جنرل شماریاتی ایکٹ 2011ء کے مطابق تنظیم مردم شماری، ادارہ برائے شماریات پاکستان(Pakistan Bureau of Statistics-PBS)میں ضم کردی گئی ہے۔ قانون کی تعریف کے مطابق: ادارہ برائے شماریات پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ ملک کی معیشت، قوم کی سماجی اور معاشی ترقی کی ضروریات کے حوالے سے مستند، قابل ِ اعتماد، بروقت اور شفاف اعداد و شمار کی تیاری کے علاوہ اس سے منسلک معاملات کےاعداد و شمار بھی تیار کرے۔ گویا پاکستان میں وفاقی سطح پر اعداد و شمار حاصل کرنا PBS کی ذمہ داری ہے۔
دنیا بھر میں علاقائی منصوبہ بندی یا معیارِ زندگی (Quality of Life) کے تجزیے کو مختلف اعداد و شمار کے ذریعے تحقیق کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے، جن میں مردم شماری کا ڈیٹا ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مردم شماری بچوں کی تعلیم، نسلی نقل مکانی، آبادی کا تخمینہ، وبائی امراض، صحت کے خطرے سے متعلق تشخیص، بے روزگاری، صحت کی سہولیات، عدم مساوات، شہری آبادی سے لے کر دیہی آبادی کے مسائل، غربت کی تعریف سے آبادی کی خوشحالی تک کے امور کے تفصیلی مطالعے کا بنیادی ذریعہ ہے۔ 2011 ء کے قانون میں واضح طور پر بتایا گیا تھا کہ تنظیم مردم شماری (پی سی او) کو صرف ضم کیا جارہا ہے جبکہ اس کے قواعد و ضوابط پر اسی طرح عمل کیا جائے گا جیساکہ 1959ء کے آرڈیننس میں درج کیا گیا تھا اور بعد میں اس میں کی گئی ترامیم 1991ء اور 1997ء کے تحت۔ مختصر یہ کہ پی بی ایس کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ اعداد و شمار کے حصول کے لیے تنظیم مردم شماری کے طریق کار کا پابندہے جیسا کہ وسیع پیمانے پر اعداد و شمار کے حصول کے لیے سوالنامہ فارم اے اور فارم 2 اے کو مردم شماری میں لازمی ذریعے کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔
مردم شماری 1998ء اعداد و شمار کے حصول کے اعتبار سے 1981ء کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ وسیع خدو خال رکھتی تھی۔ لہٰذا لازم تھا کہ چھٹی مردم شماری میں فارم اے اور 2 اے کو مزید نئے اعداد و شمار کے حصول کے حوالے سے ترقی دی جائے۔ مگر 2011ء کی ناکام مردم شماری (جسے HLO-2011کے نام سے جانا جاتا ہے) کے پہلے مرحلے کے بعد چھٹی مردم شماری 2017ء میں اس حوالے سے مزید بہتری لانے کے بجائے تنزلی کی گئی، یعنی فارم 2 اے کو یکسر نکال دیا گیا۔ مزید برآں، معیارِ زندگی کے تجزیے کے لیے تحقیق کاروں کے پاس مختلف اقسام کے اعداد و شمار موجود ہی نہیں، جبکہ 2017ء میں مردم شماری کے نام پر حاصل کیے گئےاعداد و شمار بھی ماہرین کے نزدیک مشکوک قرار پائے، جس کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ کی حکومت کی جانب سے مشترکہ مفادات کونسل میں اس شق کو منظور کیا گیا کہ جب تک ایک فی صد مردم شماری کے بلاکس کی جانچ کاری کسی غیر جانب دار فریق سے نہیں کروائی جاتی اُس وقت تک مردم شماری 2017ء کےاعداد و شمار کو سرکاری اعداد و شمار قرار نہیں دیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے مشترکہ طور پر انتخابات 2018ء کی حلقہ بندی کے لیے آئین میں ترمیم کی، جسے 24 ویں ترمیم کہا جاتا ہے، جس کے مطابق مردم شماری 2017ء کا عبوری ڈیٹا صرف عام انتخابات 2018ء اور اس کے ضمنی انتخابات کے لیے کارآمد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر موجودہ اسمبلی تحلیل ہوجائے تو آگے آنے والے عام انتخابات مردم شماری 1998ء کی حلقہ بندیوں پر واپس چلے جائیں گے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ادارہ برائے شماریات (PBS) نے مکمل طور پر پاکستانی عوام کے خون پسینے کی کمائی کو ضائع کردیا ہے، اور قانونی اعتبار سے اس آئینی حکم کی خلاف ورزی کی گئی ہے جو 2011ء میں متعارف کروایا گیا تھا۔
