زمانہ تھا کہ کراچی کے ہر علاقے، ہر بستی میں ’’ایک آنا‘‘ لائبریری ہوتی تھی، جہاں سے ایک آنا یومیہ کرائے پر کتاب ملتی تھی۔ اسرار احمد ابن صفی کی عمران سیریز باقاعدگی سے چھپتی تھی اور لوگ اس کا بے چینی سے انتظار کرتے۔ ان ہی لائبریریوں میں لوگ رات کو دیر تک بیٹھتے اور حالاتِ حاضرہ پر تبادلہ خیال بھی ہوتا۔ قارئین کی بڑی تعداد میں اسکولوں کے طلبہ و طالبات بھی شامل تھے۔ ہر اسکول اور کالج میں بھی لائبریری کا اہتمام ہوتا تھا جہاں باقاعدہ لائبریرین ہوتے۔ 1974ء میں جب راقم نے نیشنل کالج میں داخلہ لیا تو اس کی عمارت میں ایک بڑی اور پُرشکوہ لائبریری موجود تھی جہاں پروفیسر قمر ساحری فارغ اوقات میں طلبہ سے علمی، ادبی گفتگو کرتے، بیت بازی کے مقابلے کراتے اور مختلف بڑی شخصیات کے واقعات سناتے۔ شہر میں کئی مقامات پر، بالخصوص صدر میں اوڈین سنیما کے سامنے گلی میں ہر اتوار کو پرانی کتابوں کا بازار لگتا، جہاں شہر کے بڑے بڑے ادبا، شعرا تشریف لاتے۔ اس کے علاوہ فریئر ہال اور آرٹس کونسل کے زیر اہتمام ”کوچہ ثقافت“ میں بھی چھٹی کے روز بڑا میلہ لگتا۔ ان ہی کتب بازاروں میں راقم کی ملاقات پروفیسر سحر انصاری، علامہ نسیم امروہوی، ابوالفضل صدیقی، مشفق خواجہ، شان الحق حقی، بزم انصاری، شمس وارثی، قصری کانپوری، وجد چغتائی، قمر جمالی امروہوی، سطوت میرٹھی و دیگر اکابرین سے ہوئی۔
شہر کی سب سے پہلی اور بڑی لائبریری فیریئر ہال لائبریری کی عمارت میں سندھ کے ایک کمشنر سر ایچ بارٹلے ایڈورڈ فریئر کی صوبہ سندھ کے لیے دی گئی خدمات کی یاد میں تعمیر کی گئی۔19 اگست 1875ء کو یہ لائبریری میونسپل کارپوریشن کے حوالے کردی گئی۔ قیام پاکستان کے بعد یہ بہت عرصہ بند رہی۔ 10دسمبر 1952ء کو بلدیہ عظمیٰ کراچی نے اسے اپنی تحویل میں لے کر دوبارہ کھولا اور اس کا نام لیاقت لائبریری اور میوزیم رکھ دیا۔ اُس زمانے میں ایک چھوٹے حصے پر کتب خانہ اور بقیہ حصے پر عجائب گھر قائم تھا۔ 1969ء میں عجائب گھر کے نوادرات نیشنل میوزیم کراچی منتقل کردیے گئے اور باقی حصہ بھی لائبریری میں تبدیل کردیا گیا۔ 1971ء میں اس کی عمارت کی ازسرنو تعمیر و مرمت کی گئی، یہ مرحلہ 1978ء میں مکمل ہوا، اور اُس وقت کے گورنر سندھ ایس ایم عباسی نے افتتاح کیا۔ اِس وقت اس لائبریری میں 50 ہزار کتابیں مختلف زبانوں میں، جبکہ صدیوں پرانے قلمی نسخے بھی موجود ہیں۔ یہ کتب خانہ اب اخبارات و رسائل پڑھنے کے لیے استعمال ہورہا ہے۔
