کچی آبادیاں کیوں؟

کچی آبادیاں آخر کیوں بنتی ہیں؟ آخر تمام شہری عمدہ مکانوں میں، منصوبہ بندی سے بنائے گئے محلوں میں، تمام شہری سہولتوں کے ساتھ کیوں نہیں رہ سکتے؟ کیا لوگ خوامخواہ پسماندہ بستیوں میں رہتے ہیں؟ کیا یہ کچی آبادیوں کے باشندوں کا قصور ہے کہ وہ وہاں رہنے لگتے ہیں؟ یا وہ کسی اور کے عمل کا نشانہ ہیں؟ اور کیا غریبوں کا شہر میں آنا جرم ہے؟ یا یہ ریاست اور اس کے اداروں کی ناکامی ہے کہ انہیں ان کے آبائی علاقوں میں روزگار کے مواقع فراہم نہیں کیے جاسکے؟ اور یوں شہروں کی آبادی بے تحاشا بڑھ گئی۔
اس مختصر مضمون میں انہی جیسے سوالوں پر گفتگو کی گئی ہے۔
مال دار اور خوش حال درمیانے طبقے کے لوگوں کے نزدیک کچی آبادیاں شہر کی بدصورتی ہیں اور وہ ان آبادیوں کے وجود سے نالاں ہیں۔ وجہ ظاہر ہے، اگر ان کے اپنے محلے کے درمیان کوئی کچی آبادی بن جائے تو ان کی جائداد کی قیمت گھٹ جاتی ہے۔ وہ ان آبادیوں کو غلیظ اور ماحولیاتی طور پر آلودہ علاقوں کے طور پر دیکھتے ہیں جہاں ہر قسم کی سماجی برائیوں اور جرائم، منشیات، قمار بازی، عصمت فروشی وغیرہ کے پھلنے پھولنے کے لیے سازگار ماحول ہے۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ کچی آبادیاں سماجی اور سیاسی ہلچل کے مرکز ہیں۔
بہت سے اعلیٰ سرکاری افسر، شہری منصوبہ ساز، انجینئر اور ڈویلپر بھی کچی آبادیوں کے وجود سے متنفر ہیں۔ یہ آبادیاں ان کی حسن جمال اور تجارتی مفادات کو ٹھیس پہنچاتی ہیں۔ وہ انہیں بلڈوزروں سے مسمار کروا کر اس قیمتی زمین کو کثیر منزلہ عمارتوں یا ’’خوب صورت باغات‘‘ کے لیے استعمال کرنے کے خواہش مند ہیں۔ کچی آبادیوں کا وجود ان کی ناقص کارکردگی کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ وہ شہر کے ماحول کو صاف ستھرا اور تجاوزات سے پاک رکھنے میں ناکام ہیں۔ اکثر و بیشتر یہ افراد ’’لینڈ مافیا‘‘ کو ان آبادیوں کے قیام کا قصوروار ٹھیراتے ہیں اور غیر سرکاری تنظیموں (NGOs) کو ان آبادیوں کی حمایت کا۔ یہ ایسے اداروں کے بھی خلاف ہیں جو کچی آبادیوں میں کسی ترقیاتی کام کا بیڑا اٹھاتے ہیں۔
بہت کم لوگوں کو سنجیدگی سے احساس ہوتا ہے کہ ان کے اردگرد کیا ہورہا ہے۔ ان سے بھی کم تعداد اُن لوگوں کی ہے جو یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر لوگ شہروں کا رخ کیوں کررہے ہیں؟ کیا اپنے آبائی علاقوں کا محفوظ سماجی ماحول چھوڑ کر شہروں کی اجنبی دنیا میں قدم رکھنا آسان کام ہے جہاں دو وقت کی روٹی کے سوا کسی چیز کا آسرا نہیں؟ یہ بات جاننے کی کوئی بھی کوشش نہیں کرتا کہ یہ لوگ شہر کی لاکھوں کی آبادی میں شامل ہونے کے بعد کہاں رہتے ہیں؟ انہیں رہنے کے لیے زمین اور دوسری سہولتیں پانی، ٹرانسپورٹ، بجلی کون مہیا کرتا ہے اور کس قیمت پر؟ اور سب سے اہم بات یہ کہ شہر میں آنے والے لوگ اپنی دو وقت کی روٹی کیسے حاصل کرتے ہیں؟
