…کراچی… ’’ملکہ مشرق‘‘

یوں تو کراچی کے بہت سے نام ہیں مثلاً روشنیوں کا شہر، سمندر کا شہر، مچھیروں کا شہر، ہنگاموں کا شہر، امیروں کا شہر، غریبوں کا شہر وغیرہ وغیرہ… لیکن شہر کراچی کو ایک بہت خاص نام دیا جاتا ہے، وہ ہے ’’ملکۂ مشرق‘‘۔ مشرق کی اس ملکہ کی آبادی اندازاً ڈھائی کروڑ بتائی جاتی ہے۔ اس کی حدود شمال مشرق میں ضلع دادو سے ملتی ہیں، مشرق میں ضلع ٹھٹہ ہے، جنوب میں بحیرہ عرب اور دریائے سندھ کے طاس کی کھاڑیاں ہیں، اور اس کی مغربی حدود دریائے حب تشکیل دیتا ہے جو صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان کے درمیان کیرتھر کے سلسلۂ کوہ کے درمیان واقع ہے۔
کراچی کا کُل رقبہ محکمہ ریونیو کے مطابق 1362 مربع میل ہے۔ کراچی کی تشکیل کے بارے میں تاریخ دانوں اور جغرافیہ دانوں کے درمیان کچھ اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ موجودہ کراچی کا سنگِ بنیاد 1729ء میں ’’بھوج مل‘‘ اور اس کے ساتھی تاجروں نے رکھا۔ دوسری طرف کچھ اسے دو ہزار برس پرانی بستی بتاتے ہیں، اور کراچی کی آبادی کا سبب دریائے حب کے دوسرے کنارے پر آباد ’’کھڑک بندرگاہ‘‘ کی تباہی بتاتے ہیں۔
’’کھڑک بندرگاہ‘‘ کی تباہی ریت اور ہوائوں کے طوفان کے باعث ہوئی۔ جب بندرگاہ کا دہانہ ریت سے بھر گیا، جہازوں اور کشتیوں کے لیے اس کو استعمال کرنا ممکن نہیں رہا تو اب تاجروں کو کسی متبادل کی تلاش تھی، انہیں قریب ایک چھوٹی بستی نظر آئی جس میں بیس پچیس جھونپڑیاں تھیں جو مچھیروں کی تھیں۔ اسی بستی میں ایک تالاب ’’کلاچی کنوں‘‘ کے نام سے تھا۔ کنوں کسی گہرے گڑھے یا خندق کو کہتے ہیں۔کھڑک بندرگاہ کے باسیوں نے اسی مقام پر ایک نئی بستی بسائی تھی جس کو ’’کلانچی جو گوٹھ‘‘ کہا جانے لگا۔ اُس زمانے میں ساحل کے قریب کی بستیوں کو قزاقوں کا خوف ہوتا تھا، لہٰذا بستی کو محفوظ رکھنے کے لیے بستی کے گرد لکڑی اور مٹی کی دیوار تعمیر کی گئی۔ مٹی کے اس قلعے کے دو دروازے تھے۔ ایک دروازہ جو ساحل کی طرف کھلتا تھا ’’کھارادر‘‘ یعنی نمکین دروازہ کہلاتا تھا، اور جو لیاری ندی کی طرف کھلتا تھا ’’میٹھادر‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ ان دروازوں کے قریب رہنے والے محلوں کے نام بھی بعد میں ان ہی ناموں سے مشہور ہوئے۔ ان دروازوں کو تعمیر کروانے والا ’’بھوج مل‘‘ تھا۔ یوں اسے کراچی کا بانی کہا جاسکتا ہے۔
خیال ہے کہ عربوں نے سندھ میں داخلے کے لیے اسی بندرگاہ کو استعمال کیا ہوگا۔ دیبل کے مقام پر محمد بن قاسم نے راجا داہر کو شکست دی تھی۔ 727ء میں مکلی کی پہاڑیوں میں کراچی سے 96 کلومیٹر دور جنوبی ایشیا کی پہلی مسجد تعمیر کی گئی۔ 1250ء میں مسلمان بزرگ منگھوپیر کا مقبرہ بنایا گیا۔ 1592ء میں اکبر کے جنرل عبدالرحیم خانِ خاناں نے سندھ پر قبضہ کرکے اسے باقاعدہ مغلیہ سلطنت میں شامل کرلیا۔ اکبر نے ٹھٹہ میں قیام کے دوران ایک جزیرے میں بھی قیام کیا۔ ’’ترخان نامہ‘‘ میں اس کا نام ’’مان ہارا‘‘ درج ہے، جس کو تاریخ داں آج کا منوڑہ قرار دیتے ہیں۔