23 اپریل کو دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کتاب کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد کتاب کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ مگر گزشتہ برسوں کے دوران کتاب پڑھنے کے رجحان میں کمی دیکھی جارہی ہے، اس کی بڑی وجہ شہر میں موجود کتب خانوں کی خستہ حالی بھی ہے۔ لیاقت نیشنل لائبریری (پی ٹی وی اسٹیشن سے متصل) میں بھی بڑی تعداد میں کتابیں موجود ہیں۔ یہاں زیادہ تر طلبہ و طالبات امتحان کی تیاریوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ خالق دینا ہال لائبریری میں اردو میں کتابیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ شہر کی ایک اور قدیم لائبریری جو تھیوسوفیکل ہال میں موجود تھی، طویل عرصے سے غیر فعال ہے، یہاں کبھی کبھی انجمن ترقی پسند مصنّفین کی نشستیں منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ بوہرہ پیر میں واقع قدیم لائبریری ’’ہلال لائبریری‘‘ انتظامیہ کی عدم توجہی کے باعث بند کردی گئی ہے۔ گزدر آباد میں ’’یوتھ پروگریسو کونسل لائبریری‘‘ کے نام سے ایک بڑی لائبریری تھی جہاں مختلف موضوعات پر 10ہزار سے زائد کتب تھیں۔ یہ لائبریری بھی عرصہ ہوا بند ہوچکی ہے۔ اسی علاقے سے متصل ایک لائبریری جوکہ کاروباری علاقے میں تھی، اس پر بھی قبضہ ہوگیا اور اب اس میں ’’آفتاب ویڈیو‘‘ قائم ہے۔
گزشتہ ادوار میں کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے زیراہتمام تقریباً 46 لائبریریاں قائم تھیں جن میں سے بیشتر بند ہوچکی ہیں، حکومت کی جانب سے گزشتہ کئی سال سے ان کتب خانوں کو اخبارات اور کتب کی فراہمی بند کردی گئی ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے کروڑوں روپے کا بجٹ مختص ہونے کے باوجود صوبے کے تین سو سے زائد سرکاری کالجوں کی لائبریریوں کو کتابیں فراہم نہیں کی گئیں، 80 سے زائد کالجوں میں کئی برس سے لائبریرین بھی نہیں ہیں۔ ذرائع کے مطابق سال 2010ء میں آخری بار سرکاری کالجوں کی لائبریریوں کو کتابیں فراہم کی گئی تھیں۔ لائبریریوں کی بگڑتی صورت حال کی ایک وجہ کتابوں کا کم شائع ہونا بھی ہے، جو کتاب پہلے ایک ہزار کی تعداد میں چھپتی تھی وہ اب 300 کی تعداد میں چھپ رہی ہے۔
شہر کی معروف لائبریریاں
لیاقت نیشنل لائبریری:
لیاقت نیشنل لائبریری کا شمار شہر کی بڑی لائبریریوں میں ہوتا ہے، اس وسیع لائبریری میں مختلف موضوعات اور مختلف زبانوں میں تقریباً ایک لاکھ پچاس ہزار اور بچوں کے لیے پچیس ہزار کتب موجود ہیں۔ لائبریرین فدا حسین نے بتایا کہ لائبریری روزانہ صبح 9 بجے تا 7بجے شام شائقینِ کتب کے لیے کھلی رہتی ہے، جہاں مرد، خواتین اور بچوں کے لیے علیحدہ انتظام ہے۔ اخبارات و رسائل کا علیحدہ سیکشن ہے۔
ڈاکٹر محمود حسین لائبریری (جامعہ کراچی):
اس لائبریری میں ساڑھے تین لاکھ کتب موجود ہیں۔ یہ محققین کے لیے بہترین لائبریری ہے۔ لائبریرین سید افتخار حسین شاہ نے بتایا کہ اب لائبریری صبح 8½ بجے تک کھلتی ہے، جہاں کتب صرف جاری کی جاتی ہیں۔ 104 افراد کا عملہ دیکھ بھال پر تعینات ہے۔
غالب لائبریری (ناظم آباد پیٹرول پمپ):