مال دار اور بالائی متوسططبقے کے لوگ اپنے الگ تھلگ، محفوظ اور ’’صاف ستھرے‘‘ محلوں میں ہنسی خوشی رہتے ہیں جہاں ان کے لیے ٹرانسپورٹ، علاج، تعلیم کا بندوبست ہے، زیر زمین نکاس اور فلٹر کیے ہوئے پانی کا انتظام ہے، اور سپر مارکیٹوں، کلبوں، کھانے پینے اور تفریح کرنے کی عمدہ جگہوں کی دلکش دنیا موجود ہے۔ انہیں اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ غریب کن حالات میں رہتے ہیں اور ان کی روزمرہ زندگی کی دشواریاں کیا ہیں؟ اور بھلا انہیں اس سے غرض ہو بھی کیوں! یہ تو دو شہروں کی کہانی ہے۔ دو کلچر، دو دنیائیں، دو قومیں… جو ایک دوسرے کے پڑوس میں آباد ہیں۔ دولت کی بدنما نمائش کے بیچوں بیچ غریب باشندے جیتے مرتے رہتے ہیں۔ لیکن کیا کچی آبادیاں اونچے طبقے کے لوگوں اور شہری منصوبہ سازوں کی نظر سے اوجھل رہ سکتی ہیں، جب کہ ان میں بسنے والے لوگ کراچی کی کُل آبادی کے 40 فیصد سے بڑھ چکے ہیں؟ کیا وہ ان خوش حال لوگوں کی زندگیوں میں خلل ڈالے بغیر الگ تھلگ قائم رہ سکتی ہیں؟ نہیں، اب ایسا نہیں ہوسکتا۔
کچی آبادیوں کے وجود اور ان کی بڑھتی ہوئی تعداد نے حکمراں اور مال دار طبقوں کے لیے مسائل پیدا کرنے شروع کردیے ہیں۔ جب آدھا شہر کچی آبادیوں پر مشتمل ہو، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں کے رہنے والے زمین پر غیر قانونی قبضہ کیے بیٹھے ہوں، اس تمام ترقیکی قیمت کا ایک پیسہ بھی سرکاری خزانے میں نہ پہنچتا ہو، اور ان آبادیوں میں استعمال ہونے والے پانی، بجلی اور گیس کی قیمت ان کے متعلقہ محکموں کو نہ ملتی ہو، تو باقی آدھے شہر کے لیے مشکلات کا پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ جب کوئی معاشرہ اپنے کم خوش نصیب شہریوں کو جگہ دینے میں ناکام رہے تو اس کے اقتصادی نتائج خاصے ہولناک ہوتے ہیں، لیکن اس مسئلے کے مضمرات سمجھنے کی کسی کو فرصت نہیں۔
یہ تباہی کا ایک مکمل دائرہ ہے۔ دیہات کے غریب باشندے روزگار کی تلاش میں شہر آتے ہیں۔ سب سے پہلے انہیں زمین کا ایک ٹکڑا چاہیے جہاں کم سے کم بنیادی سہولتیں میسر ہوں اور اس زمین کی قیمت آسان قسطوں میں ادا کی جاسکے۔ یہ لوگ محنتی، باہمت اور ہوشیار ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض ماہر اور باہنر ہوتے ہیں۔ کچھ کا ہنر کم درجے کا ہوتا ہے۔ یہ لوگ سرکاری نوکریاں تلاش نہیں کرتیبلکہ اپنی صلاحیت کے بل پر اپنی روزی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر انہیں ایک چھوٹا سا پلاٹ مل جائے تو وہ اس پر اپنا مکان تھوڑا بہت بناکر وہاں رہنے لگتے ہیں اور اپنے وسائل استعمال کرکے اسے رفتہ رفتہ بہتر بناتے رہتے ہیں۔ وہ پانی، بجلی، گیس وغیرہ کی قیمت بھی ادا کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ لیکن حکومت انہیں رہنے کے لیے زمین مہیا کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ چنانچہ وہ زمینوں کے قبضہ گیروں کے ہاتھوں میں جا پڑتے ہیں، جو سرکاری زمین کو اپنی ملکیت ظاہر کرکے ان سے وہی قیمت وصول کرتے ہیں جو اگر حکومت اس کام کے لیے تیار ہوتی تو اسے بھی مل سکتی تھی۔
