کراچی اور پاکستان کے تعمیراتی مسائل

اخبارات و رسائل میں جس موضوع پر سب سے زیادہ لکھا جاتا ہے وہ موضوع ’’کراچی‘‘ ہے۔ پچھلے 73 سال میں ماسوا خوش قسمت برسوں کے، اربابِ اختیار نے اس شہرِ خرابات کے مسائل میں اس قدر اضافہ کردیا ہے کہ یہ شہر مسائلستان کی حیثیت اختیارکرچکا ہے۔ مگر ان مضامین کی اکثریت کا تعلق صحافیانہ یا زیادہ سے زیادہ ادیبانہ ہوتا ہے، ویسے اخبارات و رسائل کے مضامین اگر صحافیانہ یا ادیبانہ نہیں ہوں گے تو اور کیا ہوں گے؟کیونکہ ان کے لکھنے والے یہی ادیب و صحافی ہی تو ہوتے ہیں، یہی توقع اُن سے کی جانی چاہیے۔ ان مضامین کو بڑے متاثر کن اعداد و شمارسے اہم اور قابلِ توجہ بنایا جاتا ہے، یہ اعدادوشمار قاری کے علم میں اضافہ بھی کرتے ہیں اور اس سمت میں تحقیق کرنے والوں کے لیے ممدو معاون بھی ہوتے ہیں، لیکن اگر ہر مضمون میں ان اعدادو شمار کو دہرایا جائے اور دنیا زمانے کے شہروں سے یہاں کی سہولیات کا مقابلہ شروع ہوجائے تو یقیناً یہ مضامین قاری کے لیے بوجھل ہوجاتے ہیں، اس قسم کے تناسبات کا انتہائی ضروری ہونا ’’ضروری‘‘ ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ ان مضامین میں زیادہ تر مسائل کا اظہار کیا جاتا ہے، اُن کے حل پیش کیے جانے کی طرف توجہ کم ہوتی ہے، ہر مرحلے پر قاری کے ذہن میں یہ سوال کلبلاتا رہتا ہے کہ ’’کچھ علاج اس کا بھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں‘‘۔
یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ہر مضمون کا مقصد حل پیش کرنا نہیں ہوتا، مسائل سے ’’درست آگاہی‘‘ بھی ایک مسئلہ ہے، اس مقصد سے ہر مضمون نگار یا مقالہ نگار کو حق ہے کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کرے۔ مگر کراچی کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کے تعمیراتی مسائل کے حل کے لیےجو طبقہ اپنا بھرپور اور انتہائی اہم کردار ادا کرسکتا تھا وہ اُردو زبان یا اُردو صحافت کی طرف اُتنا راغب نہیں ہے جتنا کہ اس اہم مسئلے کی ضروریات ہیں۔ میری مُراد عمارت کار (آرکی ٹیکٹ) حضرات سے ہے، کیونکہ اُن کی اپنی تعلیم انگریزی زبان میں ہوتی ہے اور وہ اپنا مافی الضمیر اسی زبان میں ادا بھی کرسکتے ہیں، وہی شہری منصوبہ بندی (ٹائون پلاننگ) اور دیگر تعمیراتی ضروریات سے واقف ہوتے ہیں، اس ضمن میں نبّاض بھی ہوتے ہیں اور اُن کے بتائے ہوئے حَل قابلِ عمل اور کفایت شعاری کے حامل بھی ہوسکتے ہیں۔کبھی کبھی اُن کے انگریزی مضامین ہماری انگریزی صحافت میں یقیناً نظر آتے ہیں، مگر یہ قارئین کا ایک محدود طبقہ ہوتا ہے جو ان سے مستفید ہوتا ہے۔ اُردو صحافت کے بعض حساس اور دوررس نگاہ کے حامل مدیرانِ کرام ان مضامین کا اُردو ترجمہ کراکے اپنے اُردو جرائد میں بھی شائع کرنے کی زحمت فرماتے ہیں مگر ایسا کم کم ہوتا ہے، اور شاید ممکن بھی نہیں ہے۔ اُردو نہ صرف ہماری قومی زبان ہے بلکہ یہی زبان ہے جو کراچی سے طورخم تک سمجھی جاتی ہے، جب تک ان باریک باتوں کو اُردو زبان میں بیان نہیں کیا جائے گا اُس وقت تک کراچی اور پاکستان کے تعمیراتی مسائل لوگوں کی سمجھ میں صاف نہیں ہوں گے۔
ہمارے اخبارات و رسائل کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اوّلیت ’’سیاسی‘‘ مسائل کو دی جاتی ہے، ہرچند کہ کراچی کے بہت سے مسائل کا تعلق صرف سیاسی بھی ہے، مگر سیاسی ہی نہیں ہے۔ ان تعمیراتی مسائل کا تعلق یا ان کے ڈانڈے شہر کی معاشرتی، معاشیاتی، اخلاقی، تجارتی، تعلیمی، ادبی، تہذیبی، ثقافتی، اور مذہبی اقدار سے براہِ راست یا بالواسطہ ہے۔ لہٰذا ہمارے اخبارات و جرائد ان زاویوں سے بھی متذکرہ مسائل کا جائزہ لیتے رہتے ہیں اور اپنا اپنا تجزیہ پیش کرتے رہتے ہیں، جبکہ ان مسائل کا بڑا گہرا تعلق عمارت کاری، شہری منصوبہ بندی اورعلمِ ہندسہ سے ہے، مگر یہ نقطۂ نظر کم کم نظر آتا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ کسی زمانے میں ان تعمیراتی مسائل کو حل کرنے کے لیے صرف ایک محکمہ ہوا کرتا تھا جس کا نام تھا PWD، جو مرکزی حکومت سے متعلق تھا، صوبائی حکومت بھی اپنا حصہ ڈالتی تھی، مگر زیادہ انتظام و انصرام اسی محکمے کے ہاتھوں انجام پاتا تھا۔ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کے زمانے میں کراچی کے ساحلِ سمندر کے محلِ وقوع کی وجہ سے ایک مہم ’’ماہی پروری، ماہی نگہداشت اور ماہی خوری‘‘ کی طرف لوگوں کو راغب کرنے کی غرض سے شروع کی گئی، اور پورے شہر میں مچھلی کی فروخت کے لیے شوروم تعمیر کیے گئے، یہ سب شوروم پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ (PWD ) کی کاوشوں کا نتیجہ تھے اور ان کا طرزِ تعمیر(ڈیزائن)بالکل ایک جیسا تھا تاکہ دور سے پتا چل جائے کہ اس جگہ کو کس لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح پورے شہر میں ڈاک خانے بھی ایک ہی طرز پر بنائے گئے تھے، بلکہ بس اسٹاپ کی بھی یہی صورتِ احوال تھی۔ اس طرح نہ صرف تعمیری لاگت کم ہوئی بلکہ ڈیزائن کرانے کی فیس کو بھی بچایا گیا۔
بڑے بڑے اربابِ حل وعقد لونگ بوٹ پہن کر، نالوں میں اُتر کر، تصاویر بنواکر رخصت ہوجاتے ہیں اور مسائل اپنی جگہ رہتے ہیں۔ اعلانات پر اعلانات ہوتے چلے جاتے ہیں کہ اب اتنے ادارے مل کر ان مسائل کی طرف پیش رفت کریں گے، مگر جب نیتیں صاف نہ ہوں تو نتیجہ ڈھاک کے تین پات کے سوا کیا نکل سکتا ہے؟ بڑے بڑے ادارے ناکام ہوچکے ہیں، یہ سب مل کر پورے شہر کی ایک مرتبہ جھاڑو نہیں دلوا سکتے،کسی نے اپنا ہوم ورک نہیں کیا ہے،ہر ادارے کے پاس اپنی اپنی تحقیق ہونی چاہیے تھی،وقت آنے پر وہ وجوہات سے آگاہ کرسکتے تھے، لیکن جب دریافت کیا جاتا ہے تو یہی جواب ہوتا ہے کہ کمیٹی قائم کردی گئی جو اتنے دنوں میں رپورٹ پیش کرے گی۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر محکمہ رشوت ستانی اور کمیشن زدگی میں مبتلا ہوکر بالکل ناکارہ ہوچکا ہے، اگر کچھ قواعد و ضوابط جاری کرنا چاہیں تو احتساب کا نظام لانا ازبس ضروری ہے۔ سطورِ بالا میں جن یکساں شوروم، ڈاک خانوں یا بس اسٹاپس کی بات کی گئی وہ اسی لیے ممکن ہوئی تھی کہ قوم میں اُس وقت پس اندازی کا جذبہ موجود تھا،کمیشن اُس وقت بھی تھا، رشوت ستانی اُس وقت بھی مفقود نہیں تھی مگر ادارے اپنا کام کررہے تھے، احتساب کا عمل جاری و ساری تھا، اسی لیے مطلوبہ نتائج کسی حد تک آسانی سے حاصل ہوجاتے تھے۔
راقم الحروف کا تعلق عمارت کاری(آرکی ٹیکچر) کے شعبے سے ہے، میرا سالِ پیدائش 1941ء ہے، زندگی کی دس بہاریں اور 69 خزائیں دیکھ چکا ہوں، بہاریں وہ جن میں چھے پاکستان بننے سے قبل بچپن کی گزریں، اور چار وہ سال تھے جو لیاقت علی خاں کی حکومت کے زیرِ سایہ گزرے، باقی اللہ اللہ خیر صلّا۔ ان 69 سال کو خزاں کا دور ہی کہا جا سکتا ہے، بہار نہیں۔ میں پاکستان بنتے ہی امروہہ سے کراچی آگیا تھا، میں نے کراچی کی سڑکوں کو روزانہ دُھلتے ہوئے دیکھا ہے،کراچی کے مسائل اور اُن کے حل کے لیے لوگوں کو ہاتھ پیر مارتے ہوئے بخوبی دیکھتا رہا ہوں۔ یہ مضمون ان شاء اللہ تفصیلی ہوگا اور بالتفصیل شائع ہوگا۔ اس تحریر میں زیادہ توجہ تعمیراتی مسائل کو دی گئی ہے، کیونکہ مرکزی حکومت کے بجٹ سے متعلق کچھ اعلانات بھی سامنے آئے ہیں۔ مگر جب یہ اعلان کردیا جائے کہ ’’ماسٹر پلان‘‘ بننے کا انتظار ہے تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیا واقعی اقدامات رُوبہ عمل آسکیں گے؟ بہرحال اس مضمون کا مقصد یہ ہے کہ جب بھی ان تعمیراتی مسائل کو حل کرنے کی خواہش ہو، ان نکات کو بھی پیشِ نظر رکھ لیا جائے، نیز قارئین یہ جان سکیں کہ بالفعل کیا مسائل ہیں اور اُن کو حل کرنے کے لیے ایک عمارت کار کے نقطۂ نظر سے کون کون سے طریقے استعمال میں لائے جاسکتے ہیں؟
