کراچی: کھیلوں کی زبوں حالی کی داستان

کھیلوں کے حوالے سے اگرچہ پاکستان کے کئی شہروں کے کھلاڑیوں نے پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کی سربلندی کے لیے کارنامے سرانجام دیے ہیں، لیکن روشنیوں کا شہر کراچی اُن شہروں میں خاصا ممتاز ہے۔ اس شہر نے پاکستان کو بہترین کھلاڑی دیے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی جیم خانہ گراؤنڈ تھا جہاں پاکستان نے ایم سی سی کی ٹیم کو شکست دے کر1952ء میں ٹیسٹ اسٹیٹس حاصل کیا۔ کراچی کرکٹ کے علاوہ ہاکی، فٹ بال اسنوکر اور دیگر کھیلوں کے حوالے سے بھی خاصا ممتاز رہا ہے، کیونکہ اس شہر نے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایسے ستارے پیدا کیے ہیں جو نہ صرف اپنی کارکردگی کے ذریعے پاکستان کے لیے فخر کا سبب بنے، بلکہ پاکستان کے لیے بھی ان کے کارنامے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ قیام پاکستان کے بعد مشہور محمد برادران حنیف محمد، وزیر محمد، مشتاق محمد، صادق محمد نے پاکستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیلی اور کراچی میں ہی انہوں نے اپنی تمام تر کرکٹ کھیلی، جب کہ ان کے ایک اور بھائی رئیس محمد بدقسمتی سے ٹیسٹ کرکٹ نہ کھیل سکے۔ شہر کراچی نے پاکستان کو جاوید میاں داد جیسا سپر اسٹار دیا جو مسلم جیم خانہ گراؤنڈ میں اپنے والد میانداد نور محمد کے ہمراہ جاتے تھے، وہاں سے اُنہوں نے اپنی کرکٹ شروع کی اور پھر اس کے بعد پاکستان کیا، دنیا کے سپر اسٹار بنے۔ اس طرح سے بے شمار کھلاڑی کراچی سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے کراچی کے لیے بے شمار کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں۔ ایشین بریڈمین ظہیر عباس اگرچہ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے لیکن کراچی منتقل ہونے کے بعد جہانگیر روڈ پر رہے۔ جہانگیر روڈ سے بھی کئی کرکٹر پیدا ہوئے۔ نسیم الغنی اور فاسٹ بولر محمد سمیع کا تعلق بھی یہیں سے تھا۔ اگر آپ وکٹ کیپر کی بات کریں تو وسیم باری، معین خان، راشد لطیف، سرفراز احمد… یہ سب ایسے وکٹ کیپر ہیں جو کراچی سے آئے تھے۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو کراچی نے کرکٹ کو بہت دیا، خاص طور پر نامور بیٹسمین دیے۔ لٹل ماسٹر حنیف محمد نے 1959 ء میں کراچی کے پارسی انسٹی ٹیوٹ گراونڈ، کے پی آئی گراونڈ پر 499 رنز کی اننگ کھیلی تھی، یہ اُس وقت فرسٹ کلاس کرکٹ میں ایک اننگ کا سب سے زیادہ اسکور تھا جسے بعد میں برائن لارا نے توڑا۔ ان کے علاوہ بھی بے شمار ستارے ہیں جنہوں پاکستان کے لیے کارہائے نمایاں انجام دیے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کرکٹ کے کھیل میں بھی زبوں حالی آگئی، میرٹ کو نظرانداز کیا گیا، کراچی کے باصلاحیت کھلاڑیوں کو یکسر دیوار سے لگا دیا گیا، جن میں بے شمار ایسے کھلاڑی تھے جو زیادہ عرصے کھیل سکتے تھے، لیکن پسند ناپسند اور متعصبانہ رویّے کی وجہ سے کراچی کے کھلاڑی پاکستان کی نمائندگی نہیں کرسکے۔ پھر کھیل کے میدانوں کے حوالے سے بھی کراچی کی صورت حال بڑی دگرگوں ہے۔ کرکٹ کے میدانوں میں ہفتہ بازار لگنا اور دیگر سرگرمیاں شروع ہوگئیں، جس کی وجہ سے کراچی میں کرکٹ سمیت کھیلوں کی سرگرمیاں تقریباً ختم ہوکر رہ گئیں، کیونکہ کھیل کے اگر بڑے بڑے میدان ہیں بھی تو اُن کا کرایہ اتنا زیادہ ہے کہ عام آدمی اور نوجوان ان کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتے۔ ایک زمانے میں کرکٹ کی سرگرمیوں کا مرکز بختیاری یوتھ سینٹر ہوا کرتا تھا، جو ختم ہوگیا۔ کے ڈی اے اسٹیڈیم تھا، وہ ختم ہوگیا۔ خاص طور پر پرانی نمائش پر کے جی اے گرائونڈ ختم ہوگیا… اس طرح کرکٹ کے بے شمار ایسے میدان تھے جو کراچی کی کرکٹ کے لیے نرسری کا کردار ادا کرتے تھے، ان کو یکسر ختم کردیا گیا، جس کی وجہ سے نیاٹیلنٹ سامنے نہیں آیا اور نہ آرہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ شخصی اور گروہی مفادات کی جنگ بڑھ گئی اورنااہل لوگ کراچی کی کرکٹ پر اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہوئے، جس کی وجہ سے کراچی کی کرکٹ زبوں حالی کا شکار اور برباد ہوئی، ورنہ کراچی کے پاس عیسیٰ جعفر، پروفیسر سراج الاسلام بخاری، اور دیگر بڑے زبردست قسم کے آرگنائزر موجود تھے، جن میں نصرت عظیم کے علاوہ بہت سے ایسے نام تھے جو بڑا زبردست کام کرسکتے تھے۔
اسی طرح اگر ہاکی کو دیکھیں تو ایک زمانے میں پاکستان ہاکی ٹیم کا شمار دنیا کی بہترین ٹیموں میں کیا جاتا تھا۔ کراچی میں بھی ہاکی عروج پر تھی، بڑے پیمانے پر اس کی سرگرمیاں ہوتی تھیں، گلی محلوں میں بچے ہاکی کھیلتے نظر آتے تھے۔ کراچی کا وائی ایم سی اے میدان، حبیب پبلک اسکول اس کی مثال ہیں، جہاں سے کئی کھلاڑی آئے جن میں حسن سردار، کامران اشرف، قمر ابراہیم، احمد عالم جیسے کھلاڑی شامل تھے۔ ان کا کھیل دیکھ کر تماشائی حیران رہ جاتے تھے۔ عالمی ہاکی کپ کے ہیرو منصور احمد خان وائی ایم سی اے سے کھیلا کرتے تھے، وسیم فیروز نے پاکستان کی نمائندگی کی، ان کا شمار اُس زمانے کے بہترین فارورڈز میں ہوتا تھا۔ اب ایسے کھلاڑی ناپید ہوگئے ہیں، کھیلوں کے دوسرے میدانوں کے ساتھ ہاکی کے میدان بھی تقریباً ختم ہی ہوگئے ہیں۔ ایک ہی میدان سرسید یونیورسٹی کے سامنے کراچی ہاکی ایسوسی ایشن کا ہے جسے قبضہ مافیا سے واگزار کرایا گیا ہے۔ وہاں پہلے شادیاں ہوتی تھیں اور قبضہ مافیا نے اسے کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا تھا۔ پھر حنیف خان اور اصلاح الدین کو جن کا تعلق کراچی سے ہے، کون بھلا سکتا ہے! فلائنگ ہارس کے لقب سے مشہور سمیع اللہ اگرچہ بہاولپور سے کراچی آئے، لیکن کراچی میں ہاکی کھیلے۔ اپنے زمانے کے بہترین سینٹر فارورڈ حسن سردار کو کون بھول سکتا ہے!لیکن ان کے بعد ہاکی زبوں حالی کا شکار ہوتی چلی گئی۔ ان لوگوں کے جانے کے بعد سہیل عباس کی صورت میں ایک پنالٹی کارنر اسپیشلسٹ آیا، لیکن اس کو وہ پذیرائی نہیں ملی جس کا وہ حق دار تھا، حالانکہ دیکھا جائے تو دنیا میں سب سے زیادہ گول کرنے کا عالمی ریکارڈ انٹرنیشنل میچوں میں سہیل عباس کا تھا۔ سہیل عباس کی خدمات نہ تو ہاکی فیڈریشن نے حاصل کیں اور نہ ہی انہیں حکومتی سطح پر کوئی پذیرائی ملی۔ ان کھلاڑیوں کے جانے کے بعد اب کراچی میں کوئی بھی ایسا کھلاڑی نہیں ہے جو پاکستانی ٹیم میں منتخب ہوسکے۔ ہاکی کلب آف پاکستان اسٹیڈیم ایک سفید ہاتھی کی طرح ہے۔ صرف کراچی کے ایچ اے گراونڈ میں ہاکی کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ اگرچہ بعد میں اصلاح الدین نے ڈاکٹر محمد علی شاہ کے ساتھ مل کر اصلاح الدین محمد علی شاہ ہاکی گراؤنڈ نارتھ ناظم آباد میں بنایا، لیکن باصلاحیت لڑکے نہیں نکل پارہے۔ اس کی بنیادی وجہ جیسا کہ میں نے کہا گروہ بندی ہے، اور پھر کھلاڑیوں میں بھی دلچسپی ختم ہوگئی ہے، اہم بات یہ بھی ہے کہ ارتقا حسین زیدی کی طرح کے ارگنائزر اب کراچی میں نہیں ہیں، جس کی وجہ سے کراچی میں ہاکی کے نئے ابھرتے ہوئے کھلاڑی سامنے نہیں آرہے ہیں۔
اسکواش کو دیکھ لیں، جب جہانگیر خان اپنے والد روشن خان کے ساتھ کراچی آئے تو جیکب لائن میں رہا کرتے تھے۔ پھر انہوں نے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم دنیا میں بلند کیا۔ ان کے بعد کراچی سے کوئی بھی ایسا اسکواش کھلاڑی نہیں ایا جو پاکستان کے لیے فتوحات کا سلسلہ جاری رکھ سکتا۔
اسی طرح اسنوکر میں کراچی سے تعلق رکھنے والے محمد یوسف آئی بی ایس ایف ورلڈ اسنوکر چیمپئن شپ 1994ء، آئی بی ایس ایف ورلڈ اسنوکر چیمپئن شپ 2006ء اور اے سی بی ایس ایشین اسنوکر چیمپئن شپ 1998ء کے فاتح رہے۔ اس کے بعد سے کراچی میں اسنوکر ہوتی ہے لیکن یہاں سے اتنے بڑے کھلاڑی نہیں آئے۔ خرم آغا آئے تھے لیکن وہ ملک سے باہر چلے گئے۔ کراچی میں ٹیلنٹ ہے لیکن پذیرائی، سرپرستی اور اداروں کی جانب سے زیادہ توجہ نہ دیے جانے کے باعث اسنوکر کے کھلاڑی بھی نہیں آرہے۔
ٹیبل ٹینس میں آپ دیکھ لیں، کراچی میں ٹیبل ٹینس کو پروان چڑھانے میں یوں تو متعدد شخصیات کے نام آتے ہیں، لیکن ان میں مجید خان اور ایس ایم سبطین کی کوششیں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ مجید خان نے پچاس کی دہائی میں ٹیبل ٹینس کی صرف دو ٹیبلوں کے ساتھ اسلامیہ کلب کی بنیاد رکھی تھی۔ وہ اُس دور میں چین، جاپان اور دیگر ملکوں کی ٹیموں کو یہاں لانے میں کامیاب رہے تھے۔ کراچی میں فرجاز، عارف خان، جاوید غفار ٹیبل ٹینس کے حوالے سے اہم نام ہیں۔ عارف خان تین بار قومی چیمپئن بنے ہیں۔ اپنے کیریئر میں انھوں نے کئی بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ پھر خواتین میں شکور سسٹرز کی بالادستی رہی، انہوں نے پاکستان کا نام روشن کیا۔ اس گھرانے کی 6بہنوں نے ٹیبل ٹینس کھیلی لیکن شہرت تین بہنوں روبینہ، سیما اور نازو کے حصے میں آئی۔ لیکن اب ٹیبل ٹینس کا کھیل بھی زبوں حالی کی طرف گامزن ہے۔ روبینہ شکور چار مرتبہ قومی چیمپئن بنیں، جبکہ سیما شکور جو ہاکی اولمپیئن کلیم اللہ کی اہلیہ ہیں، ایک مرتبہ قومی چیمپئن بنی ہیں۔ نازو شکور نے اپنے کیریئر میں کئی بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لیا۔ ان کے کیریئر کا سب سے یادگار لمحہ وہ تھا جب انھوں نے 1989ء میں اسلام آباد میں منعقدہ سیف گیمز میں عارف خان کے ساتھ مکسڈ ڈبلز میں گولڈ میڈل جیتا تھا۔ انھیں اس شاندار کارکردگی پر صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا تھا۔ تو سیاست، پسند اور ناپسند کی وجہ سے کراچی میں ٹیبل ٹینس کا کھیل بھی تقریباً ختم ہوکر رہ گیا ہے۔