ایسا ہرگز نہیں ہے کہ کچی آبادیوں میں رہنے والے پانی، بجلی وغیرہ قیمت دیے بغیر حاصل کرتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ سرکاری محکمے انہیں یہ سہولتیں جائز طریقے سے مہیا نہیں کرتے۔ ان محکموں کا طریق کار بہت پیچیدہ ہے۔ بدعنوانی کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ روز کی مزدوری کرنے والے لوگ کنکشن حاصل کرنے کے لیے ان کے دفتروں کے بے شمار چکر نہیں لگا سکتے۔ لہٰذا وہ لوگ یہ سہولتیں لائن مین اور والو آپریٹر کو مروجہ نرخ پر رقم ادا کرکے حاصل کرتے ہیں۔ انہیں قیمت ادا کیے بغیر بجلی اور پانی حاصل کرنے کا الزام دیا جاتا ہے، جبکہ وہ سرکاری نرخ سے زیادہ قیمت ادا کرتے ہیں اور استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ اس عمل کے نتیجے میں سرکاری محکمے غریب سے غریب اور ان کے اہلکار مال دار سے مال دار ہوتے چلے جاتے ہیں۔
کچی آبادیوں کے باشندے
مقبولِ عام خیال کے برعکس کچی آبادیوں کے باشندے نہ تو جرائم پیشہ ہیں، نہ منشیات فروش، نہ غیر قانونی پناہ گزیں، نہ دہشت گرد اور نہ بائیں بازو کے انقلابی… یہ بالکل عام، قانون پسند، سیدھے سادے شہری ہیں جو کسی نہ کسی طرح اپنی روزی کما رہے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ ان آبادیوں میں بھی سماج دشمن عناصر اور بدمعاش موجود ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کچھ کچی آبادیاں غیر قانونی پناہ گزینوں کو رہنے کی جگہ دیتی ہیں۔ لیکن ان لوگوں سے کراچی کا کون سا محلہ خالی ہے؟ فرق صرف قوتِ برداشت کا ہے۔
ہمارے اونچے طبقے کو اس زبردست معاشی سرگرمی کی خبر ہی نہیں ہوپاتی جو ان کچی آبادیوں میں جاری و ساری ہے۔ دراصل یہ آبادیاں شہر بھر کی معاشی سرگرمی کی شہ رگ ہیں۔ یہی شہر کی صنعتوں کو بھی ہنرمند مزدور فراہم کرتی ہیں، اور یہاں کے باشندے خود بھی چھوٹے پیمانے کی بے شمار اور قسم قسم کی صنعتیں چلاتے ہیں۔ یہاں تقریباً ہر مکان ایک ورکشاپ ہے جہاں پورے پورے خاندان پیداواری سرگرمیوں میں مشغول ہیں۔ ان آبادیوں سے بڑے صاحب لوگوں کو ڈرائیور، بیگم صاحبائوں کو آیائیں اور ماسیاں، بڑے تجارتی اداروں کو ٹائپسٹ اور سروس سیکٹر کو ہر طرح کے کارندے ملتے ہیں۔ شہر کے ماہر مکینک، پلمبر، الیکٹریشن اور فورمین انہی آبادیوں میں رہتے ہیں۔ یہ شہر میں جاری تعمیراتی سرگرمیوں کے لیے راج اور مزدور مہیا کرتے ہیں اور شہر کا پورا ٹرانسپورٹ کا نظام چلاتے ہیں۔ کیا کراچی جیسا بڑا شہر ان کے بغیر ایک دن بھی چل سکتا ہے؟
ملک کے دیہات اور قصبوں سے کراچی میں آکر بسنے والے لوگ شہر کو اپنے ہنر، تکنیکوں، ثقافتی طور طریقوں اور قدروں سے مالا مال کررہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو شہر کی زندگی کو متحرک رکھتے ہیں اور پاکستان کی معاشی ترقی اور ثقافتی اور لسانی یک جہتی کی کلید انہی کے پاس ہے۔