یہ غالب کی صد سالہ برسی کے موقع پر 1969ء میں قائم ہوئی، اس میں چالیس ہزار سے زائد کتب اور تیس ہزار اسلامی، علمی، ادبی،رسائل و جرائد موجود ہیں۔ یہ لائبریری پہلے ششماہی جریدہ ’’غالب‘‘ بھی شائع کرتی تھی، جو فنڈ میں کمی کے باعث اب سالانہ کردیا گیا ہے۔ موجودہ اعزازی سیکریٹری معروف اسکالر عبدالرئوف پاریکھ نے بتایا کہ لائبریری نے غالب، اقبال اور دیگر تحقیقی، علمی، ادبی موضوعات پر 100 سے زائد کتب بھی شائع کی ہیں۔ لائبریری میں وقتاً فوقتاً ادبی تقاریب بھی منعقد ہوتی رہتی ہے۔ صاف ستھرے ماحول میں روزانہ صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک قارئین مطالعے کے لیے آتے رہتے ہیں۔
مجلسِ علمی لائبریری:
یہ جمشید روڈ نمبر2 پر واقع شہر کی قدیم تحقیقی لائبریری ہے، جو 1950ء میں بھارت سے ایک ہزار کتب کے ساتھ کراچی میں ٹاور کے مقام پر منتقل ہوئی، اور 1994ء میں ٹاور سے جمشید روڈ منتقل ہوگئی۔ یہ خالصتاً اسلامی لائبریری ہے جو محققین کے لیے معاون و مددگار ہے۔ اسلامی قوانین، حدودو تعزیرات، علمی مقالات، تراجم علما و مشاہیر، سوانح شخصیات و علما، ادیان و مذاہب، قدیم طب، لغاتِ عربی، اردو، فلسفہ قدیم و جدید، سماجی علوم و جدید مسائل پر متفرق اور عصرِ حاضر کے دیگر موضوعات پر مبنی کتب کا بڑا ذخیرہ ہے۔ لائبریری کے انچارج ڈاکٹر محمد عامر نے بتایا کہ چار سو سے زائد اسکالروں نے یہاں بیٹھ کر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالہ جات کی تیاری کی، جس کا مکمل ریکارڈ بھی موجود ہے۔
پُرسکون ماحول کی حامل اس لائبریری میں تقریباً تیس ہزار کتب موجود ہیں۔ کتابوں کا بڑا ذخیرہ عربی زبان میں ہے، دو افراد پر مشتمل عملہ روزانہ صبح 9 بجے سے شام 5بجے تک مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے موجود رہتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ہمارے ہاں مختلف مکاتبِ فکر کے 65 سے زائد رسائل و جرائد اعزازی طور پر آتے ہیں۔
بیدل لائبریری (شرف آباد):
شرف آباد میں بہادرآباد چورنگی کے نزدیک یہ وسیع و عریض لائبریری شرف آباد کمیونٹی سینٹر میں واقع ہے، جہاں ڈیڑھ لاکھ کتابوں کا ذخیرہ ہے جو علم دوست لوگوں نے عطیہ کیا ہے۔ یہاں ادب نواز لوگوں کے درجنوں گوشے ہیں، موجودہ لائبریرین زبیر صاحب نے بتایا کہ اب ہمارے پاس کتابوں کو رکھنے کی گنجائش ختم ہوگئی ہے۔ تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے یہ کسی نعمت سے کم نہیں۔
بہادریار جنگ اکادمی (لائبریری):
بہادر آباد میں واقع بہادریار جنگ اکادمی میں یہ وسیع لائبریری ہے۔ یہ بھی شہر کی قدیم لائبریری ہے جہاں تیس ہزار سے زائد کتب موجود ہیں۔ خصوصاً جامعہ عثمانیہ (حیدرآباد دکن) میں پڑھایا جانے والا اردو نصابی کورس جس میں ایم بی بی ایس، انجینئرنگ و دیگر اہم سائنسی علوم کی نصابی کتابیں شامل ہیں۔ نیز حیدرآباد دکن سے متعلق علمی، ادبی، تحقیقی، تاریخی مواد بھی وافر مقدار میں موجود ہے۔ اکادمی میں خواجہ قطب الدین، میر حسین علی امام، عبدالباسط جیسی علمی، ادبی، سماجی شخصیات کی دلچسپی نے اسے شہر کا ایک علمی و ادبی مرکز بنادیا ہے جہاں مختلف مواقع پر تقاریب کا اہتمام بھی ہوتا رہتا ہے۔ سینئر لائبریرین محمد معزالدین نے بتایا کہ لائبریری صبح 10 بجے سے شام 5 بجے تک علم دوست لوگوں کے استفادے کے لیے کھلی رہتی ہے۔
