پبلک ایڈ کمیٹی ایک تعارف

مسائل انسانی زندگی کا جزوِ لاینفک ہیں، مگر ہمارے معاشرے اور شہر کا المیہ یہ ہے کہ صاحبانِ طاقت و اقتدار اپنے عوام کے بارے میں ظالم اور کمزور کے معاملے میں ظالم تر ہیں۔ عوام سے وسائل اکٹھے کرنے میں جابر، جبکہ انہیں سہولت فراہم کرنے کے معاملے میں مکمل طور پر ناکام ہی نہیں بلکہ عوام کے وسائل کو اپنا مال سمجھنا اور مختلف حیلے بہانوں اور کاغذی ترقیاتی اسکیموں کے نام پر ان وسائل کو بے دریغ اپنی عیاشیوں کی نذر کرنا ان کا محبوب ترین مشغلہ بن چکا ہے۔ ایسے میں چار سال قبل جماعت اسلامی کراچی کے تحت قائم کی جانے والی پبلک ایڈ کمیٹی نے شہری اور بلدیاتی مسائل اور عام آدمی کے مسائل کو عوامی سطح پر اجاگر کرکے عوام کے دبائو کے ذریعے حل کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔
گزشتہ چار سال میں عام آدمی کے مسائل حل کرنے کے لیے پبلک ایڈ کمیٹی جماعت اسلامی نے ہر ممکن کوشش کی، عوامی سطح پر احتجاج کے ذریعے پاکستان کو 56 فیصد سے زائد ریونیو دینے والے کراچی شہر کے ساتھ مسلسل روا رکھے جانے والے ظلم، شہر کو لٹیروں اور غاصبوں کے حوالے کردینے، اور اس کےسربراہ پبلک ایڈ کمیٹی سیف الدین ایڈوکیٹ کی قیادت میں تمام وسائل پر ”حق“ جماکر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم رکھنے والوں کی درست نشاندہی کی، اور عوام کو اُن کے اصل دشمنوں کی نشاندہی کی۔
عوامی دبائو کے ذریعے عوام کے مسائل کے حل کی ترکیب نے درست کام کیا۔ یہ طریقہ کار نہ صرف عوامی سطح پر پذیرائی کا باعث بنا بلکہ عوام تک یہ پیغام بھی پہنچ گیا کہ ان کے مسائل کا حل صرف اور صرف جماعت اسلامی ہے۔ پبلک ایڈ نے اپنی کاوشوں کا دائرہ نچلی سطح تک پہنچایا ہے جس کے نتیجے میں اب عام لوگوں کی کثیر تعداد روزانہ ادارئہ نورِ حق (دفتر جماعتِ اسلامی) کا رخ کرتی ہے اس امید کے ساتھ کہ اُن کے مسائل کا حل صرف اور صرف جماعت اسلامی کے پاس ہے۔ عوامی امیدوں پر پورا اترنے کی کوششوں کو مہمیز دینے کے لیے پبلک ایڈ جماعت اسلامی کراچی نے ویب پورٹل کا اجراء کیا ہے۔ امید ہے کہ اس ڈیجیٹل ایپلی کیشن پراسیس کے ذریعے پبلک ایڈ عوامی خدمت کا کام مزید احسن انداز میں انجام دے گی۔ کراچی شہر میں روزافزوں بڑھتی شہری مشکلات، نام نہاد عوامی نمائندوں کی بے حسی، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی یکسر لاتعلقی سب پر عیاں ہے۔ اور یہ مسلط کردہ قیادت صرف اور صرف فنڈ اکٹھا کرنے اور لوٹ مار کے لیے ہے۔ ایسی صورت میں مسائل مزید بڑھائے جاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ کرپشن کی جاسکے۔
ہر وہ ادارہ جس کا کام شہریوں کو سہولت فراہم کرنا ہے، وہ بجائے سہولت فراہم کرنے کے اسی شکایت کنندہ کو بھنبھوڑنے پر اتر آتا ہے۔
