کتاب
:
میزانِ انتقاد و فکر
مصنف
:
پروفیسر غازی علم الدین
0345-9721331
صفحات
:
168 قیمت:600 روپے
ناشر
:
محمد عابد۔ مثال پبلشرز، رحیم سینٹر پریس مارکیٹ، امین پور بازار، فیصل آباد
فون
:
+92-041-615359,2643841
موبائل
:
0300-6668284
ای میل
:
misaalpb@gmail.com
پروفیسر غازی علم الدین حفظہ اللہ کا میدان تحریر و تحقیق، لسانیات، تنقید اور ادارت ہے۔ ساری عمر تعلیم و تدریس سے متعلق رہے۔ ان کے قلم سے درج ذیل کتب نکلی ہیں:
میثاقِ عمرانی، لسانی مطالعے، تنقیدی و تجزیاتی زاویے، لسانی زاویے، اردو کا مقدمہ، میزانِ انتقاد و فکر
اس کتاب ”میزان انتقاد و فکر“میں انہوں نے اپنے مضامین و مقالات جمع کردیے ہیں جو پہلے مختلف مجلات میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر تحریر فرماتی ہیں:
’’یادوں کی ایک پٹاری تو سب کے پاس ہوتی ہے لیکن ان یادوں کو سلیقے سے پیش کرنے کا ہنر کسی کسی کے پاس ہی ہوتا ہے۔ غازی علم الدین کی زیر نظر کتاب ’’میزانِ انتقاد و فکر‘‘ یادوں کی ایسی ہی ایک دھنک رنگ پٹاری ہے جو انہوں نے ہمارے سامنے کھول کر رکھ دی ہے۔ بائیس مضامین پر مشتمل اس کتاب میں وفیاتی شذرات بھی ہیں، شخصیات پر لکھے گئے مضامین بھی، کتابوں پر جائزے اور تبصرے بھی ہیں اور کالم بھی۔ اگر آپ مصنف کی اس بات کے قائل ہیں کہ مطالعہ دھنک رنگ ہونا چاہیے تو یہ کتاب آپ کو خوش گوار آسودگی سے ہم کنار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
جس طرح کسی بھی تاج میں جڑے موتیوں اور نگینوں میں سے ایک نگینے کی حیثیت بہرحال مرکزی ہوتی ہے، اسی طرح ان مضامین میں مرکزی مضمون (میری رائے کی حد تک) ’’آں قدح بشکست و آں ساقی نہ ماند‘‘ ہے، یہ ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش کی وفات کے حوالے سے لکھا گیا مضمون ہے، جس میں مصنف کی تخلیقی صلاحیت عروج پر ہے، آمد ہی آمد ہے!
زیر نظر کتاب شخصیات اور کتابوں کے گرد گھومتی ہے، کئی شخصیات اور کئی کتابوں کا تذکرہ آپ کو یہاں ملے گا۔ اس میں ایک طرف ممدوح کی شخصیت کی پرتیں کھلتی ہیں تو دوسری طرف غیر شعوری طور پر مصنف خود اپنی شخصیت کی نقاب کشائی کررہا ہوتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ جب کوئی تذکرہ نگار کسی شخصیت کے خاکے میں رنگ بھرنے میں مصروف ہوتا ہے تو فی الواقع وہ اپنی ذات کو بے حجاب کرنے کے عمل سے بھی گزر رہا ہوتا ہے، لہٰذا ان تحریروں میں بین السطور خود غازی صاحب کی نرم و دلکش شخصیت جھلکیاں لیتی ہے۔ ان کا مطالعہ، ان کا ذوق، ان کے مزاج اور ان کی فکر کی سلوٹیں کھلتی ہیں، یوں یہ کتاب صرف ظ۔ انصاری، مظہر محمود شیرانی، ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش، ڈاکٹر صابر آفاقی اور گل بخشالوی کی شخصیت نگاری ہی نہیں کرتی بلکہ خود غازی علم الدین کا تعارف بھی بن جاتی ہے، اور پھر اپنے ایک مصاحبے ’’میری مطالعاتی سرگزشت‘‘ میں تو ان کو پورے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان تحریروں میں کچھ سماجی تانے بانوں سے بھی پردہ اٹھتا ہے اور کچھ ادبی مسائل بھی زیر بحث آتے ہیں۔
شخصیت اور کتاب دونوں اپنی جگہ اہم ہیں، اس حوالے سے غازی صاحب کہتے ہیں:
’’علما اور نابغۂ عصر اپنے عہد کے روشن مینار اور چلتی پھرتی کتاب ہوتے ہیں۔ اُن کی صحبت کی تاثیر بلاشبہ کئی کتابوں کے مطالعے پر بھاری ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے انسان کی شخصیت، قبولیتِ تاثیر میں کتابوں سے بڑھ کر علمی شخصیات کی رہینِ احسان ہے، لیکن یہ باور کرلینا کہ شخصیات کی صحبت کتاب کے مطالعے سے مستغنی کردیتی ہے، میرے نزدیک قرین انصاف نہیں‘‘۔ (میزانِ انتقاد و فکر، ص 134)
