کراچی… تاریخ کے جھروکے (19ویں صدی کا کراچی)

کراچی کا اصل قدیم نام کیوں بدلا گیا؟

موجودہ کراچی، 1843ء میں جب فرنگیوں نے سندھ کے تالپور حکمران فتح علی تالپور کو شکست دے کر فتح کیا تو انہوں نے انگریز جرنیل چارلس نیپئر کی قیادت میں فیصلہ کیا کہ سندھ کا دارالحکومت حیدرآباد کی بجائے ساحل سمندر پر جدید طرز پر بنایا جائے۔ کافی تحقیق کے بعد دفاعی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ کراچی کی بستی اس مقصد کے لیے موزوں ہے۔ اس مقصد کے لیے رچرڈ برٹن کی قیادت میں کمیٹی نے باقاعدہ رپورٹ پیش کی، اس وقت کراچی کی بستی کا نام ’’قریشی‘‘ تھا جو فتح سندھ کے بعد عرب قریشیوں نے بسائی تھی۔ یہ چراغ مصطفویؐ تھی۔ 712ء میں محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا اس کی آمد سے پہلے حجاج بن یوسف نے سندھ میں ڈاکوئوں سے عرب قیدیوں کو چھڑانے کے لیے عبداللہ بن نبھان کی قیادت میں ایک لشکر بھیجا مگر اسے ناکامی سے دوچار ہونا پڑا اور لشکر کے کئی جانباز جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جن میں سپاہ سالار عبداللہ بن نبھان بھی شامل تھے۔ حجاج بن یوسف کو اس ناکامی پر کافی قلق ہوا اور اس نے اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کی قیادت میں لشکر جرار کہنہ مشق کمانڈروں کی سربراہی میں بڑے اہتمام سے روانہ کیا۔
ڈاکٹر عمر دائود پوتہ کی ”تعلیقات تاریخ معصومی“ کے مطابق کراچی میں کلفٹن کے مقام پر آج بھی عبداللہ بن نبھان کا مزار موجود ہے۔ عبداللہ بن نبھان جو قریشی تھے ان کے نور چشم نور شاہ غازی جو محمد بن قاسم کے استاد تھے جن کا مزار تین ہٹی سے گرومندر جانے والی جہانگیر روڈ پر آج بھی موجود ہے جہاں ان کی مرقد پر صراحت سے لکھا ہوا ہے کہ آپ محمد بن قاسم کے استاد ہیں۔ عبداللہ شاہ غازی قریشی کے چھوٹے بھائی حسن شاہ غازی جو محمد بن قاسم کی فوج میں سپہ سالار تھے ان کا مزار جوڑیا بازار برتن گلی میں آج بھی موجود ہے جہاں مزار پر باقاعدہ لکھا ہوا ہے کہ آپ عبداللہ شاہ غازی قریشی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ محمد بن قاسم کے ساتھ آنے والے کہنہ مشق سپہ سالار یوسف شاہ غازی قریشی ہیں جن کا مزار منوڑا میں موجود ہے۔ ان قریشیوں نے ساحل سمندر کے کنارے اپنی رہائش کے لیے ’’کنٹونمنٹ‘‘ بنائی جس کا نام ’’قریشی‘‘ رکھا۔ ان قریشیوں کا قبرستان بندر روڈ پر میمن مسجد کے نیچے ہے۔ عربی مصادر سے پتہ چلتا ہے کہ فتح سندھ کے بعد یہاں کئی ہزار عرب بالخصوص قبائل قریش ہباری اور تمیمی بسائے گئے جنہوں نے اس قریشی بستی میں ’’کھجور بازار‘‘ بنایا جو آج بھی اولڈ ٹائون میں موجود ہے۔ عربوں کی آمدورفت بذریعہ سمندر ہوتی تھی۔ عراق کے شہر بغداد سے بغرض تجارت وہ اس آبادی میں آکر رہائشی ہوگئے، ان کا محلہ ’’بغدادی‘‘ اب بھی لیاری میں موجود ہے جو چراغ مصطفویؐ کے امین تھے۔ عربوں کی بار برداری کا جانور اب بھی کراچی میں ’’اونٹ‘‘ کی صورت میں ماضی کی یاد تازہ کرتا ہے۔
دریں اثنا ساحل سمندر پر عربوں کا شکاری پرندہ ’’عقاب‘‘ کی بریڈنگ کا مقام ’’ہاکس بے‘‘ کس کی نشاندہی کرتا ہے؟ جسے ختم کرکے کچھوئوں کی بریڈنگ کی آماجگاہ بنادیا گیا ہے مگر ’’بحرۂ عرب‘‘ بھی نہ بدل سکا اور نہ ہی عقابوں کا نشیمن ہاکس بے چھپ سکا۔

