شہر قائد کے تفریحی، تاریخی اور سیاحتی مقامات

پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی ہے،جسے ہم روشنیوں کے شہر سے تعبیر کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس شہر کو پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی مرکز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ کراچی کو یہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ یہاں پاکستان کی تقریباً تمام قوموں کے لوگ آباد ہیں اور یوں گمان ہوتا ہے جیسے پورا پاکستان اس شہر میں آبسا ہے۔ کراچی کے کھانے، یہاں کا رہن سہن اور ملبوسات پورے ملک میں ایک الگ شناخت رکھتے ہیں۔ سیاحتی حوالے سے کراچی صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے ایسے مقامات رکھتا ہے جو تاریخی حوالے سے بے مثال ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی سطح پر ان مقامات کو خصوصی توجہ دی جائے تاکہ سیاحت کو اس پُررونق شہر میں بھرپور فروغ مل سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام الناس کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہر کے سیاحتی مقامات کی حفاظت، صفائی، نگرانی اور ان مقامات کے تاریخی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے اپنا عملی کردار ادا کریں۔
قارئین کرام! کراچی کے چند اہم مقامات کے حوالے سے دلچسپ معلومات…. تاکہ ہم اپنے شہر کے ان قابلِ دید مقامات کی اہمیت کو سمجھ سکیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے تاریخی پس منظر سے بھی روشناس ہوسکیں۔
مزارِقائد:
کراچی شہر کا جب بھی نام آتا ہے ایک خوبصورت سے مزار کا عکس آنکھوں میں جھلملانے لگتا ہے۔ یہ مزار درحقیقت پاکستان کے بانی اور پہلے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح کی آخری آرام گاہ اور عظیم یادگار ہے۔ اس مزار کی تصویر دنیا بھر میں کراچی کی نمائندگی کرتی ہے۔ مزارِ قائد کراچی شہر کے وسط میں قائم ہے، جس کی تعمیر 1960ء کے عشرے میں مکمل ہوئی۔ مزار کا احاطہ 54 مربع میٹر پر مشتمل ہے۔ مزار کے اندر ایک انتہائی خوبصورت و نایاب فانوس نصب ہے جو کہ چین کی جانب سے بطور تحفہ دیا گیا ہے۔ یہ مزار فنِ تعمیر کا ایک دلکش نمونہ ہے۔ چاروں اطراف سے باغیچوں میں گھرے اس مزار کی طرف جوں جوں قدم اٹھتے ہیں، آپ سطح زمین سے بلندی کی طرف جانے لگتے ہیں، اور عین مزار پر پہنچ کر آپ کراچی شہر کو ایک نئی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں۔ شام ہوتے ہی باغیچے میں نصب ارتکازی روشنیاں سفید سنگ مرمر کو ایک نیا روپ دیتی ہیں، جس سے مزار کا طلسم اور بڑھ جاتا ہے۔ اس مزار کی دو اہم اور قابلِ ذکر باتیں یہ ہیں کہ محترمہ فاطمہ جناح اور لیاقت علی خان سمیت یہاں تحریک پاکستان کی کئی نامور شخصیات بھی دفن ہیں۔ جبکہ مزار کے ایک جانب میوزیم بھی قائم ہے، جس میں قائداعظم محمد علی جناح کے زیر استعمال گاڑیاں، کپڑے، فرنیچر، برتن اور جوتوں سمیت کئی اہم اور تاریخی اشیاء سیاحوں کی دلچسپی کے لیے موجود ہیں۔ اس مزار پر تینوں مسلح افواج کے چاق چوبند دستے سال بھر اپنی معینہ مدت میں اپنے فرائض بخوبی سرانجام دیتے ہیں۔ باوردی اہلکاروں کی تبدیلی کے مناظر قابلِ دید ہوتے ہیں جسے دیکھنے کے لیے ایک ہجوم موجود رہتا ہے۔ قومی تقریبات کے موقع پر ریاست کے اہم ذمہ داران یہاں آکر فاتحہ خوانی کرتے ہیں، جبکہ افواجِ پاکستان کے دستے سلامی پیش کرتے ۔ ان موقعوں پر یہ مناظر پوری دنیا میں براہِ راست دکھائے جاتے ہیں، جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے سیاحوں کی یہاں آنے کی جستجو مزید بڑھ جاتی ہے۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ حکومتی سطح پر اس مزار کے شایانِ شان مطلوبہ انتظامات نامکمل ہیں۔ کئی پہلو توجہ طلب اور قابل، اصلاح ہیں، جن کی تکمیل کے بعد ہم شہر کی اس عظیم یادگار کا حسن مزید نکھار سکتے ہیں۔
کراچی کے ساحلی مقامات
کلفٹن کا ساحل:
کراچی کا جنوبی حصہ چونکہ بحیرہ عرب سے ملتا ہے، اس لیے یہاں کئی سیاحتی اور تفریحی ساحلی مقامات ہیں۔ ہر مقام اپنی انفرادیت کی وجہ سے الگ پہچان رکھتا ہے۔ ان میں سرفہرست کلفٹن کا ساحل ہے جو کراچی کا سب سے مرکزی تفریحی مقام ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اردگرد کئی اور سیاحتی مقامات بھی موجود ہیں۔ اس ساحل کے قریب سندھ کے نامور صوفی بزرگ حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کا مزار بھی موجود ہے جہاں زائرین کی ایک کثیر تعداد ہمہ وقت موجود رہتی ہے۔ اس کے پہلو میں بن قاسم پارک موجود ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں رنگ برنگے پھول خوشبو بکھیرتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ جدید طرز کے ہوٹل اور شاپنگ مالز سمیت فوڈ اسٹریٹ اور بچوں کے لیے پلے ایریاز بھی کلفٹن کے ساحل سے متصل موجود ہیں۔ اس کے باوجود ساحل کا اپنا منفرد رنگ و روپ ہے۔ یہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد سورج کو سمندر میں ڈوبتا دیکھنے آتی ہیں، شام کا یہ منظر جب افق پر لالی بکھیرتا ہے تو رومانوی سماں بندھ جاتا ہے۔ ساحلی ریت پر اونٹ کی سواری اور گھڑ سواری بھی ایک دلچسپ تفریح ہے جس سے یہاں آنے والے سیاح محظوظ ہوتے ہیں۔ البتہ آلودگی کی وجہ سے اس خوشنما سیاحتی مقام کا حسن ماند پڑتا جارہا ہے۔ مقامی حکومتوں کی توجہ کی متقاضی یہ ساحلی پٹی مزید کئی منفرد اور پُرکشش ساحلی مقامات رکھتی ہے۔
منوڑہ:
کراچی کی بندرگاہ کے جنوب میں واقع جزیرہ نما منوڑہ اپنے دیگر چھوٹے جزیروں سمیت ایک خوبصورت قدیم سیاحتی مقام ہے۔ کشتی میں بیٹھ کر ایک سے دوسرے کنارے پر جانے کا ایڈونچر یہاں کا سب سے منفرد تجربہ ثابت ہوتا ہے۔ یہ کراچی کا صرف تفریحی مقام نہیں بلکہ حفاظتی اعتبار سے یہ کراچی کا دفاعی مورچہ بھی ہے۔ یہاں پاکستان بحریہ کا مرکز بھی موجود ہے۔
یہ مقام کراچی سے سینڈز پٹ کی پٹی نے جوڑ رکھا ہے۔ مچھلی کے شکار کے شوقین حضرات یہاں خصوصی طور پر آتے ہیں۔ تازہ مچھلی کی مزیدار ڈشز کے حوالے سے یہاں کے بعض فوڈ پوائنٹ بھی شہرت کے حامل ہیں۔ سیاحوں کے لیے یہاں دلچسپی کی اور بھی کئی اشیاء ہیں، مثلاً سیپی سے بنے کھلونے اور شو پیس آنے والے افراد کی توجہ حاصل کرتے ہیں، اور ساتھ ہی ایک جزیرے کی سیر کا لطف بھی زندگی کا شاندار تجربہ ثابت ہوتا ہے۔