غازی صاحب کا اپنا اسلوب ہے، جزئیات نگاری کمال کی کرتے ہیں، ایک ایک منظر کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ آنکھوں میں تصویر کھنچ جاتی ہے، بلکہ فلم چلنے لگتی ہے۔ وہ اپنی تحریروں میں ایک حقیقی منصف نظر آتے ہیں۔ بات صابر آفاقی کی کالم نویسی کی ہو یا ظ۔ انصاری کی علمی فتوحات کی، شاہدہ لطیف کی مزاحمتی شاعری کا ذکر ہو یا مظہر محمود شیرانی کی تحقیقات کا، غازی صاحب نے سب کے ساتھ انصاف برتا ہے! ایک خاص بات یہ ہے کہ غازی صاحب لسانیاتی حوالے سے کہیں چوکتے نہیں۔
غازی صاحب کتابوں پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لسانی اغلاط سے چشم پوشی نہیں کرپاتے، لہٰذا ’’صفر نامہ‘‘ کی تمام تر خوبیاں بیان کرنے کے بعد چند لسانیاتی اغلاط کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں، یہی ’’سلوک‘‘ نسیم سحر کی ’’محورِ دو جہاں‘‘ کے ساتھ کیا ہے، بہت کچھ کرنے کے ساتھ ساتھ بعض مقامات پر ’’یت‘‘ کی پخ کو مسترد کیا ہے، جس پر اپنے مظہر محمود شیرانی (مرحوم) بھی لعنت بھیج چکے ہیں۔
غازی صاحب کے مزاج میں مجھے یک گونہ رجائیت نظر آتی ہے، وہ کسی حال میں امید کے چراغ کو بجھنا تو دور کی بات، ٹمٹمانے کی اجازت بھی نہیں دیتے، وہ شاخِ امید کو ہر دم ہرا بھرا رکھنے کے قائل ہیں۔ یوں وہ تھکے ماندے اہلِ قافلہ کے لیے کسی مینارۂ نور سے کم نہیں۔ ان کی تحریریں مسلک گزیدگی سے پاک، ادبی دھڑے بندیوں سے بے نیاز، معروضیت اور رجائیت کی آئینہ دار ہیں۔
اس سے قبل وہ متنوع موضوعات پر متعدد کتابیں تحریر کرچکے ہیں جن کی ادبی و علمی حلقوں میں پذیرائی ہوئی۔ یہ کتاب بھی حسبِ سابق ان کی تصنیفی زندگی کا اہم سنگِ میل ثابت ہوگی، اس دعا کے ساتھ کہ وہ سوچنے اور لکھنے سے کبھی نہ تھکیں۔
ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین آباد‘‘
غازی صاحب نے مناسب عنوانات کے تحت اپنے مضامین و مقالات کو اس طرح درج کیا ہے:
شخصی مطالعے:
٭وہ آخری خوشبو تھی اس عہد کے پھولوں میں (آہ! ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی)، ٭ ظ انصاری، کیا شخص تھا!، ٭آں قدح بشکست و آں ساقی نہ ماند (ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش)، ٭عزم و ہمت کا کوہِ گراں (محمد الیاس ایوب)
نشترزنی: ٭نعت گوئی اور نعت خوانی میں خلافِ آداب عناصر
نقد و نظر:’’ارمغانِ پاک‘‘… ماضی کی عظمت کے ایوانِ ویران کا غم خیز نوحہ، ٭’’یوں نہیں، یوں! اور کچھ دیگر‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ، ٭ مصر کی محبت میں، ٭ سیرتِ طیبہ کا ایک تشنۂ انصاف گوشہ، ٭ایک حرف ظوئے یا معانی مثالی کی تجسیم!، ٭ ’’بقلم خود‘‘ (آزاد بن حیدر کی تاریخ آموز آپ بیتی)، ٭ ’’مباحثِ خطباتِ اقبال‘‘… نئی تفہیم کے ساتھ، ٭ نسیم سحر کی نعت نگاری کے اجزائے ترکیبی (’’محورِ دو جہاںؐ‘‘ کے تناظر میں)، ٭ ’’صدائے حکمت… اصلاحِ زبان کی قابلِ ستائش کاوش، ٭صفر نامہ مزاح نگاری میں تازہ ہوا کا جھونکا، ٭ زندہ دلی سے آگے
روبرو:٭ میری مطالعاتی سرگزشت
شعر و ادب: ٭جلیل عالی دی اک نظم دا فکری تے فنی ویروا، ٭ڈاکٹر صابر آفاقی کی صحافتی بصیرت، ٭ گل بخشالوی… ایک محبِ وطن شاعر، ٭سلگتے کشمیر کے تناظر میں مزاحمتی شاعری
ریڈیونشریے: ٭ریت رواج
رُوداد: قِرانُ السّعدین… تقریب بہر ملاقات
کتاب سفید کاغذ پر خوب صورت طبع ہوئی ہے، مجلّد ہے، حسین سرورق سے مزین ہے۔