سقوط کراچی کیسے ہوا؟
کئی برطانوی جنگی جہازوں نے منوڑہ کے قلعہ پر مسلسل تین گھنٹے تک گولہ باری کرکے قلعہ کے مغربی حصہ کو تباہ کردیا تھا۔ ’’ویلزلی‘‘ بحری جہاز کی توپوں سے برسائے گئے گولوں کے دھوئیں نے نہ صرف بندرگاہ کے علاقے بلکہ شہر تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ شہر میں ایسا خوف ناک اندھیرا چھا گیا تھا کہ دن کے وقت رات کا گمان ہونے لگا تھا۔ ان حالات میں تالپوری حکام خیر محمد اور حاجی علی رکھا انگریزوں کے منظور نظر دیوان نائومل ہوت چند کے بھائی پریتم داس کی کوٹھی پر گئے اور اس کی وساطت سے برطانوی حملہ آور افواج کے سربراہ کو مزید گولہ باری سے باز رکھنے کے لیے پیغام بھجوایا۔ بمباری کے دھوئیں کی وجہ سے شہر کی فضا اس قدر مکدر ہوگئی تھی شہریوں کا سانس لینا دوبھر ہوگیا تھا۔ فرنگی جو خود کو دنیا کی مہذب قوم باور کراتے ہیں بغیر کسی اعلان جنگ کے بلاجواز کراچی پر حملہ آور ہوئے۔
کراچی کے فوجی گورنر خیر محمد کا نمائندہ واصل بن بچہ خان بندرگاہ کے باہر لنگر انداز حملہ آور جنگی بحری جہاز ’’ویلزلی‘‘ پر کراچی سے دست برداری کے لیے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے پہنچا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے بحریہ کے کمانڈر انچیف ریئر ایڈمرل سرفریڈلک لیوس، ریئر ایڈمرل مٹ لینڈ اور سندھ میں برطانوی افواج کا کمانڈر تھامس ویلنٹ کراچی سے دست برداری کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے پہلے سے ’’ویلز لی‘‘ پر موجود تھے۔ اس طرح 3 فروری 1839ء کو کراچی کے سقوط کے معاہدے پر دستخط ہوگئے اور تالپور حکمرانوںنے فوجی گورنر خیر محمد اور سول حاکم علی رکھا نے دستخط کیے۔ انگریزوں کی طرف سے ایک دستخط ملکہ وکٹوریہ کی چالیسویں رجمنٹ کے میجر جے چیو (J.Chav) اور شاہی افواج کے ترجمان لیفٹیننٹ پوسٹانس نے کیے، بعدازاں ایک شرمناک تقریب شکست میں 7 فروری 1839ء کو کراچی کے فوجی بلوچ گورنر خیر محمد نے باقاعدہ طور پر کراچی شہر کی کنجیاں انگریزوں کی خدمت میں پیش کردیں۔
بحوالہ:
(1) Correspondence relates to sind (1836-1843)
(2)Memoirs of Naomal Hotchand Appendix V
قدرت اللہ شہاب ایک برطانوی فوجی افسر کی ڈائری جو لندن کے اشاعتی ادارہ جیمس میڈن نے 1851ء میں شائع کی۔ اس کے ترجمہ میں رقم طراز ہیں (یہ فوجی افسر کراچی پر حملہ کرنے والی برطانوی فوج میں شامل تھا)۔
’’کراچی داخل ہوتے ہی انسان کے کان، ناک اور آنکھیں بڑی شدت سے متاثر ہوتی ہیں۔ سماعت کے لیے چاروں طرف ایک مرثیہ نما موسیقی پھیلی ہوئی ہے۔ بازار والوں کی چیخ وپکار، عورتوں کی گالم گلوچ، کتوں کی لمبی تانیں اور گدھوں کی ڈھینچوں، ڈھینچوں کی مسلسل آوازیں عجیب سماں پیدا کرتی ہیں۔ سڑکوں پر جابجا گلی سڑی مچھلیوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ ان کا تعفن قوت شامہ کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ شہر میں نالیوں کا کوئی رواج نہیں ہے، گندے پانی کی نکاسی ’’عمل تبخیر‘‘ کے ذریعہ انجام پاتی ہے۔ وہ اشیا جو گھروں میں کام نہیں آتی وہ گھروں کے باہر پھینک دی جاتی ہیں، صفائی کا زیادہ تر کام کوئوں، چیلوں اور کتوں کے سپرد ہے۔ چھوٹی چھوٹی تاریک دکانوں سے ہلدی اور کڑوے تیل کی تیز لپٹیں باہر آتی رہتی ہیں۔ ان نوع بنوع خوشبوئوں کو سونگھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تازہ بتازہ لاشوں کو حنوط کیا جارہا ہے۔
