یہ سرکلر ریلوے کی پٹریاں ہیں جن پر کبھی لوکل ٹرینیں رواں نظر آتی تھیں۔ گل بائی تک پہنچتے پہنچتے ریلوے کے مخصوص انداز سے بنے تین اسٹیشن آتے ہیں: وزیرمینشن، لیاری اور بلدیہ۔ تینوں اسٹیشن پیلے رنگ کے مضبوط اسٹرکچر کے ساتھ ماضی کی سرکاری تعمیرات کی یاد دلاتے ہیں۔ اب ٹرینیں تو نہیں آتیں مگر یہ اسٹیشن اور ان کے زیر سایہ مسافروں کے بیٹھنے کے لیے بینچ راہ گیروں اور معمر شہریوں کی تھکن اتارنے اور وقت گزاری کے لیے سایۂ عافیت ضرور ہیں۔
کبھی ریلوے کا ایک مربوط نظام سرکلر ریلوے کی صورت میں موجود تھا جس سے اس شہر کے باسیوں کو صاف ستھری بہترین سفری سہولت میسر تھی۔ سرکلر ریلوے کا منصوبہ 1969ء میں پاکستان ریلوے کی جانب سے شروع کیا گیا تھا اور اس کا بنیادی مقصد مضافات کو شہر سے جوڑنا تھا، جس کے تحت ڈرگ روڈ سے سٹی اسٹیشن تک خصوصی ٹرینیں چلائی گئیں، جو نہایت کامیاب رہیں۔
ایک اندازے کے مطابق اس سہولت سے سالانہ 60 لاکھ افراد کو فائدہ پہنچتا تھا۔ عوام میں بے پناہ پذیرائی اور پاکستان ریلوے کے لیے منفعت بخش یہ نظام 1970ء سے 1980ء تک خوب کامیاب تھا اور روزانہ کی بنیاد پر 104 ٹرینیں چلائی جانے لگی تھیں، جن میں سے 24 ٹرینیں لوکل لوپ ٹریک اور 80 مین ٹریک پر چلائی گئیں۔ کراچی سرکلر ریلوے لائن ڈرگ روڈ اسٹیشن سے شروع ہوکر لیاقت آباد سے ہوتی ہوئی کراچی سٹی اسٹیشن پر ختم ہوتی تھی، جب کہ پاکستان ریلوے کی مرکزی ریلوے لائن پر بھی کراچی سٹی اسٹیشن سے لانڈھی اور ملیر چھائونی تک ٹرینیں چلا کرتی تھیں جن سے ہزاروں لوگ روز مستفید ہوتے تھے۔ جن لوگوں نے کراچی سرکلر ریلوے سے سفر کیا ہے وہ اس پُرلطف سفر کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ صبح سے شام تک دوڑتی ان ٹرینوں میں ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سفر کرتے تھے۔ یہ گویا بہت سے لوگوں کا معمول سا بن گیا تھا کہ کاریں اسٹیشن پر پارک کرکے منزل تک پہنچنے کے لیے ٹرین کے ذریعے جانا زیادہ پسند تھا، روزانہ ٹکٹ اور ماہانہ پاس دونوں نظام رائج تھے۔
ہمارے دوست اور معروف افسانہ نگار امین صدر الدین بھایانی نے کراچی میں دوڑتی سرکلر ریلوے ٹرین پر ایک بہت ہی خوبصورت مضمون قلم بند کیا ہے جو ان کی اجازت سے آپ کی نذر ہے:
’’یہ 70ء کی دہائی کے اواخر کی بات ہے، ہم کراچی میں آغا خان روڈ پر واقع کے پی ٹی گرائونڈ (موجودہ کے پی ٹی اسپورٹس کمپلیکس) کے عین سامنے کھارادر کے علاقے پنجابی کلب میں رہا کرتے تھے۔ ہمارے گھر کی بالکنی سے جہاں سامنے کے پی ٹی گرائونڈ نظر آتا ہے، وہیں بائیں طرف کچھ فاصلے پر پورٹ ٹرسٹ ہالٹ نامی چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن بھی دکھائی دیتا، جہاں سے کراچی سرکلر ریلوے کی لوکل ٹرینیں گزرا کرتی تھیں۔
