کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ پاکستان کا سب سے بڑا معاشی، تجارتی، صنعتی شہر ہے۔ یہ روشنیوں کا شہر ہے۔ یہ امیروں کا غریب پرور شہر ہے۔ یہ علم، تعلیم، تحقیق، مدارس، دارالعلوم اور جامعات کا شہر ہے۔
کراچی کی تاریخ پر ایک اجمالی نظر ڈالتے ہیں:
تاریخی کتب کے مطابق یہ خان قلات کی ریاست مکران کے قریب مچھیروں کی ایک بستی تھی، اور ایک خاتون مائی کلاچی کی مناسبت سے اس کا نام کلاچی گوٹھ تھا۔ 1729ء سے 1795ء تک یہ خان قلات کے پاس رہا۔ 1795ء میں سندھ حیدرآباد کے تالپر کے تسلط میں آیا۔ 3فروری 1839ء کو انگریزوں نے کراچی، اور 17 فروری 1843ء کو سندھ فتح کیا۔ انگریزی فوج کے جرنیل سر چارلس نیپئر نے کراچی کو سندھ کا دارالحکومت بنایا۔
کراچی کی سمندری بندرگاہ کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے انگریزی حکومت نے کراچی پر خصوصی توجہ دی، اور برصغیر میں چند شہروں کلکتہ، ممبئی، پونا کے بعد کراچی پر توجہ مرکوز کی۔ 1846ء میں ہیضے کی وبا پھیلی تو اس کی روک تھام کے لیے ایک شہری کمیٹی بنائی گئی، جسے ترقی دے کر 1852ء میں کراچی میٹرو پولیٹن کمیشن کا نام دیا گیا، بعد میں 1853ء میں کراچی میونسپل کمیٹی کا نام دیا گیا۔ 1933ء میں قانونی آئینی ایکٹ کے تحت کراچی میونسپل کارپوریشن کی تشکیل ہوئی۔ اس تاریخی جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر تعصب کے انگریزی حکومت نے کراچی کی ترقی کے لیے منصوبہ بندی کی، اور یہی وجہ تھی کہ کراچی نہ صرف انگریزی دور بلکہ بعد میں تجارتی مرکز بنا۔
برصغیر میں 1857ء میں انگریز حکومت قائم ہوئی۔ برطانیہ میں جو تعلیمی و صنعتی ترقی ہوتی گئی برطانوی حکومت نے اپنی تمام کالونیوں میں اسے پھیلایا، اور یہی اس کی کامیابی کا راز تھا۔ پہلی ریلوے لائن کراچی تا پشاور بچھائی، پھر 1879ء میں ہندوستان کے دیگر علاقوں سے ملا دیا۔
1864ء میں ٹیلی گراف سروس شروع کی۔ 1865ء میں پہلا علمی، ادبی، ثقافتی مرکز فریئر ہال قائم کیا۔ 1890ء میں ایمپریس مارکیٹ شہر کے وسط میں قائم کی اور تجارت کو فروغ دیا۔ 1929ء میں ہوائی اڈہ قائم کیا، برطانوی ہوابازی کی صنعت سے جوڑا۔
میرا صرف یہ نقطہ نظر ہے کہ حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عوام کو سہولیات فراہم کی جائیں، اور برطانوی حکومت کی کامیابی اسی وجہ سے ہوئی۔
کراچی شہر کی منصوبہ بندی کے لیے 1927ء میں کے ایم سی کی بلڈنگ کی بنیاد رکھی گئی۔ 1930ء میں یہ عمارت مکمل ہوئی۔ 1932ء میں اس کی افتتاحی تقریب ہوئی۔ 1933ء میں جمشید نوشیروان جی کراچی کے پہلے میئر بنائے گئے۔ ہر میئر نے کراچی کی ترقی کے لیے کام کیا۔ حاتم علوی، سر عبداللہ ہارون، ہاشم گزدر مسلم میئر ہوئے۔ قیام پاکستان کے وقت حکیم احسن میئر کراچی تھے۔برطانوی عہد میں پہلا سرکاری اسکول نارائن جگن ناتھ ہائی اسکول کے نام سے اکتوبر 1855ء میں قائم کیا گیا جو این جے وی اسکول کے نام سے مشہور ہوا۔