مکان مٹی کے بنے ہوئے ہیں جن میں کھڑکیاں ناپید ہیں البتہ چھوٹے چھوٹے بادگیروں میں سوکھی ہوئی مچھلیاں سیخوں میں پروئی ہوئی نظر آتی ہیں، مرد لمبے اور تن آور ہیں، عورتوں کے لباس شوخ اور رنگین ہیں، مسلمان کی پہچان ان کی لمبی لمبی اور گھنی گھنگھریالی داڑھیاں ہیں، ہندوئوں کا رنگ زردی مائل ہے، کالے کالے سرخ ہونٹوں والے حبشی پانی کی مشکیں اٹھائے پھرتے ہیں، موٹے موٹے بنئے دبلے پتلے ٹٹوئوں پر اینٹھ کر بیٹھتے ہیں۔ مسلمانوں کے عہد سے انہیں گھوڑوں اور خچروں پر بیٹھنے کی ممانعت تھی، گھروں اور دکانوں کے سامنے بیٹھ کر برسرعام اجابت کی جاتی ہے۔ مسلمان کیکر یا نیم کی ٹہنیاں بطور مسواک استعمال کرتے ہیں، ہندو سفید مٹی میں سرسوں ملاکر صابن کی طرح استعمال کرتے ہیں، نہانے کے لیے لیاری ندی ہے جہاں بظاہر پانی نظر نہیں آتا مگر چھوٹے چھوٹے گڑھے کھود کر ان میں پانی جمع کیا جاتا ہے، لوگ اسی پانی سے مچھلیاں صاف کرتے ہیںغسل کرتے ہیں اور پھر یہی پانی مٹکوں میں بھر کر پینے کے لیےلے جاتے ہیں‘‘۔
جنرل چارلس نیپئر جو سندھ پر حملہ کرنے والی برطانوی افواج کا کمانڈر انچیف تھا اپنی کتاب ’’عسکری زندگی کی تجلی اور تاریکی‘‘ (Light and Shadow of Military Life) میں اعتراف کرتا ہے۔
’’اگرچہ سندھ پر قبضہ کرنے کا ہمارے پاس کوئی جواز نہیں تھا تاہم ہم نے سندھ پر قبضہ کرلیا اور یہ ہماری مکاری اور دغا بازی کا ایک مفید کرشمہ ثابت ہوا‘‘۔
اپنی کتاب کے صفحہ نمبر323 پر سندھ کیا پورے ہندوستان پر انگریزوں کے قبضہ کا اصل مدعا تحریر کرتے ہوئے انتہائی ڈھٹائی سے مزید انکشاف کرتا ہے جو ہمارے آنکھیں کھولنے کے لیے شرار بولہبی کی خباثت تسلیم کرتا ہے۔
’’ہمارا ہندوستان پر قبضہ کرنے کا مقصد اور تمام بے رحمیوں کا مدعا صرف حصول زر تھا۔ گزشتہ سات سالوں میں ہم نے ہندوستان سے ایک ارب اشرفیاں حاصل کی ہیں۔ اگر اس رقم کا ہر شلنگ خون سے رنگین ہے، مگر اس کو ہم نے صاف کرکے اپنی جیب میں ڈال لیا ہے تاہم مقتولین کے خون کا دھبہ ہمیشہ قائم رہے گا‘‘۔
سندھ کے تالپور حکمران خیرپور اور حیدرآباد کے میروں میں جذبہ جہاد مفقود تھا البتہ میرپورخاص کے میر شیر محمد خان دوبوئی لڑائی میں جنرل ہوش محمد قنبرانی نے انگریزوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا جو 26 مارچ 1843ء میں ’’سر دے دوں سندھ نہیں دوں گا‘‘ کا نعرہ تکبیر بلند کرنے میں جرأت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ فرنگیوں نے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے ’’حضرت ہوش محمد قنبرانی شہید‘‘ کا ابلاغ عامہ میں نام بگاڑ کر ’’ہوشو شیدی‘‘ کردیا اور اس کے مرہٹہ ہندو گماشتے ایجوکیشن انسپکٹر نارائن جگن ناتھ دید (N.J.V) نے سندھ کے تعلیمی اداروں کے نصاب میں ’’ہوشو شیدی‘‘ کا نام شامل کردیا آزادی حاصل کرنے کے بعد حضرت جنرل ہوش محمد قنبرانی شہید کو ’’ہوشو شیدی‘‘ لکھتے ہو شرم محسوس نہیں کرتے۔
تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
(اقبال)
کراچی کے نظریاتی تشخص سے علمی کوتاہی!