آئے دن کراچی کے لیے پیکجوں کا بھی اعلان کیا جاتا رہا ہے، اب بھی اربوں روپے کے پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے۔ اعلان میں عام طور پر ’’انفرا اسٹرکچر‘‘ کا لفظ بڑے تواتر سے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ لفظ سڑکوں، فٹ پاتھوں، بالائی گزرگاہوں (اوور ہیڈ برجز)، زیرِ زمین راستوں (انڈر گرائونڈ سب ویز)، آب رسانی، واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس، نکاسیِ آب، وغیرہ… حتیٰ کہ بس اسٹاپ، میدان، ریلوے لائن، اسٹیشن، جنکشن وغیرہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، لیکن اگر ذرا تفصیلی ذکر کیا جائے تو اس میں مفادِ عامّہ کی تمام عمارات اور سہولیات شامل ہوجاتی ہیں، جیسے بجلی کی ترسیل، گیس کی ترسیل، لاری اڈّے، ائرپورٹ، ماس ٹرانزٹ سسٹم، باغ بغیچے، چڑیا گھر، تفریح گاہیں، سُستانے کے لیے سرکاری بینچیں، سرکاری اسکول، سرکاری ہسپتال، کھیلوں کے اسٹیڈیم، فنون گاہیں، محتاج خانے، مسافر خانے، پبلک ٹوائیلٹ، عوامی حمام، سبزی منڈیاں، حد یہ کہ بہت سے خصوصی علوم کی تدریس گاہیں بھی شامل ہوجاتی ہیں۔ مگر یہ سب کچھ وسعتِ معیشت اور شدّتِ احساس پر مبنی معاملات ہیں۔ اس کے لیے اوّلین شرط یہ ہے کہ سرکاری منتظمین رشوت جیسے موذی مرض میں لِتھڑے ہوئے نہ ہوں۔ رشوت کا ناسور بڑے بڑے اچھے معاشروں میں بھی کمیشن کے نام سے پایا جاتا ہے، لیکن وہاں انسانیت کا سَودا نہیں کیا جاتا۔
کراچی کا اگر ایک گردشی چکر لگا لیا جائے تو ہمیں بھانت بھانت کے پُل، زیرِ زمین راستے، فٹ پاتھ، اور بے ہنگم سڑکوں سے واسطہ پڑے گا۔ سب سے پہلے ہم مختلف سڑکوں کا ذکر کریں گے جو بالکل اُدھڑ چکی ہیں، ان سڑکوں کی نشاندہی کے لیے کسی خاص محلّے یا علاقے کا نام لینا ضروری نہیں،کراچی کی ماسوائے چند سڑکوں کے، تمام سڑکیں اور گلیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، انہیں بنے ہوئے بھی اب بہت عرصہ ہوچکا ہے، سڑکوں کے کناروں پر جو کرب اسٹون لگائے جاتے تھے وہ بھی اب غائب ہوچکے ہیں، لہٰذا تمام سڑکیں ازسرنو بنانے کی ضرورت ہے۔ جو سڑکیں قابلِ مرمت ہوں اُنہیں یقیناً مرمت کردیا جائے، اور کرب اسٹون (curb stone) لگادیے جائیں۔
اب زمانہ بدل چکا ہے، تارکول کے بجائے سیمنٹ کی سڑکیں بننے لگی ہیں۔ یہ مہنگی ضرور بنتی ہیں لیکن ان کی عمر بہت زیادہ ہوتی ہے۔ لہٰذا دوراندیشی کے نقطۂ نظر سے سستی پڑتی ہیں۔ ہندوستان میں بھی ایسا ہی ہورہا ہے، جس سڑک کو نیا بنانا مقصود ہوتا ہے وہاں کوشش کی جاتی ہے کہ سڑک سیمنٹ سے بنائی جائے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پاکستان چوک کی سیمنٹ والی سڑک انگریزوں کی بنائی ہوئی تھی جس کی باقیات اب تک پائی جاتی ہیں۔
سڑکوں کے بعد ہم سڑکوں کو عبور کرنے کے لیے بنائے جانے والے پُلوں (پیڈیسٹرین برجز) کا ذکر کریں گے۔ یہ پُل اوّل تو ہر جگہ موجود نہیں ہیں، حالانکہ بہت سی مصروف شاہراہوں پر ان کا ہونا انتہائی ضروری تھا۔ اسی وجہ سے جگہ جگہ خواتین و حضرات شاہراہوں کو سڑک کے انتہائی غیر منظم اور خطر ناک ٹریفک کے دبائو کے باوجود عبور کرتے ہوئے ملیں گے اور روزانہ اسی عمل کو دُہراتے رہنے سے وہ لقمۂ اجل بن کر اخبارات کی خبروں کا حصّہ بھی بن جاتے ہیں۔ یہ حادثات چوراہوں کے نزدیک زیادہ ہوتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک زمانے میں چوراہوں کے چاروں کونوں کی فٹ پاتھوں پر کچھ دور تک ’’ریلنگ‘‘ لگانے کا رواج تھا، ان کونوں کی ریلنگ پکڑ کرلوگ سڑک پار کرنے سے پہلے تھوڑی دیر ٹھیر کر ٹریفک کا جائزہ لے لیا کرتے تھے اور اوسان بحال ہونے پر سڑک کو عبور کیا کرتے تھے۔ اب ایسی ریلنگ لگانے کا رواج ہی نہ رہا،’’اگلے وقتوں کے کچھ نمونے‘‘ اب بھی پائے جاتے ہیں، مثلاً میٹروپول کی کلب روڈ والی کراسنگ ان آثارِ قدیمہ کی منہ بولتی مثال ہے۔ اور بھی کئی جگہ یہ ’’قومی ورثہ‘‘ پایا جاتا ہوگا، یہاں برسبیلِ تذکرہ تحریر میں آگیا۔
بات ہورہی تھی بالائی گزرگاہوں (اوور ہیڈ برج) کی۔ اگر یہ تعداد میں سَو ہیں تو ان کے ڈیزائن بھی سَو ہیں، یعنی ہر پُل کا ڈیزائن مختلف ہے، پھر اس کا تعمیری مواد بھی بھانت بھانت کا ہے۔ کوئی پُل سیمنٹ کا ہے تو کوئی لوہے کا، کوئی لکڑی کا،کوئی کسی اور مواد سے بنا ہوا ہے۔آخر ایسا کیوں ہے؟ بات کمیشن کی ہے، جس ادارے نے بنایا ہے اُسی نے اس کا ڈیزائن بھی بنوایا ہے۔ ڈیزائن کسی انجینئرنگ کمپنی کو فیس دے کر بنوایا جاتا ہے، اس فیس پر کمیشن حاصل کرلینا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اگر کمیشن نہ بھی لیا ہو اور ادارے نے خود ہی ’’زحمت‘‘ فرمائی ہو تو برادرم اس نئے تجربے کی کیا ضرورت ہے! شہر میں درجنوں دوسرے پُل بنے ہوئے ہیں، اُنہی میں سے کسی ایک کو ’’مشعلِ راہ‘‘ بنایا جاسکتا تھا… مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ۔ کون دوسرے اداروں کی منت کرے،کون ایسا نظام وضع کرے کہ ایک ہی ڈیزائن یا چند ڈیزائن شہر کو کفایت کریں۔ اب اگر ہم دوسرے ممالک کی مثال دیں گے تو آپ جھٹ کہہ دیں گے کہ امیری اور فقیری کا فرق ’’صاف ظاہر ہے‘‘۔