حسن علی آفندی صاحب تاجر تھے اور سرسید سے متاثر۔ آپ نے سندھ مدرستہ الاسلام کے نام سے کراچی میں جدید تعلیم کے لیے 1885ء میں اسکول قائم کیا۔ اس اسکول سے مسلمانان کراچی و سندھ کے لیے تعلیم کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ انگریز مشنری نے چرچ مشن اسکول، سینٹ پال، سینٹ پیٹرک، سینٹ جوزف، سینٹ لارنس اسکول قائم کیے اور تعلیم کے لیے کام کیا۔
ہندو کمیونٹی نے بھی ڈی جے کالج قائم کیا۔ پارسی کمیونٹی نے این ای ڈی انجینئرنگ کالج قائم کیا۔ نوشیروان جی نے بی وی ایس اسکول قائم کیا۔ اُس زمانے میں صاحبِ ثروت تاجر برادری نیک نیتی سے اسکول اور اسپتال قائم کرتی تھی، تاکہ عوام کو آسانی ہو، اور عوام ان نیک صفت لوگوں کو شہری حکومت میں منتخب کرتے تھے۔ دوسرے یہ کہ جو میئر منتخب ہوتا تھا وہ اپنے ذاتی عطیہ سے اسکول اور اسپتال قائم کرتا تھا۔ مسلمانوں میں سر عبداللہ ہارون، حاتم علوی، ہدایت اللہ، پیر الٰہی بخش سب اپنی خدمات سے مقبول تھے۔
قیام پاکستان کے بعد بیگم رعنا لیاقت علی خان نے دردمند خواتین کے ساتھ مل کر اپوا قائم کی، اور اس کے تحت گلبہار لیاقت آباد میں لڑکیوں کے لیے اسکول، اور کریم آباد میں کالج کھولے اور علم پھیلانے میں اہم حصہ لیا۔
آگرہ اکبر آباد کے ریاض الدین احمد نے لیاقت آباد، ناظم آباد، پاپوش نگر وغیرہ کے علاقوں میں شعیب اسکول، انجمن اسکول، ریاض کالج برائے خواتین، جناح کالج، جناح پولی ٹیکنک، جناح پوسٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین اور پھر جناح یونیورسٹی برائے خواتین قائم کی۔ ریاض الدین احمد سرسید ثانی ہیں، نئے شہر میں نئی آبادیوں میں مہاجر آبادکاری کے علاقے میں تعلیم کے فروغ کے لیے ان کی خدمات بہت اہم ہیں۔ 1950ء سے 1980ءتک آپ عملی جدوجہد کرتے رہے۔ آپ نے انجمن اسلامیہ کے تحت یہ ادارے بنائے۔ آپ نے ”انجمن“ رسالہ بھی جاری کیا تھا۔ آپ نے زبیدہ پولی ٹیکنک کالج برائے خواتین اور، لائبریری بھی بنائی۔ دورِ طالب علمی میں آپ سے ملنے کی سعادت و شرف مجھے حاصل ہوا۔ ”انجمن“ میں بھی لکھا۔ اس رسالے میں آگرہ اسکول کے اہم شعرا و ادیبوں پر مضامین زیادہ شائع ہوتے تھے۔ مثلاً سیماب اکبر آبادی، رعنا اکبر آبادی، صبا اکبر آبادی، مفتی انتظام اللہ شہابی وغیرہ… اگر کسی محقق کو آگرہ اسکول پر کام کرنا ہو تو انجمن کے رسائل مددگار ہوسکتے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد 1950ء میں سیکنڈری اسکول بورڈ کا قیام عمل میں آیا۔ میٹرک کے امتحانات ہونے لگے۔ پھر انٹر بورڈ اور پھر کراچی یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ کراچی یونیورسٹی نے ستّر سال میں بے انتہا ترقی کی اور 50 طلبہ سے شروع ہونے والی یونیورسٹی آج 40 ہزار طلبہ کو سالانہ گریجویشن کراتی ہے۔ یہ 53 شعبوں پر مشتمل ہے اور 30 تحقیقی ادارے اس سے منسلک ہیں۔ اس وقت یونیورسٹی میں 42 ہزار طلبا پڑھ رہے ہیں، پاکستان میں ایم بی اے کی تعلیم کے لیے امریکی امداد سے 1955ء میں آئی بی اے شروع کیا گیا تھا۔ اسی طرح سائنس میں کیمیا، طبیعیات کے اطلاقی شعبے اس میں قائم کیے گئے۔ فوڈ سائنس، مالیکیولر بیالوجی، حیاتی کیمیا، میرین سائنسز، زراعت، جینیات پنجوانی انسٹی ٹیوٹ آف جینٹک، یاسین انسٹی ٹیوٹ آف کیریئر پلاننگ، زید اسلامی انسٹی ٹیوٹ، اور سب سے اہم اور پہلا حسین ابراہیم جمال انسٹی ٹیوٹ جو ترقی کرکے کیمیا کا سب سے بڑا تحقیقاتی مرکز بن گیا۔ کراچی یونیورسٹی کے 30 تحقیقی مراکز پر تفصیلی روشنی ڈالنے کے لیے ایک کتاب کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں تک کام پہنچ سکے۔
مختلف علما، مشاہیر، ادیب جب ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان تشریف لائے تو اپنے ادارے اور تشخص بھی لائے، اور وسائل نہ ہونے کے باوجود عزم و حوصلے سے کراچی سمیت پاکستان بھر میں فروغِ علم و ادب، تحقیق و تعلیم میں حصہ لیا۔ ان میں سب سے بڑا اور نمایاں نام مولوی عبدالحق صاحب کا ہے۔ آپ 1923ء سے انجمن ترقی اردو ہند کے سیکریٹری تھے، آپ نے 1948ء میں کراچی ہجرت کی اور انجمن ترقی اردو کی بنیاد رکھی۔ پہلے صدر سر عبدالقادر مقرر ہوئے اور مولوی عبدالحق سیکریٹری۔ بعد میں آپ صدر مقرر ہوئے۔ آپ نے اردو کالج قائم کیا اور سائنسی اور دیگر علوم کی تعلیم شروع کی۔ بعد میں آپ کے جانشین آفتاب احمد خان اور جمیل الدین عالی کی کوششوں سے 2002ء میں یہ پاکستان کی پہلی وفاقی اردو جامعہ بن گئی۔ ابتدا میں شعبہ تصنیف و تالیف بھی قائم کیا گیا تھا، لیکن جامعہ کے قیام کے بعد اس کو مزید بہتر کیا گیا۔ ڈاکٹر اسلم فرخی اس کے سربراہ ہوئے، اور حیاتیاتی علوم حیاتی کیمیا، خورد حیاتیات، جینیات، نباتیات، حیوانات پر ایم اے کی سطح پر جدید تحقیق پر مبنی کتب کی اشاعت ہوئی۔
مولوی عبدالحق نے انجمن ترقی اردو کے ذریعے اردو تحقیق اور تنقید کے لیے سہ ماہی ”اردو“ اور ماہنامہ ”قومی زبان“ جاری کیا۔ یہ آج بھی جاری ہیں۔ ڈاکٹر اسلم فرخی، ادا جعفری، قدرت اللہ شہاب، نورالحسن جعفری، اختر حسین، مشفق خواجہ، افسر امروہوی، ممتاز احمد خان، شہزاد منظر، فاطمہ حسن، رخسانہ صبا، رؤف پاریکھ انجمن ترقی اردو اور اس کے رسائل سے وابستہ رہے اور اہم کردار ادا کیا۔ آج کل ثروت رضوی، واجد رضوی، شاداب احسانی، یاسمین فاروقی اس سے منسلک ہیں اور تحقیق کا کام جاری ہے۔