کراچی کی نئی نسل میں شرار بولہبی راسخ کرنے کے لیے ہمارے تعلیمی اداروں میں طلبہ کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ امریکہ کولمبس اور افریقہ بونگ اسٹون نے دریافت کیا۔ انہیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ کولمبس نے بحری علوم کی تعلیم اسلامی تعلیمی اداروں سے حاصل کی تھی، اس کے پاس کمپاس رہنمائی کے لیے تھا، جو عربوں کا ایجاد کردہ تھا۔ کولمبس کے پاس بحری سفر کےلیے وہ نقشے تھے جو عرب جہازراں بحرۂ روم، بحرۂ قلزم، بحر ہند اور بحر الکاہل کے سمندری اسفار میں صدیوں سے استعمال کررہے تھے جو چراغ مصطفویؐ کے دیدہ ور تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جو قوم اپنی کہانی غیروں کی زبانی سنتی ہے اس کا یہی حشر ہوتا ہے، وہ غیر کا مقابلہ تو رہا ایک طرف اس کے سامنے تک آنے کی جرأت نہیں کرسکتی، وہ اپنے حقوق کیا لے گی وہ اپنا وجود تک تسلیم نہیں کراسکتی؟‘‘۔
انگریزوں کے ساتھی دیوان نائومل ہوت چند نے کراچی کی تاریخ کو مسخ کرنے میں فرنگی سامراج کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس کی بدنام زمانہ کتاب ’’نائومل کی یادیں‘‘ (Memories of Naomal) میں خود ساختہ کہانی گھڑی گئی۔ ’’جب سندھ میں نور محمد کلہوڑہ کی حکومت تھی سندھ کی سرحدیں ایک طرف سبی، بلوچستان تک اور دوسری جانب ملتان تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ان دنوں کراچی کی سرزمین پر صرف مچھیرے آباد تھے جو مچھلی کے شکار پر گزر بسر کرتے تھے۔ انہی مچھیروں میں ایک خاتون جس کا نام ’’قلاچی‘‘ تھا یہاں آباد تھی، وہ خاتون ایک دانا اور معزز عورت تھی، وہ عموماً مچھیروں کے روزمرہ کے خاندانی اور گھریلو جھگڑوں کا تصفیہ کرتی تھی، اسی خاتون کے نام پر اس جگہ کا نام ’’قلاچی‘‘ پڑا تھا۔ یہ شرار بولہبی کا بڑا علمبردار تھا۔
عربوں کی اس آبادی قریشی کے دو دروازے تھے ایک کھارادر اور دوسرا میٹھادر تھا۔ 1729ء میں کھڑک بندر کی تباہی کے بعد وہاں کی ہندو آبادی بھوجومل کی قیادت میں اس آبادی میں رہائش پذیر ہوگئی۔ بھوجومل تاجر تھے، انہوں نے اس آبادی کے مقامی عربوں کی مشاورت سے اولڈ ٹائون کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق تعمیر جدید کی۔ بھوجومل ہندو کی آبائی رہائش ’’سیہون‘‘ تھی، یہ ساحل سمندر میں اس نے تجارتی کوٹھی تعمیر کی، مرزا عیسیٰ خان ترخان اول کے دور میں 1557ء میں ایک ترک جہازراں کیپٹن سعید علی نے برصغیر کی بندرگاہوں کی تحقیقات کی غرض سے بحرۂ عرب کا مطالعاتی دورہ کیا۔ اس نے اپنی تحقیقات کا حال اپنی کتاب ’’المحیط‘‘ میں درج کیا ہے۔ ’’المحیط‘‘ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بحرہ عرب کے ساحل پر ’’قریشی بندرگاہ‘‘ ان دنوں ایک معروف بندرگاہ تھی اور اس کا رابطہ پوری دنیا سے قائم تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سلطنت ترکی دنیا کی عظیم ترین مملکت تھی اور دنیا کی کوئی دوسری طاقت اس کی ہم پلہ نہ تھی۔ پورا عالم عرب، روس، ترکستان اور مشرقی یورپ اس کے زیرنگیں تھا۔ ترکی کا بحری بیڑہ دنیا کا سب سے بڑا اور مؤثر ترین تھا۔ ترک دنیا کی تمام بحری راستوں کے شناور تھے۔ کیپٹن سعید علی کی تحقیقی کتاب ’’محیط‘‘ مکہ معظمہ سے عربی میں شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کا ترجمہ متشرق بیرن جوزف وان ہیمر(Baron Joseph von Hammer) نے کیا۔ ’’المحیط‘‘ میں کپٹن سعید علی نے دیو، کاٹھیاواڑ کے علاوہ خلیج فارس کی مسقط و ہرمز سمیت کئی بندرگاہوں کا ذکر کیا ہے۔ کیپٹن سعید علی کے جہاز کے تمام ملاح عراق سے تعلق رکھتے تھے۔ ترک کپتان سعید علی ’’محیط‘‘ میں رقمطراز ہیں۔
’’بحرۂ عرب میں داخل ہوکر جس وقت یہ محسوس ہونے لگے کہ جہاز ایرانی بندرگاہ ’’جاشک‘‘ کی جانب سمندری گرداب میں جارہا ہے تو جہاز کو گرداب سے بچانے کے لیےساحل مکران سے یا تو بندرگاہ گوادر کی جانب لے جایا جائے یا پھر بندرگاہ ’’قریشی‘‘ میں پناہ لی جائے۔ ’’قریشی‘‘ لاہور اور ملتان کی بندرگاہ ہے۔ اس طرح جہاز کو نہ صرف غرق ہونے سے بچایا جاسکتا ہے بلکہ سمندری گرداب سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے‘‘۔
