فائر فائٹنگ کا نظام آگ بجھانے کی صلاحیت سے محروم

کراچی کا کوئی ایک مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ پورا کا پورا مسائلستان بن چکا ہے۔ اسے لوگوں نے ”روشنیوں کا شہر“، ”عروس البلاد“، ”صنعتوں کا شہر“ کے نام دیے، مگر درحقیقت یہ شہر ایسا ”مسائلستان“ بن چکا ہے جہاں کا ہر شعبہ ہر محکمہ ناقص کارکردگی کا نمونہ بنا ہوا ہے۔

3 کروڑ سے زائدکی آبادی کے اس شہر میں آگ بجھانے کا محکمہ عالمی تو کجا مقامی معیار و ضروریات کے مطابق بھی نہیں ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق بلدیہ عظمیٰ کراچی کی نگرانی میں قائم فائر فائٹنگ اور ریسکیو سروسز کا پورا شعبہ کم و بیش 12 سال سے وائرلیس سمیت رابطے(کمیونیکیشن) کے جدید نظام سے ہی محروم ہے۔ جائزے کے دوران جب فائر بریگیڈ کے ذمے داران سے فائر اسٹیشنوں اور فائر ٹینڈر میں وائرلیس کی عدم موجودگی کے بارے میں دریافت کیا گیا تو جواب ملا کہ تین ماہ قبل ”وائرلیس ہی کیا، یہاں 10 فائر بریگیڈ اسٹیشنوں پر آگ بجھانے کے لیے ایک فائر ٹینڈر بھی موجود نہیں تھا ، تاہم اب وفاقی حکومت کی جانب سے 50 فائر ٹینڈر دیے جانے کے بعد ہر اسٹیشن پر ایک فائر ٹینڈر موجود ہے مگر ڈرائیور سمیت دیگر عملے کی کمی کی وجہ سے 20 فائر ٹینڈر مختلف اسٹیشنوں پر بغیر استعمال کے کھڑی کردی گئیں ہیں جبکہ 7 فائر اسٹیشنوں کی باقاعدہ عمارتیں بھی موجود نہیں ہیں جن میں گلشن اقبال، گلستان جوہر، گلشن معمار، کیٹل کالونی، شاہ فیصل کالونی، ٹرک اسٹینڈ اور ماڑی پور فائر اسٹیشن شامل ہیں۔ گلشن اقبال فائر بریگیڈ اسٹیشن یونیورسٹی روڈ پر نیپا فلائی اوور کے نیچے عارضی بنیادوں پر قائم ہے ، ایسے کسی اسٹیشن کو فائر ٹینڈر نہیں دیے گئے ان اسٹیشنوں کو پرانی فائر گاڑیاں دی گئی ہیں ۔
مذکورہ سات عارضی فائر اسٹیشنوں میں پانی ذخیرہ کرنے کے ٹینک بھی موجود نہیں ہیں نہ دفتر کی عمارت ہے ۔ شاہ فیصل کالونی فائر اسٹیشن محکمہ باغات کے دفاتر میں بنایا گیا ہے، جبکہ گلستان جوہر فائر بریگیڈ اسٹیشن ایک میدان کی چہار دیواری میں قائم ہے جہاں فائر ٹینڈر کو کھلے آسمان تلے پارک کیا جاتا ہے۔ کراچی فائر بریگیڈ شاید دنیا کا واحد فائر فائٹنگ اور ریسکیو کا محکمہ ہے جہاں عملے کو فائر فائٹنگ کا مخصوص یونیفارم بھی گزشتہ 3 سال سے فراہم نہیں کیا جارہا۔ فائر بریگیڈ کے ماہرین کے مطابق ہر ایک لاکھ آبادی پر ایک فائر اسٹیشن کم از کم 3 فائر ٹینڈر اور ایک اسنارکل کے ساتھ ہونا چاہیے، اور ہر اسٹیشن بین الاقوامی معیار کے مطابق کمیونیکیشن کی تمام ضروری سہولیات کے ساتھ ہو۔
عدالت عالیہ کاحکم اور کمیونیکیشن سسٹم ۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر فائر بریگیڈ کے ایمرجنسی نمبر 16کو بحال کردیا گیا ہے، لیکن تمام اسٹیشنوں اور فائر ٹینڈرز کا وائرلیس نظام غیر فعال یا ناکارہ ہونے کی وجہ سے اس ایمرجنسی ٹیلی فون نمبر سے شہریوں کو کوئی فائدہ نہیں۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے لیے 50 نئے فائر ٹینڈر آنے کے باوجود انہیں ضرورت کے تحت استعمال نہیں کیا جارہا ہے، جس کی وجوہات اوپر بیان کی جاچکی ہے ۔
کراچی فائربریگیڈ ڈپارٹمنٹ کو افرادی قوت کی کمی کا سامنا ۔