مولوی عبدالحق نے حیدرآباد دکن میں جامعہ عثمانیہ میں پروفیسر کے بھی فرائض انجام دیئے تھے اور دارالترجمہ کے ناظم بھی رہے۔ آپ نے فرہنگ کے لیے بھی کام شروع کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد 14جون 1958ء کو آپ کی کوشش سے اردو بورڈ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس کے اراکین میں جوش ملیح آبادی، پیر حسام الدین راشدی، شان الحق حقی، ابواللیث صدیقی، سید عبداللہ، خواجہ حمیدالدین شاہد شامل تھے۔ بعد میں ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، سحر انصاری، فہمیدہ ریاض، رؤف پاریکھ اور عقیل عباس جعفری بھی اس سے منسلک رہے۔ اس کے تحت 22 جلدوں میں اردو لغت شائع ہوئی۔ اس کو آڈیو سی ڈی میں بھی منتقل کردیا گیا اور اردو کو بین الاقوامی سطح پر پہنچایا گیا۔
مولوی عبدالحق کی طرح میجر آفتاب حسن جب کراچی تشریف لائے تو سائنٹفک سوسائٹی بھی لائے۔ جی ہاں سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی۔ پاکستان میں سائنسی علوم کے لیے کام کیا۔ ’کاروان سائنس‘ سمیت بچوں کے لیے سائنسی رسالے جاری کیے، سائنسی موضوعات پر لکھنے والے تیار کیے۔ عظمت علی خان، رضی الدین خان، عطا محمد تبسم… سب آپ سے فیض یاب ہوئے۔ میجر آفتاب حسن نے اردو سائنس کالج کی ترقی میں بھی نمایاں حصہ لیا۔
سرسید کی مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کو الطاف بریلوی اور مصطفیٰ بریلوی نے کراچی میں زندہ رکھا اور ”العلم“ رسالہ جاری کیا، سرسید کالج برائے خواتین بنایا۔ اس کالج نے پچاس سال میں لاکھوں لڑکیوں کی تعلیم و تربیت میں حصہ لیا۔ سلمیٰ زمن، عقیلہ تنویر جیسی ماہرینِ تعلیم اس سے وابستہ رہیں۔
مرزا ظفر الحسن جامعہ عثمانیہ کے طلب علم رہنما رہے تھے، نشرگاہ حیدرآباد دکن سے بھی وابستہ رہے، کراچی آکر فیض احمد فیض کے ساتھ مل کر ادارہ یادگار غالب بنایا اور اس میں اردو کتب خانہ قائم کیا جو اردو تحقیق کے لیے اہم ادارہ ہے۔اس ادارے سے مختار زمن، فاطمہ ثریا بجیا، رعنا فاروقی اور مشرف احمد وابستہ رہے۔ آج کل رؤف پاریکھ نگران ہیں۔
ڈاکٹر ظفیرالحسن کا تعلق ”گیا“ بہار سے ہے۔ آپ نے مولوی عبدالحق کے اسفار پر تحقیقی مضامین لکھے۔ پاکستان آنے کے بعد آپ نے بیدل…جی ہاں غالب کے استادِ فارسی اور مشہور شاعر پر شرف آباد میں ’بیدل لائبریری‘ قائم کی۔ اس کتب خانہ میں اردو کے قدیم رسائل محفوظ ہیں اور ہزار ہا کتبِ اردو۔ پاکستان میں اسلامی تعلیمات پر کام کرنے کے لیے یہ ایک عمدہ کتب خانہ ہے۔ عموماً اسکالر یہاں آتے اور مقالات کے لیے کتب و رسائل حاصل کرتے۔ آج کل زبیر صاحب نگران ہیں۔