یوں ’’محیط‘‘ کے مطالعہ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ترخانی دور میں سولہویں صدی عیسوی میں نہ صرف ’’قریشی‘‘ بندرگاہ موجود تھی بلکہ لاہور اور ملتان کی بندرگاہ کے نام سے دنیا بھر میں شہرت بھی رکھتی تھی، جو چراغ مصطفوی کی زندہ علامت تھی۔
میسور کے مسلمان حکمران حیدر علی کے بزرگوں کا تعلق اور نسب حضرت عبداللہ شاہ قریشی (کلفٹن) سے تھا۔ اس کے ہونہار سپوت فتح علی ٹیپو سلطان نے اس کی وفات 7 دسمبر 1772ء کے بعد اقتدار سنبھالا اور اپنے آبائی شہر ’’قریشی‘‘ میں کوٹھی اور باغ لگوایا جو آج بھی اس کی یاد تازہ کرتا ہے۔ ٹیپو سلطان نے فرنگیوں سے جنگ لڑتے ہوئے 5 مئی 1799ء میں جام شہادت نوش کیا۔ سرنگاپٹم میسور میں شہید بلوچوں کی قبریں اس حقیقت کا پردہ چاک کرتی ہیں۔ 1843ء میں سندھ پر فرنگی قبضہ کے بعد اس کے باغ کے چار ٹکڑے کردیے گئے ایک حصہ غدار نائومل کے حصہ میں آیا اور جہاں آج بھی ٹیپو سلطان کے ہاتھ کے لگے ہوئے املی کے درخت موجود ہیں جو اب گاندھی گارڈن کہلاتا ہے۔
انگریزوں نے دوسرے حصہ پر گارڈن پولیس اسٹیشن بنایا، دو حصے پارسیوں اور بوہریوں میں بانٹ دیے جہاں آج ’’بوہرا پیر‘‘ اور ماما پارسی اسکول ہیں۔ یہ حقائق ماثرالامرا جلد اول صفحہ 600 میں محفوظ ہیں جو اردو سائنس بورڈ لاہور سے شائع ہوئی۔ اور”نشان حیدر“ سے ماخوذ ہیں۔سید ہاشمی فرید آبادی مصنف تاریخ مسلمانان پاکستان و بھارت جلد دوئم شائع کردہ انجمن ترقی اردو کراچی صفحہ 638 میں رقمطراز ہیں کہ الیگزینڈر ایف بیلی کی کتاب ’’قریشی‘‘ (Kurracher) حال، ماضی، مستقبل طبع 1890ء لندن میں ترکی لفظ میں جرمن ترجمہ کے بعد نام میں غلط فہمی ہوئی۔ یہ کتاب اب آکسفرڈ یونیورسٹی پریس پاکستان سے بھی طبع شدہ ہے جس میں ’’قریشی‘‘ ہی لکھا ہوا ہے، اس شہر کانام انہی دانستہ غلط فہمیوں سے بگاڑا گیا تاکہ نئی نسل کو تاریخی ادراک نہ ہوسکے۔
انیسویں صدی کے توسط تک کراچی میں کئی بینک قائم ہوگئے۔ 1860ء میں کراچی چیمبر آف کامرس کا قیام عمل میں آیا جس کے اکثر ارکان فرنگی تھے، انہیں لفظ قریشی “Kurrachee” ایک آنکھ نہ بھایا۔ اس کے ارکان کا باقاعدہ اجلاس منعقد ہوا اور ایک قرارداد کے ذریعے شہر کو کراچی (Karachi) نام دیا گیا ور 1860ء میں فرنگی حکومت جو پہلے ہی 1857ء کی جنگ آزادی سے زخم خوردہ تھی نے عالم اسلام کے سب سے بڑے شہر کو مجہول نام دے کر اپنے کلیجے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بھلا جھجک فرنگی چیمبر آف کامرس کی قرارداد کو منظور کرلیا اور 1860ء میں سرکاری گزٹ میں اس نام کی وضاحت کردی گئی اور تمام سرکاری و نجی اداروں کو اس امر کا پابند کردیا گیا کہ آئندہ اس شہر کا نام کراچی لکھا جائے۔ شرار بولہبی کی مکروہ علامت! فاتح سندھ چارلس نیپئر نے ’’لڑائو اور حکومت کرو‘‘ کے فرنگی اصول پر عمل کرتے ہوئے ہندو رعایا کو ہمدرد ثابت کرنے کے لیے افغانستان کے شہر ’’غزنی‘‘ کی جامع مسجد کا دروازہ اکھڑوا کر کراچی لے آیا اور کہاکہ ’’یہ محمود غزنوی کا سومنات مندر کا لوٹا ہوا دروازہ ہے‘‘، ہندو اس کے اقدام پر پھولے نہ سمائے۔ مگر ان ہندو عوام کے ارمانوں پر اس وقت اوس پڑ گئی جب مسلم ہندو ماہرین کی کمیٹی نے چارلس نیپئر کے دعویٰ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا (بحوالہ کے آر ملکانی کی کتاب ’’دی سندھ اسٹوریز‘‘)۔
کراچی میں حرام کاری کو تحفظ دینے کے لیے چارلس نیپئر نے اولڈ ٹائون کراچی میں طوائفوں کے باقاعدہ کوٹھے بنوائے اس عمل میں پارسی مانک جی اور اس کے تلامذہ جہانگیر کوٹھاری نے تعاون کیا۔ ‘‘نیپئر روڈ‘‘ کی ابتدا بندر روڈ سے ڈینسو ہال کے قریب سے ہوتی ہے جہاں آج بھی کوٹھاری بلڈنگ موجود ہے، واضح رہے کہ کراچی میں بجلی کمپنی کا پہلا میٹر اسی عمارت میں نصب ہوا جہاں آج کل وکلا کے چیمبر ہیں۔ کراچی کے نیپئر روڈ پر حرام کاری کے اڈوں کے فروغ میں ’’بیچ لگژری ہوٹل‘‘ کا سیاحتی مشن نیٹی جیٹی پل کے قریب آج بھی دعوت فکر دیتا ہے۔ آئی آئی چند ریگر روڈ کے سنگم پر واقع کراچی کی فتح کی یادگار ہے جس پر آج بھی ’’ڈیوڈ اسٹار‘‘ کندہ ہے جو اسرائیلی پرچم پربھی ہے۔ اس کو ہم ’’ٹاور‘‘ کے نام سے جانتے ہیں وج ایک یہودی جنرل جیک اور یہودی کاروباری شخصیت جس کا نام تھول ہے اس کا Thole Produced Export Yard، 1850ء میں TPX یارڈ اس کاہی مرہون منت ہے۔ جنرل جیکب نے بعد میں برطانوی فوجیوں کے لیے بیرکس بنوائیں جو جیکب لائنز کے نام سے آج بھی کراچی میں موجود ہیں، صہیونی صفات کے حامل جنرل جیکب کی خدمات کے طور پر فرنگی سامراج نے اس کے نام پر سندھ میں جیکب آباد بنوایا جہاں یہودی جنرل جیکب کی قبر ؎