اسی طریقے سے دیگر کھیلوں میں بھی کراچی کے کھلاڑی بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا انہیں  نظرانداز کیا جاتا ہے؟ ان کو میرٹ پر منتخب نہیں کیا جاتا؟ اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اب کھلاڑیوں کا مستقبل نہیں ہے، ان کھیلوں میں پیسہ اور حوصلہ افزائی نہیں  ہے۔ اب انہیں ادارے مستقل نوکریاں بھی فراہم نہیں کرتے جو ایک زمانے میں کرتے تھے، جس کی وجہ سے اب ٹیلنٹ سامنے نہیں آرہا۔اس کا ذمہ دار کون ہے؟بعض لوگ کہتے ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت وفاقی وزارتِ کھیل ختم کی گئی اور ہر صوبے کی کھیلوں کی الگ الگ وزارت ہوگئی، اور یہ ساری وزارتیں بین الصوبائی، صوبائی رابطوں کی وزارت کے تحت آتی ہیں۔ اب صوبوں میں وزیر کھیل تو موجود ہیں لیکن کھیل تنزلی کی طرف گامزن ہیں۔ انفرااسٹرکچر موجود نہیں  ہے۔ اندرونِ سندھ بھی اچھی حالت نہیں ہے، لیکن کراچی جو معیشت کی شہ رگ ہے اس کانظام تباہ ہے، جس کی وجہ سے باصلاحیت کھلاڑی سامنے نہیں آرہے ہیں۔
فٹ بال کے کھیل کی صورت حال ہمارے سامنے ہے۔ کے ایم سی فٹ بال اسٹیڈیم ایک بہت پرانا میدان ہے۔ فٹ بال کا کوئی نیا میدان باقاعدہ نہیں بن سکا، جب کہ ایک زمانے میں علی نواز جیسے بڑے بڑے فٹ بالر تھے جو فٹ بال کے کھیل میں کارنامے سرانجام دیا کرتے تھے، لیکن یہ کھیل بھی اب زبوں حالی کا شکار ہے۔
باکسنگ کی بات کریں تو کراچی میں باکسر بڑے زبردست تھے۔ لیاری فٹ بال اور باکسنگ کا گڑھ ہوتا تھا۔ اب باکسر بھی آنا بند ہوگئے ہیں۔ مہر اللہ لاسی جنہوں نے پاکستان کے لیے سیف گیمز میں طلائی تمغا جیتا ، منظر سے بالکل غائب ہوگئے۔ ٹیلنٹ ہی سامنے نہیں آرہا ہے۔
مشہور ایتھلیٹ نسیم حمید کراچی کے علاقے کورنگی میں ایک کمرے کے مکان میں رہتی تھیں۔ انہوں نے 2010ء میں منعقد ہونے والے جنوبی ایشیائی کھیلوں میں سو میٹر کی دوڑ میں سونے کا تمغا حاصل کیا، سارک گیمز میں طلائی تمغا جیتا، وہ بھی پس مںظر میں چلی گئیں۔ تو بہت سارے اسپورٹس مین جو کراچی سے تعلق رکھتے تھے، وہ سب پس منظر میں چلے گئے ہیں، اب کراچی کو نئے ٹیلنٹ کی ضرورت ہے، اور نیا ٹیلنٹ اُسی صورت میں آئے گا جب انفرااسٹرکچر بہتر ہوگا۔ بہت ساری ایسی چیزیں ہیںجن کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ اب کراچی میں کھیل زوال پذیر ہے اور نیا ٹیلنٹ سامنے نہیں آرہا جو پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کو بلند کرنے کے لیے کارنامے سرانجام دے سکے۔ یہ صورتِ حال بڑی پریشان کن ہے۔ یقیناً اس جانب اربابِ اختیار توجہ نہیں دیں گے تو رہی سہی کسر بھی پوری ہوجائے گی، اور پھر کراچی سے اسپورٹس مین آنا بالکل ہی بند ہوجائیں گے۔