ہم کیسا کراچی دیکھنا چاہتے ہیں… جماعت اسلامی کا کراچی عوامی چارٹر

کراچی پاکستان کا دل، معاشی حب اور ملک کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کراچی کے مینڈیٹ کے دعوے داروں اور حکومت سندھ دونوں کے انتہائی بے رحمانہ سلوک کی وجہ سے شہر کا ہر مسئلہ بدترین صورت اختیار کرچکا ہے۔ جماعت اسلامی نے کراچی کے بڑے بڑے مسائل کے حل کے لیے عوامی چارٹر پیش کیا ہے جس میں کراچی کے سلگتے مسائل کے حل کے لیے وزیراعظم سے خصوصی پیکیج کا مطالبہ کیا ہے۔ ان میں نکاسی جو فراہمی آب، بجلی، ٹرانسپورٹ، انفرا اسٹرکچر، صحت، تعلیم، صفائی اور سب سے بڑھ کر امن وامان کے حوالے سے عملی اقدامات شامل ہیں۔ اس پیکیج پر عملدرآمد سے نہ صرف یہ کہ کراچی ایک مرتبہ پھر تعمیر و ترقی کا سفر شروع کرسکتا ہے بلکہ کئی عشروں سے دہشت گردی، بدامنی، خوف اور معاشی بدحالی کے شکار عوام کو ریلیف دینے کا سبب بن سکتا ہے۔ جماعت اسلامی کی شہری حکومت 2001ء تا 2005ء نے اس سلسلے میں اہم ترین اقدامات کیے تھے لیکن بعد میں یہ سب کچھ جنرل پرویز مشرف کے سیاسی فوائد کی نذر ہوگیا۔
کراچی عوامی چارٹر کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
-1 پانی کی قلت دور کرنے کے لیے منصوبے:
پانی کے K4 منصوبے کا آغاز اور سمندری پانی کے استعمال کا پلانٹ:
٭ کراچی شہر اس وقت بدترین پانی کے بحران کا شکار ہے، اس کی وجوہات میں بڑے پیمانے پر سیاسی بھرتیاں اور واٹر بورڈ میں بدعنوانی تو ہے ہی لیکن آبادی کی مناسبت سے پانی کی عدم فراہمی بھی اہم ترین مسئلہ ہے۔
٭اس وقت تقریباً 50 فیصد سے زیادہ آبادی کو ہفتہ میں، 15 دن میں یا ایک مہینے میں صرف ایک دفعہ کچھ دیر کے لیے پانی فراہم کیا جاتا ہے جبکہ کافی آبادی کو یہ سہولت بھی میسر نہیں ہے۔ کراچی میں پانی کی طلب 1250 ملین گیلن یومیہ ہے جبکہ فراہمی 650 ملین گیلن کے قریب ہے۔ 2004ء نعمت اللہ خان صاحب کے دور میں شروع کیا گیا K4 منصوبہ کئی سال سے التوا کا شکار ہے۔ 260 ملین گیلن کے قریب پانی کی فراہمی کا یہ منصوبہ ہے۔ اس کو اگلے دو سال میں مکمل کیا جائے، اس کی لاگت کا تخمینہ 22 ارب روپے کے قریب ہے۔
٭سمندری پانی کو میٹھا کرنے کے لیے بڑے پلانٹ فوری طور پر لگانے کے لیے کام شروع کیا جائے۔ اس سے ایک سے دو سال میں کم از کم 100 ملین گیلن پانی کی فراہمی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔
٭موجودہ پانی فراہمی کا نظام فرسودہ ہوچکا ہے پرانی موٹریں اور بہائو بھی قلت کی بڑی وجہ ہے، اس نظام کو ٹھیک کرنے کے لیے بجٹ میں ایک بڑی رقم مختص کی جائے۔
٭نئے فلیٹوں اور بلند و بالا عمارتوں کے لیے R.O پلانٹس کو لازمی قرار دیا جائے اور ان عمارتوں کو سرکاری پانی فراہم نہ کیا جائے۔
٭ صنعتی ضروریات کے لیے Recycling کو لازمی قرار دیا جائے اور اس کے لیے حکومتی سطح پر منصوبہ بنایا جائے۔ اس وقت تقریباً 250 ملین گیلن پانی صنعتوں میں استعمال ہورہے ہیں، جس کا 60 فیصد پانی Recycle کیا جاسکتا ہے۔
اگر یہ کام شروع نہ ہوسکا تو بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ قلت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
-2 ٹرانسپورٹ/ماس ٹرانزٹ پروگرام:
٭تین کروڑ سے زیادہ کی آبادی والے شہر کراچی کے لیے ٹرانسپورٹ کا کوئی مربوط اور منظم منصوبہ اب تک شروع نہیں ہوسکا، جس کی وجہ سے شہری بدترین سفری مسائل کا شکار ہیں۔ ماس ٹرانزٹ منصوبہ فوری طور پر شروع کیا جائے اور اس کے لیے جو چار کوریڈور طے کیے گئے تھے ان کی تعمیر مکمل کی جائے، یہ کوریڈور ٹاور سے سہراب گوٹھ، نارتھ کراچی، صفورا چورنگی اور قائدآباد تک سہولت پہنچاتے ۔