کراچی سرکلر ریلوے، کراچی کے گرد ایک دائرہ بناتی ہوئی گزرتی تھی۔ اگر آپ کسی بھی اسٹیشن سے کسی بھی طرف کو جانے والی لوکل ٹرین پر سوار ہوجائیں تو وہ ٹرین آپ کو پورے کراچی کی سیر کرواتی ہوئی بالآخر سٹی ریلوے اسٹیشن پر واپس لے آئے گی جہاں سے آپ اس پر سوار ہوئے تھے۔
ابو مرحوم کو ٹرین اور ٹرین کا سفر بہت پسند تھا۔ اس بات کا اندازہ یوں لگائیں کہ وہ اکثر رات کے کھانے کے بعد مجھے لال رنگ کی ہنڈا ففٹی موٹر سائیکل پر سوار کرکے گھر سے کچھ ہی دور واقع آئی آئی چندریگر روڈ پر حبیب بینک پلازہ کی عمارت کے عین سامنے قائم انگریزوں کے دور کے چٹانوں کے بڑے بڑے پتھر کاٹ کر بنائے گئے ریلوے پل پر لے جاتے اور پھر ہم دونوں باپ بیٹا اس پل سے کچھ ہی دور سٹی اسٹیشن کی تیز روشنیوں میں وہاں کھڑی ریل گاڑیوں اور اردگرد کی پٹریوں پر ڈیزل اور موبل آئل کی تیز بو والا سیاہ دھواں اڑا کر شنٹنگ کرتے ریلوے انجنوں کو دیر تک دیکھا کرتے۔
ابو مجھے ریل گاڑیوں، ان کے انجنوں اور انگریز دور میں قائم کردہ ریلوے اسٹیشنوں اور نصب کردہ ریل کی پٹریوں کے بارے میں بتاتے جاتے۔ میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ وہ اپنے اس پسندیدہ موضوع پر متواتر بولتے چلے جاتے، اور اگر درمیان میں کوئی سوال پوچھ لیا جائے، مثال کے طور پر ’’ابو یہ انجن شنٹنگ کیوں کرتے ہیں؟‘‘ تو اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کی آنکھوں میں ایک بھرپور چمک آجاتی اور ان کا چہرہ ان کے اندرونی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتا محسوس ہوتا۔ بطورِ خاص وہ یہ بات تو مجھے ہر بار اور بار بار بتایا کرتے کہ اپنے بچپن میں جب وہ ٹرین میں سفر کیا کرتے تو سب بچے مل کر ٹرین کی چھک چھک چھک کی تان پر کچھ گایا کرتے:
چپل پور کے چھ چھ پیسے
چپل پور کے چھ چھ پیسے
چپل پور کے چھ چھ پیسے
اکثر چھٹی والے دن اگر کہیں اور جانے کا موڈ نہ ہورہا ہو تو پھر وہ مجھے صبح ہی صبح گھر کے سامنے والے پورٹ ٹرسٹ ہالٹ کے اسٹیشن دوڑا دیا کرتے کہ جائو اور ٹکٹ گھر سے معلوم کرکے آئو کہ اگلی گاڑی کتنے بجے آئے گی اور آخری اسٹیشن کے ٹکٹ بھی خرید لینا۔ چونکہ خود مجھے بھی ان کی طرح سے ٹرین اور ٹرین کے سفر سے بھرپور لگائو تھا، لہٰذا میں دوڑتا ہوا جاتا، دوڑتا ہوا آتا اور اپنے پھولے ہوئے سانس کے ساتھ ٹوٹے پھوٹے لہجے میں انہیں اگلی گاڑی کے آنے کے وقت سے آگاہ کرتا۔