وی ایم لائبریری (رنگون والا ہال):
اس لائبریری میں 8 ہزار سے زائد کتب موجود ہیں۔ صبح 9 بجے تا 7½بجے شام اور 7½ بجے شام سے صبح 7½ بجے تک لائبریری میں مطالعے کے لیے آسکتے ہیں۔ لائبریرین اقبال یوسف نے بتایا کہ ہمارے ہاں بڑی تعداد میں لوگ اخبارات و رسائل کے مطالعے کے لیے روزانہ آتے ہیں۔
محمد علی جوہر لائبریری (فاران کلب):
اس لائبریری میں 26 ہزار سے زائد کتب مختلف موضوعات پر موجود ہیں۔یہاں نئی کتابوں کی رونمائی کے علاوہ علمی، ادبی تقاریب کا انعقاد بھی ہوتا رہتا ہے۔
تیموریہ لائبریری (نارتھ ناظم آباد):
اس لائبریری میں 25 ہزار سے زائد کتب مختلف موضوعات پر موجود ہیں۔ اخبارات و رسائل کے ساتھ بچوں کے لیے بھی گوشہ قائم ہے۔ لائبریرین مس فرزانہ نے بتایا کہ روزانہ بڑی تعداد میں لوگ یہاں مطالعے کے لیے آتے ہیں۔ لائبریری صبح 9 بجے سے 9 بجے شب تک کھلی رہتی ہے۔
انجمن ترقی اردو لائبریری (اردو باغ گلستان جوہر)
یہ شہر کی بہترین لائبریریوں میں شامل ہے۔ ایک لاکھ کتابوں کا تمام ریکارڈ کمپیوٹر پر موجود ہے۔ لائبریرین محمد معروف صاحب نے بتایا کہ ہمارے ہاں قیمتی و نایاب کتابوں کی اسکیننگ کا بھی انتظام ہے۔ اسکیننگ مشین امریکہ نے تحفے میں دی ہے۔ یہاں ایک الماری میں کرم خوردہ کتابوں کو کیمیکل میں رکھنے کا بھی انتظام ہے۔ نئی انتظامیہ واجد جواد، زاہدہ حنا اور عابد رضوی نے اپنی کاوشوں سے جدید سہولتوں سے لائبریری کو آراستہ کیا۔ یہاں 11 بجے سے شام 4 بجے تک بڑی تعداد میں طلبہ اور شائقینِ کتب آتے ہیں۔
قائداعظم اکادمی لائبریری:
اس لائبریری میں ”روزنامہ جنگ“ اور ”ڈان“ کا 1994ء سے تاحال ریکارڈ موجود ہے۔ تحریک ِآزادی، قائداعظم اور دیگر اکابرین کے بارے میں 30 ہزار سے زائد کتب موجود ہیں۔ 2017ء میں اُس وقت کے ڈائریکٹر خواجہ رضی حیدر نے اسے ازسرِنو فعال کیا۔ علم، تحقیق، تحریک ِپاکستان اور قائداعظم کے حوالے سے بہترین حوالہ جاتی لائبریری ہے۔ لائبریرین ماجد فاروقی نے بتایا کہ صبح 7 بجے سے شام 5 بجے تک اس لائبریری سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
اردولغت بورڈ (نیپا چورنگی):
اس لائبریری میں 23 لاکھ کتابیں موجود ہیں۔یہ تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے بہترین لائبریری ہے۔
بیت الحکمہ (ہمدرد):
