پیش رَو بن جائیے

بدلتے زمانے اور بدلتی زبان نے اب انھیں ‘Beautician’ بنا دیا ہے۔ ’’بیو-ٹی- شی- اَن‘‘۔ ورنہ حُسنِ بے پروا کی آرائش و زیبائش کرنے والی اِن خواتین کے لیے اُردو میں بہت حسین، مختصر اور رواں لفظ موجود تھا: مَشَّاطہ۔
مُشط کنگھی کو کہتے ہیں۔ مَشَّاطہ کا لفظی مطلب ہوا ’کنگھی کرنے والی‘۔ اصطلاحاً اُس عورت کو مَشَّاطہ کہا جاتا ہے جو عورتوں کا بناؤ سنگھار کراتی ہو۔ زُلفیں، پلکیں، ناخن اور چہرے سنوارتی ہو۔ شیخ سعدیؒ کا مشہور شعر ہے، جس کا دوسرا مصرع اب ضرب المثل بن چکا ہے:
وصفِ تُرا گر کُنند وَر نہ کُنند اہلِ فضل
حاجتِ مَشَّاطہ نیست رُوئے دِل آرام را
اہلِ کمال تیری خوبیوں کی تعریف کریں یا نہ کریں (اگر تُو صاحبِ اوصاف ہے تو) ’دل آرام‘ کے چہرے کو بناؤ سنگھار کرنے والی عورت کی محتاجی نہیں ہے۔ ( ’دل آرام‘ سے مراد حسینۂ دِل نواز ہے۔) خارؔ دہلوی کہتے ہیں:
ہے جوانی خود اپنی مَشَّاطہ
حسن کو کس قدر نکھار آئی
کنگھی چوٹی کرنے یا بنانے سنوارنے کے عمل کو مشاطگی کہتے ہیں۔ اقبالؔ کا شعر ہے:
مری مَشَّاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی
مَشَّاطائیں رشتے بھی کرایا کرتی تھیں۔ صرف بُلانے والوں کے گھر جایا کرتی تھیں۔ مگر اب ٹی وی کی سُرنگ لگا کر ہر گھر میںگھس جاتی ہیں۔ بازار میں مہنگے مہنگے سنگھار خانے چلاتی ہیں اور مختلف چینلوں پر بہ صرفِ زرِ کثیر بناؤ سنگھار کرنا سکھاتی ہیں۔ ٹیلی وژن کی کچھ مشاطاؤں نے برسرِ ٹی وی شادیاں کرانے کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا، لیکن اُس میں ایسی ’دھبڑ دھونس‘ مچی کہ یہ سلسلہ ہی ختم کرنا پڑا۔
پچھلے پرلے روز ایک چینل پر ایک خوب رُو مشاطہ اپنے علم و ہنر کے جوہر دکھا رہی تھیں۔ ہنر کے جوہر تو اپنے زیرِ مشق خاتون کے چہرے پر اپنے ہاتھوں کی مدد سے دکھا رہی تھیں، اور علم کے جوہر اپنی پٹر پٹر چلتی ہوئی زبان کی مدد سے۔ یکایک منہ بگاڑ بگاڑ کر بتانے لگیں کہ
’’ہم ایک پِسماندہ قوم ہیں‘‘۔ (پسماندہ کی’پ‘ کو اپنے بھنچے ہوئے لبوں اور زورِ زبان سے انھوں نے زیرکرڈالا۔)
گھر میں بیٹھے ہوئے لوگ اُن پر ہنسنے لگے۔ ہم نے عرض کیا:
’’اے لوگو! کاہے کو ہنستے ہو؟ بچاری ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے۔ مہنگائی کی چکی سمیت نہ جانے کن کن مسائل کی چکیوں میں پستے پستے پوری قوم ہی ’پِسماندہ‘ ہوکر رہ گئی ہے۔ یہ الگ بات کہ قوم کو پیس کر رکھ دینے میں اِن کے ’پارلروں‘ کا حصہ بھی کچھ کم نہیں‘‘۔
’پَس ماندہ‘ (’پ‘ پر زبر کے ساتھ) تھک کر پیچھے رہ جانے والے کو کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں ان دونوں الفاظ کو ملا کر لکھنے کا رواج ہے۔ ’پس‘ کا مطلب ہے: ’پیچھے، آخر کو، انجامِ کار، بعد، بعد ازاں، اِس لیے، لہٰذا، تو‘۔ ’پسِ پشت‘ پیٹھ پیچھے، ’پسِ مرگ‘ مرنے کے بعد اور’پسِ پردہ‘ پردے کے پیچھے۔
’ماندہ‘ تھکے ہوئے اورخستہ حال کو کہتے ہیں۔ اُردو میں ’تھکا ماندہ‘ روزمرہ ہے۔ عام بول چال میں خوب استعمال ہوتا ہے۔ ’’سفر سے تھکے ماندے آئے تھے، آتے ہی سو گئے‘‘۔ ’ماندہ‘ کے معنی ’رہ جانے والا اور بچ جانے والا‘ بھی ہیں، جیسے ’باقی ماندہ‘۔ جو شخص خستہ حالی، بے چارگی اور پریشانی میں مبتلا ہو اُسے ’درماندہ‘ کہتے ہیں۔ پس اِس لفظ ’پسماندہ‘ میں پَچھڑنا اور بچھڑنا دونوں شامل ہیں۔ کسی نے پَچھاڑ دیا، پیچھے رہ گئے۔ کوئی تیز گام ہوا اور آگے بڑھ گیا تو سارے سست رفتار اُس سے بچھڑ کر رہ گئے۔ مرنے والے بھی تیزرَو مسافر ہوتے ہیں۔ بقول انشا اللہ خان انشاؔ:
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
سو، جس نے سفرِ زیست پہلے طے کرلیا، وہ منزل پر پہلے پہنچ گیا۔ پیچھے رہ جانے والوں کا شمار ’پس ماندگان‘ میں ہوا۔ چناں چہ ورثا اور سوگواران کو ’پسماندگان‘کہتے ہیں۔
اقوامِ عالم میں پَس ماندہ رہ جانے سے بچنے کے لیے تیز تیز چلنا پڑتا ہے۔ راہِ ہستی میں جو لوگ دَم بھر کے لیے بھی غافل ہوئے، یوں سمجھ لیجیے کہ وہ عمر بھر کے لیے حادثوں کے مقابل ہوئے۔ سست پڑنے والے زمانے کی چکی میں پِس جاتے ہیں اور مذکورہ خاتون کے الفاظ میں ’پِس ماندہ‘ ہوجاتے ہیں۔ بقولِ اقبالؔ:
یہ کاروانِ ہستی ہے تیز گام ایسا
قومیں کچل گئی ہیں جس کی رَوا رَوی میں
جو تیز رَو ہوتے ہیں، وہ پیش رَو ہوتے ہیں۔ ہم تو صرف پَیرو ہیں۔ پیروی کرنے میں طاق۔ نقّالی میں یکتا۔ ہر شعبے میں ’نقلی مال‘ بنانے کے ماہر۔ دنیا بھر میں ہمیں ’نقّال درجۂ اوّل‘ مانا جاتا ہے۔ جس شعبے میں بھی دیکھیے ہم فقط نقّالی ہی کررہے ہیں… تعلیمات میں، ابلاغیات میں اور طرزِ حیات میں۔
لیکن نقال کتنے ہی اچھے نقال کیوں نہ ہوجائیں، رہیں گے نقَّال کے نقَّال۔ ’نقل‘ کو کبھی ’اصل‘ کا مقام نہیں ملتا۔ سو ہمیں اپنا اصل مقام حاصل کرنے کے لیے اپنی اصلیت سے دست بردار نہیں ہونا چاہیے۔ تیسرے درجے کے انگریز کا مرتبہ حاصل کرنے کی تگ و دَو کرنے کے بجائے اوّل درجے کا پاکستانی بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمارا ایک ملک ہے، ہمارا ایک پرچم ہے اور ہماری ایک زبان ہے۔
صرف ابلاغیات کو لے لیجیے۔ برقی ذرائع ابلاغ پر چِلّا چِلّا کر خبریں پڑھنے کا آغاز اور سیاسی نشریوں میں مُرغے لڑانے کا انداز محض غیروں کی نقّالی میں اختیار کیا گیا ہے۔ سب سے دلچسپ تماشا اُس وقت دیکھنے کو ملتا ہے جب کوئی تازہ خبر اچانک آجائے۔ خبر خواں مرد ہو یا خاتون، غالباً انھیں حکم ہے کہ یوں اَدبدا، اَدبدا کر خبر سنائی جائے جیسے پاجامے میں بِھڑ گھس گئی ہو۔ کیا عجب کہ ’ریٹنگ‘ بڑھانے کے لیے گھسا بھی دی جاتی ہو۔ ’اَدبداکر‘ کا مطلب ہے مضطرب ہوکر، شدّت کے ساتھ، کثرت اور تواتر سے۔ جلالؔ کہتے ہیں:
دل کا نقصان جس میں ہوتا ہے
کام کرتا ہوں اَدبدا کے وہی
یہاں تو دل ہی کا نہیں، دماغ کا بھی نقصان ہوجاتا ہے۔ اب ہمارے نشریاتی اداروں میں ایسے دماغ کہاں جو ’’کسوٹی‘‘ جیسا علمی، معلوماتی، دلچسپ اور مہذّب کھیل ایجاد کرسکیں۔ برقی ذرائع ابلاغ کی بیش تر نشریات تقلید، پیروی اور نقّالی ہی کا نمونہ ہیں۔
پرانے پاپیوں کو تو نہیں، البتہ نئی نسل کو ہم یہ نیوتا دے سکتے ہیں کہ پیروی چھوڑیے، پیش رَو بن جائیے (نیوتا: پیام، دعوت، بلاوا)۔ اپنے عقاید، اپنے تمدن، اپنی تہذیب اور اپنی زبان کی مدد سے اپنا نظامِ ابلاغیات اور اپنی طرزِ حیات تشکیل دیجیے۔ غیر ملکی ثقافتی یلغار کے طوفان کا ڈٹ کر مقابلہ کیجیے۔ کیوں کہ بقول اسرارؔ ناروی (ابن صفی مرحوم):
جو موجِ طوفاں سے لڑ سکے گا اُسی کا دنیا میں نام ہوگا
جو اپنی کشتی میں بچ رہے گا وہی علیہ السّلام ہوگا