علم و تحقیق میں کراچی کاامتیاز

کراچی قیام پاکستان کے وقت تک محض مچھیروں کا ایک ساحلی شہر اور بندرگاہ ہونے کی وجہ سے قدرے اپنی ایک جغرافیائی اہمیت کا بھی حامل تھا، لیکن علمی سطح پر ایسی کوئی مثالی قدر و قیمت نہ رکھتا تھا کہ اس کا ذکر علم اور ادب کے حوالوں سے عام ہوتا، لیکن اس کے باوجود قدرے کچھ ایسی روایات موجود تھیں کہ علمی و ادبی طور پر یہ ایک یکسر بانجھ شہر بھی نہ تھا۔ یہاں علمی و ادبی سرگرمیوں، مشاعروں اور رسائل کے شائع ہونے کی شہادتیں ملتی ہیں، اور جو کتب خانوں میں بھی محفوظ ہیں۔ افسر صدیقی امروہوی ایک معروف محقق اور شاعر یہاں قیام پاکستان سے بہت پہلے آکر آباد ہوئے، وہ شاعری بھی کرتے رہے اور یہاں کے رسائل میں لکھتے بھی رہے۔ اردو کی ادبی تحقیق بعد میں ان کی شناخت بنی۔ اور جب مولوی عبدالحق بابائے اردو کراچی تشریف لائے اور اپنے ساتھ ’’انجمن ترقی اردو‘‘ اور اس کے نہایت قیمتی کتب خانے کو بھی دہلی سے یہیں منتقل کیا تو افسرصدیقی امروہوی انجمن سے منسلک ہوگئے اور اپنی آخری سانس تک انجمن سے منسلک رہ کر انجمن کے اور اپنے ذاتی بیش بہا تحقیقی منصوبوں کی تکمیل میں مصروف رہے۔
بابائے اردو کی کراچی آمد وقیام اور’’ انجمن ترقی اردو‘‘کی کراچی میں تنظیمِ نو نے کراچی کو ایک بہت فعال علمی و مطالعاتی حیثیت سے ہم کنار کردیا، اور 1961ء میں بابائے اردو کی رحلت تک یہ شہر اوراس میں قائم ’’انجمن ترقی اردو‘‘ کا کتب خانہ اور انجمن ہی کی سرپرستی میں قائم ’’اردو کالج‘‘ نے اس شہر کو علمی اور تعلیمی لحاظ سے حد درجہ باثروت اور وقیع بنادیا۔ انجمن کی وجہ سے یہاں ایک تسلسل کے ساتھ علمی و مطالعاتی سرگرمیاں جاری ہوئیں۔ سہ ماہی رسالہ’’اردو‘‘، ماہنامہ ’’قومی زبان‘‘، ’’سائنس‘‘ اور’’ تاریخ و سیاست‘‘ جیسے عمدہ اور معیاری رسالے جاری ہوئے۔ ’’اردو کالج‘‘ نے جہاں اردو زبان میں ہر مضمون کی ہر سطح کی تعلیم عام کرنے کا سلسلہ شروع کیا، وہیں اپنے اپنے شعبوں میں ماہر اساتذہ، منتظمین اور علما و دانش وروں کو بھی جمع کرلیا، جن کی علمی و مطالعاتی اور تعلیمی و تدریسی سرگرمیوں کی وجہ سے اس شہر نے اُس وقت پاکستان کے ایک ممتاز شہر کی حیثیت و شہرت حاصل کرلی۔ ہر مضمون کے ماہرین نے یہاں اپنے مطالعات و تحقیقات کا ایک سلسلہ شروع کیا جو برسہا برس تک برقرار رہا۔ اُن ہی دنوں میں چند اور تعلیمی ادارے بمثل اسلامیہ کالج اور گورنمنٹ کالج ناظم آبادبھی یہاں قائم ہوئے، جن کا ایک آخری مرحلہ ’آدم جی سائنس کالج‘، ’داؤد انجینئرنگ کالج‘ کے قیام سے مکمل ہوا، جب کہ ’ڈی جے سائنس کالج‘ پہلے ہی سے اپنی مثالی تعلیمی خدمات انجام دے رہا تھا۔ لیکن چوں کہ ’’اردو کالج‘‘ نے اردو زبان کو ذریعۂ تعلیم کے طور پر اختیار کیا تھا، اس لیے اس سے منسلک ہونے والے اساتذہ کا ایک خاص تعلق جامعہ عثمانیہ یا حیدرآباد دکن سے تھا، اور یہاں تدریس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اس کالج میں قائم کردہ ’’شعبۂ تصنیف و تالیف‘‘ میں بھی سرگرمی دکھائی اور اہم نصابی کتابوں کے ترجمے یا اردو میں تالیف کا ایک سلسلہ بھی شروع ہوا جو حد درجے مفید ثابت ہوا۔ یہ پاکستان میں ایک منفرد روایت کا آغاز تھا، ورنہ اُس زمانے میں لاہورکے ’’اورینٹل کالج‘‘کے سوا پورے پاکستان میں کوئی مستحکم علمی روایت کسی کالج سے منسلک نہ تھی۔