اس وقت بلدیہ عظمیٰ کراچی فائر بریگیڈ کو فوری طور پر 125 فائر ٹینڈر ڈرائیور، 400 فائرمین، 50 لیڈنگ فائر مین، آٹھ سب فائر آفیسر، 6 اسٹیشن آفیسر، اور ایک چیف فائر آفیسر کی فوری ضرورت ہے۔ واقفِ حال افراد کا کہنا ہے کہ محکمہ فائر بریگیڈ میں2009ء سے کسی آسامی پر بھرتی نہیں کی گئی، جبکہ بڑی تعداد میں ملازمین و افسران کی ریٹائرمنٹ کی وجہ سے آسامیاں خالی ہوچکی ہیں، دوسری جانب ان خالی اسامیوں پر بھرتیاں کی گئی ہیں نہ ہی عملے کو ترقیاں ملی ہیں، جس کی وجہ سے پورے محکمے کو ایڈہاک بنیاد پر چلایا جارہا ہے۔ فائرمین کو قائم مقام لیڈنگ فائر مین، لیڈنگ فائر مین ،سب فائر آفیسر کو اسٹیشن آفیسر، اسٹیشن آفیسر کو چیف فائر آفیسر کا اضافی چارج دے کر نظام چلایا جارہا ہے۔
کراچی فائر بریگیڈ کے حالات دیکھنے کے بعد پوری ذمے داری سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ بڑی اور بلند عمارت میں آتش زدگی پر قابو پانے کے قابل نہیں رہا۔ پورے شعبےکی حالت ہر سال 50 کروڑ روپے خرچ کرنے کے باوجود ناگفتہ بہ ہے۔ دو سال قبل حکومتِ سندھ کی طرف سے دی گئی اسنارکل بھی اسٹینڈ بائی پوزیشن میں نہیں ہے، جس کی وجہ سے اسے 2 سال بعد ہی پہلی بار کسی آگ پر قابو پانے کے لیے اسٹیشن سے باہر نکالا گیا تھا، خیال رہے کہ فائر بریگیڈ کا اپنا ورکشاپ ہونے کے باوجود بدعنوان عناصر کی ملی بھگت سے اسنارکل، فائر ٹینڈر اور چھوٹی گاڑیوں کی مرمت و دیکھ بھال کا ٹھیکہ ایک نجی کنٹریکٹر فرم ”سعید اینڈ کو“ کو دے دیا گیا ہے۔ اپنے ورکشاپ کی موجودگی کے باوجود لازمی سروس کے ادارے کی گاڑیاں مہینوں ورکشاپ میں کھڑی رہتی ہیں مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ ان کا پیٹرول، ڈیزل جاری رہتا ہے۔ کے ایم سی کے واقف حال افراد کا کہنا ہے کہ 10 سال قبل کراچی پورٹ ٹرسٹ سمیت دیگر تمام وفاقی ادارے بھی آتش زدگی کی صورت میں کے ایم سی فائر بریگیڈ سے مدد حاصل کرتے تھے، مگر اب سالانہ پونے 2 ارب روپے سے زائد اخراجات کرنے والی کے ایم سی کا فائر فائٹنگ شعبہ شہر میں کسی بڑی آتش زدگی کی صورت میں وفاقی اداروں کے اسٹیشنوں کی مدد کا محتاج ہوگیا ہے۔گزشتہ 4 سال میں منتخب میئر کی قیادت میں اس شعبےکی حالت بہتر نہیں بنائی جاسکی تھی بلکہ مزید ابتر کردی گئی۔
کراچی فائر بریگیڈ کے لیےمنگوائی گئی فائر ٹینڈر کے پی ٹی اور پاکستان رینجرز کے حوالے ۔
کراچی کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے کی تازہ مثال یہ سامنے آئی ہے کہ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے لیے چین سے منگوائی گئی فائر بریگیڈ کی 50 گاڑیوں میں سے دو وفاقی حکومت کے ادارے کراچی پورٹ ٹرسٹ( کے پی ٹی ) اور دو پاکستان رینجرز کے حوالے کردی گئیں ۔ حالانکہ یہ تمام فائر ٹینڈرز کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے لیے منگوائی گئیں تھیں ۔دلچسپ امر یہ کہ کراچی کے اس مخصوص حصے میں سے فائر ٹینڈر لیے جانے پر سندھ حکومت اور نہ ہی کسی اور جانب سے ردعمل کا اظہار کیا گیا حالانکہ نئے فائر ٹینڈر آنے کے باوجود کراچی کو ضرورت کے تحت مزید کم ازکم دو سو فائے ٹینڈرز کی ضرورت ہے۔