امی، ابو کا پروگرام سنتے ہی کھانے پینے کے لیے اتنا کچھ بنا لیتیں کہ ہمیں اس سارے سفر کے دوران باہر سے کچھ بھی لے کر کھانے کی ضرورت تک محسوس نہ ہوتی۔ ہم پورٹ ٹرسٹ ہالٹ کے اسٹیشن سے ریل گاڑی میں سوار ہوتے، جو کراچی کے گرد دائرے میں سفر کرتی ہوئی پانچ چھ گھنٹوں میں ہمیں واپس وہیں لے آتی جہاں سے ہم چلے تھے۔
مزے کی بات تو یہ تھی کہ اس سارے سفر کے دوران ابو کتاب پڑھتے رہتے اور گاہے بہ گاہے اپنی نظریں کتاب سے اٹھا کر ریل گاڑی کی کھڑکی کے باہر تیزی سے دوڑتے مناظر پر ڈالتے جاتے۔ گو کہ میں بھی گھر سے اپنے ہمراہ دو تین من پسند کتابیں لے کر چلتا اور ابو کی تقلید میں اپنی سیٹ پر بیٹھ کر کتاب پڑھنے کے ساتھ ساتھ ٹرین کی کھلی کھڑکی سے دوڑتے بھاگتے نظاروں کو وقفے وقفے سے دیکھتا جاتا، لیکن پھر جلد ہی اکتاکر کتاب بند کردیتا اور پوری یکسوئی کے ساتھ لوہے کی دو عمودی سلاخیں لگی بڑی سی کھلی کھڑکی پر اپنی ٹھوڑی ٹکاکر باہر نظر آنے والے مناظر کو بڑی ہی محویت کے ساتھ تکنے لگتا۔
ہوتا کچھ یوں تھا کہ ہم جیسے ہی اپنے مقامی اسٹیشن سے گاڑی میں سوار ہوتے تو آمنے سامنے نصب دو سیٹوں پر سب لوگ براجمان ہوجاتے۔ شاید بہت سے پڑھنے والوں کو یاد ہو کہ اُس دور میں کراچی کی لوکل ریل گاڑیوں میں لکڑی کی پٹیوں سے بنے بینچ نصب ہوا کرتے تھے جس میں ایک لکڑی کی پٹی کے بعد اتنی ہی جگہ خالی ہوا کرتی اور پھر خالی جگہ کے بعد لکڑی کی دوسری پٹی نصب ہوتی۔ جبکہ چند بوگیوں میں آمنے سامنے کشن والے سیاہ ریگزین سے آراستہ آرام دہ صوفہ نما سیٹیں بھی ہوا کرتیں۔ ہم کوشش کرکے کوئی ایسی ہی بوگی تلاش کرتے اور پھر جیسے ہی ریل گاڑی چلتی تو امی گھر سے لایا ہوا اپنا عمروعیار کی زنبیل جیسا اسٹین لیس اسٹیل کا بڑا سا ٹفن کیریئر کھولتیں اور پھر اس میں سے برآمد ہونے والی سوغاتیں ہم دورانِ سفر مسلسل تھرماس میں بھری چائے کے ہمراہ نوشِ جان کرتے جاتے اور امی کے ہاتھ کے ذائقے، ریل کے دلفریب و مسحور کن سفر اور شہر کراچی کے مضافاتی علاقوں کے حسین مناظر کی شان میں قصیدے پڑھتے رہتے۔
اکثر ایسا بھی ہوتا کہ ہماری طرح کا کوئی خاندان جو کہ چھٹی کا لطف اٹھانے کی غرض سے ریل گاڑی کے اس ’’ٹور ڈی کراچی‘‘ میں ہمارا بوگی نشین ہوتا تو دیکھتے ہی دیکھتے جو معاملہ بچوں کے کھیل کود سے شروع ہوتا، وہ خواتین کی روایتی گفتگو، حضرات کی باہمی دلچسپی کے امور پر اظہار خیال سے ہوتا ہوا تبادلۂ اشیائے خورونوش تک جا پہنچتا، پھر سب آپس میں یوں شیر و شکر ہوجاتے جیسے یہ ملاقات اتفاقیہ نہیں بلکہ ان کے درمیان برسوں کا یارانہ ہو۔