حکیم محمد سعید شہیدؒ جب 1947ء میں پاکستان تشریف لائے تو آپ کے سامان میں سب سے قیمتی چیز کتابیں تھیں، آپ نے ملک اور بیرونِ ملک سے 75 ہزار کتب جمع کیں اور کتب خانہ ہمدرد کو عطیہ کردیں۔ جب آپ نے علم کا شہر ’’بیت الحکمت‘‘ آباد کیا تو ’’بیت الحکمہ‘‘ کی بھی بنیاد رکھی، آج اس لائبریری میں 5 ملین کتابیں موجود ہیں۔ پروفیسر ملاحت کلیم شیروانی نے بتایا کہ اس لائبریری سے ہزاروں افراد استفادہ کرچکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
علامہ اقبال لائبریری (نزد اسلامیہ کالج):
یہ شہر کی قدیم لائبریری ہے، لائبریرین بابر اسلام کے مطابق اس میں 5 ہزار کتب موجود ہیں۔ 9 بجے صبح سے شام 5 بجے تک اخبارات اور کتب بینی کے لیے لوگ باقاعدگی سے آتے ہیں۔
سید مودودیؒ یادگار تحقیقی مرکز و کتب خانہ:
یہ ایک عمدہ تحقیقی حوالہ جاتی کتب خانہ ہے۔ شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ بھی اسی تحقیقی مرکز کا حصہ ہے۔ شعبے کے سربراہ معروف ریسرچ اسکالر محمود عالم صدیقی نے بتایا کہ اس وقت قرآن و حدیث، تحریک ِ پاکستان، عالمِ اسلام، اسلامی تحریکوں، جماعت اسلامی اور سید مودودیؒ و دیگر موضوعات پر تین ہزار سے زائد کتب، کتابچے، رسائل و جرائد اور خصوصی شمارے موجود ہیں۔ کتب خانے کو کئی شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں شعبہ قرآن و حدیث و اسلامی علوم، شعبہ تحریکِ اسلامی، شعبہ پاکستان، شعبہ شعر و ادب اور شعبہ متفرق علوم شامل ہیں۔
مولوی تمیز الدین خان یادگاری دارالمطالعہ و کتب خانہ:
جمعیت الفلاح اسلامی تہذیبی مرکز میں 7 ہزار سے زائد کتب موجود ہیں۔ اس مرکز میں گاہِ بگاہِ مختلف موضوعات پر تقاریب کا انعقاد بھی ہوتا رہتا ہے۔
سندھ پبلک لائبریری
بھٹائی آباد، گلستان جوہر، بلاک9، سی 252 استاد بخاری شاہراہ پر قائم اس لائبریری میں تقریباً دس ہزار کتب موجود ہیں، جبکہ شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ، قائداعظمؒ، جی ایم سید، علامہ اقبالؒ، سید مودودیؒ، شیخ ایاز و دیگر معروف اہلِ قلم کے ناموں سے گوشے موجود ہیں۔ اس لائبریری میں ہر ماہ ادبی نشست بھی ہوتی ہے جبکہ طلبہ کے لیے سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری میں بھی یہ لائبریری معاون ہے۔ اس کے بانی سینئر صحافی، کتاب دوست جاوید مہر ہیں، جو اب ایسی لائبریریوں کا دائرہ کراچی کے مضافات تک بڑھانا چاہتے ہیں۔ ’’علم دوست پاکستان‘‘ نے ان کی خدمات پر انہیں ایوارڈ سے بھی نوازا۔
آرٹس کونسل لائبریری:
نئی تعمیر شدہ بلڈنگ احمد شاہ بلاک میں دوسری منزل پر ایک بڑی لائبریری تکمیل کے مراحل میں ہے، جس کی نگرانی فاطمہ حسن کررہی ہیں۔ تکمیل کے بعد یہ لائبریری بھی اہمیت کی حامل ہوگی۔
کتب خانہ جامی:
سید معراج جامی، علمی، ادبی حلقوں کی معروف شخصیت ہیں، آپ کی زیر ادارت شائع ہونے والا جریدہ ’’پرواز‘‘ اردو دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جامی صاحب کو کتابوں سے عشق ہے اور آپ انہیں اپنی اولاد کی طرح رکھتے ہیں۔ ہزاروں کتابیں ایک خوب صورت فلیٹ میں الماریوں میں موضوع کے اعتبار سے سلیقے سے رکھی گئی ہیں۔ نادر و نایاب و اہم تحقیقی کتب سے طالبان علم کے ساتھ تحقیق کرنے والے طلبہ و طالبات استفادہ کررہے ہیں۔ اس لائبریری میں ہر اتوار کو ارباب علم و دانش جمع ہوتے ہیں جہاں غیر رسمی محفل سجتی ہے، جس میں ادبی، سماجی موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے۔ اس وقت یہ کراچی کی سب سے بڑی ذاتی لائبریری ہے۔
یہ’’حیات کمفرٹس‘‘ بلڈنگ کی دوسری منزل پر فلیٹ نمبر8 میں واقع ہے۔
فیض رضا لائبریری:
نارتھ کراچی میں جہانیاں جہاں گشت، صوفی مقصود حسین اویسی ’’سفیر کتب‘‘ نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اہل علم اصحاب تک دینی و اصلاحی کتابیں پہچانے میں صرف کیا۔ ان کی لائبریری کو مخیر حضرات بڑی تعداد میں کتب ارسال کرتے ہیں اور یہ پورے ملک میں اس کی ترسیل کرتے ہیں۔ ان کی لائبریری میں ہر موضوع پر وافر مقدار میں کتب موجود ہیں۔
اسی شہر میں کچھ ایسی لائبریریاں بھی ہیں جہاں لوگ بڑی تعداد میں مطالعے کے لیے جاتے ہیں، خاص کر دینی تعلیمی مراکز کی لائبریریاں۔ جامعہ دارالعلوم کراچی میں وسیع لائبریری ہے جہاں بڑی تعداد میں طلبہ مطالعے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح جامعہ رشیدیہ، دارالعلوم قمرالسلام سلیمانیہ کی لائبریریاں بھی قابل ذکر ہیں۔ سینٹرل لائبریری ڈی ایچ اے، منصورہ لائبریری، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی بڑی لائبریری، برٹش کونسل لائبریری، خمینی اسپتال لائبریری (ملیر) قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ شہر میں اہلِ دانش کے ذاتی کتب خانے بھی اہمیت کے حامل رہے ہیں، جن میں مشفق خواجہ، آفاق صدیقی مرحوم، شان الحق حقی، نور احمد میرٹھی، حکیم انجم فوقی بدایونی کا ادارہ فوق الادب (کورنگی)، غوث میاں کی لائبریری شاہ فیصل کالونی، یامین وارثی کا کتب خانہ لانڈھی، ادارہ چمنستان حمد و نعت کا تحقیقی مرکز (اردو بازار کراچی)، محمد احمد ترازی، حیات امروہوی، شاہین حبیب، راقم عبدالصمد تاجی کے کتب خانے میں بھی ہزاروں کتب موجود ہیں۔ بلدیہ کراچی کے تحت مرکزی کتب خانہ کورنگی نمبر 5 میں گزشتہ سال نئی عمارت میں منتقل ہوا ہے جہاں دو شفٹوں میں عملہ موجود ہوتا ہے۔ دوسری شفٹ کے انچارج محمد یوسف نے بتایا کہ ہمیں گزشتہ کئی سال سے اخبارات اور رسائل کی فراہمی بند ہے، چند اخبارات میں خود اور عملے کے لوگ خرید کر یہاں رکھتے ہیں، یہاں آنے والوں میں کالجوں کی طالبات اہمیت کی حامل ہیں، ہم کارڈ بناکر 15 یوم کے لیے کتابیں شائقین کتب کو دیتے ہیں، جبکہ ذاتی طور پر بھی لوگ اپنی کتابیں ہمیں عطیہ کرتے ہیں۔
