کراچی کی بستی اورنگی ٹائون

فی زمانہ آبادیوں، شہروںکے بسنے اور اجڑنے میں قدرتی آفات، جنگ و جدل یا حکمرانوں کی منصوبہ بندی کا عمل دخل رہا ہے۔
اورنگی ٹائون بھی ایک تاریخی المیے کی پیداوار ہے۔ کراچی جو ایک بندرگاہی شہر تھا 60 سے 70برسوں میں دیکھتے دیکھتے دنیا کے کثیر آبادی والے میگا سٹی میں تبدیل ہو گیا ۔ اس میں اورنگی دنیا کی سب سے بڑی کچی آبادی والی بستی ہے اور اپنے ہمہ جہت سیاسی ، علمی اور تعلیمی عنوان سے پہچانی جاتی ہے۔ مگر اصل شناخت تو ان بہاریوں سے ہے جو سانحہ سقوط ِمشرقی پاکستان کے بعد آکر آباد ہوئے ۔یہ آبادی علامہ اقبال کے اس شعر کی مصداق ہے:
کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد
میری نگاہ میں نہیں سوئے کوفہ و بغداد
گوکہ یہاں بہاریوں کی آمد سے پہلے بھی لوگوں کی آبادی موجود تھی جو اورنگی سیکٹر پونے 5، سیکٹر 8،9،10 وغیرہ تک محدود تھی، جو پاکستان کے دیگر صوبوں سے آنے والوں اور 1947ء تا1952ء ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش ، راجستھان، مدھیہ پردیش اور مشرقی پنجاب سے آنے والے لوگوں پر مشتمل تھی، اور ایک بڑی تعداد صوبہ خیبر پختون خواسے آنے والے پشتونوں پر مشتمل تھی۔
داستانِ ہجرت:
ملتِ اسلامیہ کا ایک ناقابلِ برداشت خونچکاں سانحہ، جس کو دنیا 16دسمبر1971ء سقوطِ مشرقی پاکستان کے نام سے جانتی ہے، یہ کیوں ہوا؟کیسے ہوا؟ اس بحث اور تجزیے سے ہٹ کر اورنگی میں بسنے اور بسانے والے کرداروں پر توجہ مرکوز رکھنا اس تحریر کا مقصد ہے۔ پاکستان کی تخلیق میں اہلِ بہار کی قربانیوںکا آغاز ستمبر1946ء کے خونیں فسادات سے ہوتا ہے، جس میں ہندو بلوائیوں نے ریاستی سرپرستی میں پٹنہ اور اس کے اطراف کی مسلم آبادیوں کو خاک و خون میں نہلا دیا۔ کم و بیش 10ہزار لوگوں نے پاکستان کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے اور ہزاروں عفت مآب خواتین نے اپنی آبرو بچانے کے لیے اندھے کنووں میں چھلانگ لگا دی۔
اس کے بعد فساد کا نہ رکنے والا سلسلہ ملک کی تقسیم تک جاری رہا۔ پاکستان بننے کے بعد اہلِ بہار کی کثیر آبادی نے مشرقی پاکستان ہجرت کی۔ ریلوے، ٹیلی فون، اور دیگر محکموں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے مشرقی پاکستان کو اپنا مسکن بنایا۔ اہلِ بنگال نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ مگر پاکستان کے استحصالی حکمرانوں کی وجہ سے محرومیاں بڑھتی گئیں۔ محبتوں کی جگہ نفرتوں نے پنجے گاڑنے شروع کردیے۔ 1970ء کے عام انتخابات میں عوامی لیگ کی کامیابی اور اقتدار کی پُرامن عدم منتقلی نے جلتی پر تیل کا کام کیا، پھر وہ دن آگیا جب بھارت کی سازشوں اور اپنوں کی غداری کے طفیل 10مارچ1971ء کو مجیب الرحمٰن کے اعلانِ آزادی کے بعد مشرقی پاکستان کے طول و عرض میں اردو بولنے والوں کا قتلِ عام شروع ہوگیا۔ سانتا ہاٹ کا مقتل، دیناج پور، کھلنا، خالص پور، ڈھاکہ… ہر جگہ وطن سے محبت کرنے والوں کے لیے مذبح خانہ کھل گیا۔ فوجی ایکشن اور پھر بھارت کا حملہ، اور16دسمبر کا وہ عبرت ناک دن جس نے ملتِ اسلامیہ کی تاریخ کی پیشانی پر کالک مَل دی۔ سرینڈر کیا ہوا کہ پورے مشرقی پاکستان کے گلی کوچوں میں مکتی باہنی کے بھیڑیے ٹوٹ پڑے اور کشتوں کے پشتے لگانے شروع کردیے۔ جیلیں بھر گئیں، کھیتوں اور کھلیانوں میں لاشیں سڑنا شروع ہوگئیں۔ پنبہ ندی وطن پرستوں کے خون سے سرخ ہوگئی۔ لوگ جان بچانے کے لیے جدھر پناہ ملی، ادھر بھاگے۔ بھارتی فوجیوں نے کچھ کی حفاظت کی۔ لوگ سرحد پار کرکے ہندوستان، پھر نیپال کی جانب رواں دواں ہوئے۔ ایک بڑی تعداد نیپال پہنچی تو کچھ لوگ برما فرار ہوئے، اور ایک کثیر تعداد ہندوستان میں اپنے عزیز و اقارب کے گھروں میں پناہ گزین ہوئی۔
بہاریوں کی پاکستان میں آمد:
نیپال اور ہندوستان کے راستے سے بڑے پیمانے پر لوگ مختلف طریقوں سے مغربی پاکستان آنا شروع ہوئے۔ مگر شملہ معاہدے کے بعد بہاریوں کو منتقلی کی دستاویزات ملنا شروع ہوئیں۔ ایک بڑی تعداد سرکاری ملازمین اور ان کے بال بچوں کی، اور وہ رضاکار جو پاکستانی فوج کے ہراول دستے کی صورت میں قربانیاں دے رہے تھے جن کی بڑی تعداد تو شہید ہوگئی اور جو بچ گئے تھے وہ جنگی قیدی بنالیے گئے تھے، تبادلے میں پاکستان آئے، اور پاکستان کے تمام صوبوں میں بہار کالونیاں انہی وطن پرستوں کی ہیں۔ کثیر تعداد نے کراچی کا رخ کیا جن کا استقبال جماعت اسلامی نے ایئر پورٹ اور ریلوے اسٹیشن پر کیمپ لگا کر کیا۔ ان خانہ برباد لوگوں کا اول سہارا حتی المقدور ضروریاتِ زندگی کے ساتھ جماعت اسلامی بنی۔ ان کی بڑی تعداد کا مسئلہ گھر کا تھا۔ لہٰذا جماعت اسلامی نے اورنگی میں جو زمینیں خالی پڑی تھیں، انہیں حاصل کرکے سیکٹر 11، 11½، 15-D، شاہ ولی اللہ نگر، خالد آباد میں مکانات بنا کر دیے۔ اس کے ذمہ دار اُس وقت کے ناظم اورنگی نثار احمد بنائے گئے جنہوں نے مقامی رفقاء تجمل حسین انصاری، محمد وکیل(مرحوم)، عبدالمنان ملک (مرحوم) و دیگر رفقاء کے ساتھ یہ کام شروع کیا۔ مگر انتقال آبادی کا کام اتنا زیادہ تھا کہ شہر کے دیگر مخیر حضرات اور انجمنوں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ان ستم رسیدہ لوگوں کی معاونت کے لیے آگے آئے، اور دیکھتے ہی دیکھتے اورنگی جو تمام تر بنیادی ضرورتوں سے محروم تھا، آباد ہونا شروع ہوگیا۔ مگر سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ یہاں آنے والے بہاری تعلیم یافتہ، ہنرمند اور باصلاحیت تھے۔ لہٰذا دیکھتے ہی دیکھتے شہر کے تمام سرکاری، نیم سرکاری اور نجی اداروں میں انہوں نے اپنا لوہا منوایا۔ گھریلو صنعتوں کا آغاز ہو گیا۔ قالین بافی، جفت سازی، گارمنٹس اور زری کے کاموں سے یہ آبادی تیزی سے ترقی کرنے لگی۔ اورنگی کی تعمیر و ترقی، پانی و بجلی کی فراہمی، سڑکوں کی تعمیر اور لوگوں کو لیز کے کاغذات فراہم کرنے میں اُس وقت کے میئر کراچی محترم عبدالستار افغانی کی خدمات نمایاں ہیں۔
