کراچی کی یادیں چند جھلکیاں

حافظ نعیم الرحمٰن کی قیادت اور محترم سراج الحق کی سرپرستی میں کراچی میں جماعت اسلامی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت دیکھ کر بہت سی پرانی یادیں تازہ ہوگئی ہیں۔ کراچی میں جماعت کی مقبولیت کا پہلا بے مثال مظاہرہ جو پانچویں جماعت کے طالب علم اور جماعت کے الیکشن ورکر کی حیثیت سے میری یادوں کی البم میں محفوظ ہے،1958ء کے بلدیاتی انتخابات ہیں۔ ان کی غیر معمولی اہمیت کی وجہ یہ تھی کہ کراچی وفاقی دارالحکومت تھا اور قیام پاکستان کے بعد یہاں پہلے انتخابات ہورہے تھے۔ 23 مارچ1956ء کو دستور کا نفاذ بھی عمل میں آچکا تھا۔ کراچی کے بلدیاتی الیکشن کے چند ماہ بعد عام انتخابات طے تھے اور ان کے رجحان کے تعین میں بھی اس بلدیاتی معرکے کو خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ وسائل اور افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے جماعت نے محدود نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے۔
لیاقت آباد اور فیڈرل کیپٹل ایریا کے بلدیاتی حلقے سے جہاں ہماری رہائش تھی، چار امیدواروں کا انتخاب ہونا تھا، اور جماعت نے ان میں سے صرف دو پر اپنے امیدوار نامزد کیے تھے۔ ان میں سے ایک پروفیسر غفور احمد تھے جنہوں نے بعد میں قومی سیاست میں قائدانہ کردار ادا کیا اور ملک کے موجودہ متفقہ آئین کی تیاری میں ان کا حصہ تاریخ ساز قرار پایا، دوسرے امیدوار لیاقت آباد جماعت کے کارکن عبدالستار خان شارق تھے جو بعد میں ناظم علاقہ شرقی بھی رہے۔ غفور صاحب کو جھگی اور شارق صاحب کو سائیکل کا انتخابی نشان الاٹ ہوا تھا۔ بلدیاتی الیکشن کی تیاری گھر گھر لوگوں سے رابطے کرکے کی گئی۔ پولنگ والے دن لیاقت آباد کی ناخواندہ خواتین بھی ووٹ دینے کے لیے بڑی تعداد میں نکلیں، جن کا کہنا تھا کہ وہ دواخانے والی پارٹی کو ووٹ دینے آئی ہیں۔ جماعت کی یہ شہرت اس کے گشتی شفاخانوں کی وجہ سے تھی جو ویگنوں میں قائم ہوتے تھے اور شہر کی عوامی بستیوں میں لوگوں کو ان کے گھر کی دہلیز پر علاج معالجے کی سہولت فراہم کرتے تھے۔ پولنگ کے عمل کے دوران جماعت کے الیکشن ورکر ووٹروں سے کہتے تھے کہ چار پرچیوں میں سے ایک جھگی اور ایک سائیکل والے ڈبے میں، اور باقی دو پھاڑ کر کالے ڈبے میں ڈال دیں، جو پولنگ بوتھ میں اسی لیے رکھا گیا تھا کہ اگر ووٹر کسی کو اپنے اعتماد کا حق دار نہ سمجھے تو اپنا ووٹ اس طرح ضائع کرکے اپنی رائے کا اظہار کرسکے۔
شام کو نتائج آئے تو میری یادداشت کے مطابق آٹھ ہزار سے کچھ زیادہ ووٹ جھگی، اور اس سے دوچار کم سائیکل کو ملے تھے، جبکہ تیسرے کامیاب قرار پانے والے امیدوار کے ووٹ ایک ہزار کے لگ بھگ تھے حالانکہ وہ بھی متعدد تعلیمی اداروں کے بانی ایک ممتاز اور نیک نام شخص تھے۔ یعنی صرف جماعت کے کہنے پر سات ہزار ووٹروں نے دو پرچیاں کالے ڈبے میں ڈال کر یہ اعلان کیا تھا کہ ان کے نزدیک جماعت اسلامی کے سوا کوئی ان کی نمائندگی کا اہل نہیں۔ مکمل نتائج سامنے آئے تو پتا چلا کہ جماعت نے اپنے لگ بھگ جو 25 کارکن الیکشن میں کھڑے کیے تھے ان میں سے 22 یا23 حریفوں پر بالعموم بھاری سبقت کے ساتھ کامیاب ہوگئے ہیں۔ اُس وقت الیکشن میں دھاندلی کے آج جیسے ترقی یافتہ طریقے ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ پھر بھی بعض حلقوں میں بیلٹ باکس وغیرہ بدلے جانے کی شکایات سامنے آئی تھیں۔ یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اگر اس الیکشن میں جماعت تمام نشستوں پر اپنے امیدوار لاسکتی تو ملک کے دارالحکومت کی بلدیاتی قیادت اسی کو ملتی۔