1737ء میں کلہوڑہ اور 1782ء میں یہاں تالپور خاندان نے اپنی حکمرانی قائم کی۔ 1839ء تک یہاں تالپوروں کا قبضہ رہا۔ انگریزوں نے تالپوروں سے کراچی میں زمین مانگی۔ میران تالپور نے انگریزوں کو جو ایسٹ انڈیا کمپنی ہی تھی، چار بیگھے زمین دینے کی منظوری دی، لیکن ایک سال کے اندر معاملات بگڑ گئے۔ انگریزوں کو دس دن کے اندر اندر شہر چھوڑ کر نکل جانے کا حکم دے دیا گیا، اس واقعے کے بعد انگریزوں یعنی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے تجارتی اور سیاسی فوائد کے لیے سندھ خصوصاً بندرگاہ پر قبضے کی ٹھان لی۔ یوں انگریزوں نے 1839ء میں کراچی پر قبضہ کرلیا۔
یہ ہے کراچی کا مختصر تاریخی پس منظر۔ اب پچھلے تقریباً 2 سو برسوں میں کراچی نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ عمارتوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو کراچی کی کچھ عمارتیں انتہائی قدیم ہیں۔ یہ برطانوی راج کے دوران تعمیر کی گئیں۔ یہ عمارتیں تقریباً 150 سال پرانی ہیں۔ جن علاقوں میں یہ واقع ہیں انہیں ’’اولڈ سٹی ایریا‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ ایم اے جناح روڈ سے ٹاور تک کی اہم شاہراہ اور اس سے متصل علاقہ ہے، یہ شہر کا مرکز بھی کہلاتا ہے۔
کی قدیم عمارتوں میں ایک ’’فریئر ہال‘‘ ہے۔ یہ محترمہ فاطمہ جناح کی رہائش گاہ تھی، لہٰذا اس کے قریب سے گزرنے والی سڑک کو شاہراہ فاطمہ جناح کا نام دیا گیا۔ فریئر ہال کی عمارت کا ایک حصہ مشہور آرٹسٹ ’’صادقین‘‘ کی آرٹ گیلری ہے، عمارت کے باہر ایک فوارہ ہے جو وکٹورین اسٹائل کا ہے اور جس کو ملکہ وکٹوریہ کے عہد میں تعمیر کیا گیا تھا۔
یہیں پر ’’قائداعظم ہائوس میوزیم‘‘ ہے جس کو فلیگ اسٹاف ہائوس بھی کہا جاتا ہے۔ کراچی کے عوام مہینے دو مہینے میں ایک بار تو ضرور اس کے قریب سے گزرتے ہیں، لیکن کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ یہ بانی ٔپاکستان کی تاریخی رہائش گاہ ہے۔ اس عمارت میں قائداعظم اور فاطمہ جناح کے زیر استعمال اشیا سلیقے سے جمع کردی گئی ہیں۔ عمارت میں ان دونوں سے متعلق فرنیچر، برتن، کتابیں، لباس اور جوتے وغیرہ بالکل اسی طرح رکھے گئے ہیں جیسے قائداعظم اور ان کی بہن فاطمہ جناح کے دور میں تھے۔ یہاں سیر کرتے ہوئے ان کے اعلیٰ ذوق اور نفاست کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ابھی کہیں سے وہ نکل کر آجائیں گے۔ دیواروں پر اُس دور کے مسلم رہنمائوں کی ان کے ساتھ مختلف مواقع پر اتاری گئی تصاویر آویزاں کی گئی ہیں۔
بھی انگریزوں کے دور کی یادگار ہے۔ یہ 1919ء میں تعمیر کیا گیا، اسے راجستھان کے شہر جودھ پور کے سرخ پتھروں سے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کے سنگِ بنیاد کے موقع پر نصب کی جانے والی تختی آج بھی یہاں نصب ہے، لیکن کم ہی لوگ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، اسی طرح کراچی میں یہودیوں کے ’’بنی اسرائیل قبرستان‘‘ کی موجودگی کا علم شاید ہی کسی کو ہو۔ اس میں 1980ء کے بعد سے کوئی تدفین نہیں ہوئی۔ پارسی مذہب کا تاریخی آتش کدہ بھی کراچی میں موجود ہے۔ یہ ڈاکٹر دائود پوتہ روڈ پر واقع ایک قدیم عمارت میں ہے۔ یہ عمارت انتہائی قدیم ہے لیکن اپنے رنگ و روغن اور صفائی کے باعث اس کی درازیِ عمر کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
