اس نے مجھے ویژن دیا ہے۔ میں نے امانت اور دیانت کا کلچر رائج کیا اور کرپشن کو ختم نہیں تو کم ضرور کردیا۔ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی حاصل تھی کہ میں صحیح بات سوچتا تھا اور صحیح کام کرتا تھا۔
فرائیڈے اسپیشل: کراچی کے تین بڑے مسائل کیا ہیں؟
نعمت اللہ خان : بڑے مسائل میں اسکول اور تعلیم سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔ امن و امان ایک مسئلہ ہے اس کو درست کرنا ہے۔ تیسرا مسئلہ صحت ہے، اس کو حل کرنا ہے۔