یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب کراچی میں ٹیلی ویژن اسٹیشن کے قیام کی خبریں گرم تھیں اور عام لوگوں میں مشہور تھا کہ ٹیلی ویژن کے آنے کے بعد یہ ممکن ہوجائے گا کہ گھر کا کوئی فرد باہر ہو اور ہم اسے دیکھ لیں، یا اپنے کسی رشتہ دار کو اُس کے اپنے گھر میں دیکھ لیں۔ لیکن جلد ہی مفروضے زائل ہوگئے، لیاقت نیشنل اسپتال کے سامنے اسٹیڈیم روڈ پر پاکستان ٹیلی ویژن کے کراچی مرکز کا افتتاح 2نومبر 1967ء کو ہوا۔
میری عمر اُس وقت دس گیارہ سال تھی، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے محلے میں سب سے پہلے جمیل قسائی کے گھر ٹی وی آیا۔ اس نے گھر میں رکھنے کے بجائے بانس کا ایک مچان بناکر اس پر ٹیلی ویژن سیٹ رکھ دیا۔ بس پھر کیا تھا، لوگوں کا ہجوم لگ گیا، جن میں بوڑھے، بچے، مرد اور عورتیں سب ہی شامل تھے۔ ابتدائی دور میں ٹیلی ویژن نشریات صرف چار گھنٹے یعنی شام چھے بجے سے رات دس بجے تک ہوا کرتی تھیں۔ اُس دور میں امیر ، متوسط اور غریب طبقے کی بستیاں الگ الگ نہیں ہوتی تھیں۔ سب ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔
جمیل قسائی کے ہاں ٹیلی ویژن کا آنا تھا کہ پورے محلے میں کہرام مچ گیا، ہر ایک اپنی جمع پونجی گننے اور قرض ادھار کے چکر میں پڑگیا۔ کیونکہ اُس وقت ٹیلی ویژن سیٹ کی قیمت گیارہ بارہ سو روپے تھی، جبکہ اوسط تنخواہ یا آمدنی ڈیڑھ دوسو روپے ہوا کرتی تھی۔ اس اعتبار سے ٹی وی خریدنا ہر ایک کے بس کی بات نہ تھی۔ بہرحال ہمارے ابو نومبر کے آخر تک ٹی وی سیٹ خرید لائے۔ اس دن گھر میں گویا جشن کا سا سماں تھا۔ الیکٹریشن نے آکر چھت پر انٹینا لگایا اور ٹیلی ویژن سیٹ آن کردیا۔ گھر میں سب ہی جمع تھے، پورا ڈرائنگ روم کھچا کھچ بھر گیا تھا جس میں ہمارے تایا، چچا، پھوپھی، نانا، نانی اور دیگر رشتے داروں کے علاوہ محلے کی خواتین اور بچے… سب ایک دوسرے میں ٹھنسے ہوئے بیٹھے تھے، اور گلی میں کھلنے والی کھڑکیوں سے بہت سے سر جھانک رہے تھے۔
شام کے ساڑھے پانچ بجے ٹی وی سیٹ آن ہوا تو سب نے زور زور سے تالیاں بجائیں۔ لیکن اس وقت اسکرین پر ایک نشان اور ایک میوزک کی آواز آرہی تھی۔ اسی کو سب بہت غور سے دیکھ رہے تھے۔ شام چھے بجے جب نشریات شروع ہوئیں تو پہلے تلاوتِ قرآن سے آغاز ہوا۔ اس کے بعد کسی پروگرام میں میزبان کچھ کہہ رہا تھا تو ہماری پھوپھی اماں نے شرما کر اپنا چہرہ دوپٹے سے ڈھانپتے ہوئے کہا کہ یہ موا تو مجھے دیکھ رہا ہے۔ اس پر سب کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
پھر نشریات دیکھنے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ محلے میں دیگر لوگوں نے ٹی وی سیٹ لیے تو ہمارے گھر سے رش میں تھوڑی بہت کمی آگئی۔ لیکن روزانہ چار گھنٹے کی نشریات میں سب لوگ مسلسل ٹی وی دیکھتے رہتے، حیرانی کے ساتھ۔ اس میں سیاسی ٹاک شو ہوں، خبریں ہو، بچوں کے پروگرام یا ڈرامے۔ اس زمانے میں ڈرامے ریکارڈ نہیں ہوتے بلکہ براہ راست(Live) آیا کرتے تھے۔ سارے پروگرام سب ہی لوگ مبہوت ہوکر دیکھا کرتے، کیونکہ وہ بالکل نئی چیز اور ابتدا تھی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹی وی دیکھنے کے اس جوش و جنون میں تو کمی آئی لیکن لوگوں کی دلچسپی اب تک برقرار ہے۔