بات طاقتور اور کمزور معیشت کی نہیں ہے، بات نظام کی ہے۔ دنیا زمانے میں مقامی حکومت (لوکل گورنمنٹ) کا ایک نظام پایا جاتا ہے، ملکوں ملکوں اس میں کچھ فرق بھی ہوگا، مگر من حیث الکُل یہ مقامی حکومتی نظام تقریباً ایک جیسا ہوتا ہے، یہ ایک بااختیار ادارہ ہوتا ہے اور شہری ضروریات کا کماحقہٗ علم رکھتا ہے، شہر کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اس کے پاس ہنرمند دماغ اور کارندے بھی ہوتے ہیں، جب یہ کسی چیز کا ڈیزائن کرتے یا کراتے ہیں تو پوری تحقیق کے ساتھ اس کی تمام مشکلات اور آسائشوں کا خیال رکھتے ہیں، اور پوریتحقیق کے ساتھ اس شئے کو رُوبہ عمل لاتے ہیں۔ اس طرح وہ شئے انتہائی کارآمد اور افادیت کے علاوہ کفایت کی حامل ہوتی ہے۔ پھر یہ ہے کہ پورے شہر میں اسی ڈیزائن کو باربار استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس میں کفایت کا عنصر اور زیادہ شامل ہوجاتا ہے۔ دیکھنے میں بھی یکسانیت کی وجہ سے ایک ہم آہنگی اور آپس کی شمولیت کا احساس معاشرے میں جاگزیں ہوتا ہے۔ غرض اس عمل کے متنوع گوشوں کا فائدہ معاشرے کو براہِ راست ہوتا ہے۔
یہ بالائی گزرگاہیں یعنی اوورہیڈ برج کسی بھی شہر میں بڑے نمایاں نظر آتے ہیں کیونکہ ان کا اسٹرکچر بہت واضح ہوتا ہے، یہ شہر کی پہچان بھی بن جاتے ہیں، لہٰذا ان کی تعمیر پر خاص توجہ کی ضرورت ہے، ان کا ڈیزائن ہماری ثقافت کا آئینہ دار ہونا چاہیے۔ ایک یا چند ٹائپ ڈیزائن تمام معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے متعین ہونے چاہئیں، جن میں موقع کی مناسبت سے ردّو بدل کیا جانا چاہیے، کیونکہ ہر موقع کی اپنی صورتِ حال تبدیلی کی متقاضی ہوسکتی ہے، اور یہ سب ممکن العمل بھی ہے۔ اس طرح پورے شہر میں ہم آہنگیِ فکرو عمل کا پیغام بھی جائے گا اور جب ایک ہی ڈیزائن کی تمام تر ڈرائنگز اور تفاصیل، نیز قیمت کی تفاصیل یعنی ٹینڈر ڈرائنگز ایک ہی دفعہ بنیں گی تو کفایت یقینی ہے۔
دوڈھائی سال پہلے کی بات ہے جب عدلیہ کے احکامات کے تحت پورے شہر کراچی میں رہائشی اور تجارتی عمارتوں کے تجاوزات کو ہٹایا گیا اور عمارات کو اصلی شکل پر لایا گیا، تو ایسا اس لیے ممکن ہوسکا کہ تمام محکموں کو اعلیٰ عدلیہ کے احکامات کے تحت ایک صفحے (پیج) پر لایا گیا تھا، ورنہ یہی کام نہ جانے کتنی مرتبہ بلدیاتی اور صوبائی حکومتوں کے سپرد کیا گیا تھا مگر نتائج صفر ہی رہے۔ اگرچہ درست یہی ہے کہ یہ کام بلدیاتی اداروں کا ہے کہ وہ کوئی کام یا تعمیر غیرقانونی ہونے ہی نہ دیں، اور اگر ہوگئی ہے تو اُسے غیر قانونی قرار دے کر مسمار کریں تاکہ شہر اپنی مطلوبہ شکل میں قائم رہے۔ تمام ملکوں میں مفادِ عامہ کی تعمیرات شہر کے میئر کے زیرِ انتظام ہوتی ہیں، اور جو نہیں آتیں اُنہیں ضرورت پڑنے پر لایا جاسکتا ہے، یعنی قانون میں اتنی سکت ہوتی ہے کہ کوئی کام رُکتا نہیں بلکہ جاری و ساری رہتا ہے۔
جب ان تجاوزات کو مسمار کیا گیا تو ان جگہوں کو جوں کا توں چھوڑ دیا گیا۔ ان جگہوں پر فٹ پاتھ بنانا ضروری تھا۔ چنانچہ جب یہ کام ادھورا رہ گیا تو لوگوں نے پھر دوبارہ اپنی مرضی سے یہ چبوترے بنا لیے، جو بھانت بھانت کی شکل کے ہونے ہی تھے، چنانچہ ہوئے، اور اب تک یہ کام جوں کا توں پڑا ہوا ہے اور اپنی تکمیل کا منتظر ہے۔ ان فٹ پاتھوں کو اب اسی پیکیج کے ذریعے بنایا جائے گا، بشرطیکہ اگر ایسا ہوا۔ مگر یہاں یہ ذکر کرنا انتہائی ضروری ہے کہ فٹ پاتھوں کی تعمیر کے ضمن میں معذور افراد، بوڑھوں اور بچوں کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے، کہ بچوں کی پرام اور بوڑھوں کی وہیل چیئر کا کیا ہوگا، نیز معذور اور بوڑھوں کو ریلنگ کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ انہی فٹ پاتھوں کے نزدیک سڑک پر معذوروں کے لیے کار پارکنگ بھی علیحدہ رکھی جاتی ہے، اس کا بھی انتظام اسی’’ہلّے‘‘ میں انجام دیا جانا ضروری ہے۔