’’اردو کالج‘‘ کے قیام کے کچھ ہی عرصے بعد ’’کراچی یونیورسٹی‘‘کا قیام بھی اس شہر کو بہت راس آیا، جس نے اُس وقت ملک میں موجود ’’پنجاب یونیورسٹی‘‘ اور ’’اورینٹل کالج‘‘ سے قطع نظر اردو زبان میں تدریس کا سلسلہ یہاں شروع کیا، اور اس کے قائم شدہ’’شعبۂ تصنیف و تالیف اور ترجمہ‘‘ نے بھی اردو تدریس کے لیے معاون نصابی کتابوں کو بڑے پیمانے پر شائع کرنا شروع کیا جو تادیر جاری رہا۔ ’’اردو کالج‘‘ سے منسلک اساتذہ کی ایک تعداد بھی’’اردو کالج‘‘ سے نکل کر کراچی یونیورسٹی سے منسلک ہوئی اور وہاں بھی کامیاب اردو درس و تدریس کا ایک سلسلہ شروع ہوا، اور سا تھ ہی مغربی ممالک سے فارغ التحصیل اساتذہ نے بھی کراچی یونیورسٹی کو رونق بخشی، جس کے باعث اس کے نامور مؤرخ اور مصنف وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے زمانے میں یہ یونیورسٹی روایتاً پاکستان کی ’’کیمبرج یونیورسٹی‘‘ کے درجے پر پہنچ گئی۔ اسی یونیورسٹی میں جنوبی اور وسطی ایشیا کے ماہرین کی کوششوں سے تصنیف و تحقیق کے متعدد اہم منصوبے مکمل ہوئے اور بیش بہا مطبوعات سامنے آئیں، اور اسی مقصد سے قائم کردہ ادارہ: ’’موسسۂ تحقیقات علوم آسیائی میانہ و غربی‘‘ نے منفرد تحقیقات اور مطبوعات پیش کیں۔ ان سب سرگرمیوں کے روحِ رواں ڈاکٹر ریاض تھے، لیکن افسوس کہ یہ نامکمل رہیں اور ادبیات جیسے موضوعات پر ایسی عمدہ فہرستیں نہ بن سکیں۔ بعد میں انجمن کے دورِ زوال میں کس کو ایسے منصوبے کی تکمیل کا خیال آتا! اسی طرح انجمن کا ایک مفید منصوبہ مخطوطات کی وضاحتی فہرستیں تیار کرنا اور شائع کرنا تھا، چناں چہ افسر صدیقی اور سرفراز رضوی جیسے محققین کی محنت سے اردو مخطوطات کی وضاحتی فہرستیں چھے جلدوں میں شائع ہوئیں اور فارسی کی مختصر فہرست بھی شائع ہوئی، لیکن وضاحتی فہرستیں تیار کرواکے شائع کروانا ممکن نہ ہوسکا۔ افسوس کہ یہ مفید منصوبہ بھی تشنہ رہ گیا، اور اب انجمن میںکسی کو اسے مکمل کرنے کا شعور بھی شاید نہیں! ایسا ہی ایک مفید اور بے مثال منصوبہ افسر صدیقی نے ’’مآخذاتِ شعرا و مشاہیر‘‘کے عنوان سے شروع کیا تھا، تاکہ محققین کو اُن کے تحقیقی اور مطالعاتی منصوبوں میں مدد مل سکے۔ اس مفید منصوبے کی تین جلدیں شائع ہوئیں اور پھر یہ سلسلہ بھی افسر امروہوی کے انتقال کی وجہ سے رک گیا، اور اب اس کے دوبارہ شروع ہونے اور ایسے مفید و بے مثال منصوبوں کے مکمل ہونے کا کوئی امکان بظاہر نظر بھی نہیں آتا۔ اردو زبان وادب کی تاریخ میں کتبِ حوالہ اور معاون و مآخذ کتب کی تیاری کے ایسے بے مثال منصوبے، بمثل: ’’قاموس الکتب‘‘، ’’مآخذات‘‘اور فہارس مخطوطات اور نوادرات تو شاید نامکمل ہی رہیں، تو ایسی افسوس ناک صورت حال میں ایسے دیگر مفید اور نئے منصوبوں کے شروع کیے جانے کا کیا امکان ہوسکتاہے؟
