کراچی جو عروس البلاد، روشنیوں اور تعلیمی اداروں کا شہر تھا، گزشتہ تین دہائیوں میں نہ صرف یہ روشنی سے اندھیروں کے شہر میں تبدیل ہوگیا بلکہ اس کی علمی میراث بھی کہیں گم ہوگئی۔ وہ شہر کہ جس کے منی پاکستان کہلانے کے دو اسباب تھے، ایک روزگار کے مواقع اور دوسرے تعلیم کے مواقع، کہ جس کی بنیاد پر ملک کے کونے کونے سے لوگ اس شہر کا رخ کرتے تھے۔ آپ پاکستان کے کسی بڑے چھوٹے شہر، قصبے یا دیہات کا رخ کرلیں، وہاں کوئی نہ کوئی فرد کراچی پلٹ یا کراچی میں تعلیم، روزگار کے لیے موجود ضرور ہوگا۔
جامعہ کراچی جہاں ملک میں علمی وقار کی علامت تھی وہیں بڑے بڑے سرکاری تعلیمی ادارے کہ جہاں طب و انجینئرنگ سے لے کر تمام علومِ جدیدہ کی تعلیم و تربیت دی جاتی تھی۔ کراچی میں بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی کے ساتھ ہی تعلیمی تنزلی کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد سے یہ سلسلہ تاحال رکنے کا نام نہیں لیتا۔اس سے قبل کراچی کے سرکاری اسکول، کالج و جامعات ملک بھر کے تعلیمی اداروں کے لیے مثال تھے۔کراچی کے سرکاری اسکول جو کہ پہلے پورے شہر کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرتے تھے اُن کے مدمقابل پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو پروان چڑھایا گیا۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو پروان چڑھانے کے لیے سرکاری تعلیمی اداروں کی یکایک نجکاری کا آغاز انتہائی بھونڈے انداز میں کیا گیا۔ اس بات کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ دہلی اسکول و کالج کریم آباد جو کہ ایک معیاری تعلیمی ادارہ تھا اور ہر سال میٹرک و انٹر کے امتحان میں کوئی نہ کوئی پوزیشن ضرور حاصل کرتا تھا، اسے واپس نجی تحویل میں دے دیا گیا، جس کے نتیجے میں اعلیٰ محلِ وقوع پر واقع عمارت کو حوالے کرکے اسکول و کالج کو گنجان آبادی کے گلی کوچوں میں منتقل کردیا گیا۔ یہی حال عائشہ باوانی اسکول و کالج اور ان جیسے کتنے ہی تعلیمی اداروں کا ہوا کہ جو نہ صرف معیاری تھے بلکہ ہر سال بورڈ کے امتحان میں پوزیشن بھی حاصل کرتے تھے۔ نیو ایم اے جناح روڈ نزد مزارِ قائد پر واقع اسلامیہ لا کالج، اسلامیہ سائنس کالج اور اسلامیہ آرٹس اینڈ کامرس کالج کا وسیع و عریض رقبہ بھی ایسے ہی فیصلے کی بھینٹ چڑھنے جارہا ہے۔ یہ وہ تعلیمی ادارے تھے جن پر پورے شہر کو فخر تھا۔ اس معاملے میں دوسری کاری ضرب یہ لگائی گئی کہ اساتذہ و عملے کی بھرتی مکمل طور پر سیاسی بنیادوں پر ہونے لگی، نتیجتاً وہ اساتذہ جو کالجوں اور اسکولوں کی شان تھے، رخصت ہوئے اور اُن کے بعد آنے والوں نے اسکولوں و کالجوں کے بجائے کوچنگ سینٹروں کو آباد کرنا شروع کیا۔ کوچنگ کی یہ بدعت 1990ء کے اوائل میں شروع ہوئی، اور اس کے بعد بتدریج اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ان کوچنگ سینٹروں کی بڑھوتری میں جن عوامل نے بنیادی کردار ادا کیا، اُن میں کراچی میں بدامنی سرفہرست ہے۔ ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن سے قبل گوکہ کراچی کے تعلیمی اداروں میں تشدد کا آغاز ہوچکا تھا لیکن 1992ء کے آپریشن کے بعد اس میں مزید تیزی آنی شروع ہوئی، تعلیمی اداروں پر قبضے کی بدولت والدین نے اپنے بچوں کو کالجوں سے دور کرنا شروع کردیا اور اس کے متبادل کے طور پر ان کو کوچنگ سینٹروں میں بھیجا جانے لگا، جس کے نتیجے میں کالج ویران ہوگئے، رہی سہی کسر پُرتشدد ہڑتالوں نے پوری کردی کہ اگلے دن پرچہ ہوتا، طالب علم امتحان کی تیاری کرتے اور ایک رات قبل ہڑتال کا اعلان کردیا جاتا۔ طالب علموں کی اس بے یقینی نے ان کے تعلیمی کیریئر پر سنگین اثرات مرتب کیے۔ پورے ملک سے تعلیم کے لیے کراچی شہر کا رخ کرنا نہ صرف کم ہوا بلکہ مقابلے کے رجحان میں بھی کمی آئی، جس کے نتیجے میں کراچی کا طالب علم تنہائی کا شکار ہوا، تعلیمی سال میں اضافہ ہونے لگا اور اس دوران اسکولوں سے لے کر پرائیویٹ کالجوں تک کی منڈی سامنے آنا شروع ہوگئی، یعنی وہ تعلیمی ادارے کہ جہاں کوئی تشدد نہ ہو اور بچہ پُرسکون ماحول میں تعلیم حاصل کرسکے۔ یہ تبدیلی اتنی تیز تھی کہ اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی پورے شہر کا تعلیمی نظام پرائیویٹ اسکولوں و کالجوں کے حوالے کردیا گیا۔ انٹر و میٹرک بورڈ میں پوزیشنیں بھی اب سرکاری کے بجائے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی آنا شروع ہوگئیں اور بتدریج بہترین سرکاری تعلیمی ادارے گوشۂ گم نامی میں چلے گئے۔ پہلی بلدیاتی حکومت سٹی گورنمنٹ کے نام سے کراچی میں قائم ہوئی تو ایک بار پھر سرکاری تعلیمی اداروں کی کچھ قسمت جاگی، لیکن یہ کام کالجوں و اسکولوں کی نئی عمارات کی تعمیر اور خستہ حال عمارات کی مرمت تک ہی محدود ہوگیا، کیونکہ سندھ حکومت نے اسکولوں و کالجوں کے انتظام و انصرام کو چلانے کے لیے اساتذہ و عملے کو بھرتی نہیں کرنے دیا، جس کے بعد نئے تعمیر ہونے والے اسکولوں اور کالجوں میں سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے شہری حکومت کے فنڈ سے چند اساتذہ کو ماہانہ کم از کم مشاہرے پر بھرتی کیا، لیکن نعمت اللہ خان کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔
اس وقت کراچی کے سرکاری کالجوں کی صورتحال یہی ہے کہ 145 سرکاری کالجوں میں اساتذہ کی 2100 اسامیاں تاحال خالی ہیں۔ اس صورت حال کی مزید ایک جھلک یہ ہے کہ انٹر پری انجینئرنگ سال 2019ء کے نتائج کے مطابق 25 سرکاری کالجوں میں کوئی ایک بچہ بھی کامیاب نہیں ہوسکا۔ آرٹس میں کامیابی کا تناسب سرکاری کالجوں کا 25 فیصد رہا۔
اسکولوں کی صورتحال اس سے بھی زیادہ بدترین ہے۔ سرکاری اسکولوں میں اب متوسط طبقہ تو کیا غریب بھی اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے بھیجنے کے لیے تیار نہیں۔ اسکولز میں اساتذہ اور عملے کی حاضری کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ کئی کئی ماہ عملے کے ارکان اپنے تعلیمی اداروں کا رخ نہیں کرتے۔ اسکولوں کی عمارتوں پر قبضہ بھی اب معمول ہے، عائشہ منزل پر واقع منینہ اسکول پر بلڈر مافیا قبضے کی کوشش کرچکی ہے۔ اس ہی طرح پٹیل پاڑہ میں واقع تاریخی قدیمی اسکول جینوٹل ہرسٹ اسکول کو بھی بلڈر مافیا نے نہیں چھوڑا اور اسکول کی عمارت کو کسی شیل پلازہ کی تعمیر کے لیے منہدم کردیا گیا۔