ہاکس بے:
ہاکس بے کا ساحل کئی حصوں پر مشتمل ہے۔ ان میں پیراڈائز پوائنٹ زیادہ مشہور ہے۔ کراچی سے چند کلومیٹر کی مسافت پر موجود اس ساحلی پٹی کا اپنا ہی حسن ہے۔ پُرسکون اور صاف و شفاف ساحل یہاں آنے والوں کو اپنا گرویدہ بنالیتا ہے۔ جبکہ شہر سے دوری کی وجہ سے یہاں فیملی ہٹ بھی تعمیر کیے گئے ہیں تاکہ تفریحی مقام پر سیاحوں کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ دوسرے مقامات کی نسبت یہاں لہروں کی شدت خاصی زیادہ ہوتی ہے، اور مخصوص ایام میں یہاں حکومت کی جانب سے تفریحی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی جاتی ہے تاکہ انسانی جانوں کا تحفظ کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ یہاں خصوصی طور پر غوطہ خور یونٹ کی تعیناتی بھی ایک احسن قدم ہے، جو ہر تھوڑے فاصلے پر اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے ہمہ وقت موجود رہتے ہیں۔ سیاحوں کے لیے ایسی پُرکشش ساحلی پٹی کا وجود کراچی کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی سطح پر یہاں سہولیات کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے، تاکہ بین الاقوامی سطح پر اس خوبصورت ساحل کو مزید اجاگر کیا جاسکے۔
فریئر ہال :
کراچی جیسے جدید شہر میں بلند و بالا اور جدید فن تعمیر کی شاہکار عمارتوں کے بیچ تقریباً ڈیڑھ صدی پرانی عمارت کا منظر انسان کو حیرت میں ڈالنے کے لیے کافی ہے۔ فریئر ہال اپنی آرٹ گیلری کے ساتھ سب کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔ قدیم عمارت کی خوبصورتی کا یہ عالم ہے کہ ڈرامہ نگار اپنے آرٹ کی عکس بندی کے لیے اسی عمارت کے احاطے کو فوقیت دیتے ہیں۔ اس تاریخی عمارت کی تعمیر1860ء سے 1865ء تک جاری رہی۔ اس عمارت کو برطانوی کمشنر ’ہنری برٹیل ایڈورڈ فریئر‘ نے تعمیر کروایا۔ برطانوی کمشنر اس عمارت کو مالیاتی اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بنانا چاہتے تھے۔ مذکورہ عمارت برطانوی نو آبادیاتی دور کی یاد دلاتی ہے۔ یہ عمارت میریٹ ہوٹل کے قرب میں واقع ہے۔ انگریز دور میں فریئرہال کے گرد ’کنگ گارڈن‘ اور ’کوئن گارڈن‘ کے نام سے دو باغیچے ہوا کرتے تھے۔ بعد ازاں انہیں جناح گارڈن کے نام سے موسوم کیا گیا۔ ایک وقت تک یہاں کتب بازار بھی لگا کرتا تھا۔ اب بھی اس عمارت کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں لوگ تفریح کے لیے آتے ہیں۔ نوجوان طبقہ فوٹو گرافی وغیرہ کے لیے بھی یہاں کا رخ کرتا ہے۔ گھنے درختوں کی چھائوں اور رنگ برنگے پھولوں کے درمیان یہ قدیم عمارت آج بھی اپنی آب وتاب کے ساتھ موجود ہے۔
ایمپریس مارکیٹ:
ایمپریس مارکیٹ کم و بیش ایک سو پچاس سال پرانی عمارت ہے جو برطانوی سامراج کے طرز تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے۔ اگر شہر کی قدیم ترین عمارتوں کا ذکر ہو تو ایمپریس مارکیٹ کی عمارت بھی اس فہرست میں شامل کی جائے گی۔ یہ عمارت 1884ء سے 1889ء کے درمیان تعمیر کی گئی۔ تجارتی مرکز کی طرز پر بنائی گئی اس عمارت کی تمام راہداریوں کی وسعت اتنی رکھی گئی کہ ایک کشادہ مارکیٹ وجود میں آسکے۔ کلاک ٹاور سے قدیم چبوتروں تک ہر گوشہ قابلِ دید ہے۔ اس مارکیٹ میں پرندوں، پان پتہ، خشک میوہ جات، پھل اور سبزیوں سمیت دیگر کئی اشیاء کی منڈی موجود ہے۔ کراچی کے مصروف ترین مقام صدر ٹائون کی حدود میں واقع یہ قدیم عمارت آج بھی اپنی اصل تعمیری حالت میں موجود ہے۔ ماضیِ قریب میں اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر سٹی گورنمنٹ کی سرپرستی میں غیر قانونی تعمیرات کو ختم کرنے کی مہم شروع کی گئی۔ ایمپریس مارکیٹ کے گرد و نواح سے بھی تمام غیر قانونی تجاوزات کا خاتمہ کیا گیا۔ اس قابلِ تحسین اقدام کے بعد عوام الناس نے ایک مدت بعد اس قدیم اور تاریخی عمارت کا حقیقی رنگ و روپ دیکھا۔ ایمپریس مارکیٹ کی اس عمارت کے پہلو میں جہانگیر پارک بھی واقع ہے جہاں شہری سیر و تفریح کے لیے آتے ہیں۔
پی اے ایف میوزیم:
کراچی کی اہم سفارتی شاہراہ، شارع فیصل پر واقع پاکستانی فضائیہ کے زیرانتظام ایک خوبصورت پارک اور میوزیم بھی کراچی شہر کا ایک اہم سیاحتی مقام ہے۔ چونکہ پاک فضائیہ کے اس عجائب خانے میں پاکستانی فضائیہ کے تاریخی اثاثہ جات محفوظ کیے گئے ہیں، چنانچہ یہ محض ایک تفریحی مقام نہیں بلکہ مکمل تاریخی اور سیاحتی مقام بھی ہے۔ پی اے ایف میوزیم کے پارک میں تاریخی طیارے اور دیگر جنگی ہتھیار بطور ماڈل رکھے گئے ہیں، ان ماڈلز کے ساتھ معلوماتی تختی پر متعلقہ ماڈل کی تاریخی، تکنیکی اور فنی تفصیلات بھی رقم کی گئی ہیں تاکہ آنے والے حضرات کو مکمل آگہی فراہم کی جاسکے اور باذوق افراد اپنی معلومات میں اضافہ کرسکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں یادگارِ شہداء بھی تعمیر کی گئی ہے جہاں پاکستانی فضائیہ کے شہید جوانوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کے نام نقش کیے گئے ہیں۔ اہم موقعوں پر یادگارِ شہداء پر سلامی دی جاتی ہے اور گلہائے عقیدت پیش کیے جاتے ہیں۔ پی اے ایف میوزیم میں 1965ء کی جنگ میں مہارت دکھانے والے شیر دل جوانوں کی یاد میں اہم یادگار اشیاء بھی نمائش کے لیے آویزاں کی گئی ہیں۔ میوزیم میں باقاعدہ ایک ہال ہے جہاں پاک فضائیہ کے تمام سربراہان کا تعارف بھی پیش کیا گیا ہے۔ جنگی طیارے، ان کے ساز و سامان، ایم ایم عالم کا اعزازی مجسمہ، اور دیگر عسکری ساز و سامان اپنی مکمل معلومات کے ساتھ موجود ہیں۔ یہاں پاک فضائیہ کی پہلی شہید پائلٹ مریم مختار شہید کے عسکری یونیفارم اور ان کے زیر استعمال اشیاء کو بھی محفوظ کیا گیا ہے۔ بچوں کے لیے جدید اور محفوظ جھولوں سمیت حفظانِ صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے فوڈ کورٹ بھی بنایا گیا ہے۔ یہاں قریب سے گزرتی ٹرین اور قریب موجود فیصل بیس سے اڑتے طیارے سب کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ الغرض پی اے ایف میوزیم ایک مکمل تفریحی اور سیاحتی مقام ہے۔