جس جگہ یہ عمارت واقع ہے وہاں ہفتے کے ساتوں دن لوگوں کا رش رہتا ہے اور گاڑیوں کے ہارن سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، لیکن دوسری طرف اس عمارت کے اندر سکوت اور خاموشی رہتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں اس وقت پارسی کمیونٹی کے صرف1800 افراد باقی رہ گئے ہیں، ان میں سے بھی 60 فیصد ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے ہیں۔ محققین کے مطابق پارسی مذہب اختیار نہیں کیا جاسکتا، یہ صرف پیدائشی ہوتے ہیں، اس لیے پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں ان کی آبادی گھٹ رہی ہے۔
کراچی میں ہندوئوں کا ایک سو اسّی (180) سال قدیم ’’سوامی نارائن مندر‘‘ بھی موجود ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں اقلیت کے ثقافتی ورثے کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔
بندر روڈ اور فریئر روڈ کے درمیان واقع سوامی نارائن مندر شہر کا قدیم ورثہ ہے۔ اس مندر کے قریب ہندوئوں کی خاصی تعداد رہائش پذیر ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق یہاں پانچ ہزار کے قریب ہندو رہتے ہیں۔ مندر کا احاطہ وسیع ہے جہاں آٹھ، نو سو افراد آسکتے ہیں۔ مندر کی تعمیر اُس دور کے مخصوص طرزِ تعمیر کے مطابق گنبد اور شکارا پر مشتمل ہے۔ ’’شکارا‘‘ سے مراد مصری اہرام نما چھت ہے جو نیچے سے اوپر جاتے ہوئے پتلی سے پتلی ہوتی چلی جاتی ہے۔
کراچی کی ایک اور قدیم عمارت ایم اے جناح روڈ پر واقع کراچی میونسپل کارپوریشن کی بلڈنگ ہے جس کو عرفِ عام میں KMC بلڈنگ کہا جاتا ہے۔ یہ بلڈنگ 1935ء میں مکمل ہوئی تھی اور اس کو انگریزی کے حروفِ تہجی “H” کی شکل میں ڈیزائن کیا گیا تھا۔ کراچی کے کچھ علاقے مشہور گلیوں کے ہیں، مثلاً موچی گلی، صرافہ گلی، دوپٹہ گلی اور بوتل گلی وغیرہ۔ ہر گلی اپنی انفرادیت یا خاصیت کی وجہ سے مشہور ہے۔ مثلاً بوتل گلی میں ہر قسم کی چھوٹی بڑی، لمبی چوڑی بوتلیں فروخت ہوتی ہیں، یہاں فروخت ہونے والی بوتلوں میں پانی، جوس، ادویہ، کیمیکل، پرفیوم وغیرہ ڈال کر فروخت کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔ خوب صورتی اور سجاوٹ کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
1980ء کی دہائی میں کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے اونچی عمارت بنانے کی اجازت نہیں تھی، صرف ایک حبیب بینک پلازہ کی عمارت بائیس منزلہ تھی جس کو 1963ء میں تعمیر کیا گیا تھا، مگر اب رہائشی عمارتیں دس سے بارہ، پندرہ، بلکہ اٹھارہ فلور تک بنانا عام ہوگیا، اور اب یہ صورتِ حال ہے کہ بات پچیس اور تیس منزلوں سے بھی آگے نکل گئی ہے۔ یہ تو رہائشی عمارتوں کی صورت حال ہے۔