ریل گاڑی چھ چھ چھ چھ کرتی بقول ابو ’’چپل پور کے چھ چھ پیسے‘‘ کے مدھر گیت کی تانیں اڑاتی ہوئی اپنی نپی تلی رفتار سے چلی جارہی ہوتی۔ کھڑکیوں سے آتے بھیگی نم آلود ٹھنڈی ہوائوں کے دبیز جھونکے بوگی میں سوار افراد کے بالوں کو رقصاں رکھتے۔ بوگی کے کسی کونے پر لگی نشست پر بیٹھے چند منچلے ٹرانزسٹر ریڈیو پر ریڈیو پاکستان کراچی سے نشر ہونے والے فلمی گیتوں سے لطف اندوز ہورہے ہوتے، اور بوگی کی فضا مہدی حسن مرحوم کی مدھر آواز سے گونج اٹھتی:
کیوں ہم سے خفا ہو گئے اے جانِ تمنا
بھیگے ہوئے موسم کا مزا کیوں نہیں لیتے
ملکی و سیاسی صورتِ حال پر ہونے والی ان بحثوں میں ابو اکثر اپنے مخالف کو جو کہ ذرا سا بھی پاکستان یا پھر قیام پاکستان کی مخالفت میں کوئی ہلکی پھلکی سی بھی اختلافی بات کرتا، یہ کہہ کر ہمیشہ ہی لاجواب کردیا کرتے:
’’ارے صاحب، بس آپ دیکھتے جائیں، ماشاء اللہ اس وقت بھی پاکستان اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں خوشحال اور ترقی یافتہ ہے۔ آنے والے وقتوں میں پاکستان مزید آگے جائے گا۔ حالات موجودہ صورتِ حال سے اور زیادہ بہتر ہوں گے اور ان شاء اللہ ہم بہت ترقی کریں گے‘‘۔
گو کہ ابو کی پیدائش 1942ء میں بھارتی ریاست گجرات کے شہر بھائونگر میں ہوئی تھی، اور پھر وہ چھوٹی عمر میں اپنے والدین اور دیگر بہن بھائیوں کے ہمراہ ہجرت کرکے اولاً شکاپور سندھ چلے آئے، اور بعد ازاں وہاں سے کراچی کا رخ کیا۔ اپنی جنم بھومی ہونے کے اعتبار سے وہ اپنی جائے پیدائش کو اکثر یاد کیا کرتے، لیکن انہیں بطور خاص کراچی سے بے حد لگائو تھا اور وہ اس کے چپے چپے سے واقف تھے۔
بہرکیف، گاڑی جب کسی اسٹیشن پر رکتی تو وہاں موجود کنسیشن اسٹینڈز پر زور زور سے بجتے فلمی نغمات کی گونج ٹرین کی کھڑکیوں سے کبھی تیز اور کبھی مدھم ہوتی اندر داخل ہوتی۔ گلوکار اے نیّر کا ایک گیت مجھے آج بھی یاد ہے جو میں نے پہلی بار ٹرین کی کھڑکی میں بیٹھ کر سنا جو کسی ریلوے اسٹیشن پر قائم چائے کے کھوکھے پر رکھے ٹرانزسٹر ریڈیو پر بج رہا تھا:
ملے دو ساتھی، کھلیں دو کلیاں
دیوانہ دل ہے، دیوانہ موسم
گاڑی کے رکتے ہی ان گیتوں کے ساتھ در آنے والی آوازیں کچھ یوں ہوا کرتی تھیں:
’’چائے والا، چائے والا، چائے والا‘‘… ’’گجک کراری ہورہی ہے‘‘… ’’گرما گرم سموسے، آلو کے گرما گرم سموسے لے لو بھائی‘‘… ’’امرود لے لو ملیر کا، لاڑکانہ کا، امرود لے لو‘‘… ’’حکیمی منجن، ہلتے، دکھتے، پیلے اور پایوریا والے دانتوں کا اکسیر علاج، کمپنی کی مشہوری کے لیے صرف اس ٹرین میں رعایتی قیمت پر دستیاب ہے، ایک روپیہ، ایک روپیہ، ایک روپیہ، آواز دے کر طلب کریں‘‘۔
چلیں دوستو، ہم سب اپنا ریل گاڑی کا سفر وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں ہم نے اسے چھوڑا تھا۔