ایک بار کسی میڈیا پرسن نے میئر کراچی عبدالستار افغانی سے سوال کیا کہ آپ اپنے 8 سالہ دورِ میئرشپ کا کوئی کارنامہ بیان کریں، تو انہوں نے صرف ایک لفظ کہا…اورنگی ٹائون۔
یہ بات مشہور ہے کہ بہاری بھوکا رہ کر بھی اپنے بچوں کو پڑھاتا ہے، لہٰذا جماعت اسلامی کے رفقاء نے اجتماعی طور پر نامور تعلیمی ادارے کھولے جن میں نمایاں نام الحراء سیکنڈری اسکول، فاران ہائی اسکول، عزیز ملت، مدرسہ اسلامیہ، اقراء ہائی اسکول قابلِ ذکر ہیں۔ راقم بھی الحراء اسکول میں 1985ء سے2000ء تک تدریس سے وابستہ رہا، اور 1994ء سے آج تک اقراء ہائی اسکول کی انتظامی اور تدریسی ذمہ داری نبھا رہا ہے۔ نیز2018ء تک حنیفیہ پبلک اسکول کا جو اَب عثمان پبلک اسکول کے نام سے چل رہا ہے، ذمہ دار تھا۔ جماعت اسلامی نہ صرف تعلیمی بلکہ دینی خدمات کے لیے اوّلین فرصت میں مساجد کا قیام عمل میں لائی، جس میں اسلامیہ مسجد سیکٹر13/D، شاہ ولی اللہ مسجد 11½اورنگی، خالد بن ولید مسجد عرف لال مسجد 11½ ، اس کے علاوہ بھی کئی مساجد تعمیر کیں۔ اسلام چوک پر فاروق اعظم، رحمت چوک پر مسجد الفتح، جے بلاک میں صدیق اکبر جو دیگر لوگوں کے انتظامِ کار میں ہیں۔
اورنگی میں تعلیمی شرح 80 تا85 فیصد ہے۔ 1986ء تک تمام جامعات میں اورنگی کے طلبہ نمایاں تھے، مگر اس سرعت پذیر ترقی میں لسانی آسیب کا سایہ رکاوٹ بن گیا۔
ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے بڑے تعلیمی ادارے اور ٹیوشن سینٹر قائم ہیں۔ اب تھوڑے بہت ٹین کے مکانات رہ گئے ہیں، اور عالیشان عمارتیں اور بازار اس بستی کو رونق بخش رہے ہیں۔ لیکن اب حکمران اپنی غلط پالیسیوں اور مفاد پرست سیاسی جماعتیں اپنی کارستانیوں سے اہلِ اورنگی کو قومی شناخت سے محروم کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔
جماعت اسلامی نے نہ صرف اہلِ اورنگی کی تعلیمی اور دینی تربیت کا اہتمام کیا بلکہ صحت کے لیے کلینکس اور ہسپتال کی سہولت بھی فراہم کی جس میں الخدمت ہسپتال نمایاں ہے۔