ان سب سے قطع نظرایک بہت قابلِ تعریف خدمت کراچی نے ’’اردو لغت بورڈ‘‘کے قیام کی صورت میں کی، اور اس کے بنیادی اور مثالی منصوبے کوایک جامع اردو لغت کی تدوین کی صورت میں مکمل کیا، جس نے 22 جلدوں میں اردو کی ایک نہایت وقیع لغت مرتب و شائع کی جو دو سو سال کے عرصے میں اب تک کی جانے والی لغت نویسی کی ساری ہی کوششوں کے مقابلے میں بے مثال اور بے حد مفید ہے۔ یہ منصوبہ اس وجہ سے مثالی اور کامیاب رہا کہ اس ادارے کا قیام ہی ایک تو سراسر نیک نیتی و اخلاص پر مبنی تھا اور دوسرے کراچی اُس وقت اکابرو ماہرینِ زبان و ادب کا گڑھ بنا ہوا تھا جو اس طرح کی لغت کی تیاری کی پوری طرح اہلیت و لیاقت رکھتے تھے۔ چناں چہ پچاس برس کی کوششوں اور متعدد ماہرینِ زبان و لسانیات کی مشاورت کے بعد، جن میں بھارت کے ممتاز ماہرین بھی شامل تھے، یہ لغت رفتہ رفتہ تیار ہوئی جس کی تیاری کے دوران اس کے کراسوں کی اشاعت اور ان پر ماہرین کی آرأ بھی لی جاتی رہیں، اور بالآخر یہ لغت وسائل کے مطابق قسطوں میںشائع ہوئی۔ اب اگرچہ اس پر مزید نظرثانی اور ترمیم و اضافوں کی ضرورت موجود ہے لیکن اس بڑے اور اہم کام کے لیے جس شعور و جذبے کی ضرورت ہے وہ اب اربابِ اختیار میں معدوم نظر آتا ہے، اس لیے کوئی حوصلہ بخش صورت اس کی بہتری کی نظر نہیں آرہی ہے۔
’’انجمن ترقی اردو‘‘ ، ’’اردو لغت بورڈ‘‘ اور’’قائداعظم اکیڈمی‘‘ اپنے قیام کے بعد سے اب تک اپنے حالات کے تناظر میں کراچی ہی میں سرگرم رہے، لیکن ’’پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی‘‘ اپنے قیام کے بعد کئی سال تک اپنی مثالی اور وقیع تصنیفی و تالیفی مطبوعات کے توسط سے خدمات انجام دیتی رہی، لیکن اب یہ ’’ہمدرد یونیورسٹی‘‘ میں ضم ہوگئی ہے اور جیسے تیسے اپنے منصوبوں میں مصروف ہے، اور انگریزی میں اپنا تحقیقی مجلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاریخی مطالعات کو ایک اور ادارے ’’آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ نے بھی اپنے طور پر جاری رکھا اور اپنے رسالہ ’’العلم‘‘ کی اشاعت بھی جاری رکھی۔ اسی کے مماثل کراچی میں ’’بہادر یارجنگ اکیڈمی‘‘بھی ہے، لیکن اب یہ ادارہ اور اس کی مطبوعات کا تسلسل محض ماضی کی خوش گوار یادوں کی صورت میں باقی رہ گیا ہے۔
ماضی ہی کی ایسی خوش گوار یادوں میں ایک ’’ادارۂ یادگار غالب‘‘ اور اس کی ’’غالب لائبریری‘‘ بھی ہے جس نے اپنے قیام کے ساتھ ہی اپنی متنوع ادبی و تہذیبی اور اشاعتی سرگرمیوں کا اس طرح سلسلہ شروع کردیا اور ایک منفرد کتب خانہ قائم کردیا کہ جس کی نظیر مشکل ہی سے کہیں مل سکے۔ آغاز ہی میں اس کے اہتمام سے 1969ء میں غالب کی صد سالہ تقریبات کا اہتمام اور نہایت مفید کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا، جو ایک ایسا کارنامہ ہے جس کی شہرت عالمی سطح تک پہنچی اور کراچی کی عزت کا سبب بھی بنی۔ افسوس کہ کراچی کی علمی و ادبی شہرت و امتیاز کے ذمے دار ان اداروں کا مستقبل تابناک نہ رہا، اور ان میں سے بیشتر، بشمول ’’غالب لائبریری‘‘، ’’آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس‘‘اور ’’بہادر یار جنگ اکیڈمی‘‘جیسے ادارے اپنا ایک قابلِ تعریف دور گزار کر نااہل اور خود پسند و جاہ طلب افراد کے ہاتھوں یرغمال بن گئے، اور اب محض سسک رہے ہیں۔ ان ہی میں ’’قومی عجائب گھر‘‘کراچی کا گوشۂ مطبوعات و مخطوطات بھی ہے جو کبھی ضرورت مندوں اور محققین کے استعمال میں رہا کرتا تھا اور ایک وسیع تر استفادے کا سبب بنتا تھا۔
