کراچی: سرکاری اسپتالوں کی زبوں حالی

آج دنیا چاند پر پہنچ چکی اور مریخ پر پہنچنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ایسے میں سندھ کے عوام اب تک بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ صوبے کے عوام کو صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی آج بھی کسی خواب سے کم نہیں۔ سندھ کے دیہی علاقے ہوں یا شہری… صحت کی صورت حال ابتر ہے۔صحت ہو یا تعلیم، پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں دونوں شعبے ہی مسلسل نظراندازکیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں صحت کے شعبے کی اپنی صحت خراب ہوتی جارہی ہے۔ شہر میں اسپتالوں کی کمی کے باوجود صوبائی اور بلدیاتی حکومتیں اس اہم مسئلے سے توجہ ہٹائے بیٹھی ہیں۔ کراچی کے تین بڑے اسپتالوں جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر جسے عرفِ عام میں جناح اسپتال کہا جاتا ہے، قومی ادارہ برائے امراضِ قلب اور قومی ادارہ صحت برائے اطفال کا معاملہ وفاق اور صوبائی حکومت کے مابین تنازع کا شکار ہے۔ سیکنڈری کیئر اسپتال سندھ حکومت کے ماتحت ہیں، جبکہ اسپتالوں اور طبی مراکز کی ایک بڑی تعداد کراچی میٹروپولیٹن کے ماتحت ہے۔ بدقسمتی سے صوبے میں پیپلز پارٹی اورکراچی پر ایم کیو ایم بلاشرکتِ غیرے حاکم رہی ہیں، لیکن دونوں ہی سیاسی جماعتوں نے اسپتالوں میں سیاسی بھرتیوں، مالی بدعنوانیوں، بدانتظامی اور الزامات کی سیاست کے سوا صحت کے شعبے کی بہتری کے لیے کچھ کام نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت کراچی میں طبی سہولتوں کا فقدان ہے۔ رُتھ فاؤ سول اسپتال، سندھ گورنمنٹ اسپتال کورنگی نمبر پانچ، سندھ گورنمنٹ اسپتال سعود آباد، سندھ گورنمنٹ اسپتال نیوکراچی، سندھ گورنمنٹ اسپتال ملیر، سندھ گورنمنٹ اسپتال قطر اورنگی ٹاؤن، سندھ گورنمنٹ لیاری جنرل اسپتال، چلڈرن اسپتال نارتھ ناظم آباد سندھ حکومت کے ماتحت ہیں۔ کے ایم سی کی ویب سائٹ کے مطابق شہر کے 18 ٹاؤنز کی سطح پر میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ماتحت 275 صحت کے مراکز ہیں، جن میں عباسی شہید اسپتال سمیت 17 بڑے اسپتال و میٹرنٹی ہومز، سندھ حکومت سے کے ایم سی کو منتقل ہونے والی 89 ڈسپنسریاں، ڈسٹرکٹ کونسل کی 64 ڈسپنسریاں، کے ایم سی اور ڈی ایم سیز کے ماتحت 64 ڈسپنسریاں، 44 زچہ و بچہ اور ماں اور بچوں کی صحت کے مرکز شامل ہیں۔ اس طرح 2 ہزار 516 بستر بنتے ہیں۔ ان مراکز میں 285 ای پی آئی یعنی ٹیکہ جات مراکز بھی قائم ہیں۔ ان سہولیات کے علاوہ دو خودمختار ادارے بھی کے ایم سی کے شعبۂ صحت کے ماتحت کام کررہے ہیں جن میں کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج اور کراچی ادارہ برائے امراضِ قلب شامل ہیں۔
ایک لمحے کو آپ یہ بھول جائیں کہ کراچی میں صحت کا نظام اور اسپتالوں کی صورت حال خراب ہے، اور اوپر بیان کیے گئے صحت مراکز کی تعداد کا خیال ذہن میں لائیں تو اندازہ ہوگا کہ اگر یہ بنیادی صحت مراکز، سیکنڈری ہیلتھ کیئر سروسز، اور زچہ و بچہ مراکز اپنے فرائض انجام دیں تو صورتِ حال اتنی گمبھیر نہ ہو جس کا اس وقت سامنا ہے۔ اگر بنیادی صحت مراکز اور دوسرے درجے کے اسپتال صحت کی بہتر سہولیات فراہم کریں تو شہر کے بڑے اسپتالوں پر مریضوں کا بڑھتا رش نہ صرف کم ہوگا بلکہ ضائع ہوتے وسائل بھی بچائے جا سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم اوپر بیان کیے گئے اسپتالوں کی صورت حال کا جائزہ لیں، ایک نظر شہر کے اُن اسپتالوں پر دوڑاتے ہیں جو تعمیر تو ہوئے لیکن فعال نہیں ہوسکے، یا فعال ہوکر آہستہ آہستہ کھنڈرات میں تبدیل ہونے لگے۔