اگر میری یادداشت درست کام کررہی ہے تو معروف بیوروکریٹ روئیداد خان نے غالباً اپنی کتاب ’’پاکستان۔ اے ڈریم گون سور‘‘ میں لکھا ہے کہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے محض چند ماہ بعد اکتوبر1958ء میں ملک میں ایوب خان کے ہاتھوں لگنے والے مارشل لا کی ایک بڑی وجہ اس الیکشن میں جماعت اسلامی کی غیر معمولی مقبولیت کا انکشاف تھا، جس کی بنا پر اسلام سے الرجک مقامی عناصر ہی نہیں، امریکی پالیسی سازوں تک کو خطرہ محسوس ہوا کہ فروری 1959ء میں پاکستان میں جو عام انتخابات ہونے والے ہیں ان میں جماعت اسلامی ملک بھر میں بڑی کامیابی حاصل کرسکتی ہے، اور یوں ایک حقیقی اسلامی نظریاتی ریاست کی تشکیل میں نتیجہ خیز کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔ لہٰذا پاکستان میں امریکا کی تائید سے آئین اور جمہوریت سب کی بساط لپیٹ دی گئی۔
کراچی جمعیت کا احتجاجی جلوس اور ایوبی آمریت
کا خاتمہ ایک تاریخ ساز واقعے کی روداد
1968ء کی بات ہے، ایوبی آمریت کے خلاف ملک میں تحریک شروع ہوچکی تھی مگر عوام کی بھرپور شرکت کا مرحلہ نہیں آیا تھا۔ کراچی جمعیت نے ایک جمعہ کو احتجاجی جلوس نکالنے کا فیصلہ کیا اور طے پایا کہ کارکنان نمازِ جمعہ مولانا احتشام الحق تھانوی کی جیکب لائن والی مسجد میں پڑھیں گے، اور وہاں سے جلوس کی شکل میں جامع مسجد آرام باغ پہنچیں گے۔ جلوس پُرامن طریقے سے احتجاجی نعروں اور بینروں کے ساتھ روانہ ہوا۔ پولیس حکام کو اطمینان دلادیا گیا کہ ہماری طرف سے کوئی شرانگیزی اور پتھراؤ وغیرہ نہیں ہوگا۔ پولیس بھی پُرامن طور پر جلوس کے ساتھ ساتھ چلتی رہی، لیکن ایک بیرونی سازشی ٹولہ مسلسل کوشش کررہا تھا کہ کسی طرح پولیس کو جلوس کے شرکا کے خلاف مشتعل کیا جائے اور دونوں میں تصادم کرا دیا جائے۔ تمام راستے یہ ٹولہ اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکا اور جمعیت کے کارکن عملاً پولیس والوں کی حفاظت کرتے رہے۔ حتیٰ کہ جلوس کے شرکاء عصر کی جماعت میں شرکت کے لیے مسجد کے اندر پہنچ گئے اور نماز شروع ہوگئی۔
شرپسند میدان صاف پاکر پولیس پر پتھر برسانے لگے، اور جب پولیس نے لاٹھی چارج شروع کیا تو یہ لوگ بھاگتے ہوئے مسجد میں آگئے۔ ان کے پیچھے پولیس والے جوتوں سمیت آرام باغ کی مسجد میں گھس آئے جہاں نماز کے بعد دعا مانگی جارہی تھی۔ پولیس اہلکاروں نے اپنی روایتی فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسجد کے اندر اندھا دھند لاٹھی چارج شروع کردیا۔ نماز اور تلاوتِ قرآن میں مشغول لوگوں کو بھی نہیں بخشا۔ جمعیت کے بہت سے ساتھیوں سمیت متعدد نمازی بری طرح زخمی ہوئے۔ کراچی جماعت کا دفتر اُن دنوں صادق منزل آرام باغ میں تھا اور لاٹھی چارج سے جن نمازیوں کے سر پھٹے اُن میں نماز باجماعت میں شریک کراچی جماعت کے سیکریٹری اور جمعیت میں ہمارے مربی اور ناظم اعلیٰ رہنے والے، اور بعد میں جماعت اسلامی پاکستان کی سربراہی کے منصبِ جلیلہ تک پہنچنے والے محترم بھائی منور حسن صاحب بھی شامل تھے ۔ ہم نے بھی لاٹھیاں کھائیں مگر الحمدللہ کئی کاری وار ہاتھوں میں تھامے ہوئے بوٹوں کی ڈھال پر روکنے میں کامیاب رہے، اس لیے شدید زخمی ہونے سے بچ گئے۔