ان ہی فٹ پاتھوں پر بس اسٹینڈ بنائے جاتے ہیں، ان کا ڈیزائن اور ان کی تفصیلی ڈرائنگ بھی یک رنگی اور فکری اتحاد کا مظہر ہونی چاہئیں۔ بس اسٹینڈ بھی بالائی گزرگاہوں کی طرح بڑی نمایاں عمارت ہوتی ہے جو ہر وقت نظروں میں رہتی ہے اور شہر والوں کے ذوق کی عکاس ہوتی ہے، ان کی تعمیرات میں بھی اُسی عمل کا دُہرانا ضروری ہے جو پُلوں کے موقع پر برتا گیا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ خواہ بس اسٹاپ ہوں، پبلک ٹوائلٹ ہوں، ڈاک خانے، پبلک دارالمطالعے،کلینک، ہسپتال ہوں یا کسی بھی عوامی سہولت سے متعلق کوئی عمارت… اُس کا ڈیزائن بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اسے یوں بے راہ روی اور ایڈہاک ازم کے سپرد نہیں کیا جا سکتا، اس کے پیچھے گہری سوچ اور تحقیق ہونی ضروری ہے۔ اس عمل سے لاگت میں کفایت اور توانائیوں کی بچت تو ہوتی ہی ہے، مگر معاشرے میں یک رنگی، اتحاد، یگانگت اور یک قومی احساس بھی پرورش پاتا ہے۔ ہم اپنی قوم میں اتحاد نہ ہونے کا شکوہ گِلہ کرتے رہتے ہیں، مگر جن عناصر سے اقوام میں اتحاد نشوونما پاتا ہے اُسے یکسر نظرانداز کردیتے ہیں۔
سطورِ بالا میں انفرا اسٹرکچر کا ذکر ہوا، اور بالائی گزرگاہوں کے طرزِ تعمیر کی بات ہوئی، تو ان تعمیرات کے لیے، بلکہ ہر تعمیری معاملے کے لیے طرزِ تعمیر کا سوال درپیش ہوگا، یعنی یہ طے کرنا ہوگا کہ اس عمارت کو کن خطوط یا طرز پر ڈیزائن کیا جائے؟ ہر عمارت کا مجوزہ نقشہ ایک سرکاری محکمے میں ازروئے قوانین، پیش کرنا ضروری ہے جہاں سے اُسے پاس کرانا ضروری ہے۔ بلڈنگ کنٹرول کے محکمے یہی کام انجام دیتے ہیں۔ اگر کوئی خاص طرزِتعمیر متعین ہوتا تو وہ محکمے اس طرزِ تعمیر کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے نقشوں کا جائزہ لیتے اور اُن کی اجازت دیتے، یا مناسب ترمیم کا مشورہ دیتے۔ مگر چونکہ ایسا کوئی قاعدہ قانون موجود ہی نہیں اس لیے تمام لوگوں کو کھلی اجازت ہے کہ اپنی ذاتی پسند ناپسند کے مطابق نقشے داخلِ دفتر کریں اور اجازت حاصل کرلیں آپ پاکستان کی پارلیمان کی عمارت کی تصویر اُٹھا کر دیکھ لیں، سوائے کلمہ شریف کے، اس عمارت میں کوئی ایسا قرینہ نظر آتا ہے جس سے ہمارے قومی تشخص، روایت یا ثقافت کی عکاسی کی گئی ہو؟ اوّل تو الحمدللہ ہم نے پاکستانیوں کو ایک قوم بنانے کے لیے کوئی شعوری کوشش ہی نہیں کی ہے، اور اگر کچھ ایسے عوامل تھے بھی جو ازخود قوم بنانے میں ممدو معاون ہوسکتے تھے، اُن پر ترجیحاً کوئی عمل نہیں کیا گیا۔
آئے دن تعمیراتی اشتہارات سامنے آتے رہتے ہیں جن سے ملک میں تعمیراتی سرگرمیوں کا اندازہ ہوتا رہتا ہے، خواہ ان اسکیموں کا تعلق ر ہائشی بنے بنائے مکانات سے ہو، یا رہائشی و تجارتی فلیٹوں سے، یا شہری منصوبہ بندی سے… ان سب کے تعمیراتی ڈیزائن میںکوئی قدرِ مشترک نظر نہیں آتی، وجہ یہی ہے کہ اس سمت میں کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا،کوئی قانونی پابندی عائد نہیں کی گئی کہ طرزِ تعمیر کیا ہوگا۔ جو قوانین لاگو کیے جاتے ہیں اُن کا تعلق اُن کی ساخت، تکنیکی معاملات یا اُن کے مواد سے ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں وہی کچھ ہوگا جو آپ کو نظر آرہا ہے۔ طرزِ تعمیر یا عمارت کاری کے اُصولوں کو طے کرنا انتہائی ضروری ہے، آج نہیں تو کل یہ کام کرنا ہوگا، اسی صورت میں ہم اپنی قومی وحدانیت کی سمت میں سفر کرسکیں گے اور اپنی ثقافت و روایت کو محفوظ رکھ سکیں گے۔
جدہ سعودی عرب میں بلدیہ کے محکموں کو انتظامی طور پر 14دفاتر میں بانٹ دیا گیا ہے، مگر ہر دفتر میں ایک سیکشن ایسا ہے جو یہ طے کرتا ہے کہ جس عمارت کے نقشے کو پاس کرانے کے لیے داخل کیا گیا ہے وہ ہماری ثقافت سے کس حد تک قریب ہے۔ یہ ایک ابتدائی قسم کا نقشہ ہوتا ہے اور صرف عمارت کے ڈیزائن کے اسکیچ پر مشتمل ہوتا ہے، اسے’’مشروع ابتدائی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یا تو یہ منظور کرلیا جاتا ہے ،یا چند تجاویز کے ساتھ واپس کردیا جاتا ہے۔ تفصیلی نقشہ جات اُسی وقت بنائے جاتے ہیں جب نقشہ اُس محکمے کے معیار کے مطابق ہو۔ ایسی مشق ہمارے یہاں بھی انجام دی جا سکتی ہے۔