پاکستانی اداروں کے آئین کے ماتحت رہ کر کام کرنے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 24 ویں ترمیم میں صرف عام انتخابات 2018ء کے حوالے سے عبوری اعداد و شمار کو تسلیم کرنے کی بات کی گئی ہے مگر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے خودساختہ طور پر اسے لوکل گورنمنٹ کے انتخابات سے بھی نتھی کررکھا ہے، جبکہ 24 ویں ترمیم میںمقامی حکومتوں کے حوالے سے ایسی کوئی بات ہے ہی نہیں۔ ملک میں مقامی حکومتیں اپنی مدت پوری کرچکی ہیں اور الیکشن کمیشن 90 دنوں کے اندر انتخابات کروانے کے بجائے مردم شماری کا انتظار کررہا ہے، جبکہ مردم شماری جب تک گزٹ نہیں ہوجاتی الیکشن کمیشن کا اُس کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں بنتا۔
پچھلی دو صدیوں کے دوران قومیں اور کمیونٹیز اپنی حیثیت کا اندازہ لگانے اور پالیسیاں طے کرنے کے لیے اعداد و شمار کے اقدامات پر تیزی سے انحصار کرتی چلی آرہی ہیں۔ متواتر نسلوں نے زیادہ منظم اور بامقصد انداز میں معاشرتی شماریات یا اشاریے جمع کرنے اور ان کا استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی تنظیم نے اپنے فرائض میں فطرت کے تحت ہی انسانی آزادی کے مطالعے پر زور دیا ہے۔ معاشرے میں انسانی ہمدردی کی روش کے ساتھ مل کر اس کے سیاسی، معاشرتی، معاشی اثرات پڑسکتے ہیں۔ آزادی، نوآبادیات سے آزادی، بین الاقوامی تحریک کی آزادی یا غلامی، اور غیر انسانی غلامی، مذہب کی آزادی، نسلوں، زبانوں، ذات، طبقاتی اور خطے سے آزادی کے زیادہ انسان دوست پہلو وغیرہ کی نشاندہی مردم شماری کے ڈیٹا کی بنیاد پر دنیا کرسکتی ہے۔ پی بی ایس کی جانب سے مردم شماری 2017ء کے حوالے سے پیش کیے گئے محدود متنازع ڈیٹا نے پاکستان میں معاشرتی و معاشی پہلوئوں پر تحقیق کرنے والے محققوں کو بھی پسماندگی میں دھکیل دیا ہے، ان کی صلاحیتیں زنگ آلود ہوتی جارہی ہیں کیونکہ تحقیق کے لیے پی بی ایس کے دوسرے سروے کو کسی متبادل ڈیٹا سے مدد نہیں مل رہی، جس کی وجہ سے فراہم کردہ ڈیٹا عالمی معیار کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ معیارِ زندگی کے حوالے سے حکومتی اقدامات کا تجزیہ ممکن نہیں ہو پارہا، اور نہ اس میں جدت لانے کا عنصر تشکیل ہو پارہا ہے۔ جبکہ اس حوالے سے آئین پاکستان کے آرٹیکل 37 اور 38 میں پاکستانیوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کے حوالے سے شقیں موجود ہیں۔ گویا ادارہ برائے شماریات اپنے تشکیل کے قانون 2011ء کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے، اس کے ساتھ ساتھ آئین کے آرٹیکل 37-38 کی خلاف ورزی کا مرتکب ہورہا ہے۔ کیونکہ مردم شماری کے مستنداعداد و شمار کی غیر موجودگی میں پاکستان کے عوام کے معیارِ زندگی کا تجزیہ کیسے ممکن ہوپائے گا؟
5 ستمبر 2015ء کو پائیدار ترقی کے حوالے سے اجلاس میں، اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے 2030ء ایجنڈا کا خواب دیکھا، جس میں غربت، عدم مساوات اور ناانصافی کے خاتمے اور 2030ء تک آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے 17 پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جی) کا ایک سیٹ شامل کیا۔ اسے عالمی مقاصد کے طور پر پیش کیا گیا کہ رکن ممالک غربت کے خاتمے، سیارے کی حفاظت اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ تمام لوگ امن و خوشحالی سے لطف اندوز ہوں۔ ماحولیاتی تبدیلی، معاشی عدم مساوات، جدت طرازی، پائیدار کھپت، امن اور انصاف جیسے نئے شعبوں سمیت 17 ترجیحات کو بڑے اشاریے کے طور پر ترتیب دیا گیا۔ ان مقاصد کے اکثر بنیادی نکات میلینیم ڈویلپمنٹ گولز میں طےکیے گئے تھے۔ پاکستان اس ایجنڈے کی تکمیل میں ہراول دستے میں شامل رہنے کی بات کرتا ہے مگر اس پر عمل درآمد کے حوالے سے اس کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہورہیں۔