روزنامہ مشرق اُن دنوں سرکاری پریس ٹرسٹ کی ملکیت تھا۔ اس کے ایک فوٹو گرافر بھی مسجد میں تھے اورغالباً عسکری صاحب کہلاتے تھے۔ یہ فلم اور رول کا زمانہ تھا۔ عسکری صاحب پولیس کے غیظ و غضب کی پروا نہ کرتے اور پروفیشنل ازم کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے لاٹھی چارج کے مناظر کو اپنے کیمرے میں محفوظ کررہے تھے۔ آخرکار پولیس والوں کا ایک جتھا اس ’’گستاخی‘‘ کا مزہ چکھانے کے لیے اُن پر جھپٹا۔ لاٹھیوں کی بارش سے نہ صرف اُن کا سر پھٹا بلکہ وہ بری طرح زخمی ہوکر بے ہوش ہوگئے۔ کیمرہ چھین لیا گیا مگر پولیس اہلکار یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس میں کوئی رول ہی نہیں تھا۔
حکومت نے مسجد میں لاٹھی چارج کے واقعے کی خبر کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے۔ سینہ بہ سینہ پھیلنے والی خبر کو اُس وقت کے کمشنر کراچی دربار علی شاہ نے محض افواہ اور حکومت کے خلاف سازش قرار دیا۔ بہت سے ساتھی گرفتار ہوئے لیکن ہم کسی طرح مسجد سے نکل کر ایک رکشہ پکڑنے میں کامیاب ہوگئے، اور اسکول کے ایک جمعیتی ساتھی کو اُس کے گھر پر چھوڑتے ہوئے اپنے گھر پہنچے۔ آرام باغ اور برنس روڈ وغیرہ کے علاقوں میں اس واقعے کے بعد رات بھر لوگوں کا احتجاج جاری رہا اور پولیس کے ساتھ آنکھ مچولی ہوتی رہی۔ لیکن باقی شہر میں اس کی تفصیلات کم ہی لوگوں تک پہنچ سکیں، کیونکہ اُس دور میں سوشل میڈیا اور نجی چینلوں کا کوئی تصور نہ تھا، لینڈ لائن فون بھی تعیشات میں شمار ہوتا اور عام آدمی کی دسترس سے باہر تھا۔ ریڈیو پاکستان حکومت ہی کا ایک محکمہ تھا، اورنجی اخبارات بھی حکومت کی مرضی کے خلاف کچھ شائع نہیں کرسکتے تھے۔ اس ماحول میں جب ہم نے فجر کی نماز کے بعد اپنے اہلِ محلہ کو آرام باغ کی مسجد میں پیش آنے والے واقعے کی تفصیلات بتائیں تو محسوس ہوا کہ لوگوں کو ہماری بات پر یقین نہیں آرہا ہے۔ لیکن کچھ دیر بعد جب اخبارات مارکیٹ میں آئے تو جہاں دوسرے اخبارات میں کمشنر کراچی کا تردیدی بیان لگا تھا، وہیں سرکاری اخبار ”روزنامہ مشرق“ کا پہلا اور آخری صفحہ اور غالباً اندر کے دو صفحات بھی جامع مسجد آرام باغ میں پولیس کی دہشت گردی کی ہولناک تصاویر سے بھرے ہوئے تھے۔ اُس دن مشرق کی ایک کاپی بھی اسٹالوں پر نہیں بچی، جبکہ پورا شہر سراپا احتجاج بن گیا، اور اس کے بعد ایوب حکومت کے خاتمے تک کراچی کے لوگ چین سے نہیں بیٹھے۔