ہماری ریل گاڑی چھک چھک چھک کرتی، سیٹی بجا بجا کر گاڑھا سیاہ دھواں اڑاتی پورٹ ٹرسٹ ہالٹ کے چھوٹے سے اسٹیشن کو دور پیچھے چھوڑتی ہوئی سائٹ اور ماری پور روڈ کو جانے والے جی الانہ روڈ کے پل کے نیچے سے گزرتی ہوئی ماری پور روڈ کے متوازی چلتے ہوئے وزیر مینشن ریلوے اسٹیشن کی طرف رواں دواں ہے۔ کچھ دیر وہاں ٹھیرنے کے بعد ریل گاڑی دوبارہ چل پڑتی اور دائیں ہاتھ پر چلتے ماری پور روڈ کی دوسری جانب قائم لیاری اسپورٹس گرائونڈ (موجودہ پیپلز اسپورٹس کمپلیکس)، ماری پور ٹرک اسٹینڈ اور کرائون سینما کو پیچھے چھوڑتی ہوئی آگے بڑھتی چلی جاتی۔ غلامان عباس اسکول کو پیچھے چھوڑتی ہوئی ریل گاڑی لیاری ندی پر بنے ہوئے ریلوے کے پل پر آپہنچتی۔ اس پل کے نیچے لیاری ندی کا بدبودار پانی گزرتا ہوا بائیں جانب کچھ ہی آگے بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔
مذکورہ مقام میرے لیے خصوصی دلچسپی کا باعث ہوتا، اور میں بڑی مستعدی کے ساتھ سائٹ ایریا کی جانب بڑھتی ریل گاڑی کے بائیں جانب کی کسی نشست پر کھڑکی سے لگ کر بیٹھ جاتا اور بڑی ہی محویت کے ساتھ لیاری ندی کو دور بحیرہ عرب کے نمکین پانیوں میں مدغم ہوتے دیکھتا۔ ریلوے پل کے عین نیچے لیاری ندی کے گندے بدبودار پانی میں قریبی باڑوں کی اَن گنت بھینسیں غسلِ صحت لے رہی ہوتیں۔ ان بھینسوں کو لیاری ندی کے بدبودار اور گندے پانی میں یوں نہاتے دیکھ کر ہمیشہ مجھے خیال آتا کہ امی ہر صبح تاکید کے ساتھ جو ’’خالص‘‘، ’’صحت افزا‘‘، اور ’’قوت بخش‘‘ دودھ ہم دونوں بھائیوں کو پلاتی ہیں اس کا منبع حفظانِ صحت کے تمام اصولوں کی نفی کرتا ہے۔ ابو بتایا کرتے تھے کہ ایک دور میں یہی لیاری ندی اور اس کا پانی اس قدر صاف ستھرا ہوا کرتا تھا کہ وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ یہاں نہانے آیا کرتے۔ پھر لوگوں نے اپنے سیوریج کے سارے نالوں کا رخ لیاری ندی کی طرف کرکے بحیرہ عرب کے پانیوں اور اس میں بستی مخلوق کو بھی آلودہ کردیا۔
ریل گاڑی لیاری کے علاقے کو پیچھے چھوڑتے ہوئے سائٹ ایریا میں قائم بلدیہ ریلوے اسٹیشن آپہنچی ہے اور کچھ دیر وہاں رک کر آگے بڑھتی ہے۔ یہاں سے ریلوے لائن دو حصوں میں منقسم ہوتی ہے۔ سیدھی لائن ماری پور روڈ کے متوازی چلتی ہوئی وہاں قائم سمندری نمک کے کارخانوں اور پھر اس سے بھی آگے تک جاتی ہے، لیکن وہ ٹریک صرف مال گاڑیوں ہی کے لیے مخصوص ہے۔ جب کہ کراچی سرکلر ریلوے کا ٹریک ماری پور والے ٹریک سے جدا ہوکر دائیں طرف کے موڑ سے جو کہ سائٹ روڈ کہلاتا تھا، اب وہاں ناردرن بائی پاس قائم ہوچکا ہے، سائٹ ایریا میں داخل ہوجاتا ہے۔