ملک کے شہروں، قصبوں اور دیہات میں لوگوں کے لیے خبروں اور اطلاعات کی فراہمی کا بڑا ذریعہ ٹیلی ویژن ہی ہے۔ مارکیٹنگ ریسرچ کمپنی گیلپ پاکستان کے سن 2009ء کے سروے کے مطابق ملک میں ٹیلی ویژن ناظرین کی تعداد آٹھ کروڑ ساٹھ لاکھ تھی۔ اس میں اضافہ ہوتا رہا اور اب یہ تعداد بارہ کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔
الیکٹرانک میڈیا میں ٹیلی ویژن، ریڈیو، ویب ٹی وی، یو ٹیوب چینل اور سوشل میڈیا کا شمار ہوتا ہے۔ ملک کا سب سے بڑا شہر ہونے کی وجہ سے کراچی میں الیکٹرانک میڈیا بھی بہت زیادہ ہے۔ بہت سے ٹی وی چینل اور ایف ایم ریڈیو کراچی میں ہیں، یا اگر ان کا مرکزی دفتر اسلام آباد، لاہور یا کسی اور شہر میں ہے تو ان کے بیورو آفس کراچی میں ہیں۔
پاکستان میں 1990ء تک ٹیلی ویژن مکمل طور پر حکومت یا ریاست کی ملکیت رہا، اس کے بعد پیپلز ٹیلی ویژن نیٹ ورک (پی ٹی این) کے نام سے نجی شعبے میں ملک کے پہلے ٹی وی چینل نے اپنی نشریات شروع کیں، جس کا نام کچھ عرصے بعد ہی شالیمار ٹیلی ویژن نیٹ ورک (ایس ٹی این) رکھ دیا گیا۔ اس کے مارکیٹنگ کے شعبے کا نام نیٹ ورک ٹیلی ویژن مارکیٹنگ (این ٹی ایم) تھا، اس لیے وہ این ٹی ایم کے نام سے زیادہ مشہور ہوا۔ تاہم اسے بیوروکریسی کی سازشوں کی وجہ سے جلد ہی بند کردیا گیا۔
اس کے ساتھ ہی 1990ء کے عشرے میں کراچی سمیت ملک کے کئی بڑے شہروں میں کیبل ٹی وی نیٹ ورک کے ذریعے کئی غیرملکی سیٹلائٹ ٹی وی چینل دکھائے جانے لگے۔
معاشرے میں روایتی طور پر سرکاری ٹی وی یعنی پاکستان ٹیلی ویژن کا بڑا عمل دخل ہے، کیونکہ اس کی نشریات کیبل کی محتاج نہیں، اور اب بھی اس کی نشریات دور دراز دیہات اور دشوار گزار علاقوں میںدیکھی جاتی ہیں۔
سن 2002ء میں جنرل پرویزمشرف کے دور میں پورے ملک میں الیکٹرانک میڈیا کو بہت عروج حاصل ہوا۔ پہلے جیو ٹی وی میدان میں آیا، اور پھر اے آر وائی ٹی وی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا اور اب ملک بھر میں سو سے زائد چینل کام کررہے ہیں۔ ان میں خبروں کے قابل ذکر ٹی وی چینل آج نیوز، اب تک نیوز، اے آر وائی نیوز، بول نیوز، ڈان نیوز، ایکسپریس نیوز، ہم نیوز، نیوز ون، سماء ٹی وی، نیو نیوز، 92نیوز، دنیا نیوز، بول ٹی وی، کے 21، میٹرو ون وغیرہ ہیں۔ جبکہ سندھی زبان کے ٹی وی چینل بھی کراچی ہی میں ہیں، ان میں کے ٹی این نیوز، دھرتی ٹی وی، سندھ ٹی وی، وش نیوز، آواز ٹی وی اور کشش ٹی وی شامل ہیں۔
ملک میں براڈ کاسٹنگ مارکیٹ سمیت آزاد، منصفانہ الیکٹرانک میڈیا کے قیام اور فروغ کے لیے مارچ 2002ء میں پیمرا کا قیام عمل میں آیا۔ اس نے 2009ء کے آخر تک سیٹلائٹ ٹی وی کے 78 لائسنس جاری کیے۔ جبکہ28 غیر ملکی ٹی وی چینلز کو لینڈنگ رائٹس یا ٹیلی کاسٹ کرنے کے اختیارات دیے۔ جبکہ 129 ایف ایم ریڈیو اسٹیشنوں کو لائسنس دیے، جن میں جامعات کے 18نان کمرشل لائسنس بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 2346کیبل ٹی وی سسٹمز کو رجسٹرڈ کیا، جو 80لاکھ گھروں تک ٹی وی نشریات فراہم کررہے ہیں۔