کے الیکٹرک ہو یا سوئی گیس، نادرا ہو یا واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، سرکاری ہسپتال ہوں یا بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، پولیس اہلکار ہوں یا عدالتی نظام… ہر ادارہ عوام کو لوٹنے میں مصروف ہے۔ اس پر مزید المیہ یہ ہوا کہ سرکار کی دیکھا دیکھی نجی اور غیر سرکاری ادارے بھی لوٹ کھسوٹ کی اس دوڑ میں شامل ہوگئے۔ عوامی سہولت کے سرکاری ادارے تعلیم و صحت جیسی بنیادی سہولیات تو کیا فراہم کرتے، کم و بیش تمام نجی ادارے بھی صحت اور تعلیم کے نام پر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ عام آدمی بجلی اور گیس کے بے تحاشا بڑھتے ہوئے بلوں کو دیکھ کر پریشان ہے، اور روز بروز مہنگی تعلیم اور خواب سی محسوس ہوتی علاج کی سہولتوں کو ترس رہا ہے۔
عام آدمی کی زندگی کے خوابوں میں ایک خواب چھوٹا ہی سہی مگر اپنا ایک گھر ہوتا ہے۔ عام آدمی کے اس خواب کی بھیانک تعبیر اس کی زندگی بھر کی جمع پونجی سمیٹ کر ہڑپ کرجانے والی ہائوسنگ اسکیمیں، نجی بلڈروں، کوآپریٹو اسکیموں کی شکل میں ایک نیا مافیا ہے، جسے کرپٹ سرکاری اداروں کی مکمل حمایت اور تعاون حاصل ہے، اور عام آدمی ان کے سامنے بالکل بے بس ہے۔
ایسے میں جماعت اسلامی کراچی نے پبلک ایڈ کراچی کے پلیٹ فارم سے کراچی کے ”مظلوم لوگوں“ کی آواز بننے کا فیصلہ کیا۔
گزشتہ چار سال سے پبلک ایڈ جماعت اسلامی کراچی ہر خاص و عام کی شکایت پر نہ صرف توجہ دیتی ہے بلکہ متعلقہ اداروں سے رابطہ کرتی اور مظلوم اور مصیبت زدہ پریشان حال شہریوں کی شکایت اُن تک پہنچاتی ہے، اقتدار کا حصہ نہ ہونے کے باوجود مظاہروں، جلسوں، دھرنوں الغرض تمام تر جمہوری طور طریقوں سے عوامی مسائل پر آواز اٹھاتی ہے۔ کے الیکٹرک، نادرا، سوئی گیس، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، نجی تعمیراتی اداروں، ہائوسنگ اسکیموں، کارپوریٹ سیکڑ تک تمام تر قانونی طریقہ کار کو بروئے کار لاکر عام آدمی کی دادرسی کی حتی الامکان کوشش کی جاتی ہے۔
اگرچہ پبلک ایڈ کمیٹی نے سو فیصد تو نہیں لیکن بڑی حد تک عام اور خاص شکایات کا ازالہ کروایا اور تاحال اس کے لیے کوشاں ہے۔ اور کے الیکٹرک کے ناجائز واجبات، نادرا کی من مانیوں، نجی تعمیراتی اداروں کی بد معاشی کو بڑی حد تک قابو کیا۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ کراچی کے عام مظلوم اور پریشان حال مرد و زن کا رخ جماعت اسلامی کراچی کے مرکزی دفتر ”ادارئہ نور حق“ میں واقع پبلک ایڈ کی جانب ہے، جہاں ”عوامی مسائل بیٹھک“ میں پبلک ایڈ جماعت اسلامی کے ہر شعبے کے ذمہ داران اور ٹیم ان کی دادرسی کے لیے موجود ہوتی ہے۔
لوگوں کے اس بڑھتے ہوئے رش کی وجہ سے پبلک ایڈ کی آئی ٹی ٹیم نے عوام الناس کی سہولت کے لیے ویب پورٹل متعارف کروایا ہے، جس سے دفتر آئے بغیر بھی ہر فرد اپنی شکایت کا اندراج کرسکتا ہے، اس پورٹل سے عوامی شکایات پر فوری توجہ دی جاتی ہے-
ہم امید کرتے ہیں کہ اب اس جدید ویب پورٹل کی مدد سے عام افراد کی شکایات کا تجزیہ، ان کی درجہ بندی اور سائلین کا ڈیٹا اور ان تک رسائی اور مسائل کے حل کے لیے کی جانے والی کاوشیں ایک مربوط نظام کے ذریعے یکجا ہوسکیں گی، جو مسائل کے تدارک میں بہت موثر ثابت ہوں گی۔