اس علاقے کی جن شخصیات نے سیاسی، سماجی اور علمی طور پر اپنا نام بلند کیا، ان میں سیاسی اعتبار سے پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی آفاق خان شاہد (مرحوم)، مسلم لیگ کےرکن صوبائی اسمبلی حسیب ہاشمی (مرحوم)، جماعت اسلامی کے کچی آبادی کے چیئرمین کونسلر شرف الدین، دبنگ شخصیات تاج محمد خان (مرحوم)، شہید ظہیر الدین بابر، شہید شفیع احمد، شہید آفتاب ملک نمایاں ہیں۔ اورنگی میں یوں تو ایم کیو ایم کی عوامی حمایت اکثریت میں ہے، مگر یہاں ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اپنا اثرو نفود رکھتی ہیں، اور جماعت اسلامی کی ایک نمایاں حیثیت ہے۔جماعت اسلامی کے محمد لئیق خان نے 5 سال تک پارلیمنٹ میں یہاں کی نمائندگی کی ہے۔
سماجی شخصیات بھی نمایاں تھیں اور ہیں، جن میں ممتاز انصاری، پروفیسر انصاری، ماسٹر محمد امین اللہ اور حفیظ الرحمٰن قابلِ ذکر ہیں۔
علمی خدمات میں نمایاں مقام اورنگی دیگر حوالوں سے بھی شہرت رکھتا ہے۔یہاں محرم کے اکھاڑے اور جلوس دیکھنے کے لیے شہر بھر سے لوگ آتے ہیں۔
اورنگی کا بہاری کباب تو فائیو اسٹار ہوٹلوں کا مینو ہے۔ بھاشانی کی مٹھائی اور چم چم پورے شہر میں مشہور ہے۔
اورنگی کی آبادی گزشتہ سروے کے مطابق 1836000ہے، مگر اس میں 13لاکھ سے زیادہ بہاری سیکٹر 11½، 12، 13، 14، 15،16میں موجود ہیں۔ اورنگی کے بہاری شہر کے دیگر علاقوں نئی کراچی، نارتھ کراچی، شادمان ٹائون، نارتھ ناظم آباد، انڈا موڑ وغیرہ میں بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں۔
اس کے علاوہ اورنگی کے بہاری بڑی تعداد میں سرکاری محکموں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، کیونکہ ان کی بڑی تعداد تعلیمی میدان میں موجود ہے۔ سیکڑوں پی ایچ ڈی، ماسٹر، ڈاکٹر اور انجینئر ہیں۔
اہلِ اورنگی جو عرفِ عام میں بہاری ہیں دراصل حریت پسند لوگ ہیں، لہٰذا یہاں ہر وقت سیاسی، سماجی ہلچل رہتی ہے اور کوئی نہ کوئی تحریک چلتی رہتی ہے۔ یہاں فی الحال شہر کے دیگر علاقوں کی طرح پانی، بجلی، گیس اور امن و امان کا مسئلہ درپیش ہے۔ ماضی میں یہ علاقہ لسانی فسادات کی وجہ سے خاصا متاثر ہوا، اور ترقیِ معکوس کا شکار ہوا، مگر امن بحال ہونے کے بعد ایک بار پھر یہاں زندگی کے تمام شعبہ جات میں تیزی سے ترقی ہورہی ہے۔ اورنگی کی اقبال مارکیٹ، بنگلہ بازار،گلشن بہار اور ایل بلاک کی مارکیٹیں قابل ِذکر ہیں۔ یہاں کے پُرجوش نوجوانوں کا ایک بڑا مسئلہ شناختی کارڈ کا حصول ہے۔ یہ مسئلہ جماعت اسلامی نے امیر جماعت اسلامی کراچی محترم حافظ نعیم الرحمٰن کی سربراہی میں منظم کوششیں کرکے کافی حد تک حل کیا ہے، مگر اب بھی مسئلہ برقرار ہے۔
قصہ مختصر کہ اورنگی شہر کراچی کی حرکت ہے، یہاں کی سیاسی ہلچل پورے شہر کی زندگی کو متاثر کرتی ہے۔ یہ ہنرمند، تعلیم یافتہ، باصلاحیت، حریتِ فکر کے حامل اور پاکستان کے لیے دو ہجرتیں کرنے والے لوگوں کی بستی ہے۔ آج بھی چار تاپانچ لاکھ پیارے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں پاکستان آنے کے منتظر ہیں۔
تیغِ قاتل نے عجب رنگ جما رکھا ہے
خودی کا نام ستم گر نے حنا رکھا ہے