آثار البحریہ (پی این ایس کارساز):
کراچی کارساز پر واقع پاک بحریہ کا شہرئہ آفاق میوزیم قابلِ دید ہے۔ یہاں تاحدِّ نگاہ پھول اور سبزہ ہے۔ ایک مصنوعی جھیل بھی واقع ہے۔ اس جھیل میں بحری جہاز اور آبدوز بطور نمونہ موجود ہیں، جو کہ عوام کی دلچسپی کا باعث ہیں۔ ایک عدد طیارہ بھی بطور نمونہ اس مقام کی جاذبیت کو بڑھاتا ہے۔ لائٹ ٹاور اور اینٹی ایئر کرافٹ گنوں کے ماڈل اس پارک کو ایک منفرد انداز دیتے نظر آتے ہیں۔ فوڈ کورٹ اور گفٹ شاپس خواتین اور بچوں کی دلچسپی کا خاص مرکز ہیں۔ یہاں ایک آڈیٹوریم بھی واقع ہے جس میں پاکستانی بحریہ کی تاریخ اور کارناموں کی تفصیلات تاریخی یادگاروں سمیت موجود ہیں۔ پاکستانی بندرگاہوں کے ماڈلز، پاک بحریہ کے اثاثہ جات، اہم موقعوں کی یادگار تصاویر، ملک و ملت کے دفاع میں شہید ہونے والے سپوتوں کی کہانیاں نقش ہیں۔ جہاں نگاہ اٹھی ہے ٹھیر جاتی ہے۔ وہیل مچھلی کا دیوقامت ڈھانچہ دیکھ کر آبی حیات کے رموز کو جاننے کا موقع ملتا ہے، اور کشتی بناتے معماروں کے مجسمے اتنی خوبصورتی اور مہارت سے بنائے گئے ہیں کہ حقیقت کا گمان ہونے لگتا ہے۔ کراچی کے شہریوں اور دیگر سیاحوں کے لیے یہ ایک پُرلطف جگہ اور بامقصد سرگرمی کے لیے موزوں ترین مقام ہے۔
پورٹ گرینڈ:
درحقیقت پورٹ گرینڈ ایک تفریحی مقام سے زیادہ تاریخی مقام ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جو برطانوی حکومت کے وقتوں سے آباد تھی۔ اسی لیے اس کے اردگرد کی تمام عمارتیں بھی یادگار ہیں۔ نیٹی جیٹی پل کے دامن میں تفریحی کمپلیکس کے قیام سے یہاں لوگوں کو مل بیٹھنے کا ایک بہترین مقام میسر ہوا ہے۔ نیٹی جیٹی پل شہر اور بندرگاہ کو ملانے کے لیے 1854ء میں تعمیر کیا گیا۔ بعد ازاں شہر کی ٹریفک کو دیکھتے ہوئے دیگر پل تعمیر کیے گئے۔ اس کے ایک جانب کراچی پورٹ ٹرسٹ، اور کراچی ڈاک لیبر بورڈ کی عمارت ہے، جبکہ اس کے قرب میں پی این ایس سی کی فلک بوس عمارت موجود ہے۔ پی آر سی ٹاور بھی یہیں موجود ہے۔ اس اہم ترین مقام پر ایک تفریحی گاہ کا قیام نعمت سے کم نہیں۔ پورٹ گرینڈ میں شام ڈھلتے ہی رنگوں و روشنیوں کی برسات ہونے لگتی ہے۔ سمندر کے عین اوپر پُرفضا مقام پر ڈائننگ ایک خوشگوار تجربہ ثابت ہوتا ہے۔ پانی میں جھلملاتی شہرِ قائد کی روشنیاں رومانوی ماحول پیدا کردیتی ہیں۔ یوں آنے والے معززین پُرسکون ساحل اور اردگرد کی دیوقامت عمارتوں کے نظاروں کی خوشگوار یادیں لے کر واپس لوٹتے ہیں۔ یہاں بوٹ کی سواری کا بھی انتظام ہے، اور شوقین حضرات اس سرگرمی سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔پورٹ گرینڈ پر کئی ملکی اور غیر ملکی سیاح آچکے ہیں۔ اگر اس مقام پر مزید توجہ دی جائے تو اس کے حسن کو مزید نکھارا جاسکتا ہے۔
ہل پارک