جہاں تک تعمیرات میں بین الاقوامی معیارات کے اتباع کی بات ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ بوڑھے اور معذور حضرات کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے، خواہ سرکاری تعمیرات ہوں یا نجی نوعیت کی۔ فٹ پاتھوں کی تعمیر کے ذکر میں اوپر بیان کردیا گیا ہے، لیکن مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں۔ پبلک ٹوائلٹ کا خانہ بالکل خالی ہے، پورے شہر میں مناسب فاصلے سے ان کے لیے گنجائش نکالنی ضروری ہے، ان کے مستقل انتظام و انصرام کے لیے یہ عمارات تعمیر کے بعد نجی شعبے کے حوالے کی جا سکتی ہیں جن سے سالانہ معقول آمدنی اگر نہ بھی ہو تو بہرحال یہ شہر کی ایک اہم ضرورت کو پورا کرتی ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ہر عمارت تک پہنچنے کے لیے سیڑھیاں بنائی جاتی ہیں، بعض عمارات تو اچھی خاصی اونچی بھی ہوتی ہیں، مگر ضعیف اور معذور لوگوں کو اوپر پہنچنے کے لیے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے، نیز بعض لوگ وہیل چیئرکا استعمال کرتے ہیں، ایسے لوگوں کے لیے ریلنگ اور ریمپ کی اشد ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ انہیں پکڑ کر آرام سے چڑھ سکیں، مگر اس اہم نقطے کی جانب اچھے اچھے عمارت کاروں نے نجی عمارت بناتے وقت کوئی خیال نہیں رکھا ہے۔ اسی طرح وہیل چیئر کے لیے ریمپ بہت کم عمارات میں نظر آتا ہے، حالانکہ یہ اہم ضرورت ہے۔ اسی طرح معذور افراد کے لیے ذرا بڑی مخصوص لفٹیں ہوتی ہیں، مگر ہمارے یہاں بعض اوقات لفٹ اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ وہیل چیئر کی گنجائش نہیں نکل پاتی۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب امیروں کے چونچلے ہیں، لیکن جب کروڑوں اربوں کی رقم عمارت کی تعمیر پر صرف ہورہی ہو تو اس قسم کے مصارف اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہیں، بات اہمیت اور ترجیح دینے کی ہے۔ رئیس امروہوی نے کیا خوب کہا ہے:
تمہیں شکستہ دِلوں کا خیال ہی تو نہیں
خیال ہو تو کرم کے ہزار ہا پہلو
کراچی میں اوّل تو پارک تھے ہی کم، اور جو تھے اُن پر چائنا کٹنگ کرکے فلیٹ بنالیے گئے۔ انصاف تو یہی ہے کہ ان فلیٹوں کو اسی طرح مسمار کیا جائے جس طرح ریلوے کی زمین پر بنائے گئے غیر قانونی مکانات کو مسمار کرکے زمین واگزار کی جارہی ہے،کیونکہ قانون تو سب کے لیے برابر ہونا ضروری ہے۔ اس غیر قانونی چائنا کٹنگ سے باغات اور کھیل کے میدانوں کی کمی ہوگئی ہے، بچوں کے پارک نہ ہونے کے برابر ہیں، ان باتوں سے معاشرتی جرائم نے جنم لیا ہے۔ ہمارے یہاں فلیٹوں کی بھرمار نے ویسے ہی معاشرتی برائیاں پیدا کی ہیں، کیونکہ یہ فلیٹ جس انداز سے بنائے گئے ہیں وہ ہماری تہذیب و ثقافت سے لگّا نہیں کھاتا، مگر مجبوری تھی، بڑے شہر کی وجہ سے عمودی تعمیر وقت کی ضرورت تھی، مگر ہم اپنے معاشرے کا خیال رکھتے ہوئے اگر تعمیراتی قوانین وضع کرتے تو شاید یہ مسئلہ سَر نہ اُٹھاتا، یعنی اگر دو بلاکوں کے درمیانی فاصلے اور کھڑکیوں کی پلاننگ پر قانون سازی ہوتی تو نتائج مختلف ہوتے۔ پُلوں کے نیچے سے پانی بہت گزر چکا مگر دیر کبھی نہیں ہوا کرتی، اب بھی ایسی باتوں کا جائزہ لے کر قانون سازی ہوسکتی ہے، ورنہ معاشرتی جرائم بڑھتے چلے جائیں گے۔ پارکوں کی کمی اور فلیٹوں کی زیادتی سے ایک مسئلہ جس نے طول پکڑ لیا ہے وہ یہ ہے کہ لوگ رہائشی گھٹن سے بچنے کے لیے کھلی فضا کو پسند کرتے ہیں جس کے لیے پارکوں کا ہونا، اور بچوں کے لیے اُن کے مخصوص پارک ہونے ازحد ضروری ہیں، وہاں بینچیں ہونی بھی ضروری ہیں تاکہ انسان اس گھٹن سے نجات حاصل کرسکے۔ بظاہر یہ باتیں دیوانے کی بَڑ لگتی ہے لیکن جب آپ غور فرمائیں گے تو یہ معمولی نکات بڑے بڑے انسانی المیوں سے جُڑے نظر آئیں گے۔
حذر اے چیرہ دستاں، سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