ادارہ شماریات منصوبہ بندی و ترقی حکومت سندھ کی جانب سے اسکولوں کی صورت حال پر جون 2017ء میں جاری کردہ رپورٹ چشم کشا ہے۔ کراچی ضلع وسطی میں کل اسکولوں کی تعداد 607 ہے جس میں سے 160 اسکولوں میں بجلی نہیں ہے، جبکہ 100 اسکولوں پینے کے پانی کی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ 123 اسکولوں میں بیت الخلا اور 78 اسکول چار دیواری سے بھی محروم ہیں۔ یہ صرف کراچی کے 6 اضلاع میں سے اس ضلع کی صورت حال ہے جو کہ سب سے زیادہ پڑھا لکھا ضلع سمجھا جاتا ہے۔ مکمل کراچی کی صورت حال اس سے بھی ابتر ہے۔ اسکولوں کے زوال کا یہ سفر دن بدن مزید تیز تر ہوتا جارہا ہے۔ سال 2015-16ء اور 2016-17ء کا موازنہ کرنے سے یہ صورتحال بھی واضح ہوتی ہے کہ ضلع وسطی کراچی کے اسکولوں میں قائم لیبارٹریاں 2015-16ء میں 23فیصد اسکولوں میں تھیں جو کہ ایک سال بعد 2016-17ء میں کم ہوکر اب 20فیصد اسکولوں تک محدود ہوگئی ہیں۔ بجلی کی سہولت 2015-16ء میں 84 فیصد اسکولوں میں تھی جوکہ 2016-17ء میں کم ہو 74 فیصد اسکولوں تک رہ گئی یعنی 26 فیصد اسکول بغیر بجلی کے ہیں۔ اسی طرح چار دیواری سے لے کر پینے کے پانی کی سہولت، بیت الخلا یا دیگر سہولیات 2015-16ء سے 2016-17ء کا موازنہ کرنے پر سب میں کمی معلوم ہوتی ہے یعنی صورت حال بہتر ہونے کے بجائے مزیر ابتر ہورہی ہے۔
اکیسویں صدی کے اوائل تک سرکاری اسکول و کالج تو اپنی افادیت کھوچکے تھے، لیکن سرکاری جامعات اپنے اعلیٰ تعلیمی معیار کی وجہ سے ابھی تک پورے ملک کا مرکزِ نگاہ تھیں۔ جامعہ کراچی، جامعہ این ای ڈی، ڈائو میڈیکل کالج، سندھ میڈیکل کالج اور ڈائود انجینئرنگ کالج میں داخلہ ہر طالب علم کا خواب تھا۔ ان کا اعلیٰ معیار اس وقت بھی ملک بھر میں ممتاز تھا۔ یہ تعلیمی ادارے کم ترین وسائل کے باوجود اعلیٰ ترین تعلیمی و تحقیقی کارکردگی دکھا رہے تھے، لیکن حکومتِ وقت نے اعلیٰ تعلیم کو بھی برباد کرنے کے منصوبے کا آغاز کیا، جس کے بعد ٹاسک فورس برائے اعلیٰ تعلیم قائم کی گئی اور اس ٹاسک فورس کی سفارشات کی روشنی میں اساتذہ و طلبہ کے بھرپور احتجاج کے باوجود اعلیٰ تعلیمی کمیشن قائم کردیا گیا کہ جس کا بنیادی مقصد سرکار کو اعلیٰ تعلیم کے معاملات سے خلاصی دلوانا تھا۔اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے قیام کے بعد بتدریج نجی تعلیمی اداروں اور جامعات کو منظم منصوبہ بندی کے تحت پروان چڑھایا گیا۔ سرکاری جامعات کا گلا گھونٹنے کے لیے ان کی گرانٹ میں کمی کی گئی اور بتدریج ان کو پرائیویٹ کلچر کے ماتحت کردیا گیا جس کی دو بڑی مثالیں آئی بی اے اور ڈائو انٹرنیشنل میڈیکل کالج ہیں، جوکہ ہیں تو سرکاری ادارے، لیکن ان کا نظم و نسق، فیس اور دیگر سہولیات کسی بھی پرائیویٹ تعلیمی ادارے کے مقابل ہیں۔