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہوں
کی مثال بنی ہوئی ہے۔ گیارہ ستمبر کے بعد جارج بش صلیبی نے جیکب آباد کے شمسی ایئر پورٹ کو مرکز نگاہ بنایا۔
کراچی میں صلیبی تشخص کے فروغ کے لیے انگریزوں نے بارہ کلاک ٹاور بنوائے جو ان کی برطانوی پارلیمنٹ کے شعائر میں سے ہے۔ بدقسمتی سے فرنگی تہذیب کی مرکزی علامت ’’مکہ کلارک ٹاور‘‘ ہے۔ کراچی میں حافظ حاجی حسن نے ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا جس کا نام ’’مدینتہ الحکمت‘‘ تھا، اس علمی تحقیقی مرکز میں ان کے مرشد حضرت فرید الدین گنج شکرؒ، حضرت بہائو الدین ذکریا ملتانی قریشیؒ اور حضرت عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندرؒ (آج کی زبان میں) لیکچر دیا کرتے تھے۔ حضرت حافظ حاجی حسنؒ جن کا مزار آج بھی مرجع خلائق ہے اس پر لکھا ’’باب فریدی‘‘ دعوت فکر دیتا ہے۔ امتداد زمانہ سے فرنگی سامراج افور ان کے حواریوں نے حضرت امام حسنؓ کے اس خانوادے کی درگاہ کے قریب ایک تالاب بنوایا اور دریائے حب سے مگرمچھ لاکر ڈال دیے اور جھوٹی روایات سے یہ مشہور کردیا کہ بابا جی کو جوئیں پڑ گئیں اور انہوں نے صدری سے چن کر انہیں پانی میں پھینک دیا جو بابا جی کی کرامت سے مگرمچھ بن گئے۔ یوں مقامی شیدی آبادی میں بابا جی مگر پیر کے نام سے مشہور کردیے گئے جو آج کل منگھوپیر کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اس ادارہ کی فارسی اور عربی کتب انڈیا آفس لندن منتقل کردی گئیں اور مقامی آبادی کو مگرمچھوں کی پوجا پر لگادیا گیا۔ ’’شیدی میلہ‘‘ اسی کی یادگار ہے۔ گائے، بندر، سانپوں کی پوجا لاالٰہ الا اللہ پڑھنے والے کہاں کرتے ہیں؟ (حکیم سید شہید بقول) کراچی میں چشتیہ سلسلہ کے چشم و چراغ حضرت سخی حسنؒ نارتھ ناظم آباد بلاک این میں آسودۂ خاک ہیں جنہوں نے 1930ء میں علامہ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد کے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس 1930ء کے انتظامات کیے تھے اور اکابرین تصور حضرت علی ہجویری صاحب کشف المعجوب کی بشارت پر اور خواجہ معین الدین چشتیؒ کی ہدایت پر کراچی کو اپنا مرکز دعوت والار شاد بنایا۔ آپ الٰہ آباد میں اپنے آبا و اجداد کی قبریں چھوڑ کر ہجرت کرکے کراچی تشریف لے آئے۔ حضرت بہزاد لکھنویؒ، حضرت ذہین شاہ تاجیؒ، سید عبدالکبیر المعروف حضرت سیدہ شاہ قادریؒ، مجاہد آزادی حکیم محمد سعیدؒ، عاشق رسول مولانا ماہر القادریؒ اور غازی عبدالقیومؒ نے اسی شہر ’’قریشی‘‘ میں اپنی زندگی بسر کی۔ یہ چراغ مصطفوی تھے۔
اسی شہر میں بندر روڈ پر موجود خالق دینا ہال میں مولانا محمد علی جوہرپر مقدمہ بغاوت 26 دسمبر 1921ء سے 4 نومبر 1922ء تک چلایا گیا۔ جہاں مولانا محمد علی جوہر نے ارکان جیوری کے سامنے ببانگ دہل اور بصمیم قلب چراغ مصطفوی کو روشن کرتے ہوئے سچے دل سے فرمایا: ’’حضرت ہم دونوں بھائیوں کے نام حضرت علیؓ کے متبرک نام پر رکھے گئے ہیں اور میرے نام کا ایک جزو تو اس ذات کے نام پر ہے جو حضرت علیؓ سے بھی بڑی ہے۔ میں اپنی پرخاش کے لیے تو ایک راکھشش کو بھی قتل کرنے میں شریک نہیں ہوسکتا۔ لیکن خدا کے لیے ہر ایک کو قتل کرسکتا ہوں اور کسی کو نہیں چھوڑ سکتا۔ میں اپنے بھائی کو قتل کرسکتا ہوں، اپنی بوڑھی ماں کو، اپنی بیوی کو اور اپنے بچوں کو سب کو خدا کے لیے اور خدا کی راہ میں قتل کرسکتا ہوں، خدا مجھے اس کی توفیق دے‘‘۔
4 نومبر 1922ء کوٹھیک ساڑھے تین بجے عدالت نے مولانا محمد علی جوہر کو دو سال قید بامشقت کی سزا سنادی۔ مولانا محمد علی جوہر نے خندہ پیشانی سے فیصلہ سنا اور ارشاد فرمایا:
دور حیات آئے گا ظالم قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تیری انتہا کے بعد
قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
مولانا محمد علی جوہر اور پیر صبغت اللہ راشدیؒ چراغ مصطفوی کے امین اور انہیں پابند سلاسل نیزدار پر چڑھانے والے شرار بولہبی کے گماشتے!