شہر کی جانب نقل مکانی کے اسباب
کچی آبادیوں کے بیش تر باشندے دیہی علاقوں سے آئے ہیں جہاں ان کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا دشوار ہوگیا تھا۔ ان کی شہروں کی جانب ہجرت کے کئی فوری اسباب ہوتے ہیں:
٭ موروثی زمینوں کا بٹوارہ۔
٭ آبادی میں اضافہ (جس کی شرح 3.2 فیصد سالانہ ہے)۔
٭ بے تحاشا کاشت اور کیمیائی کھاد کے بڑھتے ہوئے استعمال سے زمین کا کمزور پڑ جانا، یا سیم اور تھور کا شکار ہوجانا (ہر سال چالیس ہزار ہیکٹر زمین اس طرح بنجر ہوتی جارہی ہے)۔
٭ جنگلوں کا تیزی سے کٹنا، خاص طور پر شمالی علاقوں میں، جہاں اس کے نتیجے میں سیلاب بار بار آنے لگے ہیں اور زرخیز مٹی اکھڑتی جارہی ہے۔
دیہی علاقوں میں لوگوں کے پاس قابلِ کاشت زمین کم ہوتی جارہی ہے۔ 1951ء میں فی کس قابلِ کاشت رقبہ 46 ہیکٹر تھا جو 1981ء تک کم ہوکر 31 ہیکٹر فی کس ہوچکا تھا۔ 1960ء کی دہائی کے ’’سبز انقلاب‘‘ کے تحت زیادہ پیداوار دینے والے بیجوں اور کیمیائی کھادوں کے استعمال نے صورت حال میں اور شدت پیدا کی۔ زرعی سیکٹر کو مشینوں اور ٹیکنالوجی پر بہت سرمایہ لگانا پڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خوشحال زمینداروں نے چھوٹے کسانوں کی زمینیں خرید لیں، جو یہ خرچ برداشت نہ کرسکتے تھے۔
ان علاقوں میں معاشی مواقع نہ ہونے کے برابر تھے، چنانچہ بے زمین ہونے والے لوگوں نے دووقت کی روٹی کمانے کے لیے شہروں کی طرف نقل مکانی شروع کی۔
جینے کا ہنر
جب یہ لوگ شہر میں آتے ہیں تو روزانہ اجرت پر جسمانی محنت کا کام کرتے ہیں یا ٹھیلا چلا کر چھوٹی موٹی چیزیں بیچتے ہیں، یا ایسا ہی کوئی اور پیشہ اختیار کرتے ہیں۔ اگر قسمت زور کرے تو کسی کمپنی یا سرکاری دفتر میں چپراسی یا چوکیدار لگ جاتے ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ لوگ شہر کی زندگی سے تعلق پیدا کرتے ہیں اور اپنی معاشی حالت کو بہتر بنانے لگتے ہیں۔ ان میں سے ہر قدم پر غیر رسمی سیکٹر ہی ان کی مدد کرتا ہے، کیونکہ حکومت کی طرف سے کوئی تعاون یا امداد حاصل نہیں ہوتی۔ ان کی زندگی کو ذرا قریب سے دیکھیے۔ رہنے کے لیے زمین خریدنی ہو، مکان بنانے کے لیے قرض حاصل کرنا ہو، یا ٹرانسپورٹ، پانی، بجلی وغیرہ کے مسئلے حل کرنے ہوں… ہر جگہ غیر سرکاری، غیر رسمی سیکٹر ہی ان کے کام آتا ہے۔
ان کا اپنا علاج معالجے کا نظام ہے، اپنے تعلیمی ادارے ہیں، اپنی تفریح گاہیں ہیں۔ ان میں سے ہر چیز ان کی مالی استطاعت کے مطابق ہے، ان کے گھر کے قریب واقع ہے اور ان کے رہن سہن سے ہم آہنگ ہے۔ کم ہی لوگ اس بات پر یقین کریں گے کہ کچی آبادیوں کے بیشتر والدین اپنے بچوں کو تجارتی بنیاد پر چلائے جانے والے چھوٹے اسکولوں میں بھیجتے ہیں اور فی بچہ 25 سے 60 روپے تک ادا کرتے ہیں۔ یہ لوگ تعلیم کی اہمیت سے آگاہ ہیں اور سرکاری پرائمری اسکولوں پر انحصار نہیں کرتے جو ایک تو ہر محلے میں موجود نہیں ہیں، اور جہاں ہیں بھی وہاں ان کا معیار نہایت پست ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بعض کچی آبادیوں میں خواندگی کا تناسب 80 فیصد تک پہنچا ہوا ہے۔