سرسید احمد خان لائبریری لانڈھی نمبر5، مولوی عبدالحق لائبریری لانڈھی 3½ نمبر، فاطمہ جناح لائبریری 36-B لانڈھی، محمد علی جوہر لائبریری لانڈھی، علامہ اقبال لائبریری کورنگی 2½ نمبر، شاہ احمد نورانی لائبریری کے ایریا کورنگی بھی زبوں حالی کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ الاقصیٰ لائبریری گلشن اقبال، عارف حسین لائبریری گلبرگ، نواب خواجہ محمد شفیع دہلوی لائبریری خالد بن ولید روڈ، ورکس کو آپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی لائبریری بلاک نمبر 8 گلشن اقبال، اربن ریسورس سینٹر لائبریری شہید ملت روڈ، کے ڈی اے لائبریری سوک سینٹر، حالی لائبریری اورنگی ٹائون، سید محمد دین لائبریری رانگی واڑہ لیاری، اقبال شہید لائبریری بہار کالونی لیاری، لیاری ٹیکسٹ بک پبلک لائبریری چاکیواڑہ لیاری، حسرت موہانی لائبریری لیاقت آباد نمبر10، مفکر اسلام لائبریری جے ایریا کورنگی، سید ہاشمی ریفرنس لائبریری ملیر، فریئر مارکیٹ پبلک لائبریری صدر بھی اربابِ حل و عقد کی توجہ کی منتظر ہیں۔
سابق کمشنر کراچی افتخار احمد شالوانی نے جو کہ کتاب دوست ہیں، کونسل آف کراچی لائبریریز قائم کی ہے، جس کے تحت کراچی میں پاکستان کی پہلی اسٹریٹ لائبریری کا قیام عمل میں آیا۔ میٹروپول ہوٹل کے کارنر پر واقع اس لائبریری کا افتتاح 25 دسمبر 2019ء کو ہوا جس کی اہلِ علم اصحاب نے بڑی تعریف کی۔ آپ کی ٹیم خصوصاً بک ایمبیسڈر سید سلطان خلیل کی رات دن محنت سے دوسری اسٹریٹ لائبریری لیاری میں چیل چوک میں قائم کی گئی، اس کا اہلِ علاقہ نے زبردست خیرمقدم کیا۔ اس اسٹریٹ لائبریری میں مختلف موضوعات پر پانچ سو سے زائد کتب رکھی گئی ہیں جبکہ سید سلطان خلیل نے بتایا کہ تیسری اسٹریٹ لائبریری کا تعمیری کام جاری ہے، جو نارتھ ناظم آباد حیدری کے مقام پر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس طرح کی لائبریریوں کا قیام پورے شہر میں ہوگا۔ علم دوست شبیر ابنِ عادل، میر حسین علی امام، نسیم احمد شاہ، اویس ادیب انصاری، شگفتہ فرحت، فرحت اللہ قریشی کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے معاشرے میں نمایاں تبدیلی آئے گی اور فروغِ کتب بینی میں یہ لائبریریاں اہم کردار ادا کریں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ علمی ادبی سرگرمیاں نوجوانوں کو منفی سرگرمیوں سے روکنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
یہاں میں موجودہ ایڈمنسٹریٹر صاحب کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ شہر میں اب بھی ایسے علم دوست، کتاب دوست موجود ہیں جن کے پاس سینکڑوں اہم کتب موجود ہیں۔ یہ کتابیں بڑھتی عمر کے ساتھ ان کے لیے بوجھ بن کر رہ گئی ہیں۔ C.K.L ان کتابوں کو بھی مناسب معاوضے کے عوض اپنی تحویل میں لے تاکہ بڑا علمی، ادبی، تاریخی کتب کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔
کراچی کی تعمیر و ترقی کے لیے فروغِ کتب بینی مہم چلانا اشد ضروری ہے۔