پبلک ایڈ جماعت اسلامی کراچی نے چار سال کے اس قلیل عرصے میں جو نمایاں کام انجام دئیے ہیں ان کے پیچھے کوئی وقتی جذباتی سوچ نہیں بلکہ خالصتاً عوام کی خدمت کا جذبہ کارفرما رہا ہے، اس لیے کہ ہم سمجھتے ہیں کراچی کو جماعت اسلامی سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ تین مرتبہ یہاں کی بلدیہ جماعت اسلامی کے پاس رہی، اور کراچی کی بہتری کے لیے جتنے منصوبے جماعت اسلامی کے دور میں عمل میں لائے گئے اُس کا ایک فیصد بھی کام تیس سال میں نہیں ہوسکا ہے، حد تو یہ ہے کہ جو منصوبے نعمت اللہ خان کے دور میں منظور ہوئے تھے اُن پر بعد میں آنے والوں نے اپنے نام کی تختیاں لگا کر سستی شہرت حاصل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
پبلک ایڈ کمیٹی کی نمایاںخدمات
نادرا (شناختی کارڈ)
اس حوالے سے شہریوں بالخصوص بنگالی، برمی، بہاری اور پختون قومیت کے افراد کو بے پناہ مشکلات کا سامنا تھا۔شک کو بنیاد بناکر بنگالی، برمی، بہاری اور پختون قومیت کے ہزاروں شناختی کارڈ سال ہا سال سے بلاک کردیے گئے تھے۔
جنوری 2018ء میں نادرا کے متعصبانہ رویّے کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا، شہر بھر میں مختلف ڈسٹرکٹ کی سطح پر احتجاج ریکارڈ کرایا گیااور امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کی قیادت میں نادرا ہیڈ آفس پر دھرنا دیا گیا۔ انتظامیہ سے کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں فروری 2018ء میں 2015ء کی ایس او پی تبدیل ہوگئی۔
ایس او پی کی تبدیلی سے لاکھوں شہریوں کے شناختی کارڈ بحال ہوئے اور نئے شناختی کارڈز کا اجرا ہوا۔ میگا سینٹروں کا قیام عمل میں آیا، اور چوبیس گھنٹے دفاتر کو کھلا رکھنے کو ممکن بنایا گیا۔
کے الیکٹرک
کے الیکٹرک کی غیر قانونی نج کاری، اوور بلنگ، اضافی چارجز، لوڈشیڈنگ، تانبے کے تاروں کی جگہ سلور تاروں کی وائرنگ اور اسی طرح کے دیگر مسائل۔
ان مسائل کے حل کے لیے بھرپور عوامی مہم کا آغاز اور رائے عامہ کو بیدار کرنے کا کام کیا گیا۔
کے الیکٹرک کے خلاف شہر کے مختلف مقامات اور KE ہیڈ آفس سمیت گورنر ہاؤس پر دھرنے، پریس کانفرنسیں، سیمینار، عوامی رائے عامہ کی بیداری۔پٹیشن سپریم کورٹ+ ہائی کورٹ اور نیپرا میں جماعت اسلامی پبلک ایڈ نے کے الیکٹرک کی مہم کے نتیجے میں کراچی کے شہریوں کو 1 ارب، 28 کروڑ، 65 لاکھ سے زیادہ کا ریلیف دلوایا۔
میٹر رینٹ اور ڈبل بینک چارجز کی مد میں 1 ارب 20 کروڑ کا ریلیف ملا۔
بارشوں میں بجلی کے تار گرنے، اور کرنٹ لگنے سے شہید ہونے والوں کو 6 کروڑ 65 لاکھ کا ہرجانہ کے الیکٹرک سے دلوایاگیا۔
اووربلنگ اور بے بنیاد بجلی چوری کے الزامات کی مد میں2 کروڑ واپس دلوائے۔
بارشوں میں کرنٹ سے ہلاکتوں کا سبب ارتھ وائر کا نہ ہونا تھا۔ ہماری نیپرا اور کورٹ میں درخواست اور ریسرچ رپورٹ کے نتیجے میں کے الیکٹرک پر نہ صرف جرمانہ عائد کیا گیا بلکہ اسے پابند کیا گیا کہ بجلی کے کھمبوں پر ارتھ وائر لگائے جائیں۔ چنانچہ ہماری کوششوں سے ارتھ وائر لگائے گئے۔
رہائشی علاقے گرومندر، لیاری، معمار اور دیگر شہری علاقوں کے وفود نے پبلک ایڈ جماعت اسلامی سے رجوع کیا۔ ان علاقوں میں 50 سے زیادہ PMT لگوائیں۔
پانچ ہزار سے زائد افراد کی ٹیلی فون پر فوری لائٹ بحال کروائی۔
پبلک ایڈ کی جانب سے وفاقی محتسب عدالت/ نیپرا میں کیسز بھیجے گئے۔