سائٹ ایریا میں داخل ہونے کے ساتھ ہی ایک فیکٹری کی چھت پر نصب ایک بہت بڑا ’’ہونہار نپل، سودراینڈ بے بی فیڈر‘‘ کا اشتہاری بورڈ نظر آتا۔ ’’ایکسائیڈ بیٹری‘‘ اور لاتعداد کارخانے جن میں سے ایک کارخانے کی چمنی سے نکلتی مخصوص بو، جو کہ گوار پھلی سے بنائے جانے والے گوند کے کارخانے سے پھوٹا کرتی تھی، خوب یاد آتی ہے۔
سائٹ سے گزرتے ٹریک کے دونوں طرف قائم کارخانوں میں بڑی بڑی مشینیں اور کرینیں تعطیل کے سبب یوں ساکت کھڑیں نظر آتیں کہ جیسے وہ کبھی چلی ہی نہ ہوں، اور ان تمام فیکٹریوں میں ہو کا عالم طاری ہوتا کہ جیسے کسی جادوگر نے اپنی جادو کی چھڑی گھما کر انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پتھر کا بنادیا ہو۔
گاڑی شیر شاہ پل کے نیچے سے گزرتی ہوئی شاہ عبداللطیف اسٹیشن کے بعد امریلی اسٹیل فیکٹری کے عقب سے ہوتی ہوئی سائٹ ریلوے اسٹیشن پر قیام کے بعد پیپسی فیکٹری، منگھوپیر روڈ، ہینو پاک موٹرز کی فیکٹری کے عقب سے گزرتی ہوئی منگھوپیر اور حبیب بینک کے اسٹیشنوں پر رک کر اورنگی نالے کے ریلوے پل سے گزرتی ہوئی اورنگی ریلوے اسٹیشن جو دراصل ناظم آباد کے علاقے بڑا میدان میں ہے، پر آکھڑی ہوتی۔
اب شروع ہوتا ہے ناظم آباد کا علاقہ۔ ٹرین ناظم آباد کے پل سے ہوتی ہوئی نارتھ ناظم آباد ریلوے اسٹیشن جا پہنچتی ہے جو کہ مجاہد کالونی میں واقع ہے۔ ٹرین موسیٰ گوٹھ، گجر نالہ، اپسرا اپارٹمنٹ اور اس سے ملحقہ سراج الدولہ کالج کے پاس سے ہوتی ہوئی لیاقت آباد میں شاہراہ پاکستان کو کراس کرتی ہوئی گزرتی ہے۔ دائیں جانب الاعظم اسکوائر اور بائیں جانب کریم آباد کے علاقے میں موجود دہلی اسکول کے ساتھ ہی لیاقت آباد ریلوے اسٹیشن پر آکر رکتی ہے۔ دائیں طرف غریب آباد کا علاقہ پڑتا ہے اور بائیں طرف گورنمنٹ دہلی اسکول ہے۔ ٹرین یاسین آباد ریلوے اسٹیشن، اسحاق آباد کو پیچھے چھوڑتی ہوئی سر شاہ سلیمان روڈ پر موجود ریلوے پل سے گزرتی ہوئی گلشن اقبال کے علاقے میں قائم گیلانی ریلوے اسٹیشن میں داخل ہوتی ہے۔ پھر ٹرین کچھ اور آگے چل کر یونیورسٹی روڈ کو کراس کرکے عزیز بھٹی شہید پارک اسٹیشن جا پہنچتی ہے۔
اکثر ہم لوگ اس مقام پر پہنچ کر عزیز بھٹی شہید پارک پر اتر جایا کرتے اور پارک کی سیر کرکے دوبارہ اسی جگہ سے واپسی کی ٹرین پکڑ کر گھر روانہ ہوجاتے۔ پارک سے ملحق موجودہ سندباد پارک والی جگہ کے عین سامنے سے ٹرین راشد منہاس روڈ کراس کرتی ہوئی کراچی یونیورسٹی ریلوے اسٹیشن جا پہنچتی ہے۔ یہ ریلوے اسٹیشن موجودہ الہ دین پارک کے عین سامنے واقع ہے۔ یہاں سے آگے ریل گاڑی گلستان جوہر کے علاقے میں داخل ہوتی ہے اور موجودہ روفی ڈرائیو لیک، رابعہ سٹی بلاک 2 اور 3، بائیں طرف ائیرفورس ہیڈکوارٹرز اور دائیں آرمی آرڈیننس ڈپو کے عین درمیان سے گزرتی ہوئی ڈپو ہل جنکشن پر پہنچتی ہے۔ اس جگہ سے ذرا سا ہی آگے ڈالمیا سیمنٹ فیکٹری سے نزدیک ہل پوائنٹ نام کا ایک چھوٹا سا اسٹیشن تھا اور وہاں سے گزرتے ہوئے ٹرین کراچی ائیرپورٹ کے رن وے کے عین عقب سے گزرتی تو پہاڑیوں کے عقب سے پی آئی اے کے طیارے کھڑے دکھائی دیتے۔ یہاں سے ناتھا خان پل کے نیچے سے گزرتی ہوئی ریل گاڑی بائیں جانب مڑ کر شارع فیصل کے متوازی ملیر کی جانب آگے بڑھنا شروع ہوجاتی، اور شاہ فیصل کالونی اور سعودآباد کے علاقوں کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی ملیر ہالٹ اسٹیشن پہنچ کر اس سفر کی آخری منزل ملیر کینٹ پہنچتی۔
یہاں سے انجن ٹرین سے کٹ کر دوبارہ اس کے پیچھے جا لگتا اور پھر یوں اس کی واپسی کا سفر شروع ہوتا۔ ابو وہاں سے واپسی کا ٹکٹ خریدتے۔ کچھ ہی دیر بعد ٹرین دوبارہ اس اسٹیشن سے روانہ ہوکر واپس شارع فیصل کے متوازی بلوچ کالونی کی طرف جاتے ہوئے ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن پہنچتی۔ یہ مقام مجھے بے حد پسند تھا کیونکہ یہاں سے ریل جب شارع فیصل کے بالکل متوازی دوڑتی تو شارع فیصل اپنی دوڑتی بھاگتی ٹریفک کے ساتھ بہت ہی بھلی معلوم ہوتی۔ ٹرین یونہی اپنا سفر کرتی شارع فیصل کے ریلوے اسٹیشنوں کارساز اور شہید ملت روڈ ریلوے اسٹیشنوں پر رکتی۔ آخرکار چنیسر ہالٹ کے اسٹیشن اور کالا پل سے ہوتی ہوئی کراچی کینٹ پہنچتی۔ وہاں سے روانہ ہوکر شیخ سلطان ٹرسٹ بلڈنگ کے عقب، پی آئی ڈی سی پل اور پھر آگے ڈان اخبار کے دفتر، پاور ہائوس ایلنڈر روڈ، اخبار جنگ کے دفتر، نیشنل بینک ہیڈ آفس، آئی آئی چندریگر روڈ کے عقب سے ہوتی ہوئی کراچی سٹی اسٹیشن پہنچتی، اور پھر یہاں سے ہمارا گھر صرف ایک اسٹیشن دور رہ جاتا۔ کچھ ہی دیر میں ٹرین ٹاور کے عقب سے ہوتی ہوئی پہلے اولڈ اور پھر نیو کسٹم ہائوس کے عقب سے گزرتی آخرکار ہماری منزلِ مقصود یعنی پورٹ ٹرسٹ اسٹیشن پر ہم سب کو اتار کر پھر سے آگے کو روانہ ہوجاتی‘‘۔
لیکن بدقسمتی سے 1992ء آتے آتے کئی ٹرینیں ریلوے کو خسارہ ہونے کی بنیاد بناکر بند کردی گئیں۔ اُس وقت کے اخبارات میں ایسی خبریں شائع ہوئیں کہ یہ خسارہ اس بہترین نظام کو بتدریج زوال کی طرف لے جانے کی کوشش ہے جو نجی ٹرانسپورٹ مافیا کے ساتھ سازباز کا نتیجہ ہے۔ اور ایسا ہی ہوا، 1999ء سرکلر ریلوے کا آخری سال ثابت ہوا جب عوامی بھلائی کا یہ منصوبہ سازشی عناصر کی بھینٹ چڑھ گیا اور اپنے پیچھے یادوں کے دریچے چھوڑ گیا۔
تھا حاصلِ حیات بس اک عشوہ نہاں
اب یہ نہ پوچھ عشق کہاں ہے کہاں نہیں