کچی آبادیوں کی قسمیں
کراچی کی کچی آبادیوں کو مجموعی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(1) پرانی کچی آبادیاں، جو اُس وقت وجود میں آئیں جب ہندوستان سے چھ لاکھ مہاجر شہر میں آئے۔ پھر 1950ء کی دہائی کے وسط سے، جب کراچی میں صنعتیں لگنی شروع ہوئیں، بڑی تعداد میں لوگ ملک کے شمالی علاقوں سے آکر شہر میں بسنے لگے۔ دونوں موقعوں پر حکومت اتنی بڑی تعداد میں بے روزگار اور بے گھر لوگوں کا بندوبست کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ چنانچہ دونوں موقعوں پر انہوں نے شہر کے مرکزی علاقے کے آس پاس کی خالی جگہوں پر قبضہ کرکے رہنا شروع کردیا۔ تب یہ سرگرمی بالکل فطری طور پر ہوئی، اور اس عمل میں دلالوں یا قبضہ گیروں کا کوئی حصہ نہ تھا۔ اس طرح آباد ہونے والے محلے بغیر کسی منصوبہ بندی کے، بالکل بے ترتیبی سے بسے اور ان میں سڑکوں یا سہولتوں کی فراہمی کی کوئی گنجائش نہ رکھی گئی۔
(2) 1970ء کے آس پاس اور خصوصاً مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد مہاجروں کی ایک نئی لہر کراچی میں داخل ہوئی۔ حکومت اِس بار بھی ان کا پوری طرح بندوبست کرنے کے قابل نہیں تھی۔ اب ایک نیا عمل شروع ہوا۔ رہائش کی نئی ضرورتوں اور مانگ کے پیدا ہونے سے پیشہ ور قبضہ گیروں اور دلالوں پر مشتمل ایک نیا طبقہ وجود میں آیا۔ انہوں نے پھیلتے ہوئے شہر کی بیرونی سرحدوں پر واقع سرکاری زمین کے بڑے بڑے قطعات پر قبضہ کرلیا اور ان پر غریب اور کم آمدنی والے لوگوں کے لیے چھوٹے چھوٹے پلاٹ بنائے۔ اس منصوبہ بندی میں انہوں نے کے ڈی اے کے طریقوں کی پیروی کی اور سیدھی سڑکوں، تجارتی علاقوں اور شہری سہولتوں کے لیے کھلی جگہوں کا انتظام رکھا۔ ضرورت مند لوگ انہیں نقد قیمت ادا کرتے اور انہیں اپنے پلاٹ کا فوری قبضہ مل جاتا۔ کوئی کاغذی کارروائی حائل نہ ہوتی۔ تمام سہولتیں انہیں آہستہ آہستہ اور طویل عرصے میں فراہم ہوتیں۔ یہ بلدیہ، قصبہ، اورنگی اور لانڈھی کی بڑی کچی آبادیوں کی ابتدا تھی۔
کچی آبادیوں کا ظہور شہر کے غریب باشندوں کی رہائشی ضرورتوں کا ایک حل ہے، جو غیر رسمی سیکٹر نے پیش کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ شہر کی باربط اور حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کرنے کے سلسلے میں معاشرے کی ناکامی کا بھی مظہر ہے۔ اگر معاشی نظام معاشرے کے تمام طبقوں کی ترقی کو مدنظر رکھتا، منصفانہ ہوتا اور تمام طبقوں کی سماجی اور معاشی حالت سے ہم آہنگ ہوتا تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کراچی شہر میں اس وقت ایک بھی کچی آبادی نہ ہوتی۔ آخر یہی شہر تھا جسے 1947ء تک سوئز کے اس طرف کے علاقے کا سب سے صاف ستھرا شہر کہا جاتا تھا۔ لیکن اگر اس شہر کی منصوبہ بندی پر شروع سے طاقت ور ڈویلپرز، ٹھیکے داروں، لینڈ مافیا، لالچی سیاست دانوں اور اتنے ہی بدعنوان اور بدکردار سرکاری اہلکاروں کی بالادستی رہی ہوتی تو آج یہ شہر اس سے کہیں زیادہ بری حالت میں ہوتا۔
کچی آبادیوں کی مستقلی
1975ء کے بعد سے کچی آبادیوں کی مستقلی اور بہتری ریاستی پالیسی میں شامل ہے۔ اس سے پہلے حکومت کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ ان لوگوں کو ان آبادیوں سے ہٹا کر کہیں اور بنے بنائے مکان فراہم کیے جائیں (جیسا کہ 1959-60ء کی کورنگی اسکیم تھی) یا ادھورے تعمیر شدہ مکان مہیا کیے جائیں (جیسا کہ 1970ء کی دہائی کے میٹروول پروگرام کا مقصد تھا)۔ لیکن یہ کوششیں ناکام رہیں۔ کچی آبادیوں کی مستقلی کا فیصلہ کرنے کے بعد ابتدا میں میونسپل کارپوریشن کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ کچی آبادیوں کے باشندوں کو لیز اور شہری سہولتیں فراہم کرے۔ لیکن 1987ء میں ایک نیا محکمہ سندھ کچی آبادی اتھارٹی کے نام سے قائم کیا گیا، جس کا کام ان تمام کارروائیوں میں ربط پیدا کرنا اور کچی آبادیوں کی مستقلی کے عمل کو تیز کرنا تھا جو پانچ سال کے اندر اندر مکمل کیا جاسکے۔
1989ء میں کراچی اسپیشل ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت 200 کچی آبادیوں کی بہتری کے لیے 13 کروڑ 61 لاکھ 66 ہزار روپے کی رقم فراہم کی گئی۔ یہ رقم 5 کروڑ 22 لاکھ کی اُس رقم کے علاوہ تھی جو سندھ کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت رکھی گئی تھی۔ لیکن اس سب کے باوجود کچی آبادیوں کی مستقلی اور بہتری کے کام کی رفتار نہایت سست تھی۔ مقامی کائونسلوں اور کچی آبادی اتھارٹی کی کارکردگی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1975ء سے 1993ء تک کے اٹھارہ برسوں میں 1293 غیر قانونی بستیوں میں سے (جنہیں نومبر 1990ء تک کچی آبادیوں کا درجہ دیا جاچکا تھا) صرف 132 کی بہتری کا کام مکمل ہوا۔ لیز یا جائداد کی ملکیت کے کاغذات (PEC) فراہم کرنے کا کام بھی اتنا ہی سست ہے۔ کچی آبادیوں کے 815ء 618 مکانوں میں سے صرف 726ء29 مکانوں کو لیز اور 224، 35 کو پی ای سی مل سکی ہے۔ یہ رفتار ایک فیصد سالانہ سے بھی ذرا کم ہے۔ اس رفتار سے سندھ کی تمام کچی آبادیوں کو بہتر بنانے میں سو سال لگیں گے، بشرطیکہ اس عرصے میں کوئی نئی کچی آبادی وجود میں نہ آئے۔
اپنی ناکارکردگی، نااہلی اور بے بصیرتی کو تسلیم کرنے کے بجائے کچی آبادیوں سے متعلق سرکاری محکموں کے اہلکاروں نے کچی آبادیوں کے باشندوں کے بارے میں کچھ عجیب و غریب اور غلط تصورات پھیلا دیے ہیں جو درج ذیل ہیں:
(1) کچی آبادیوں کے باشندے لیز حاصل کرنا ہی نہیں چاہتے۔ چونکہ حکومت کے اعلان ہی سے ان کو زمین اپنے قبضے میں رکھنے کا غیر دستاویزی حق مل جاتا ہے، اس لیے انہیں دستاویزات حاصل کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔
(2) وہ اس قدر غریب ہیں کہ لیز کی رقم ادا نہیں کرسکتے۔ یہ رقم ان کی استطاعت سے باہر ہے۔ اگر اسے کم کردیا جائے تو بھی وہ اتنی بچت نہیں کرسکتے کہ یہ رقم ادا کرسکیں۔
(3) سرکاری محکموں اور لوکل کائونسلوں کے پاس وسائل اتنے کم ہیں کہ وہ تمام آبادیوں کی مستقلی اور بہتری کا کام انجام نہیں دے سکتے۔
ان تصورات کی جانچ کے لیے اکتوبر 1990ء میں سندھ کچی آبادی اتھارٹی کی طرف سے لیز جاری کرنے کا ایک چھوٹا سا آزمائشی پروجیکٹ شروع کیا گیا۔ کراچی کی چار اور حیدرآباد اور سکھر کی دو دو کچی آبادیوں کو اس مقصد کے لیے منتخب کیا گیا۔ اسی طرح ترقیاتی بہتری کے کام کے لیے کراچی اور سکھر کی چند کچی آبادیاں چنی گئیں اور ان آبادیوں کی بیرونی ترقیاتی تعمیر کے سلسلے میں یونیسیف اور اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کے تعاون سے کم لاگت کے منصوبے تیار کیے گئے۔
لیز جاری کرنے کا کام شروع کرنے سے پہلے اس بات کی تحقیق کی گئی کہ درخواست گزاروں کو لیز جاری کیے جانے کی راہ میں کیا رکاوٹیں ہیں۔ معلوم یہ ہوا کہ ان کو لیز حاصل کرنے کی کوشش سے جو چیز باز رکھتی ہے وہ ان میں دلچسپی یا لیز کی رقم ادا کرنے کی صلاحیت کا فقدان نہیں بلکہ سرخ فیتے کا پیچیدہ طریق کار ہے۔ لیز جاری کرنے کے نظام میں مندرجہ ذیل خامیاں پائی گئیں:
(1) طریق کار نہایت پیچیدہ اور دشوار ہے۔ درخواست گزار کو اس پورے عمل میں کم از کم دس مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہر مرحلے پر مختلف دفتروں کے کئی چکر لگانے پڑتے ہیں۔ لیز کی منظوری میں دو تین مہینے لگ جاتے ہیں۔ درخواست گزار عموماً روز کی اجرت پر کام کرنے والے لوگ ہوتے ہیں اور اپنا کام چھوڑ کر نہیں آسکتے۔ اور آبادی کی مالی حالت کے لحاظ سے پانچ سو سے دو ہزار روپے تک ان سے مختلف مرحلوں پر مختلف سرکاری اہلکار رشوت کے طور پر مانگتے ہیں۔ بعض صورتوں میں رشوت کی رقم لیز کی سرکاری رقم کے برابر پہنچ جاتی ہے۔
(2)آبادی میں ترقیاتی کام کا طریق کار نہایت ناقص ہے۔ یہ بہت مہنگا بھی پڑتا ہے، کیونکہ بیشتر صورتوں میں نہ تو پہلے سے موجود ترقیاتی صورت حال کا جائزہ لیا جاتا ہے اور نہ لاگت کم کرنے کے لیے ڈیزائن میں تبدیلی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تعمیری کام ناقص ہوتا ہے کیونکہ نگرانی نہیں کی جاتی۔
(3)سڑکوں کو چوڑا کرنے کے لیے غیر ضروری انہدام کیے جاتے ہیں۔ اگر اس سے متاثر ہونے والے باشندوں میں آبادی کے بیس پچیس فیصد لوگ ہوں تو وہ باقی باشندوں کو لیز کی درخواست نہ دینے پر آمادہ کرلیتے ہیں۔ ان متاثرہ خاندانوں کی رہائش کا متبادل انتظام کرنا بھی بہت دشوار کام ہے۔ عموماً اس مقصد کے لیے زمین موجود ہی نہیں ہوتی۔