نواب بہادر یار جنگ برصغیر کے ممتاز رہنما تھے، عشقِ رسولؐ، قائداعظم، علامہ اقبال ان کا محور تھے۔ آپ کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا۔ آپ کے عقیدت مند افراد نے کراچی کے بہادر آباد میں 1965ء میں بہادر آباد اکادمی قائم کی۔ اس کے کتب خانے میں حیدرآباد دکن دارالترجمہ، بہادر یار جنگ، پاکستان، اقبالیات پر اہم ونادر کتب موجود ہیں۔ دکھنیات پر کام کرنے والے محققین کے لیے یہ اہم ادارہ ہے۔ اس کے تحت حیدرآباد دکن اور بہادر یار جنگ پر کتب شائع ہوتی رہی ہیں۔ مولانا غلام محمد، محمد خان، ڈاکٹر عبدالحئ، خواجہ حمید الدین شاہد، وحید خان بوزئی، مجید فاروقی ، مہدی صدیقی، خواجہ قطب الدین، میر حامد علی، سعید اللہ، محمود علی انصاری، پروفیسر خلیل اللہ اس سے منسلک رہے۔ اس کے قیام کے لیے ابراہیم جلیس، مسلم ضیائی، غلام فاروق، حمید شاہد علوی صاحبان نے نمایاں کام کیا۔ یہ کراچی کے ٹاؤن پلانر احمد علی صاحب کی کوشش سے بنی تھی۔ آج کل پروفیسر وسیم الدین صدر، میر حسین علی امام نائب صدر، عارف الدین احمد، میر مجلس صبیح حسینی جنرل سیکریٹری ہیں۔
دینی علوم کے مدارس تحقیق کا بھی سرچشمہ ہیں۔ دارالعلوم کورنگی، دارالعلوم بنوری ٹاؤن، دارالعلوم نعیمیہ امجدیہ اسلامی علوم کی روشنی میں جدید معاشیات، اسلامی بینکاری، اسلام کے قوانین، اسلامی طرزِ زندگی پر اہم کام کررہے ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل کے لیے افرادی قوت اور مواد فراہم کرتے ہیں۔
حکیم سعید، فرید الدین بقائی اور زیڈ اے نظامی کے بغیر کراچی کی تاریخ اور علمی کام ادھورا ہے۔ حکیم سعید نے مدینۃ الحکمت، بیت الحکمت، ہمدرد یونیورسٹی، ہمدرد یونیورسٹی کے تحت کتب خانہ، سائنسی علوم، قانون، طب، مشرقی طب، انجینئرنگ پر کالج، ادارے، تحقیقاتی مراکز قائم کیے، چار نجی یونیورسٹیوں کو چارٹر عطا کیا۔
فرید الدین بقائی نے بقائی یونیورسٹی کے تحت طب کے مختلف شعبوں میں تحقیقاتی مراکز قائم کیے، خصوصی طور پر تولیدی امراض پر۔
زیڈ اے نظامی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے، اس لیے کراچی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن بنائی اور پھر سرسید انجینئرنگ یونیورسٹی بنائی۔ اس کے تحت ہزار ہا طلبہ وطالبات انجینئر بن کر ملک کی خدمت کررہے ہیں۔
حکومتی سطح پر محکمہ موسمیات، سپارکو، پی سی ایس آئی آر، کینپ اپنے اپنے شعبوں میں کام کررہے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل کا شکریہ کہ کراچی کے مسائل کے حل اور کراچی کی ترقی کے لیے کام کررہا ہے۔ اس موضوع پر ہر ادارے پر ہفتہ وار فیچر ایجوکیشن رپورٹر کے ساتھ مل کر کیا جاسکتا ہے، اس سے ایک مربوط و جامع دستاویزی مواد سامنے آسکتا ہے، جس کی روشنی میں محققین اور صاحبانِ اختیار و اقتدار کو بھی پالیسی بنانے میں آسانی رہے گی۔