کراچی میں قائم ان اداروں سے قطع نظر اس شہر سے وابستہ چند اکابرِ علم و تحقیق نے بھی اپنے مطالعات اور تحقیقات کے ذریعے کراچی کو امتیاز عطا کرنے میں بے مثال خدمات انجام دی ہیں، جن کا اگرچہ انفرادی ذکر کیا جانا چاہیے لیکن یہ فریضہ ایسا ہی ہے جیسے سمندرکو کوزے میں بند کرنا ہو، جو ایک مستقل اور جامع مطالعے کا متقاضی ہے۔ اس ضمن میں راقم کا ایک مطالعہ بصورت: ’’پاکستان میں اردو تحقیق: موضوعات اور معیار‘‘(شائع کردہ انجمن ترقی اردو، پہلی اشاعت 1987ء اور دوسری اشاعت 2017ء) بطور نمونہ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے، جب کہ یہ بھی نامکمل ہے اور اس میں محض 1947ء سے1986ء تک کی نمائندہ مطالعاتی و تحقیقی سرگرمیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ محض چند ایسی تحقیقات کی جانب یہاں اشارہ کیا جاسکتا ہے کہ جنھیں اردو زبان وادب کے خلا کو پُر کرنے کی کوشش کہا جا سکتا ہے، اور اس ضمن میں ’’انجمن ترقی اردو‘‘ کے منصوبوں: ’’قاموس الکتب‘‘(تین جلدیں)، ’’مآخذاتِ شعرا و مشاہیر‘‘ (تین جلدیں)، ’’فہرست مخطوطات انجمن ترقی اردو‘‘(چھے جلدیں)، چند اہم نادر و نایاب متون مرتبہ افسر صدیقی امروہوی، اور ’’مثنوی کدم راؤ پدم راؤ‘‘ مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی، یہ ایسی کوششیں ہیں جنھیں اردو کے ادبی خلا کو پُرکرنے سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔ ان کاوشوں سے قطع نظر اس فہرست میں مؤخر الذکر فاضل مرتب کا ایک اورکام ایسا ہے جو ’’تاریخ اردو ادب‘‘ (چارجلدیں) کی تصنیف سے متعلق ہے اور جسے بلاشبہ کہا جاسکتا ہے کہ آج تک اردو زبان وادب کی جتنی تاریخیں لکھی گئی ہیں، یہ اگرچہ نامکمل رہ گئی اور صرف انیسویں صدی تک کا احاطہ کرتی ہے، لیکن اب تک لکھی جانے والی اردو ادب کی تاریخوں میں یہ سب سے معیاری و مستند تاریخ زبان و ادب ہے۔
یہ واقعہ ہے کہ ملک کے کم و بیش ہر شہر نے اور ان میں موجود اداروں نے علمی و تحقیقی میدان میں اپنی اپنی بساط بھر مخلصانہ کوششیں کی ہیں، جن میں، مثلاً لاہور میں: ’’اردو دائرۂ معارف اسلامیہ‘‘(پنجاب یونیورسٹی)، ’’مجلس ترقی ادب‘‘، ’’اقبال اکیڈمی پاکستان‘‘کی خدمات بے مثال ہیں جو اپنے اپنے متعینہ موضوعات پر یادگار کام کرتے رہے ہیں، لیکن کراچی، واقعہ یہ ہے کہ لاہور میں موجود اداروں کے مقابلے میں تہی دست رہا ہے، اور جو بھی کام یہاں ہوئے ہیں وہ ان اداروں کے اپنے عزم و حوصلے اور نجی وسائل کی حد تک ہی ہوئے ہیں، جب کہ اب یہ سلسلہ یا روایت دن بدن محدود سے محدود تر ہوتی جارہی ہے، اور یہ دراصل علمی و تحقیقی اعتبار سے راقم کی نظر میں زوال پذیر ہی ہے۔ کیوں کہ اس شہر کے لیے اب یہ تقریباً ہر شعبے میں قحط الرجال کا دور ہے۔