٭سرکلر ریلوے کا منصوبہ سالوں سے تعطل کا شکار ہے اس کو فوری طور پر شروع کیا جائے۔
٭ فی الحال 500 بڑی بسیں سسٹم میں لانے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کیے جائیں۔
٭مصروف سڑکوں پر دو منزلہ روڈ بنانے کا منصوبہ عمل میں لایا جائے۔ شاہراہ فیصل پر ایئر پورٹ تا میٹرو پول فوری کام شروع کیا جائے۔
٭شہر کی سڑکوں، پلوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لیے اور نئے پل اور انڈر پاسسز بنانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
٭بیرون شہر سے آنے والی گاڑیوں کے لیے شہر سے باہر بڑے بس ٹرمینل بنائے جائیں۔
٭ملیر ندی پشتہ پر ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر کی جائے۔
٭شہر کو تاریکی سے نکالنے کے لیے اسٹریٹ لائٹس کی بڑے پیمانے پر درستی کی جائے۔
-3 نکاسی آب کا نظام:
٭کراچی میں نکاسی آب کا نظام انتہائی بدحالی کا شکار ہے۔ اضافی بوجھ کی وجہ سے کراچی کے تقریباً 250 چھوٹے بڑے برساتی نالے بھی اب نکاسی کے لیے استعمال ہورہے ہیں۔ اس وقت کراچی میں ہر جگہ گٹر بہہ رہے ہیں جس کی وجہ سے سڑکیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔٭S-3 منصوبہ اسی مقصد کے لیے بنایا گیا تھا، اس کو فوری طور پر شروع کیا جائے۔
٭ برساتی نالوں سے نکاسی کے نظام کو الگ کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
٭بوسیدہ نظام کی بحالی کا کام کیا جائے۔
٭ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے جائیں تاکہ گندہ اور زہریلا پانی سمندر میں براہ راست نہ ڈالا جائے۔
-4 صفائی/کچرا اٹھانے کا نظام:
٭پورا کراچی اس وقت ایک بڑے کوڑے دان کا منظر پیش کررہا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے شہر کے آٹھ مقامات پر گاربیج اسٹیشن بنائے جائیں۔ ان اسٹیشنوں تک چھوٹی گاڑیاں کچرا پہنچائیں گی اور یہاں سے کچرا بڑے ٹرالروں پر شہر سے باہر Landfill Site پہنچایا جائے گا۔ اس کچرے کو بھی استعمال میں لانے کے اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ یہ کام پبلک/ پرائیویٹ شراکت داری کے ذریعے بہ آسانی ممکنہے۔
٭شہر سے کچرا اٹھانے کے لیے گاڑیاں اور دیگر مشینری بڑی تعداد میں فراہم کی جائے۔
-5 صحت:
٭اتنے بڑے شہر کے لیے صحت کی سہولیات انتہائی ناکافی ہیں۔ جماعت اسلامی کا مطالبہ ہے کہ ’’علاج سب کے لیے‘‘ یہ عوام کا بنیادی حق ہے۔ اس کے لیے ہماری تجویز ہے کہ کراچی کے ہر ضلع میں کم از کم 500 بستروں پر مشتمل نئے اسپتال تعمیر کیے جائیں۔
٭ 25 مقامات پر ایمرجنسی امداد کے جدید سہولتوں سے آراستہ مراکز تعمیر کیے جائیں، جس میں دل کی تکالیف کے لیے فوری امداد کی سہولت شامل ہو۔
٭ ہیپاٹائٹس بی اور سی گندے پانی کی فراہمی کی وجہ سے کراچی میں بڑے پیمانے پر پھیل رہا ہے، غریب اور متوسط آبادی اس مرض کا خاص طور پر شکار ہے، علاج کی سہولت انتہائی ارزاں نرخوں پر فراہمی کے لیے اقدامات کیے جائیں اور بڑے پیمانے پر ویکسی نیشن کرائی جائے۔
٭ مہنگے ٹیسٹ کرانے کی سہولت کے لیے ڈائیگنوسٹک مراکز قائم کیے جائیں۔
٭ وہ مہلک امراض جن کا علاج انتہائی مہنگا ہے ان کے لیے سرکاری علاج فراہم کیا جائے۔
٭ صحت کے لیے باقاعدہ ماسٹر پلان بنایا جائے۔
-6 تعلیم:
٭حکومتی سطح پر تعلیم کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھائے جانے کے باعث اب نجی شعبے میں تعلیم کمرشل بنیادوں پر فراہم کی جارہی ہے، جوکہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے۔ موجودہ سرکاری اسکولوں کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں اور دو سو ماڈل اسکول قائم کیے جائیں۔ ’’خاتون پاکستان‘‘ اور سرسید گرلز کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے۔ کم از کم دو جنرل یونیورسٹیاں فوری طور پر قائم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ میڈیکل، انجینئرنگ اور دیگر تکنیکی تعلیم کے لیے مزید ادارے سرکاری سطح پر قائم کیے جائیں۔
٭ خواتین کی فنی تربیت کے لیے ہر ضلع میں کم از کم تین تربیتی مراکز قائم کیے جائیں۔
-7 آفات سے نمٹنے کا نظام/ڈزاسٹر مینجمنٹ:
٭کراچی جیسے بڑے شہر میں معمولی سی بھی آفت تباہی کی صورت حال پیدا کردیتی ہے۔ گزشتہ برسوں میں ہیٹ ویو سے 5 ہزار کے قریب افراد جاں بحق ہوئے۔ ان افراد کے علاج سے لے کر تدفین تک ہر مرحلہ انتہائی دشوار گزار بن گیا تھا۔ معمولی بارش سے نمٹنا بھی شہر کے موجودہ حالات میں ناممکن بن جاتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ڈزاسٹر مینجمنٹ کا ایک بڑا اور مربوط نظام قائم کیا جائے تاکہ خدانخواستہ کسی بھی آفت کی صورت میں متاثرہ لوگوں کو فوری امداد فراہم کی جاسکے۔ اس کام کے لیے تمام جدید سہولتیں جن میں فائر بریگیڈ گاڑیاں اور دیگر سازو سامان شامل ہیں مہیا ہونا چاہیے۔
-8 رہائش سہولتیں:
٭شہر میں رہائشی سہولتیں رفتہ رفتہ عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہیں، کچھ آبادیوں میں لوگ بدترین حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
٭تمام Recognized کچی آبادیوں کی تنظیم نو کی جائے اور اس کے علاوہ کچی آبادیوں میں رہائش پزیر خاندانوں کو مختص جگہ پر چھوٹے فلیٹ بناکر اس میں منتقل کیا جائے اور خالی ہونے والی زمین کو ماسٹر پلاننگ کے مطابق استعمال کیا جائے اور ان میں تمام بنیادی شہری سہولتیں فراہم کی جائیں۔
٭ Low Cost ہائوسنگ اسکیم شروع کی جائیں۔
٭ تمام سرکاری ملازمین کے لیے ’’اپنا ذاتی گھر اسکیم‘‘ بنائی جائے۔
-9 تفریحی سہولتیں:
٭شہر جن حالات سے گزرا ہے، اس میں عوام اور خاص کر نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی صحت کی بحالی کے لیے کھیلوں اور مثبت تفریحی سرگرمیوں کی فراہمی کی فوری ضرورت ہے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ :
٭ ہر ضلع میں کم از کم دو ماڈل اسپورٹس کمپلیکس قائم کیے جائیں۔
٭ ہر یونین کونسل/ کمیٹی میں ماڈل پارکس اور کھیلوں کے میدان قائم کیے جائیں۔
٭ ساحلی علاقوں کی تزئین و آرائش کی جائے اور تفریح کے لیے آنے والے عام افراد کے لیے سہولتیں فراہم کی جائیں۔
-10 بجلی کی لوڈشیڈنگ اوور بلنگ کا خاتمہ
اور 500 میگاواٹ اضافی بجلی کی فراہمی:
٭ کراچی کے شہری برسہا برس سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے دوچار ہیں اس پر طرہ یہ کہ ان کو بجلی پوری نہیں ملتی لیکن بل بھی زیادہ آتا ہے۔ کراچی کو اس وقت کم از کم 3500 میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہے جبکہ 2200 میگاواٹ بجلی مختلف ذرائع سے حاصل کی جارہی ہے۔ اس اعتبار سے 1300 میگاواٹ بجلی کم پیدا ہورہی ہے جبکہ کراچی میں کے ای ایس سی کی نج کاری کی شرط یہ تھی کہ شہریوں کو بجلی پوری ملے گی اور اس مقصد کے لیے پاور پلانٹس لگائے جائیں گے لیکن کے ای ایس سی کی نج کاری کے بعد سے اب تک کوئی پاور پلانٹ نہیں لگایا جاسکا۔ دوسرا بڑا عذاب زائد بلوں کی وصولی ہے، جو بل ادا کرنے والوں سے نادہندگان کے بل وصول کرنے کا دھندا ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ ابتدائی طور پر 500 میگاواٹ بجلی شہر کو مزید فراہم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں اور شہریوں کو اوور بلنگ کے عذاب سے نجات دلائی جائے۔