لیکن پریس ٹرسٹ کے اخبار نے حکومت کے خلاف اتنا بڑا قدم اٹھا کیسے لیا؟ یہ سوال ہمارے لیے معمّا بنارہا، یہاں تک کہ ہم عملی صحافت میں آئے جس کا آغاز جسارت سے ہوا۔ جسارت بھٹو دور کے آخری تین برسوں میں مسلسل بند رہا۔ ضیاء دور میں اخبار کی بحالی کے دو تین سال بعد روزنامہ مشرق کے سابق نیوز ایڈیٹر عرفان غازی صاحب جسارت میں ایگزیکٹو ایڈیٹر کی حیثیت سے آئے تو اُن سے روزنامہ مشرق کے اس معرکے کی روداد سننے کا موقع ملا۔ غازی صاحب نے بتایا کہ جس دن جامع مسجد آرام باغ میں جمعیت کے جلوس کے شرکا اور نمازیوں پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا تو مشرق کے فوٹوگرافر عسکری صاحب نے نہایت ہوشیاری سے کیمرہ چھینے جانے اور زخمی ہوکر بے ہوش ہونے سے پہلے رول نکال کر ایک قابلِ اعتماد ساتھی کے حوالے کردیا تھا جس نے یہ رول دفتر پہنچا دیا۔ یہ اطلاع اسلام آباد میں اخبار کے ہیڈ آفس بھی پہنچ گئی اور وہاں سے سخت ہدایات دی گئیں کہ مسجد کے اندر ہونے والے لاٹھی چارج کی ایک تصویر بھی شائع نہیں ہوگی، بلکہ صرف کمشنر کراچی کا بیان نمایاں طور پر چھپے گا۔ عرفان غازی صاحب نے بتایا کہ انہوں نے نائٹ شفٹ کے ساتھیوں کے ساتھ حسبِ معمول عام خبروں پر مشتمل پوری کاپی پریس بھیجنے کے لیے تیار کی اور صرف ایک کاتب اور کیمرہ مین کو رازداری کے ساتھ روک لیا، باقی پورے عملے کو رخصت کرنے کے بعد انہوں نے عسکری صاحب کے بھیجے ہوئے پورے رول کو ڈیولپ کرایا اور جامع مسجد آرام باغ کے اندر پولیس کے لاٹھی چارج کی ضروری تفصیل اور سرخیوں کے ساتھ یہ تمام تصاویر اخبار کے پہلے اور آخری صفحے پر لگاکر اخبار پریس بھیج دیا اور ساتھ ہی استعفیٰ لکھ کر ایڈیٹر کی میز پر چھوڑ آئے۔ اس طرح ایک فوٹو گرافر اور ایک نیوزایڈیٹر کی بہادری اور فرض شناسی کے نتیجے میں پولیس کی اس مذموم کارروائی کو چھپانے کی ساری سرکاری کوششیں سو فی صد ناکام ہوگئیں، اور اگلی صبح سے پورے کراچی ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں ایوبی آمریت کے خلاف جاری تحریک پہلے سے کہیں زیادہ تیز ہوگئی جو آخرکار اس دس سالہ آمریت کے خاتمے پر منتج ہوئی۔
کچھ یادیں جسارت کے حوالے سے
بھٹو دور میں بلوچستان اسمبلی توڑی گئی اور وہاں فوجی کارروائی شروع کی گئی تو جسارت نے اس جمہوریت کُشی پر نہایت پُرزور صدائے احتجاج بلند کی۔ جسارت کی خصوصی اشاعت ’’بلوچستان جل رہا ہے‘‘ کی سرخی کے ساتھ منظرعام پر آئی۔ بلوچستان کی سیاسی قیادت اور عوام پر اس کا نہایت مثبت اثر ہوا۔ تمام جمہوریت پسند عناصر نے جسارت کی اس جرأت مندی پر خراجِ تحسین پیش کیا، لیکن بھٹو حکومت نے جسارت پر پابندی لگادی۔ جسارت کے ایڈیٹر، پبلشر اور پرنٹر گرفتار کرلیے گئے اور کارکنوں نے چندریگر روڈ پر احتجاجی کیمپ لگا لیا۔ سردار عطاء اللہ مینگل سمیت بہت سے سیاسی رہنما جسارت کے کارکنوں کی حوصلہ افزائی کے لیے کیمپ کا دورہ کرنے آتے رہے۔ جسارت کے کارکنوں نے خود بھی سیاسی قائدین سے رابطوں کا فیصلہ کیا تاکہ بلوچستان کے لوگوں کی حق تلفی کو روکا جاسکے۔ نصر اللہ مخدومی صاحب ہمارے ایک سینئر اور نہایت مخلص اور پُرجوش ساتھی تھے۔ حافظ محمد موسیٰ بھٹو اور مجھے اُن کی سربراہی میں پیر پگارا سے ملاقات کے لیے بھیجا گیا۔ پیر صاحب نے بڑی عزت سے ہمیں بٹھایا اور بات چیت شروع کی۔ لیکن ہمارے گروپ لیڈر مخدومی صاحب نے عجیب بے سروپا باتیں شروع کردیں۔ جلد ہی ہمیں اندازہ ہوگیا کہ حالات کے دباؤ نے اُن کے اعصاب کو بری طرح متاثر کیا ہے اور وہ ذہنی توازن کھوچکے ہیں۔ ہم دونوں ان سے بہت جونیئر تھے اس لیے انہیں کنٹرول کرنا ہمارے لیے آسان نہیں تھا۔ پیر صاحب کو بھی صورتِ حال کا اندازہ ہوچکا تھا۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح ہم لوگوں نے مخدومی صاحب کو سنبھالا اور کیمپ واپس آنے پر تیار کیا۔ مخدومی صاحب کا مرض تیزی سے بڑھا، اس کے باوجود وہ جسارت کے کیمپ اور دفتر آتے تھے اور حالتِ جنون میں بڑے پتے کی باتیں کرجاتے تھے۔ جسارت کی بحالی کی تحریک اُن کے خیال میں جس تیزرفتاری سے چلنی چاہیے تھی اس طرح نہیں چل رہی تھی، اس لیے وہ طنزاً جسارت کے دفتر میں آنے کے بعد سلام ان الفاظ میں کرتے تھے ’’السلام علیکم یا اہل القبور‘‘۔
ایک اور واقعہ بھٹو دور کے بالکل ابتدائی دنوں کا ہے۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد جنرل یحییٰ افراتفری میں رخصت ہوئے اور بھٹو صاحب نے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا۔ محترم الطاف حسن قریشی اور مجیب الرحمٰن شامی صاحب نے ہفت روزہ زندگی میں صورتِ حال پر ایسے تبصرے کیے جو تازہ دم مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی طبع نازک پہ سخت گراں گزرے۔ یہ دونوں حضرات گرفتار کرلیے گئے اور فوجی عدالت میں ان پر مقدمہ چلا۔ ان دونوں نے اپنے اوپر لگائے گئے ملک سے غداری وغیرہ کے الزامات کا الگ الگ نہایت مختصر اور پُراثر تحریری جواب دیا۔ یہ بیان کسی طرح عدالت سے باہر آگیا اور اس کی دوچار سائیکلواسٹائل کاپیاں نہایت رازداری کے ساتھ کراچی میں جسارت کے دفتر بھی پہنچیں۔ صلاح الدین صاحب سے ایک ایک کاپی مجھے بھی مل گئی۔ مارشل لا کورٹ میں دیے گئے اس بیان کی خاص بات یہ تھی کہ دونوں حضرات نے بیان کے آخر میں مارشل لا مُردہ باد کا نعرہ درج کیا تھا۔ ملک کا ماحول نہایت کشیدہ تھا اور لوگ شدید خوف زدہ تھے۔ لیکن یہ بیانات اتنے اثرانگیز تھے کہ اگلی صبح میں گھر سے دفترِ جسارت کے لیے نکلا تو پہلے فریئرروڈ کی پیپر مارکیٹ پہنچا۔ سائیکلواسٹائل پیپر کا ایک دستہ اور دو اسٹینسل خریدے۔ جمعیت میں اسٹینسل لکھنے کا مجھے خوب تجربہ ہوگیا تھا۔ اس کے بعد آرام باغ پر جماعت کے دفتر پہنچ کر کسی کو کچھ بتائے بغیر دونوں بیانات ایک ایک اسٹینسل پر لکھے اور دفتر جماعت کی سائیکلواسٹائل مشین سے ایک ہی کاغذ کے دونوں طرف پرنٹ کرلیے۔ بیانات کے آخر میں لکھ دیا کہ ملک و قوم کو تباہی سے بچانے کے لیے ان بیانات کی زیادہ سے زیادہ نقلیں تیار کرکے لوگوں تک پہنچائیے۔ پھر یہ پانچ سو کاپیاں لے کر دفتر جماعت سے نکلا اور مختلف بسوں میں اور دکانوں میں یہ پمفلٹ ڈالتا چلا گیا۔ اسٹریچن روڈ پر جمعیت کے بند دفتر میں بھی کچھ کاپیاں ڈال دیں اور کچھ کاپیاں دفتر جسارت لے آیا۔ بعض محتاط دوستوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ہینڈ رائٹنگ کی مدد سے ایجنسیاں لکھنے والے کا سراغ لگا سکتی ہیں، لیکن اللہ کے فضل سے ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔ دوچار دن میں یہ بیان پورے شہر میں پھیل گیا، کیونکہ مختلف افراد اور تنظیموں خصوصاً پی آئی اے کے کارکنوں کی تنظیم پیاسی نے اس کی بڑے پیمانے پر نقلیں کراکے تقسیم کرایا۔ شہر سے خوف کی فضا کو ختم کرنے میں اس بیان نے بڑا کام کیا۔