کراچی کا قدیم علاقہ منگھو پیر

کراچی کے شمال مشرق میں واقع تاریخی اہمیت کا حامل قدیم منگھوپیر اپنے دامن میں شہر کی قدیم تاریخ سمیٹے ہوئے ہے۔ منگھوپیر کا شمار رقبے کے لحاظ سے کراچی کی سب سے بڑی یونین کونسل میں ہوتا ہے۔ یہ علاقہ بند مراد کے ذریعے لسبیلہ اور ساکران بلوچستان سے ملتا ہے۔ منگھوپیر مسلمان سپہ سالار محمد بن قاسم کی گزرگاہ کی وجہ سے بھی شہرت رکھتا ہے۔ اس کے ٹیلوں پر واقع چوکنڈی طرز کے نقش و نگار سے مزین قبریں، مکانات، تالاب اور دیگر آثار اس کی تاریخی حیثیت کی گواہی دیتے ہیں۔ قدیم دور میں یہ علاقہ مکران اور ایران کے ساتھ تجارت کے لیے راہ داری کا کام دیتا تھا۔ اسلام پھیلنے کے بعد عربوں کی آمد و رفت ایران اور مکران کے راستے ہوتی تھی۔ ان کے قافلے اسی راستے سے گزرکر اگلی منزل کی جانب عازم سفر ہوتے تھے۔ دورانِ سفر ان کا پڑائو لسبیلہ اور اس کے گرد و نواح کے قصبات میں ہوتا تھا، جن میں سے ایک منگھوپیر کا قصبہ بھی تھا۔ منگھوپیر کا شمار شہر کے اوّلین علاقوں میں ہوتا ہے جہاں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی و دیگر مذاہب و قومیتوں کے لوگ آباد ہیں۔ 1925ء میں منگھوپیر کو شہر سے ملانے کے لیے انگریز حکام نے ریکسر لائن سے براستہ پاک کالونی منگھوپیر تک پکی سڑک بنوائی تھی۔ 1960ء کی دہائی میں لی مارکیٹ سے منگھوپیر کے درمیان پہلی بس 60 نمبر چلائی گئی تھی۔ یہاں کا قدیم بس اسٹاپ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی شخصیت اساسنگھ، تال سنگھ کے نام سے مشہور تھا۔ منگھوپیر کی پہاڑیوں کو ’’طوق منگھ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین منگھوپیر کی تہذیب کو کانسی کے دور سے بھی قدیم تہذیب قرار دیتے ہیں۔ پہاڑی ٹیلے پر واقع یہ درگاہ مشہور صوفی بزرگ حضرت حافظ حاجی حسن المعروف خواجہ سخی سلطان منگھوپیر کے نام سے موسوم ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ آپ والدہ کی جانب سے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد ہیں۔ آپ حسنی حسینی ہونے کے علاوہ حضرت بابا فرید گنج شکر کے خلیفہ ہونے کی وجہ سے چشتیہ بھی کہلاتے ہیں۔ خواجہ حسن سخی سلطان المعروف منگھوپیربابا کے آبا و اجداد تیرہویں صدی عیسوی یعنی آج سے تقریباً سات سو سال قبل حجاز سے ہجرت کرکے برصغیر تشریف لائے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پورا عرب تاتاری یلغار کے نرغے میں تھا۔ حضرت بابافرید گنج شکرؒ، حضرت لال شہباز قلندرؒ اور حضرت جلال الدین بخاریؒ حضرت منگھوپیرؒ سے بے حد محبت کرتے تھے اور بابا منگھوپیرؒ کے پاس آتے رہتے تھے۔ منگھوپیر کے علاقے میں حضرت بابا فرید گنج شکرؒاور لعل شہباز قلندرؒ سے موسوم چلہ گاہ بھی موجود ہے۔ ہزاروں عقیدت مند ہر سال 8 ذوالحج کو سخی سلطان منگھوپیربابا کا عرس مناتے ہیں۔ ان کا مزار شیدی قوم کے لیے سب سے زیادہ اہمیت کا باعث رہا ہے۔ اس قبیلے کی جانب سے سالہاسال سے مزار پر ہر سال ایک میلہ بھی لگایا جاتا ہے۔ درگاہ کے نزدیک ایک تالاب میں دو سو کے قریب مگرمچھ پائے جاتے ہیں۔ ان مگرمچھوں میں سے بعض کی عمر تقریباً ڈیڑھ سو سال ہے۔ مگرمچھوں سے متعلق کئی دیومالائی داستانیں بھی مشہور ہیں۔ منگھوپیر کا مقام ہندوئوں کے لیے بھی متبرک حیثیت کا حامل تھا۔ سندھ میں اسلام پھیلنے سے قبل ہندو یاتری اس علاقے میں اپنے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے آتے تھے اور وہ تالاب میں موجود مگرمچھوں کی پوجا کرتے تھے، خاص کر ان کے سردار کی، جسے وہ ’’لالہ جیسراج‘‘ کا اوتار سمجھتے تھے۔ دنیا بھر میں پائے جانے والے مگرمچھوں کے برعکس تالاب میں موجود مگرمچھ گوشت سے لے کر مٹھائی اور حلوہ سمیت سب کھا لیتے ہیں۔ درگاہ سخی سلطان کے قریب پانی کے دو چشمے ہیں، جبکہ اس سے دو میل کے فاصلے پر حضرت جلیل شاہؒ کے مزار کے قریب بھی دو اور چشمے ہیں جہاں جِلدی امراض کے مریضوں کے علاج کے لیے نہانے کا انتظام کیا گیا ہے جسے ’’ماما باتھ‘‘کہا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق ایک سماجی رہنما آسومل نے یہاں مسافروں کے قیام کے لیے ایک سرائے تعمیر کرائی تھی جہاں بستر اور ضروری سامان کا بھی انتظام تھا۔ منگھوپیر کی پہاڑیوں کے دامن میں موجود شکستہ، ٹوٹی پھوٹی پرانی قبریں صدیوں قدیم ہیں، یہاں چوکنڈی طرز کی قبریں بھی پائی جاتی ہیں۔ تمام قبریں جنگ شاہی پتھر سے تعمیر کی گئی ہیں۔ مؤرخین کے مطابق بعض ایسی قبریں بھی دیکھی گئیں جن پر تلوار بازی، گھڑ سواری اور آلاتِ حرب کے نقوش بھی پائے جاتے تھے، جبکہ خواتین کی قبروں پر خوبصورت زیورات کندہ کیے گئے ہیں۔ منگھوپیر کے مزار کے نزدیک کھجوروں کے باغات، قدیم قبرستان اور فٹبال گرائونڈ کی زمین آثارِ قدیمہ کی ملکیت ہے، تاہم 15 سال کے دوران لینڈ مافیا کے کارندوں نے ان قبروں کو مسمار کردیا ہے اور قدیم کجھور کے باٖغات کو جلاکر خاکستر کردیا ہے۔ 1896ء میں یہاں جذام کے مریضوں کے علاج کے لیے لیپروسی اسپتال قائم کیا گیا تھا جہاں سے اب تک ہزاروں مریضوں کا علاج کیا جاچکا ہے۔ پاکستانی مدر ٹریسا کہلانے والی کوڑھیوں کی مسیحا جرمن ڈاکٹر مادام رُوتھ فاؤ بھی یہاں آیا کرتی تھیں۔ منگھوپیر کے علاقے کے اہم مقامات میں تبلیغی جماعت کی اجتماع گاہ، کچھی میمن مسافر خانہ، حب پمپنگ اسٹیشن، نیا ناظم آباد، چلہ گاہ حضرت بابا فرید گنج شکرؒ، حضرت لعل شہباز قلندرؒ، پائپ فیکٹری، ماربل انڈسٹری، گورنمنٹ بوائز کالج، ہمدرد لیباریٹری، لعل محمد لکی ہوٹل، کلینک خمیسہ استاد، ڈاڈیکس فیکٹری، پیپلز اسٹیل مل، ہندوؤں کا سابقہ دھرم شالا اورموجودہ جانوروں کا اسپتال ودیگر شامل ہیں ۔ یہاں کی رہائشی نامور شخصیات میں سردارنواب رسول بخش مینگل، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار عطا اللہ مینگل، سردار اختر مینگل، خلیفہ خدا بخش، خلیفہ غلام محمد، وڈیرہ حاجی اللہ بخش، حاجی محمود، ہیڈ ماسٹر دائود، اداکار نور محمد لاشاری، فٹبالر بابو قاسم، دل مراد بلوچ، گل اکبر خان، خلیفہ یٰسین، خلیفہ سجاد، کھلاڑی سیف الرحمان، ساجد رند، سماجی رہنما عبدالغنی، لطیف رند، صحافی نورالاسلام، فٹبالر عبدالرشید مینگل، محمد سلیم مینگل، جامع مسجد منگھوپیر کے امام قاری عبدالرحمان، سابق امام خان آف قلات میر احمد یار خان و دیگر شامل ہیں ۔