کراچی شہر جو کہ پورے پاکستان میں علم کی روشنی پھیلاتا تھا، آج خود اپنوں اور پرایوں کے ہاتھوں لگائے گئے زخموں کے بعد اس کیفیت میں ہے کہ علمی شناخت اس شہر سے چھینی جاچکی ہے۔ اقربا پروری اور سیاسی بھرتیوں نے شہر کے تعلیمی اداروں کا حال بھی کے ایم سی والا کردیا ہے۔ شہر کا کوئی اسکول اور کالج اس قابل نہیں کہ وہ سہولیات اور تعلیمی معیار میں پرائیویٹ کالج اور اسکول کا مقابلہ کرسکے۔ گھوسٹ ملازمین کی طرح گھوسٹ اساتذہ بھی اس شہر کے تعلیمی اداروں کا مقدر بنے۔ یہ سب کیسے ہوا، کس نے کیا اور کب کیا؟ یہ اب ایک کھلی حقیقت ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے اس شہر کی بربادی کے خاتمے میں کیا کیا؟ صورتِ حال یہ ہے کہ اس شہر کے اساتذہ کی نوکریوں کی بولیاں وزیر تعلیم سندھ کے دفتر کے کرتا دھرتا لگاتے رہے۔ شہر کے اعلیٰ معیاری تعلیمی بورڈ کو تباہ کرنے کے لیے نااہل افراد کو اہم ترین انتظامی عہدوں پر مسلط کیا گیا کہ جہاں انہوں نے نتائج میں ردوبدل، امتحانی پوزیشن میں تبدیلی کو محض چند روپوں کا کھیل بنادیا، کہ جس کے نتیجے میں شہر کے لوگوں کا جو اعتماد سرکاری اسکولوں و کالجوں سے اٹھا تھا اب سرکاری بورڈز پر سے بھی اٹھ گیا۔ اس کو سہل بنانے اور سرکاری بورڈز کو بے اعتبار کرنے کے بعد اس شہر میں ہی پاکستان کا پہلا نجی تعلیمی بورڈ قائم کردیا گیا۔ یعنی یہ سب کچھ حادثہ نہیں تھا بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھا۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ شہر کی سب سے بڑی جامعہ، ملک کے علمی وقار کا اہم نام جامعہ کراچی کا گلا اس کے ایکٹ میں ترامیم کرکے گھونٹ دیا گیا ہے۔ مالی طور پر جامعہ کراچی کو مفلوج کردیا گیا ہے اور انتظامی طور پر ترامیم کرکے اس کو بے دست و پا بنادیا گیا ہے۔ اب جامعہ کراچی کے وائس چانسلر کی حیثیت ایک کالج کے پرنسپل کی مانند ہے۔ وہ آزادی اور خودمختاری جو کہ دنیا بھر کی جامعات کو حاصل ہوتی ہے، اس سے جامعہ کراچی کو محروم کردیا گیا ہے۔ یہ المیہ پورے سندھ کی جامعات کا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جارہا ہے کہ اس شہر کے اسکولوں و کالجوں کی تباہی کے بعد اب سرکاری جامعات کو تباہ کرنے کی باری ہے۔ یہ تباہی کئی طریقے سے ہے۔(1) جامعہ کراچی کو مالی طور پر مفلوج کردیا جائے۔(2) اس کی آزادی سلب کرکے اسے بے دست و پا کردیا جائے۔ اور(3) اس کو بدنام کرکے سرکاری اسکولوں اور کالجوں کی طرح بے اعتبار کردیا جائے۔ یہ وہ پورا منظرنامہ ہے کہ جس میں کراچی کی تعلیم اور تعلیمی ادارے موجود ہیں۔
کراچی میں نہ صرف تعلیم بلکہ تعلیمی ادارے بھی روبہ زوال ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت ان کو تباہ کرکے ان کے متبادل کے طور پر کسی اور کو سامنے لانا چاہتی ہے۔ یہ تباہی اور یہ منصوبہ کوئی چار دن کی بات نہیں ہے، اس تباہی کو عمل میں لانے اور منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں تین دہائیاں صرف ہوئی ہیں۔ اب اس شہر کی تعلیم میں اگر کچھ سرکاری سطح پر بچا ہے تو وہ جامعات ہیں، کہ جن کو تباہ کرنے کی منظم سازشوں کے باوجود وہ ابھی تک کھڑی ہیں، کیونکہ اس شہر کا علمی وقار بھی ان ہی کی مرہونِ منت ہے، یہ وہ آخری قلعہ ہے کہ جہاں شہر کی علمی وراثت پناہ گزین ہے۔ اگر یہ آخری قلعہ بھی ہاتھ سے گیا تو یہ شہر بھی ہاتھ سے جائے گا، کیونکہ علم کے بغیر جنگل تو آباد ہوسکتے ہیں، شہر نہیں۔