زمینوں کےمتعلق مسائل
کراچی کے لاکھوں شہری بلڈر اور ہاؤسنگ سوسائٹیز کے ہاتھوںزندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم، پلاٹ اور فلیٹ کی قیمت لینے کے باوجودقبضہ نہ دینا اور قیمتوں میں مختلف مدات میں بے انتہا من مانااضافہ۔
اس سلسلے میں درج ذیل سوسائٹیز اور ہاؤسنگ وغیرہ کے حوالے سے مہم چلائی تھیں۔
بحریہ ٹاؤن کراچی ( جس کے نتیجے میں پشاور، لاہور، نواب شاہ اور ملک کے دیگر شہروں کے متاثرین نے اس سلسلے میں عوامی مسائل بیٹھک میں رابطہ کیا)
احسن ٹاؤن، نیا ناظم آباد، مون گارڈن ریلوے ہاؤسنگ، پاک آڈٹ ہاؤسنگ سوسائٹیز،PIDC،عمان بلڈر مہران ہائوسنگ اسکیم سمیت درجنوںسوسائٹیوں کے ہزاروں متاثرین نے رابطہ کیا، جنہیں قانونی رہنمائی فراہم کی جارہی ہے ۔
گلشن کنیز فاطمہ
گلشن کنیز فاطمہ سوسائٹی پرلینڈ مافیا کا قبضہ تھا۔عدالتی کارروائی کرکے ساڑھے تین سو الاٹیز کو قبضہ دلوایا۔
ڈپلیکیٹ فائلیں
الاٹمنٹ کا نہ ملنا
قبضہ مافیا کی جانب سے تشدّد، ایک شہادت، متعدد زخمی
الحمدللہ اس اہم کیس میں کامیابی حاصل ہوئی۔
بحریہ ٹائون- کراچی
جماعت اسلامی اور بحریہ ٹائون کے مابین بحریہ متاثرین کے لیے کامیاب مذاکرات اور طے شدہ نکات پر عمل درآمد۔
کئی مشاورتی اجلاس متاثرین کے ساتھ۔ طارق روڈ پر متاثرین کے ساتھ جنوری 2020ء میں دھرنا۔
چیرمین بحریہ ٹائون جناب ملک ریاض کے کئی بار ادارئہ نورِحق کے دورے۔
2مارچ 2020ء کو بحریہ ٹائون اور جماعت اسلامی کا معاہدہ۔
جبری پزیشن کا خاتمہ اور 35 فیصد ڈویلپمنٹ چارجز موخر۔
رقوم کی واپسی، ریلوکیشن اور بائونس چیکس کے تقریباً دو ہزارکیسز پر کارروائی۔
نیا ناظم آباد
نیا ناظم آباد کے ہزاروں الاٹیز کی پبلک ایڈ سے مدد کی اپیل۔
شدید بارشوں سے ہونے والے نقصانات اور گھروں کا ڈوب جانا۔
دیگر مسائل جن میں اضافی ڈویلپمنٹ چارجز، کے الیکٹرک کے چارجز اور الاٹمنٹ کے مسائل۔
نیا ناظم آباد کے مالکان/انتظامیہ کی ادارئہ نورِ حق میں ملاقات۔
نیا ناظم آباد کی انتظامیہ کو مذاکرات پر مجبور کیا۔
نیا ناظم آباد کی انتظامیہ کی دعوت پر نیا ناظم آباد کا دورہ۔
کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں برساتی نالے کا ہنگامی بنیاد پر تعمیراتی کام شروع ہوا۔
دیگر سوسائٹیز
کراچی کی 50 سے زائد ہاوسنگ اسکیموں پر بلڈروں کی دھوکہ دہی کے خلاف بھرپور مہم جاری ہے۔
ان میں گلشن رومی، گلشن توحید، احسن ٹائون، ہاکس بے اسکیم 42، سچل سرمست، ماہم سوسائٹی جیسی سوسائٹیز بھی شامل ہیں۔
تعلیم وصحت
کراچی کے پرائیویٹ اسکولوں کی بڑھتی بے لگام فیسوں پر آل سندھ پیرنٹ ایسوسی ایشن کی بھر پور حمایت کے ذریعے فیسوں میں اضافےکی روک تھام۔
نرسنگ کونسل کی بےضابطگی پر اداروں سے رابطہ،جس کے نتیجے میں طلبہ ریگولرائزہوئے۔امتحانات کے فوری انعقاد کی وجہ سے تعلیمی سال بھی ضائع ہونے سے بچ گیا۔
کراچی کے عباسی شہید ہسپتال اور ادارئہ امراضِ قلب میں جاری کرپشن، اقربا پروری، تنخواہوں کی مہینوں عدم ادائیگی کی وجہ سے طبی اور نچلے عملے کو درپیش مالی مشکلات پر مسلسل احتجاج۔رکی ہوئی تنخواہوں کا فوری اجرا۔
کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج میں 2سال سے امتحانات کا نہ ہونا۔جامعہ کراچی کے اربابِ اختیار سے ملاقاتیں اور امتحانات کا فوری انعقاد۔
الحمدللہ ملاقات کے نتیجے میں تمام امتحانات ہوچکے، نتائج بھی آنا شروع ہیں، آن لائن تدریس کا عمل جاری ہے۔
میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے پاکستان میڈیکل کمیشن نے روایتی کراچی دشمنی کا مظاہرہ کیا، پبلک ایڈ کراچی اس معاملے میں طلبہ کے ساتھ کھڑی ہے۔
ملکی سطح پر ایک بڑے پرائیویٹ اسکول دی ایجوکیٹر کی جانب سے ایک متنازع پرچے کی سوشل میڈیا پر اشاعت، فوری نوٹس، دی ایجوکیٹر کی انتظامیہ نے فوری رد عمل دیا اور اس پرچہ سے لاتعلقی کا اعلان بذریعہ ای میل اور اپنے فیس بک پیج پر کیا اور کسی کی شرارت قراردیا۔
واٹر اینڈ سیوریج بورڈ
کراچی میں پانی کی فراہمی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔
اس حوالے سے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کی سربراہی میں واٹر بورڈ کے ہیڈ آفس پر دھرنا دیا گیا۔ اس وقت کے M.Dخالد شیخ کو مزاکرات کی ٹیبل پر لائے اور پانی کی مساوی تقسیم و فراہمی پر آمادہ کروایا گیا۔
سانحہ بلدیہ فیکٹری
ستمبر 2011 ء، بلدیہ کی ایک فیکٹری میں 259سے زیادہ مزدور زندہ جلا دیےگئے۔
متاثرہ خاندانوں کی بحالی کی ابتدا کی گئی۔
قانونی عدالتی کارروائی کا آغاز۔
واجبات کی ادائیگی کے لیے الگ کیس دائر کیا گیا۔
60کروڑ کی ادائیگی کے لیے کارروائی جاری ہے۔
المرکزالاسلامی
ادارہ المرکزالاسلامی فیڈرل بی ایریا کراچی جس کو پہلے مرکز علم و ثقافت اور پھر سینما گھر میں تبدیل کیا گیا، جماعت اسلامی نے سپریم کورٹ میں کیس جیت کر ”المرکزالاسلامی“ کو اپنی پرانی شناخت پر بحال کروایا۔
پارک و سرکاری وسائل پر قبضہ
جماعت اسلامی کے سپریم کورٹ و ہائی کورٹ میں کے الیکٹرک، پارکوں پر قبضے اور دیگر مسائل پردس سے زیادہ کیسزداخل ہیں۔
معذور افراد کے حقوق
معذور افراد کے حقوق کے لیے بھرپور جدوجہدکی گئی۔ مختلف پروگرامات کا انعقاد کیا گیا۔
جدو جہد کے نتیجے میں متاثرین کی ملازمتیں بحال کروائی گئیں۔ہائی کورٹ میں ملازمتوں کے لیے مسلسل کیسز داخل کیے،جس کے نتیجے میں الحمدللہ بھر پور کامیابی ملی۔
ادارئہ نورِ حق میں پبلک ایڈ سیکریٹریٹ کا قیام
ہر ماہ کئی ہزار افراد روزانہ کی بنیاد پر خاندانی، قانونی مشاورت، تھانہ کچہری اور دیگر مسائل کے حل کے لیے دفتر آتے ہیں۔ان کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ مختلف اداروں میں درخواستیں بنا کر ارسال کی جاتی ہیں۔
نہ صرف پاکستان بھر سے بلکہ بیرون ملک سے بھی متاثرین کی طرف سے موصول ہونے والی شکایات کو مدنطر رکھتے ہوئے ویب پورٹل کا آغاز۔
عوامی مسائل بیٹھک
مختلف عنوانات سے متاثرین کی بکثرت آمد کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’عوامی مسائل بیٹھک‘‘ کا ادارئہ نور حق میں قیام۔
پبلک ایڈ کے ذمہ داران روزانہ کی بنیاد پر ’’عوامی مسائل بیٹھک“ میں ہفتے کے تمام دن موجود ہوتے ہیں، جس میں ذمہ داران عوام الناس کے مسائل کے حل کے لیے ان کو قانونی مشاورت فراہم کرتے ہیں۔