یقینا بابائے اردو کی کراچی آمد اور’’انجمن ترقی اردو‘‘ کے ذریعے یہاں علمی و تحقیقی سرگرمیوں کے آغاز اور تیز رفتار فروغ نے بہت جلد اپنی جانب علمی دنیا کو متوجہ کیا تھا جو ایک عرصے تک روز افزوں رہا۔ ’’انجمن ترقی اردو‘‘سے منسلک مصنفین اور محققین نے اپنی اپنی دل چسپی کے میدان میں مثالی اور یادگار کارنامے انجام دیے، جن میں افسر صدیقی اور سرفراز علی رضوی تو انجمن سے منسلک تھے اور اسی کے منصوبوں میں منہمک رہے، لیکن ڈاکٹر جمیل جالبی اُن مصنفین و محققین میں شامل تھے جو انجمن کے کتب خانے سے بے پناہ استفادہ کرتے اور اپنی تحقیقات کو معیار اور افادیت عطا کرتے رہے۔ مشفق خواجہ بھی کراچی یونیورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انجمن سے منسلک ہوگئے تھے اور اس سے اپنی وابستگی کو حد درجے مفید بنانے میں کامیابی اس طرح حاصل کی کہ انجمن کے قلمی ذخائر سے خاطر خواہ استفادہ کیا، یہاں تک کہ جب انجمن کے ناگفتہ بہ حالات کے عرصے میں احتیاطاً اس کا قلمی ذخیرہ ’قومی عجائب گھر‘ میں محفوظ کروایا گیا تو مشفق خواجہ ایک عرصے تک اس ذخیرے سے استفادہ کرنے کے لیے عجائب گھر جاتے رہے، اور نتیجے میں ان کے مثالی کام: ’’جائزہ مخطوطات اردو‘‘(جلد اوّل) اور تذکرہ ’’خوش معرکۂ زیبا‘‘(دوجلدیں) کی تدوین، اور ساتھ ہی ’’غالب اور صفیر بلگرامی‘‘ اور ’’تحقیق نامہ‘‘ کے مقالات کی تیاری انجمن کے ذخیرۂ کتب ہی کا فیض تھا۔
’’انجمن ترقی اردو‘‘ کا قائم کردہ ’’اردو کالج‘‘ خود بھی اپنے اپنے موضوع کے فاضل اساتذہ سے فیض یاب رہا جنھوں نے اپنے تصنیف و تالیف کے ذوق و شوق کو خوب خوب نمایاں کیا اور اپنے تدریسی مضامین سے متعلق موضوعات پر تصنیف و تالیف اور ترجموں میں خود کو مصروف رکھا۔ زبان اور ادب کے اساتذہ میں پروفیسر حبیب اللہ خاں غضنفر نے قدیم اردو ادب، اردو تذکروں کے تقابلی مطالعے اور ہندی ادب کی تاریخ پرعمدہ مقالات تحریر کیے، اور ڈاکٹر محمد ایوب قادری علمی دنیا میں اپنی تحقیقات کے حوالے سے عالمی شہرت سے متصف ہوئے۔ تاریخ اور رجال ان کے بنیادی موضوعات ِ دل چسپی تھے، جن میں رحمٰن علی کے ’’تذکرہ علمائے ہند‘‘ کا ترجمہ و تعلیقات ان کا بے مثال کارنامہ قرار دیاگیا۔ ان کا پی ایچ ڈی کا نہایت محققانہ مقالہ ’’اردو نثر کے ارتقا میں علمائے کرام کا حصہ‘‘ اور اہم تاریخی تصانیف:’’مأثر الامرأ‘‘، ’’طبقات اکبری‘‘ اور ’’سیرالعارفین‘‘ جیسی اہم فارسی کتب کے ترجمے، جو ان کے چند منتخب کام ہیں، مآخذ و مصادر کتب سے اردو دنیا کو مالامال کرنے کی مثالیں ہیں۔
علمی اور تعلیمی اداروں سے منسلک اساتذہ کی جانب سے ایسی مطالعاتی اور تحقیقی سرگرمیوں نے اس شہر میں ایک مستحسن روایت قائم کردی تھی جو خوش آئند رہی۔ اردو کالج سے منسلک کئی اساتذہ ’’کراچی یونیورسٹی‘‘ سے منسلک ہوئے اور وہاں تصنیف و تراجم کا سلسلہ شروع کیا، جن میں سائنس کے شعبوں کے اساتذہ بھی شامل تھے۔ وہاں یہ سرگرمیاں وہاں کے ’’شعبۂ تصنیف و تالیف وترجمہ‘‘ کے منصوبوں کے ذیل میں دیکھنے میں آئیں۔ لیکن کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ میں معاشرتی علوم، اسلامیات، اور تاریخ کے شعبوںکے اساتذہ نے منفرد تصنیفی کام کیے اور خاص طور پر شعبہ تاریخ عمومی کے اکابر نے، جن میں ممتاز مؤرخ اور مصنف ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر محمود حسین اور ڈاکٹر ریاض الاسلام شامل ہیں۔ ڈاکٹر قریشی تو عالمی شہرت و معیار کے مؤرخ شمار ہوئے ہیں جن کی مغلیہ عہد پر ابتدائی تصنیف تو کیمبرج یونیورسٹی میں لکھی گئی اور وہیں سے شائع ہوئی، لیکن کراچی یونیورسٹی سے منسلک ہونے کے بعد ان کی اہم تصانیف میں سے ’’تاریخِ پاکستان‘‘، ’’جدوجہدِ پاکستان‘‘، ’’علما، میدانِ سیاست میں‘‘،’ ’تعلیم، پاکستان میں‘‘ وغیرہ اولاً انگریزی میں لکھی گئی تھیں جو بعد میں اردو میں ترجمہ ہوئیں۔ لیکن ان کی ایک اہم اور مقبول ترین تصنیف ’’برعظیم پاک و ہند کی ملتِ اسلامیہ‘‘ ہے جو انگریزی ہی میں لکھی گئی تھی، پھر اردو میں ترجمہ ہوئی۔ یہ نصابوں میں بھی شامل رہی اور کئی بار شائع ہوئی۔ اپنے موضوع پر یہ نہایت معیاری اور فکرانگیز تصنیف ہے جس میں جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے عروج و زوال اور ان کی مذہبی و فکری اور قومی تاریخ کو بہت مستند مآخذ کی مدد سے لکھا گیا تھا۔
ڈاکٹر محمود حسین بھی ممتاز مؤرخ کی شہرت کے حامل رہے ہیں اور ان کی تصانیف میں ایک تصنیف ’’ٹیپوسلطان کے خواب‘‘ ہے جو انگریزی میں لکھی گئی تھی لیکن اس کا اردو ترجمہ ایک ممتاز مصنف مسلم ضیائی نے کیاتھا اور جس میں ترجمے کے علاوہ حواشی اور تعلیقات کی مدد سے نہایت قیمتی معلومات کا اضافہ کیاتھا۔یہ مسلم ضیائی وہی ہیں جنھوں نے غالب کی صد سالہ برسی کے موقع پر’’ ادارۂ یادگار غالب‘‘ کی جانب سے شائع شدہ مطبوعات کے منصوبے کے تحت’’غالب کا منسوخ دیوان‘‘ شائع کیاتھا اور غالب پسندوں سے داد وصول کی تھی۔اس موقع پر غالب کے فارسی خطوط کے مجموعے ’’پنج آہنگ‘‘کا اردو ترجمہ از محمد عمر مہاجر بھی شائع ہوا تھا، جس کا دوسرا ایڈیشن حال ہی میں ’’انجمن ترقی اردو‘‘ نے شائع کیاہے۔ غالب ہی پرپیر حسام الدین راشدی اور پروفیسر کرار حسین کی کتابیں بھی’’ ادارۂ یادگار غالب‘‘ نے شائع کی تھیں۔حسام الدین راشدی نے جو دراصل تحقیق سے مناسبت رکھتے تھے، ’’اردو کا مولد سندھ‘‘ کے عنوان سے بابائے اردو کی موجود گی میں اور ان ہی کی زیر ادارت رسالہ ’’اردو‘‘میں مقالہ لکھ کر شہرت حاصل کی تھی۔ راشدی نے غالب کی صد سالہ برسی کے موقع پر ’’دود چراغ محفل‘‘ نامی کتاب لکھ کر سندھ اور بلوچستان میں غالب سے متاثر شعرا پر دادِ تحقیق دی تھی۔
’’انجمن ترقی اردو‘‘ اور ’’ادارۂ یادگار غالب‘‘ کے علاوہ جس ادارے نے کراچی میں ایک عمدہ تحقیق کا نمونہ پیش کیا وہ ’’قائداعظم اکیڈمی‘‘ ہے جس نے قائداعظم پر کئی اہم اور معیاری اور دستاویزی نوعیت کی کتابیں شائع کی ہیں، لیکن اس کے ایک ڈائریکٹر پروفیسر شریف المجاہد کی قائداعظم پر انگریزی تصنیف نے معیار و افادیت کی ایک عمدہ مثال پیش کی۔ یہ ضخیم تصنیف قائداعظم کی زندگی اور جدوجہد، اور ان کے عزم و حوصلے کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کے بارے میں یہ کہنا کچھ مبالغہ نہ ہوگا کہ قائداعظم پر ایک راسخ نقطۂ نظر سے لکھی جانے والی یہ سب سے اہم اور معیاری تصنیف قرار دی جاسکتی ہے۔ اس اہم تصنیف کا افسوس کہ اب تک اردو ترجمہ شائع نہیں ہوا، لیکن اکیڈمی ہی کے ایک سابقہ ڈائریکٹر خواجہ رضی حیدر نے اس کا اردو ترجمہ کیا ہے جو اشاعت کے مرحلے میں ہے۔