بینچوں کا ذکر آیا تو یہ خیال بھی آیا کہ ان کو فراہم کرنا ایسا کوئی مشکل مسئلہ نہیں ہے۔ اگر دوسرے ممالک کی طرح بلدیہ طریقۂ کار وضع کرلے کہ کوئی بھی شہری اپنے یا اپنے کسی پیارے کے نام سے ایک بینچ مخصوص کرا سکے تو اُس بینچ کی قیمت پر ایسا کیا جا سکے گا، یعنی وہ بینچ اُس کے دیے ہوئے نام پر اُس کی پیتل کی پلیٹ کے ساتھ اُس کے لیے منسوب ہوجائے گی۔ ایسا دوسرے ممالک میں ہوتا ہے اور یہ بڑا کامیاب اور آزمودہ طریقۂ کار ہے، اور شاید تقسیم سے قبل ایسا ہوتا بھی رہا ہے۔
بارش کا پانی ہمارے ہاں ایک عذاب بنا ہوا ہے، وجہ یہ ہے کہ شہر کی منصوبہ بندی میں بہت سی غلطیاں پائی جاتی ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب سڑکیں بنائی جاتی تھیں تو سڑکوں کے ڈھال کا خاص خیال رکھا جاتا تھا، سڑکوں کی نپائی کے علاوہ سروے کے سامان میں لیول (level) کے علاوہ تھیوڈولائٹ اور دیگر سامان بھی ہوا کرتا تھا جس سے زمین کی سطح کا صحیح صحیح اندازہ کیا جاتا تھا اور سڑک کے ڈیزائن میں بارش کے catchment area کا خاص لحاظ رکھا جاتا تھا۔ یہ کیچ منٹ ایریا دراصل وہ رقبہ ہوتا تھا یا ہوتا ہے جس پر بارش کی مقدار کا اندازہ کیا جاتا ہے، اسی مقدارِ آب کی نکاسی مقصود ہوتی ہے۔ اب اگر سڑکوں یا تعمیرات میں اس کیچ منٹ ایریا کا لحاظ ہی نہ کیا جائے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کیا نقصان ہوسکتا ہے؟ پچھلی بارش میں نیا ناظم آباد کا جو واقعہ ہوا ہے یعنی پورا پورا گرائونڈ فلور بارش کے پانی سے ڈوب گیا، اس کی وجہ یہی تھی کہ جس رقبے پر تعمیرات کی گئیں وہ نشیبی علاقہ تھا، وہاں ماضی میں جھیل بنی ہوئی تھی، یہ اتنا بڑا کیچ منٹ ایریا تھا کہ پورا علاقہ زیرِ آب آگیا جس کی نکاسی کا کوئی انتظام تھا ہی نہیں۔ ایسا پورے شہر میں ہوا ہے، ڈیفنس سوسائٹی میں بھی یہی ہوا ہے کہ اُس مقام پر اور اُن میدانوں پر پلاٹ کاٹ دیے گئے جن میدانوں سے بارش کا پانی گزرا کرتا تھا۔ اب یہ مکانات پانی کے لیے سدِّ راہ ہوگئے۔ اسی طرح سڑکوں کا احوال ہے کہ پانی کے راستے میں رکاوٹ بن گئیں۔ آپ تعمیرات ہر جگہ کرسکتے ہیں لیکن اُس کے لیے موقع محل کی مناسبت سے انتظامات بھی کرنے ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں زیادہ تر بلڈر تکنیکی معاملات سے بہت کم واقف ہوتے ہیں اور یہ لوگ تجارت ہی نہیں بلکہ منافع کی طرف زیادہ دھیان رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ تعمیرات کا جب کوئی حادثہ ہوجاتا ہے تو بلڈر کے بارے میں پتا چلتا ہے کہ وہ دبئی بھاگ گیا۔ حال ہی میں جو عمارات مخدوش ہوئیں اور ڈھائی گئیں اُن کے بلڈر حضرات حج کرنے گئے ہوئے ہیں۔ لوگ باہر جھونپڑی ڈالے ہوئے چیخ و پکار کررہے ہیں کہ ساری عمر کی پونجی لُٹ گئی۔ حالانکہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے تعمیرات کے معیار کے لیے اور اُسے جانچنے کے لیے ایک پورا نظام ترتیب دیا ہوا ہے، بلکہ یہ سب باتیں اُن کے فرائض میں داخل ہیں، مگر سنا ہے کہ یہ بے قاعدگیاں جان بوجھ کر اور ملی بھگت سے کرائی جاتی ہیں۔ ’’چو کفر از کعبہ برخیزد،کجا ماند مسلمانی‘‘ کہ اگر کفر کعبے ہی سے برآمد ہونے لگے تو پھرمسلمانی کہاں سے آئے گی؟
ہمارے بزرگ جب کسی عمارت کے بنانے کا قصد کرتے تھے تو اُس عمارت کا نقشہ کسی کھپچی لکڑی سے زمین پر کھینچ دیا کرتے تھے، اسی عمل کی بنا پر ’’خاکے‘‘ کا لفظ ہماری زبان میں آیا، یعنی خاک پر کھینچا ہوا نقشہ۔ وہ لوگ ہر علم میں تھوڑا بہت عمل دخل رکھتے تھے، اس لیے اُن کا یہ عمل گوارا تھا۔ مگر اب کسی تعمیر کا پیشگی نقشہ بنانا ایک باقاعدہ علم ہے جسے عمارت کاری یا آرکی ٹیکچر کہتے ہیں۔ بہتر کیا بلکہ ضروری ہے کہ نہ صرف نقشہ بنایا جائے یا بنوایا جائے بلکہ اُسے سرکاری ادارے سے منظور بھی کرایا جائے۔ لوگ اکثر شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے گھر میں ہوا نہیں آتی، روشنی بہت کم ہے، دھوپ کا گزر نہیں، یا گھر گرمیوں میں زیادہ گرم اور سردیوں میں زیادہ ٹھنڈا رہتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جو لوگ اس کام کے ماہر ہیں اُن سے مشورہ نہیں لیا جاتا۔