قیام پاکستان کے دن ہی یعنی 14 اگست 1947ء کو آل انڈیا ریڈیو کا نام بدل کر ریڈیو پاکستان رکھ دیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے وقت ڈھاکہ، لاہور اور پشاور میں ریڈیو اسٹیشن تھے۔ 1948ء میں کراچی اور راولپنڈی میں، اور پھر دیگر متعدد شہروں میں ریڈیو اسٹیشن قائم ہوتے چلے گئے۔ بعد میں ریڈیو پاکستان کا نام تبدیل کرکے پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن یا پی بی سی کردیا گیا۔ اکتوبر 1998ء میں پی بی سی نے اپنی پہلی ایف ایم نشریات شروع کیں۔ میڈیا کی آزادی کے بعد سیکڑوں سرکاری اور غیر سرکاری ایف ایم ریڈیو چینل ہیں۔
مقابلے کے بے پناہ رجحان اور تجارتی مفادات کو ترجیح دینے کی وجہ سے اصولی اور معیاری صحافت کی جگہ سنسنی خیزی اور جرائم کی خبروں نے لے لی۔ اگرچہ ریڈیو کے شعبے نے اس طرح پیش رفت نہیں کی، لیکن پھر بھی آزاد ریڈیو چینل اطلاعات کی فراہمی کا بہت بڑا ذریعہ بن گئے۔
سیاسی دباؤ اور حکومتی پابندیوں کے باوجود ملک میں الیکٹرانک میڈیا کو بہت آزادی حاصل ہے۔
سینئر صحافی وسعت اللہ خان نے، جو برسہابرس ”بی بی سی لندن“ میں رہے اور اب ”ڈان نیوز“ پر پروگرام کرتے ہیں، بی بی سی کے بلاگ پر لکھا کہ جب اخبارات و رسائل اتنے زیادہ نہیں تھے تو جو بھی نیا لڑکا یا لڑکی صحافت کے پیشے میں قدم رکھتا اُسے بہت سے تجربہ کار صحافیوں کی تربیتی معاونت میسر ہوجاتی۔ اس ماحول میں نوزائیدہ صحافی کو خبر کی زبان، تبصراتی تکنیک، رپورٹنگ کے بنیادی آداب جیسے گر سیکھنے کا موقع ملتا، اور ایک آدھ برس کی ’پیشہ ورانہ گھسائی‘ کے بعد وہ دشتِ صحافت میں اڑنے کے قابل ہوجاتا۔ لیکن پھر صحافت میڈیا کہلانے لگی اور میڈیا ’الیکٹرونک‘ ہوگیا۔ ہر تیرے میرے کو پس منظر اور تجربہ دیکھے بغیر چینل کا لائسنس ملنے لگا تو صحافت کی بستی میں ہڑبونگ مچنا لازمی تھا۔ نووارد اہلِ سرمایہ کو اپنی سرمایہ کاری پر فوری منافع چاہیے تھا۔ فوری منافع اشتہارات سے جڑا تھا۔ اشتہارات کمانے کا دارومدار اس پر تھا کہ کس چینل کو کتنے لوگ دیکھتے یا سنتے ہیں۔ چنانچہ تربیت یافتہ صحافیوں کو رجھانے کی لپاڈکی شروع ہوگئی۔ مگر صحافیوں کی تربیت یافتہ قسم چونکہ کمیاب تھی اور چینلز کی بھوک کہیں زیادہ… لہٰذا منڈی میں سے ہر طرح کا مال اٹھایا جانے لگا اور وہ بھی اچھے پیسوں پر۔
جنگ کا اصول ہے کہ جب باقاعدہ فوج کم پڑنے لگتی ہے تو پھر ہر وہ شخص جو بظاہر صحت مند دکھائی دے اُسے دو تین ہفتے کی تربیت دے کر بندوق تھماکر محاذِ جنگ پر بھیج دیا جاتا ہے۔ چینلوں میں بھی یہی جنگی فارمولا استعمال ہونے لگا اور جو جاذبِ نگاہ چہرہ، جو چرب زبان، جو دبنگ شخصیت کا مالک، جو چلتا پرزہ جوڑ توڑ، یا جو زیادہ چیخنے والا دستیاب ہوا اُسے ایک مختصر تعارفی تربیت سے مسلح کرکے کیمرے کے آگے بٹھایا گیا، کیمرے کے پیچھے کھڑا کیا گیا یا پھر خبر کے تعاقب میں مائیکروفون کی تلوار تھما کے روانہ کردیا گیا۔ خبر لاؤ، بھلے کسی کے گھر میں کودو، کسی دفتر میں بغیر اپائنٹمنٹ گھسو، ہوٹل کے کمروں کے دروازے توڑو، خبر نہیں تو ایجاد کرو، اصل کردار نہ ملے تو ایکٹر استعمال کرو، کرین پر جھول جاؤ یا دھماکے کی جگہ اہم ثبوت بچانے کے لیے لگائی حفاظتی پٹی پھاندو، ملبے میں پھنسے زخمی سے پوچھو ’’اس وقت آپ کیسا محسوس کررہے ہیں؟‘‘، ریپ وکٹم کو جھماجھم اسٹوڈیو میں لاؤ اور اس کی راہ میں ماتم بچھائے چلے جاؤ۔ میت کے سامنے کھڑے ہوکر بیپر دینا بھی جائز ہے اور خالی قبر میں لیٹ کر لائیو رپورٹنگ بھی حلال۔ کچھ بھی کرو مگر خبر لاؤ… اچھوتی، ایکسکلیوسیو، سنسنی خیز، دھماکے دار خبر۔ تمہاری تنخواہ چینل کی ریٹنگ سے جڑی ہے۔ نو ریٹنگ نو سیلری… جھوٹ سچ طے کرنے یا خبر کے سب کرداروں سے رابطے کا وقت نہیں، اسٹوری لکھنے اور ایڈٹ کرنے کا ٹائم نہیں۔ بس فوراً، کسی بھی قیمت پر بریکنگ نیوز پیدا کرو۔ تصدیق و تصحیح و تردید بعد میں ہوتی رہے گی۔ (بشکریہ بی بی سی)
نیوز ون چینل کی سابق سینئر ایگزیکٹو پروڈیوسر سیدہ فضہ شکیل نے میرے استفسار پر بتایا کہ الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنے کا میرا تجربہ تو بہت ہی خوشگوار رہا، اس لیے کہ ہمارے ادارے کے مالکان کام کے حوالے سے مکمل آزادی دیتے ہیں اور کسی قسم کی مداخلت نہیں کرتے۔ میں نے بہت ذہنی آسودگی کے ساتھ اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دیے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی مجبوریوں کے سوا ہمیں کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہیں پڑا، اور میں نے بڑی کامیابی سے اپنا سفر طے کیا۔
جی ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی حسن علی امام سے جب میں نے کراچی میں الیکٹرانک میڈیا خاص طور پر ٹیلی ویژن چینلز سے وابستہ صحافیوں کے مسائل کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ کراچی میں صحافیوں کے لیے ملازمت کے مواقع دوسرے شہروں کے مقابلے میں زیادہ ہیں، مگر عموماً یہ خوش بختی مسائل کا سبب بن جاتی ہے۔ ایک ادارے سے دوسرے ادارے کے سفر میں جہاں کچھ صحافیوں کو مالی اور پیشہ ورانہ فوائد ہوتے ہیں، وہیں بہت سے صحافی ایک مضبوط اور مستحکم ادارے سے صرف اس لیے ہجرت کرجاتے ہیں کہ دوسرے ادارے میں زیادہ تنخواہ اور مراعات موجود ہیں۔ کبھی یہ داؤ چل جاتا ہے مگر اکثر صحافیوں کو اس میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ اس صورتِ حال کو سمجھتے ہوئے اداروں نے بہت سے صحافیوں کا استحصال کیا۔ نیوز چینلوں میں موجود صحافی اس تمام صورتِ حال کو بہ خوبی سمجھتے ہیں۔
ملازمت کے عدم تحفظ (جاب سیکورٹی)کے مسائل یوں تو پورے ملک میں صحافیوں کو درپیش ہیں مگر کراچی میں اس کا تناسب شاید پورے ملک سے زیادہ ہے۔ اس کی ایک وجہ تو صحافتی اداروں کا زیادہ ہونا ہے، جس کے باعث یہاں کے صحافیوں کے بے روزگار ہونے کا تناسب باقی ملک سے زیادہ ہوجاتا ہے۔ جو ادارے خراب مالی حالات کی وجہ سے صحافیوں کو ملازمتوں سے فارغ نہیں کرتے وہاں ایک اور مسئلہ جنم لے لیتا ہے، اور وہ مسئلہ ہے تنخواہوں کا نہ ملنا، یا تنخواہوں میں کئی کئی ماہ کا تعطل۔ تعداد کے اعتبار سے یہ مسئلہ بھی کراچی میں ہی سب سے زیادہ ہے۔ بڑے بڑے نیوز چینل صحافیوں کو کئی کئی ماہ لٹکائے رکھتے ہیں۔