اس ادارتی روایت میں ’’پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی‘‘ اور ’’کل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ کی دل چسپی کا محور ہماری تاریخ و سیاست اور قومی تحریکات رہا ہے۔ ’’پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی‘‘ نے اپنے ناظم ڈاکٹر سید معین الحق کی زیر سرپرستی نہایت اہم مطبوعات علمی دنیا کو دی ہیں جن میں ’’ہسٹری آف فریڈم موومنٹ‘‘ کی عہد بہ عہد چار ضخیم جلدیں انگریزی میں شائع کیں اور جن میں ممتاز اور معروف مؤرخین اور مصنّفین نے مختلف موضوعات پر تحریکِ آزادی کے مختلف پہلوؤں پر مقالات تحریر کیے۔ اس سوسائٹی کے دیگر کاموں میں سرسید احمد خان کی تصنیف ’’آثار الصنادید‘‘، ’’اخبار رنگیں‘‘، ’’جنگ آزادی 1857ء‘‘ (انگریزی) وغیرہ خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ’’ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ نے اہم تاریخی فارسی متون کے اردو ترجمے اور مقالات اور شخصی خاکوں کے متعدد مجموعے شائع کیے۔ الطاف علی بریلوی نے اس ادارے کو قائم کیا تھا، اور چوں کہ علی گڑھ سے فارغ التحصیل تھے اس لیے سرسید اور علی گڑھ تحریک سے جذباتی لگاؤ رکھتے تھے، اور ان کی کتابیں اور ان کا رسالہ’’العلم‘‘ اس تحریک کے تعلق سے مضامین تواتر سے شائع کرتا رہا۔ ’’بہادر یار جنگ اکیڈمی‘‘ نے مملکت حیدرآباد کے تعلق سے کئی کتابیں شائع کیں جو زیادہ تر حیدرآبادی مصنفین نے تحریر کیں، جو مملکت کی تاریخ، تہذیب، ثقافت، شخصیات، اور حیدرآباد کی سیاست کے آخری دنوں کے احوال کو پیش کرتی ہیں۔ ایک نہایت ضخیم اور بے حد معلوماتی کتابیات ’’مملکت حیدرآباد‘‘ کے عنوان سے مرتب کی جس کی اشاعت ایک حوالہ جاتی ماخذ کے طور پر اپنی ایک وقیع افادیت رکھتی ہے۔ اسی ادارے نے محمد حسام الدین غوری کی تحریر کردہ کتابیں: ’’علی گڑھ تحریک اور مملکت حیدرآباد‘‘، ’’زوال حیدرآباد‘‘، ’’جنوبی ہند کا پاکستان: حیدرآباد‘‘ جیسی کتابیں شائع کیں۔
تحقیق سے متعلق کتابوں کے ساتھ ساتھ کراچی میں رسائل کی اشاعت بھی کچھ کم اہم نہیں۔ ان میں تحقیق کی مناسبت کے حوالے سے ’’انجمن ترقی اردو‘‘ کے رسائل سہ ماہی ’’اردو‘‘ اور ’’تاریخ و سیاست‘‘ سب سے اہم ہیں۔ جس زمانے میں یہ رسائل کراچی سے شائع ہونا شروع ہوئے تھے اُسی زمانے میں’’اردو کالج‘‘ قائم ہوا تھا جس نے طلبہ اور اساتذہ کو تصنیف و تالیف کی طرف متوجہ کرنے کے لیے اپنا مجلہ ’’برگ گل‘‘ شائع کرنا شروع کیا جس کی ادارت اساتذہ کے ذمے تھی۔ اس مجلے میں اساتذہ اور طلبہ کے تحریر کردہ نہایت معیاری مضامین شائع ہوتے تھے۔ یہ کوئی دس بارہ سال تک نکلتا رہا۔ اس کی مثال کو سامنے رکھ کر دیگر مقامی تعلیمی اداروں: ’’نیشنل کالج‘‘ اور ’’جناح کالج‘‘ نے بھی عمدہ رسالے’’علم و آگہی‘‘ اور ’’ہم سخن‘‘ شائع کیے، اور ’’امیر خسرو نمبر‘‘، ’’قائداعظم نمبر‘‘، ’’محمد علی جوہر نمبر‘‘ اور ’’ادارے نمبر‘‘جیسی اشاعتیں پیش کیں جنھوں نے خاصی شہرت پائی۔ تحقیقی مجلوں کی اشاعت کا سلسلہ جامعات میں تو ایک مستقل روایت کی صورت میں ہمیشہ سے برقرار ہے، لیکن افسوس کہ معاشرتی علوم کے مجلے یونیورسٹی سے ایسے شائع نہیں ہوتے ہیں جنھیں مقابلتہً مثالی یا معیاری کہا جاسکے۔ حالاں کہ ’ہائر ایجوکیشن کمیشن‘ نے خاصی ترغیب اساتذہ کو دے رکھی ہے، لیکن بہت مستحسن کوششیں سامنے نہیں آرہیں۔ بہت کم اساتذہ، جو چاہے کسی طرح ترقی کرکے پروفیسر کے درجے تک پہنچ جائیں اور صدورِ شعبہ بھی بن جائیں، لیکن ان میں سے اکثر میں ایسا جوش و جذبہ اور ساتھ ہی اہلیت و معیار نظرنہیں آتاکہ عمدہ معیاری تحقیقات ان کے ذریعے سامنے آتی رہیں۔ نجی سطح پر ’’ادارۂ معارف اسلامی‘‘ دو عمدہ مجلے’’تحصیل‘‘ اور ’’معارف مجلہ اسلامی‘‘شائع کرتا ہے، یا ایک ممتاز مصنفہ ڈاکٹر نگار سجاد اپنا مجلہ ’’الایام‘‘ شائع کرتی ہیں۔ ان مجلوں کے ذریعے کراچی میں تحقیقی مجلوں کی اشاعت اور تحقیقی مطالعات اور مقالات کا سامنے آنا ایک قابلِ تعریف امر ہے۔ ان مجلوں کے توسط سے چند نئے اور ہونہار محققین: بمثل ڈاکٹر جاوید احمد خورشید اور ڈاکٹر خالد امین مجلہ ’’تحصیل‘‘ کی اپنی ادارت اور خود اپنے قابلِ تحسین مطالعات کے سبب ایک حوصلہ بخش صورتِ حال کو پیش کرتے ہیں۔ علمی و تحقیقی دنیا کو ان سے مستقبل میں بہترین توقعات وابستہ رہیں گی۔
تحقیقی مجلوں کے علاوہ بعض تخلیقی رسائل بھی گاہے گاہے عمدہ تحقیقی اور علمی مقالات اور مضامین شائع کرتے رہے ہیں، جن میں سرکاری’’ادارۂ مطبوعات پاکستان‘‘جب تک کراچی میں رہا یہاں ایک عمدہ ماہنامہ ’’ماہ نو‘‘ نکالتا رہا، جس میں گاہے عمدہ تحقیقی مضامین شائع ہوتے رہے اور بعض خاص نمبر بھی تحقیقی اور حوالہ جاتی مواد کے ساتھ مرتب ہوئے۔ نیاز فتح پوری کا رسالہ ’’نگار‘‘ بھی نیاز فتح پوری کے کراچی منتقل ہونے کے بعد کراچی سے نکلنے لگا اور علمی و تحقیقی مضامین بھی گاہے شائع کیاکرتا تھا۔ یہیں ایک ماہنامہ ’’افکار‘‘ بھی صہبا لکھنوی بڑی پابندی سے نکالتے رہے، اور کئی اہم خاص نمبر بھی نکالے جن میں خاصا معیاری علمی و تحقیقی مواد بھی شائع ہوتاتھا۔ اسی طرح ڈاکٹر جمیل جالبی نے ایک عرصے تک اپنی سرپرستی میں رسالہ ’’نیادور‘‘ نکالا جو معیاری تحریروں کی وجہ سے اپنی ایک اہمیت و شان رکھتا تھا۔
علم و تحقیق کے زمرے میں یہ ایک سرسری اور بطور نمونہ جائزہ تھا، جو یقینا اپنے طور پر کراچی کا ایک امتیاز کہا جاسکتا ہے، اور جس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ قیام پاکستان کے بعد کراچی نے ایک تو دارالحکومت ہونے کے سبب، اور دوسرے ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے تعلیم یافتہ اور ہر شعبے کے ماہرین کی آمد کے باعث علمی، تہذیبی اور فکری میدان میں بہت جلد اپنی ایک مخصوص شناخت بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ پھر یہاں ان ماہرین و اکابرین کی آمد کے ساتھ ساتھ یہاں نئے اور معیاری تعلیمی اداروں کے قیام کی وجہ سے بھی اس شہر نے علمی وتہذیبی لحاظ سے دن دونی رات چوگنی ترقی کی اور اپنی ایک منفرد شناخت بنالی۔