2020ء میں منعقدہ 46 ویں اجلاس جسے پائیدار ترقی کے شماریاتی کمیشن نے ترتیب دیا تھا جس میں اقوام متحدہ کی اقتصادی اور سماجی کونسل کی منظور کردہ قرارداد E / RES / 2015/10 کے تحت رکن ممالک کے لیے رہائشی و مردم شماری کے پروگرام کی منظوری دی گئی ہے۔ شماریاتی کمیشن کے مطابق رہائشی و مردم شماری کے ذریعے حاصل کیا گیا ڈیٹا ہی بنیاد فراہم کرتا ہے پالیسیوں اور پروگراموں کی تشکیل، نفاذ اور نگرانی کے طریق کار بالخصوص معاشرتی، معاشی ترقی اور ماحولیاتی استحکام کی تخمین کی۔ یہی وجہ ہے کہ رہائشی و مردم شماری کو 2030 ایجنڈا کے پائیدار ترقی کی پیش رفت کی پیمائش کے لیے ضروری متفرق اعداد و شمار کی فراہمی کے لیے ایک اہم ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ خاص طور پر آمدنی، جنس، عمر، نسل کے لحاظ سے لوگوں کی صورت حال کا جائزہ لینے کے تناظر میں نقل مکانی کی حیثیت، معذوری اور جغرافیائی محلِ وقوع اور دوسری دیگر خصوصیات کی جانچ کاری۔
شماریاتی کمیشن نے اپنے 46 ویں اجلاس میں 2020ء میں واضح کیا کہ رہائشی ومردم شماری کے پروگرام میں متعدد باہم وابستہ مقاصد اور سرگرمیاں شامل ہیں جن کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ:
1۔ ممبر ممالک 2015 ءسے 2024ءکے دوران کم از کم ایک خانہ شماری و مردم شماری منعقد کرائیں۔
2۔ ممبر ممالک رہائشی و مردم شماری سے متعلق بین الاقوامی اور علاقائی سفارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے خاص طور پر اس بات کو یقینی بنائیں کہ رہائشی ومردم شماری کے لیے جدید منصوبہ بندی، لاگت کے اعتبار سے درست ڈیٹا کا حصول، زیادہ سے زیادہ گھرانوں تک رسائی و بروقت پھیلاؤ، اورحاصل کیے گئے ڈیٹا کے نتائج تک بآسانی رسائی ہو۔
3۔ ممبر ممالک کو اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ خانہ و مردم شماری کے طریق کار اس معیار پر ہوں کہ حاصل کردہ نتائج سے دیانت سے بھرپور، قابلِ اعتبار، درست اور قابلِ قدر تجزیے کا حصول ممکن ہوسکے۔
4۔ پائیدار ترقیاتی منصوبہ بندی کے لیے خاص طور پر 2030ء کے پائیدار ترقی کے ایجنڈے کے تناظر میں، اس پروگرام کو مکمل حمایت فراہم کی جائے گئی۔
5۔ آبادی اور رہائشی مردم شماریوں کے انعقاد میں آسانی کے لیے بین الاقوامی شماریاتی معیار، طریقے اور رہنما خطوط تیار کیے گئے جن سے ممبر ممالک فائدے حاصل کرسکتےہیں۔
6۔رکن ممالک کی جانب سے خانہ ومردم شماری کی سرگرمیاں کرنے والے ممبر ممالک کے ساتھ بھرپور تعاون کو برقرار رکھا جائے تاکہ مردم شماری کے منصوبے بنانے اور انجام دینے میں معاونت مربوط تر ہو، اور پروگرام کے نفاذ کی نگرانی کا سلسلہ باقاعدگی سے مشاہدے میں رہے، اور اس کی رپورٹ شماریاتی کمیشن کو بھیجی جاتی رہے۔
پاکستان کے اقوام عالم کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی روشنی میں یہ بات واضح نظر آرہی ہے کہ 2017ء میں مردم شماری کے نام پر کی گئی مشق میں لگایا گیا پیسہ ضائع ہوچکا ہے، بالکل اسی طرح جیسے 2011ء کی مشق میں ضائع ہوا تھا۔ اب پاکستان کے عوام کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اپنے خون پسینے کی کمائی کو کس طرح کارآمد بنائیں۔ اداروں میں کوٹہ سسٹم کے تحت بھرتی کے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں اور ایسے نظام کی بنیاد رکھیں جس میں عوام بااختیار ہوں اور نااہل افسران اور اداروں کی پکڑ کرسکیں۔