کچی آبادیوں کا مسئلہ الگ ہے، یہاں نہ نقشے ہوسکتے ہیں نہ اُن کی منظوری۔ یہ سب لوگ بالکل غیر منظم انداز میں زندگی بسر کرنے پر ایک طرح سے مجبور ہیں، مگر یہ مجبوری اُن کے اپنے ہاتھوں کی لائی ہوئی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ کراچی میں ہر طرف جھونپڑیاں ہی جھونپڑیاں نظر آیا کرتی تھیں، قائداعظم ؒ کے مزار کی پوری پہاڑی ان سے بھری ہوئی تھی، شہر کے تمام فٹ پاتھوں پر انہی جھونپڑیوں کا راج تھا، پھر ایوب خان کی حکومت نے نیو کراچی، کورنگی اور لانڈھی کی بستیاں بسائیں اور لوگوں کو کچھ امن چین نصیب ہوا، شہر کی بھی شکل نکلی اور ایک بہت بڑے مسئلے سے خاصی حد تک نجات حاصل ہوئی۔ اب بھی اگر حکومت چاہے تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ دنیا کے بڑے شہروں میں اس قسم کے مسائل نئے نہیں ہیں، مگر وہ ان کو حل کرتے ہیں۔ راقم الحروف نے ایک بڑا وقت بسلسلہ ملازمت سعودی عرب کے شہر جدہ میں گزارا ہے۔ جدہ میں بھی ’’تخطیط‘‘ کے محکمے نے پورے جدہ کی قدیم آبادی کو نئے خطوط پر اُستوار کیا ہے، شہر کے بیچوں بیچ سڑکیںاور شہری سہولیات ڈیزائن کی گئیں اور جو مکان شہری منصوبہ بندی (تخطیط) کے درمیان آگئے اُن کو بڑا معاوضہ دے کر ہٹا دیا گیا، بقیہ کو وہیں رہنے دیا گیا اور اُن کو نئے سرے سے نقشے داخل کرنے کے لیے کہا گیا۔ یعنی اگر کام کرنے کی نیت کرلی جائے تو کوئی کام ناممکن نہیں ہے۔
یہ کچی آبادیاں بڑے سنگین معاشرتی جرائم کی آماجگاہ بنی ہوئی ہیں، پھر اگر آگ لگ جائے تو فائر بریگیڈ کی گاڑی کا آنا ممکن نہیں ہوتا، اس لیے حادثات بھی زیادہ ہوتے ہیں اور انسانی جان کا زیاں ہوتا ہے۔
ان کچی آبادیوں اور شہر کے تقریباً ہر محلے میں ایک کام ضرور کرنا چاہیے کہ زمینی پانی کے حصول کے لیے ’’ہینڈ پمپ‘‘ لگوا دینے چاہئیں، اس طرح پانی کی قلّت کسی حد تک دور ہوجائے گی اور دیگر ضروریات کے لیے پانی کسی حد تک حاصل ہوجائے گا۔
پورا شہرِ کراچی انتہائی تکلیف دہ ’’اسمال انڈسٹری‘‘ کا ’’جیتا جاگتا نمونہ‘‘ بنا ہوا ہے، خدارا اس بات کو سنجیدگی سے لیا جائے کہ ان بڑے شہروں کے باسی اندرونِ خانہ یعنی گھریلو صنعتیں سمجھ کر جو حرکتیں انجام دے رہے ہیں وہ بہت گھنائونی صورتِ حال ہے۔ بہتر ہے کہ یہ گھریلو صنعتیں ان کچی آبادیوں سے منتقل کردی جائیں، وہ صنعتیں تو ضرور منتقل کی جائیں جن میں پیٹرول، ڈیزل، آئل یا تیزاب وغیرہ استعمال کیا جاتا ہے۔ گتّہ، کاغذ، روئی اور ایسی تمام چیزیں جن میں آتش گیر مادّے استعمال ہوتے ہیں اُنہیں ان آبادیوں سے منتقل کرنا ازحد ضروری ہے۔ یہ عمل حادثوں کی پیش بندی کے لیے ضروری ہے، ورنہ اگر ٹھوکر کھا کر عقل آئی بھی تو کس کام کی؟ اسی عمل کو منصوبہ بندی کہا جاتا ہے۔
کراچی شہر کا ایک اور مسئلہ سر اُٹھا رہا ہے اور رفتہ رفتہ ناقابلِ برداشت اور تکلیف دہ ہوتا جارہا ہے، اور وہ ہے’’موٹر بائیک کی پارکنگ‘‘ کا مسئلہ۔ جگہ جگہ تجارتی مراکز کے سامنے سڑک پر یہ بائیکس پارک کردی جاتی ہیں اور سڑک کے ٹریفک میں خلل کا باعث بنتی ہیں۔ لوگوں کی تربیت کی ضرورت ہے کہ ضروری نہیں کہ جس دکان یا دفتر میں آپ کو جانا ہے، بالکل اُس کے سامنے یا بالکل اُس کے قریب آپ اپنی بائیک پارک کریں۔ تجارتی مراکز کے قریب جگہیں فراہم کی جائیں اور پارکنگ کا انتظام کیا جائے، سڑکوں کے ٹریفک کے نظام میں دخل اندازی نہ کی جائے۔ اگر انسان کچھ دور پیدل چل لے تو کوئی حرج نہیں۔ ویسے بھی یہ عادت صحت کے لیے مفید ہے۔ ایمپریس مارکیٹ کے نزدیک صدر دواخانے کے پاس کار پارکنگ کے لیے ایک کئی منزلہ عمارت بناکر یہ تجربہ کیا بھی جا چکا ہے، مگر اس میں پلاننگ کی بہت بڑی خرابی یہ تھی کہ کاروں کے چڑھنے کے لیے جو ریمپ بنایا گیا وہ انتہائی ناقص اور غلط ڈھال کا ہے جس کی وجہ سے کاریں چڑھانے میں ڈرائیور حضرات کو ازحد دقّت ہوتی ہے اور وہ ایک ہی دفعہ میں توبہ کرکے آجاتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ہر سرکاری کام میں اذیت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے کہ ’’ہر تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی‘‘۔