شارع فیصل پر سفر کرتے ہوئے اگر بلوچ کالونی کے پل کے قریب سے گزرنا ہو تو کچھ لمحے کے لیے ایک پُرفضا مقام پر ضرور جائیں۔ جی ہاں میری مراد ہل پارک سے ہے۔ جیسے کہ نام ہی سے واضح ہے کہ ایک پہاڑی پر انتہائی خوبصورتی سے ڈیزائن کیا ہوا ایک تفریحی اور پُرفضا مقام، جہاں سے کراچی شہر کا انتہائی رومانوی منظر نظر آتا ہے، شارع فیصل اور شہید ملت روڈ بہت قریب دکھائی دیتے ہیں،کراچی کی بل کھاتی سڑکیں آپ کو پیروں میں رینگتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں، اور اردگرد کے مناظر دل موہ لیتے ہیں۔ اس پارک میں بچوں کا پلے ایریا بھی ہے جہاں برقی جھولوں پر بچے خوب انجوائے کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک عدد مصنوعی جھیل بھی یہاں موجود ہے جس میں بطخوں کی کثیر تعداد نظر آتی ہے۔ بدقسمتی سے اس پارک کی موجودہ صورت حال زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ جھیل کا پانی تبدیل نہ ہونے کی وجہ سے متعفن ہوچکا ہے، باغبانی کے فقدان نے پارک ایریا کو بنجر علاقے میں تبدیل کردیا ہے، بینچیں بھی قابلِ مرمت ہیں۔ اگر حکومتی سطح پر توجہ دی جائے تو ایک بہترین مقام سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے۔
(باقی صفحہ پر)
قائداعظم پارک
اسٹیل ٹائون کے قرب میں واقع ایک وسیع رقبے پر پھیلے حسین و جمیل پارک کو قائداعظم محمد علی جناح کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس پارک کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ایک چھوٹا سا چڑیا گھر بھی ہے جو بچوں کی دلچسپی کا باعث ہے۔ وسیع رقبے پر مشتمل اس پارک میں کشتی رانی کے لیے ایک مصنوعی جھیل بھی بنائی گئی ہے، اور مختلف پوائنٹس کو پاکستان کے یادگار مقامات سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ایک چھوٹی سی ریل گاڑی اس پارک کے دامن کی سیر کراتی ہے۔ کینٹین ایریا میں کھانے کی مزیدار اشیاء بھی دستیاب ہیں۔ یہ پارک اپنے ابتدائی ایام میں بہت اچھی حالت میں تھا، لیکن جوں جوں وقت گزرتا رہا دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب یہاں ویرانیوں نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ انتظامیہ اور مقامی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کے لیے اس پارک کی مکمل آرائش اور تعمیرنو کے عملی اقدامات کریں، تاکہ شہرِ قائد کے اس بارونق مقام کو دوبارہ سے جاذبیت مل سکے۔
چڑیا گھر
شہری حکومت نے ماضیِ قریب میں چڑیا گھر کے اطراف میں تمام تجاوزات کا خاتمہ کرکے کراچی چڑیا گھر کی بیرونی دیواروں اور حدود کو ایک نئی شکل دے دی ہے، جس کی وجہ سے کراچی چڑیا گھر ایک نئی نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس چڑیا گھر میں شیر کے صدیوں پرانے اسٹیچو ہوں یا دہائیوں پرانے گھنے درخت… دونوں ہی نایاب ہیں۔ لیکن شہری حکومت کی عدم توجہی کے باعث یہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ جھیل کے متعفن پانی اور خالی پنجروں نے اس قیمتی اثاثے کو بے قدر وقیمت کردیا ہے۔ جانوروں کی حالت قابلِ رحم ہے اور کئی نایاب جانور اب دکھائی نہیں دیتے۔ پلے ایریا بھی مرمتی کاموں کا تقاضا کررہا ہے۔ حکومت اگر چڑیا گھر کی اندرونی صفائی اور دوسرے اہم پہلوئوں پر توجہ دے تو شہریوں کو دوبارہ ایک بہترین تفریحی مقام میسر آسکتا ہے۔