نیپا چورنگی پر برسوں سے زیر تعمیر گلشن اقبال اسپتال ہے جو سندھ حکومت کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ چار سو بستروں کے اس اسپتال کا افتتاح 2009ء میں کیا گیا تھا، لیکن اب تک یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوسکا۔ اس سے قبل سابق شہر ناظم نعمت اللہ خان مرحوم نے اس جگہ خواتین لائبریری کی بنیاد رکھی تھی جسے بعد میں آنے والے سٹی ناظم مصطفیٰ کمال نے منسوخ کرکے اسپتال کی بنیاد رکھی، اور سندھ حکومت نے اس منصوبے کو ٹیک اوور کرتے ہوئے صوبائی حکومت کے ماتحت لے لیا۔ ابتدا میں اس اسپتال کی لاگت کا تخمینہ 33 کروڑ روپے تھا، جو اَب سوا ارب سے تجاوز کرچکا ہے۔ اسپتال کے مکمل ہونے والے ایک حصے کو سندھ حکومت نے کورونا ایام کے دوران گزشتہ سال جلد بازی میں انفیکشس ڈیزیز انسٹی ٹیوٹ کا نام دے کر فعال کردیا، اور اس کا انتظام ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اوجھا اسپتال کے حوالے کردیا۔ بعض ماہرین اسے اچھا اقدام قرار دے رہے ہیں تو اکثریت نے اس فیصلے پر تنقید بھی کی ہے۔ اسپتال کے بقیہ حصے کب مکمل ہوں گے، اس کا کسی کو کوئی علم نہیں۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ متعدی امراض کا مرکز شہر سے باہر ہونا چاہیے تاکہ وبائی امراض شہریوں کو متاثر نہ کریں۔ یہی وجہ تھی کہ شہر سے بہت دور گڈاپ ٹاؤن میں پچاس بستروں پر مشتمل سندھ گورنمنٹ اسپتال گڈاپ ٹاؤن کو کورونا مریضوں کے لیے مختص کردیا گیا تھا۔ اسپتال کو 9 وینٹی لیٹر، آئی سی یو اور ایچ ڈی یو کے لیے 120 بیڈ فراہم کیے گئے تھے، لیکن حکومتی نااہلی کے سبب یہ اسپتال مریضوں کی آمد کا منتظر ہی رہا۔ اسپتال میں درجنوں آکسیجن سیلنڈر، ریڈیالوجی کے قیمتی آلات، ایکسرے مشین اور وینٹی لیٹر لاوارث پڑے رہے، اور بعد ازاں یہ وینٹی لیٹر شہر کا انتہائی معتبر رفاہی اسپتال لے اُڑا۔ اس اسپتال کا مقصد بھی محض یہی تھا کہ کورونا جیسی متعدی بیماری کو شہر سے دور رکھا جائے۔ اگر اس سے تھوڑا مزید پیچھے چلیں تو پتا چلتا ہے کہ کراچی کے علاقے منگھوپیر میں قدیم جذام اسپتال کے احاطے میں دو سو بستروں پر مشتمل انفیکشس ڈیزیز اسپتال کی منظوری سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان مرحوم نے دی تھی، اور2007ء میں اس کی تعمیر شروع ہوئی، یوں 2011ء میں شہر کا پہلا انفیکشن ڈیزیز انسٹی ٹیوٹ مکمل ہوا جس کا افتتاح اُس وقت کے صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد نے کیا۔ اس منصوبے کا مقصد یہی تھا کہ متعدی امراض کے مریضوں کو شہر سے دور اس انسٹی ٹیوٹ میں رکھا جائے، ریسرچ کا کام ہو، فوڈ انسپکٹرز، سینیٹری انسپکٹرز، ہیلتھ انسپکٹرز کے لیے ڈپلومہ کورسز، ڈاکٹروں، نرسوں اور عملے کو تربیت اور وبائی امراض پر تحقیق کی سہولیات مہیا کی جائیں۔ اسپتال میں ایک جدید لیبارٹری بھی قائم کی گئی تھی جہاں متعدی امراض کی مکمل تشخیص کی سہولیات موجود ہونا تھیں۔ پبلک سیکٹرمیں سب سے پہلے تین پی سی آر مشینیں بھی یہیں لائی گئی تھیں۔ لیبارٹری میں چار مائیکرو بیالوجسٹ سمیت 15 افراد کا عملہ تعینات کیا گیا تھا۔ جذام اسپتال کے سابق ایم ایس اور کے ایم سی کے سابق سینئر میڈیکل ڈائریکٹر اینڈ ہیلتھ سروسز ڈاکٹر محمد علی عباسی کے مطابق تینوں پی سی آر مشینیں عباسی شہید اسپتال، سول اسپتال اور شہر کا ایک معروف رفاہی اسپتال لے اڑا۔ مائیکروبیالوجسٹ سمیت تمام عملہ عباسی شہید اسپتال منتقل کردیا گیا، فیکو مشین اسپنسر آئی اسپتال کو دے دی گئی۔ یوں یہ اسپتال بننے کے ساتھ ہی اپاہج کردیا گیا۔ دو سو بستروں پر مشتمل یہ اسپتال اب دھول، مٹی اور کباڑخانے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ کھڑکیاں، دروازے، حتیٰ کہ بجلی کے تار تک جرائم پیشہ عناصر نوچ کھاگئے ہیں، لیکن کے ایم سی انتظامیہ کے سر پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔
بات صرف یہیں تک محدود نہیں، شہر کا سب سے بڑا اور قدیم جذام اسپتال اسٹاف اور ادویہ کی قلت کا شکار ہے، یا یوں کہہ لیجیے کہ اسپتال کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا جارہا ہے۔ 1896ء میں قائم ہونے والے اس اسپتال کو 1960ء میں کے ایم سی کے زیر انتظام کیا گیا تھا۔ اسپتال میں دو سو بستروں کی گنجائش ہے اور یہاں رجسٹرڈ مریضوں کو داخل کیا جاتا تھا۔ عملاً اس اسپتال کو غیر فعال کردیا گیا ہے۔ بیشتر شعبے مکمل طور پر بند کردیے گئے ہیں، اور قبضہ مافیا کسی گدھ کی طرح اس اسپتال کی سانسیں بند ہونے کا منتظر ہے، تاکہ اس قیمتی زمین پر قبضہ کیا جا سکے۔ صرف یہی نہیں، شہر میں اس جیسی کئی عمارتیں جوکبھی