-11 صنعتوں کو بجلی، گیس کی فراہمی،
انفرااسٹرکچر کی تعمیر نو:
٭کراچی سب سے بڑا صنعتی شہر ہے اگر صنعتیں بجلی اور گیس سے محروم رہیں تو ملکی معیشت کیسے ترقی کرے گی؟ ہمارمطالبہ ہے کہ صنعتوں کو بجلی اور گیس کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ کراچی کے صنعتی زون سائٹ، کورنگی، لانڈھی، فیڈرل بی ایریا اور نارتھ کراچی پاکستان کی معیشت کے لیے اہمیت کے حامل ہیں مگر انفرااسٹرکچر بری طرح تباہ حال ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر ان تمام علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر کی جائے، روشنی کا انتظام کیا جائے اور تاجروں اور صنعت کاروں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔
-12 نوجوانوں کے لیے اسکالر شپ،
روزگار کی فراہمی اور مہنگائی کا خاتمہ:
٭ہمارے پڑھے لکھے محنتی، قابل اور ہنر مند نوجوان مناسب روزگار نہ ملنے کے باعث شدید اذیت اور معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ انہیں مناسب روزگار فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ نوجوانوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے جائیں۔ قومی اداروں کی نجکاری کے بجائے نفع بخش تنظیم نو کی جائے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ میں نئے کاروباری ادارے قائم کیے جائیں۔ نوجوانوں کے لیے 10 ارب کے غیر سودی قرضے دیے جائیں، سرکاری محکموں میں ملازمت کے لیے اہلیت کو بنیاد بنایا جائے نیز کراچی کے تمام پوسٹ گریجویٹس کو ملازمت تک وظیفہ فراہم کیا جائے، اسی طرح اس وقت مہنگائی پورے ملک کا مسئلہ بن چکا ہے لیکن کراچی اس لحاظ سے زیادہ متاثر ہوتا ہے کہ یہ ’’منی پاکستان‘‘ ہے اور یہاں یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کی بڑی تعداد آباد ہے، پیٹرول، گیس کی قیمتیں کم ہوں گی تو پیداواری لاگت کم آئے گی اور ہماری اشیا کے عالمی مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ کھپت ممکن ہوسکے گی۔ قیمتوں کے کنٹرول کا شفاف عدالتی نظام قائم کیا جائے اور حکومت غیر ترقیاتی اخراجات میں 50 فیصد کمی کرے۔
-13 اشیا خورونوش میں خود کفالت:
٭فشری کے فروغ کے لیے نئے ڈیم اور جیٹی کی تعمیر کی جائے۔
٭شہر میں دودھ، گوشت اور دیگر کھانے کی اشیا کی سستی اور اعلیٰ معیار پر فراہمی کے لیے جدید مشینری سے آراستہ 8 ہزار ایکڑ پر مشتمل ایگروفارمنگ اسٹیٹ قائم کی جائے۔
امن و امان:
ان تمام کاموں کے فوائد شہریوں کو مکمل طور پر جب ہی حاصل ہوسکتے ہیں، جب شہر میں امن وامان کی صورت حال بہتر ہو۔ طویل عرصے کے بعد جو بہتری آئی ہے وہ مستقل طور پر اس صورت میں ہی ممکن ہے، جب شہر میں بلاتخصیص اور سیاسی مصلحتوں سے پاک ہوکر مجرموں کی سرکوبی کا نظام بنایا جائے۔ پولیس کو سیاسی اثرات سے پاک کیا جائے، امن و امان کی بحالی کے لیے مکمل سہولتیں قانون نافذ کرنے والے اداروں بشمول پولیس کو فراہم کی جائیں اور پولیس کی تنخواہوں اور سہولتوں کو بہتر کیا جائے۔
جماعت اسلامی کراچی کا یہ چارٹر کسی جماعت کی نہیں کراچی کے تین کروڑ سے زائد عوام کی ترجمانی کرتا ہے۔