اب ہم خود فیصلہ کریں کہ اگر کراچی ہندوئوں کی بستی ہوتی تو حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ آپ کے صاحبزادے نور شاہ غازیؒ اور بھائی حسن شاہ غازی کی قبریں کیسے آگئیں؟
عرب تہذیب و تمدن میں کھجور بازار، ہاکس بے، میمن مسجد کے صحن کے نیچے عربوں کا قبرستان اور لیاری میں محلہ بغدادی کس امر کی غمازی کرتی ہیں؟ ماضی کے جھروکوں سے فیصلہ کریں، ترک کپتان سعید علی کی کتاب ’’المحیط‘‘ میں ’’قریشی بندرگاہ‘‘ کو لاہور، ملتان کی بندرگاہ کیوں کہا گیا؟، الیگزینڈر ایف بیلی نے اپنی کتاب میں ’’قریشی‘‘ Kurrachee کیوں لکھا؟، حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کے خلیفہ حضرت حافظ حاجی حسنؒ کا مزار منگھوپیر کئی صدیوں سے مرجع خلائق ہے کہاں سے آگیا؟، حکیم حافظ محمد سعید کی تحقی مدینتہ الحکمت اور ہمدرد جامعہ بنانا کن عزائم کی نشاندہی کرتا ہے؟
نواب بہادر یار جنگ نے اپنی زندگی کی آخری تقریر کراچی میں کی تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’چراغ مصطفوی کی علامت کے طور پر جس سیاست کی بنیاد کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مبنی نہیںہے وہ شیطانی سیاست ہے اور ہم ایسی سیاست سے خدائی پناہ مانگتے ہیں۔ جب آپ یہ کلمات کہہ رہے تھے قائداعظم نے بڑے جوش سے میز پر مکہ مار کر فرمایا تھا: ’’تم بالکل درست کہتے ہو‘‘۔
نواب صاحب نے بڑے جوش سے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہمارے پنڈال سے وہ لوگ اٹھ جائیں جو خدا سے انکار پر اپنے معاشی نظام کی بنیاد رکھتے ہیں، وہ قرآن کے واضح اور اٹل احکامات میں تحریف و اضافہ کرکے مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں اور روٹی، کپڑا کے بدلے مسلمانوں کا ضمیر اور ایمان خریدنا چاہتے ہیں‘‘۔ آپ نے قائداعظم کو پھر مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’میں نے پاکستان کو اس طرح سمجھا ہے اور اگر آپ کا پاکستان یہ نہیں ہے تو ہم ایسا پاکستان نہیں چاہتے‘‘۔
یہ سن کر قائداعظم مسکرائے اور فرمایا: ’’آپ مجھے قبل از وقت چیلنج کیوں دے رہے ہیں؟‘‘ تو نواب نے کہا: ’’نہیں قائداعظم میں چیلنج نہیں دے رہا ہوں۔ میں آپ کے عوام کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ آپ ایسا ہی پاکستان چاہتے ہیں‘‘۔
آپ حصول پاکستان کے لیے جوش ایمانی سے سرشار ہوکر یہ الفاظ کہنے پر مجبور ہوگئے!