ایک زمانے میں کراچی ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی سب سے اونچی عمارت شمارکی جاتی تھی۔ اس کی اونچائی 105.2 میٹر ہے، مگر اب دو عمارتیں بیک وقت شہر کی بلند ترین عمارتیں شمار ہوتی ہیں، ایک اوشین ٹاور، جس کی اونچائی 120 میٹر ہے اور یہ 2012ء میں مکمل ہوئی، اس کی 30 منزلیں ہیں، دوسری عمارت ’’ایم سی بی ٹاور‘‘ ہے جس کی بلندی 116 میٹر ہے، اس کی بھی 30 منزلیں ہیں اور یہ 2005ء میں مکمل ہوئی۔ اب بحریہ آئیکون جو عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے برابر ہے، ان سے بھی بلند ہے۔
کراچی میں بہت سی خوب صورت چورنگیاں ہیں، یہاں صرف ایک کا ذکرکریں گے جس کو برطانوی اخبار ’’ٹیلی گراف‘‘ نے دنیا کی پانچویں خوب صورت ترین چورنگی کا نمبر دیا تھا۔ یہ بہادر آباد میں واقع ہے۔یہ چورنگی حیدرآباد دکن کی ایک تاریخی عمارت ’’چار مینار‘‘ سے مشابہہ بنائی گئی ہے۔
یوں کراچی قدیم اور جدید خوبصورتی کا امتزاج نظر آتا ہے۔ کھیل اور تفریح کے لیے کراچی کے خاص مقامات سفاری پارک، چڑیا گھر، ہل پارک، برنس گارڈن، عزیز بھٹی پارک (جو انتظامیہ کی غلفت کے باعث تباہ ہوچکا ہے)، تعلیمی باغ، باغ ابن قاسم، عسکری پارک، فریئر ہال اور پولو گرائونڈ ہیں۔ ان میں سے تعلیمی باغ کراچی کے سابق میئر عبدالستار افغانی، اور باغ ابن قاسم اور عسکری پارک سابق میئر نعمت اللہ خان کے دور میں بنائے گئے۔ باغ ابن قاسم کو ایشیا کا طویل ترین پارک ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
کراچی کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ ملک بھر سے لوگ روزگار کے لیے یہاں آتے ہیں اور کراچی انہیں ماں کی آغوش کی طرح سمیٹ لیتا ہے۔ 2016ء میں برطانیہ کے جریدے ’’اکنامسٹ‘‘ نے اپنی رپورٹ میں کراچی کو دنیا کا چوتھا سستا ترین شہر قرار دیا ہے۔ کراچی کو پورے پاکستان کا معاشی اور صنعتی حب بھی قرار دیا جاتا ہے۔ کراچی وفاق کو 70 فیصد ریونیو فراہم کرتا ہے۔
دوسری طرف کراچی میں سیاسی مسائل کا نہ حل ہونے والا سلسلہ ہے جس کے باعث امن و امان کی صورتِ حال پریشان کن رہی ہے۔بلدیاتی اداروں کی بات کی جائے تو جو صورت حال سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ لیکن بلدیاتی اداروں میں سیاسی اور سفارشی بنیادوں پر بھرتیوں کے باعث ان کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے۔ بلدیاتی عملہ بغیر کسی خوف اور ڈھٹائی کے ساتھ گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کرتا ہے۔ شہر بھر کے ملازمین اپنی آدھی تنخواہیں ایڈمنسٹریٹرز اور ٹی ایم اوز کو اپنے فرائض ادا نہ کرنے کی مد میں ادا کرتے ہیں۔ یہی صورتِ حال واٹر بورڈ اور تعلیمی بورڈ کی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر کراچی میں مثبت سیاست کو فروغ دیا جائے تویہ انتہائی تیزی سے ترقی کرنے والا شہر بن سکتا ہے۔ اگر مستقبل میں ایسا ہوا تو کراچی بہت جلد اس خطے میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اپنی مثال آپ بن جائے گا، اِن شا اللہ۔
حوالہ جات:
(1) بلدیات کا ارتقا، مصنفہ: فرزانہ شہناز
(2) بی بی سی(3)وائس آف امریکہ