ان مشکلات سے نمٹنے کے لیے پورے عمل پر نظرثانی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اصل مقصد ناکامی کے اس دائرے کو توڑ کر لیز جاری کرنے کے کام کو تیز کرنا تھا۔ اس کے پیش نظر مندرجہ ذیل فیصلے کیے گئے اور انہیں تیزی سے عمل میں لایا گیا:
(1) کام کو دفتر میں مرکوز رکھنے کا سلسلہ ختم کیا گیا۔ فیصلہ ہوا کہ لوگ درخواستیں لے کر افسروں کے پاس نہ آئیں بلکہ افسر خود ان کے پاس جائیں۔ چنانچہ کچی آبادیوں میں لیز کیمپ لگائے جائیں اور دن بھر کی تمام دفتری کارروائی وہیں کیمپ میں انجام دی جائے۔ چھوٹے موٹے تنازعات لیز ٹیم کا سربراہ موقع پر ہی آبادی کے باشندوں کے ساتھ مل کر طے کرے۔ صرف بڑے معاملات اور پالیسی پر اثر ڈالنے والے فیصلوں کے لیے ڈائریکٹر جنرل سے رجوع کیا جائے۔
(2) لیز جاری کرنے کے مرحلوں کی تعداد کو کم سے کم کردیا جائے۔
(3) تمام طریق کار بالکل شفاف ہو۔ لوگوں کو بینروں، پمفلٹس اور اعلانات کے ذریعے زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کی جائیں۔
(4) آبادی کے باشندوں اور ان کے نمایاں افراد کو لیز کے کام میں شامل کیا جائے۔ وہ ایک کمیٹی بناکر کام کے مختلف مرحلوں کی نگرانی کریں۔
(5)انہدام صرف وہاں کیا جائے جہاں ناگزیر ہو، کیونکہ اکثر صورتوں میں یہ نہ صرف غیر ضروری ہوتا ہے بلکہ لوگ اپنے قبضے کا فالتو رقبہ چھوڑنے پر آسانی سے راضی بھی نہیں ہوتے۔
(6) لیز کی رقم کو آبادی کے باشندوں کی مالی حالت کے مطابق رکھنے کے لیے ہر کچی آبادی کو ایک علیحدہ اکائی کے طور پر دیکھا جائے۔ اس مقصد کے لیے اس سارے ترقیاتی کام کو پیش نظر رکھا جائے جو لوکل کائونسلیں یا کائونسلر اپنے ترقیاتی فنڈ سے وہاں پہلے ہی کرچکے ہیں۔
(7)ترقیاتی کام کی لاگت کو مزید کم رکھنے کے لیے جہاں کہیں ممکن ہو ڈیزائن میں تبدیلی پر غور کیا جائے۔ اس طرح ترقیاتی کام کے لیے رقم کی کمی نہیں ہوگی اور وہ خودکفیل رہ سکے گا، کیونکہ حکومت نے زمین کی قیمت دس روپے فی مربع گز بہت معقول رکھی ہے۔
(8) معلوم ہوا کہ آبادی کی مستقلی کا کام شروع کرنے سے پہلے صرف تین چیزوں کی معلومات فراہم ہونا ضروری ہے: (الف) آبادی کا حالیہ نقشہ، (ب) ترقیاتی کام کا نقشہ، اور (3) فیلڈ بک، جس میں ہر پلاٹ اور اس کے مالک کے بارے میں درست معلومات درج ہوں۔
لیز کیمپ جوں ہی لگائے گئے وہاں لیز کی درخواستیں دینے اور لیز کی رقم کے چالان جمع کرانے والوں کی بھیڑ لگ گئی۔ آٹھ مہینے سے بھی کم وقت میں سندھ کچی آبادی اتھارٹی اپنی تاریخ میں پہلی بار مالی طور پر خودکفیل ہوگئی۔ اس مختصر مدت میں اس نے لیز کی رقم کی مد میں 89 لاکھ 67 ہزار روپے جمع کیے جو اس کے سال بھر کے بجٹ کے برابر تھے۔ اس آزمائشی پروجیکٹ کے نتائج نے کچی آبادیوں کے باشندوں کے بارے میں تمام غلط تصورات کی نفی کردی۔
(انگریزی سے ترجمہ اجمل کمال)