’’وہ دن میرے لیے عید کا دن ہوگا جس دن میرے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پائوں میں بیڑیاں ہوں گی اور جس دن میں زخموں سے چور ہوں گا‘‘۔ جب آپ یہ الفاظ ہزاروں سامعین کے سامنے ادا کررہے تھے تو حاضرین کی جانب سے یہ صدا بلند ہوئی۔’’ہم سب آپ کے ساتھ ہیں‘‘۔
آپ نے سامعین کی یہ بات سن کر فرمایا: ’’اس قدر جلدی فیصلہ نہ کیجیے، میں نے جس عزم کا اظہار کیا ہے وہ میرے بارہ سال کی شبانہ روز غور و فکر کا نتیجہ ہے۔ جائو اپنی بیویوں کے تابناک چہروں کو دیکھو، اپنے بچوں کی مسکراہٹ اور اپنی زندگی کی ہر خوشی کو آنکھوں کے سامنے رکھ کر فیصلہ کرو۔ اپنی تجارت اور ذرائع معیشت کی ساری تباہیوں کا بغور تصور کرکے پھر فیصلہ کرو‘‘۔
(بحوالہ: مضمون روزنامہ جنگ 24 جون 1987ء، نواب سید شمس الحسن کی روایت جو عینی شاہد تھے)
ڈاکٹر غلام علی الانا اپنی کتاب ’’تحریک پاکستان میں سندھ کا حصہ‘‘ میں رقمطراز ہیں: ’’ 24 دسمبر 1943ء کو کراچی میں مسلم لیگ کا اکتیسواں سالانہ اجلاس منعقد ہوا، اس کے تحت جلسہ میں تقریباً 80 ہزار خواتین و حضرات نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں قائداعطم نے پونے دو گھنٹے خطاب کیا، ان کے انگریزی خطاب کا فی البدیہہ اردو ترجمہ نواب بہادر یار جنگ نے کیا۔ اس اجلاس میں آغا سید سرور شاہ گیلانی نے تلاوت کلام مجید سے کیا۔ نواب بہادر یار جنگ نے اجلاس میں دعا کرائی اور کہاکہ ’’اے اللہ! تو میری عمر کے باقی سال لے لے اور میرے قائد کو طویل عمر فرمادے‘‘ حاضرین نے باآواز بلند آمین کہی‘‘۔
نواب بہادر یار جنگ کی دعا بارگاہ ایزدی میں قبول ہوئی اور وہ جلد ہی دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے۔ یہ زندگی کی ان کی آخری معرکۃ الآ را تقریر اور دعا ثابت ہوئی۔ صلیبی ذہنیت سے سرشار برطانوی حکومت نے قائداعظم کے سامنے یہ شرط رکھی تھی کہ اگر وہ ہندوستان کے کسی بھی مسلم اکثریت والے صوبے کی اسمبلی سے پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کروالیں تو ان کا مطالبہ پاکستان منظور کرلیا جائے گا، چنانچہ فرنگی چیلنج کے جواب میں قائداعظم کی ہدایت پر سندھ کے نامور روحانی پیشوا حضرت پیر عبدالرحمن عرف پیر صاحب بھرچونڈی شریف نے سندھ اسمبلی کے مسلمان اراکین اسمبلی کو پاکستان کی تائید میں قرارداد پیش کرنے اور اس کی حمایت پر آمادہ کرلیا تھا۔ یہ کراچی میں حقیقتاً سندھ اسمبلی کا مطالبہ پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کرنا ہی پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا اور پھر 27 رمضان 1366ھ کو مسلمانانِ برصغیر نے اپنی آنکھوں سے دنیا کے نقشہ پر پاکستان کو ابھرتے دیکھا جو ان کے صدیوں پرانے خواب کی تعبیر تھا اور پھر کراچی کے مسلمانوں کی خوش قسمتی کی تو انتہا نہ تھی کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ اس نوزائیدہ مملکت خداداد کا دارالخلافہ بننا ان کے شہر کے حصہ میں آگیا تھا ۔
پاکستان کا قیام تو قافلہ سخت جان کی مساہی جمیلہ سے عمل میں آگیا مگر سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ کراچی دارالخلافہ بننے کے باوجود اس کا نظریاتی تشخص بحال ہوا؟ تو جواب نفی میں ملتاہے۔
قائداعظم محمد علی جناح قیام پاکستان کے ایک ہی سال بعد داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ قائد ملت لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں جام شہادت نوش کرنا پڑا، علامہ شبیر احمد عثمانی اور مولوی تمیز الدین کے علاوہ شیر بنگال مولوی فضل الحق نام نہاد مسلم لیگی طالع آزمائوں کے ہاتھوں تختہ مشق بن گئے۔ رہی سہی کسر سول اور خاکی بیورو کریسی نے پوری کردی۔ کراچی مرکزی اسمبلی میں قرارداد مقاصد کا پیش ہونا اور علمائے کرام کا مشترکہ طور پر کراچی میں اجلاس منعقد کرتے بائیس نکات کو آئینی تشخص کی بقا کے لیے متفقہ طور پر پیش کرکے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوا مگر بدقسمتی سے پاکستان کے پہلے سیکریٹری دفاع میجر جنرل اسکندر مرزا جو رشتے میں ننگِ دین، ننگِ ملت اور ننگِ وطن میر جعفر نجفی کے سگے پوتے تھے، محلاتی سازشوں سے پاکستان کے آخری گورنر جنرل اور پہلے صدر پاکستان بن بیٹھے۔
کراچی میں فرنگی تمدن کے فروغ میں اس کی بیوی ناہید اسکندر مرزا نے اپنے شوہرکے تعاون سے نمایاں کردار ادا کیا۔ ’’شرار بولہبی‘‘ کے علمبردار فرنگی غلام میجر جنرل سکندر مرزا کے بعد جنرل محمد ایوب خان نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کرنے کے جرم میں کراچی سے دارالخلافہ ہی اسلام آباد منتقل کردیا تاکہ ’’نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری‘‘۔
کراچی آج بھی اپنے نظریاتی تشخص کی تلاش میں ہے بقول اقبال :
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی