کتاب
:
آنکھوں میں نمی رکھنا
(مجموعۂ کلام)
شاعر
:
ڈاکٹر محمد اورنگ زیب رہبرؔ
0300-9211008
صفحات
:
136 قیمت:300روپے
ناشر
:
اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی۔ ڈی 35، بلاک 5، فیڈرل بی ایریا، کراچی 75950
فون
:
(021)36809201-36349840
ای میل
:
irak.pk@gmail.com
ویب سائٹ
:
www.irak.pk
ڈاکٹر محمد اورنگ زیب رہبرؔ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں، اللہ جل شانہٗ نے جہاں ان میں طبیب ہونے کی صلاحیتیں عطا کی ہیں، وہیں ان کو اسلام کا سچا پیروکار بھی بنایا ہے، اس کے علاوہ ان میں شعر کہنے کی صلاحیت بھی رکھی ہے جو کبھی کبھی کسی قومی محرک کے تحت شعری شکل میں ظہور کرتی ہے۔ علامہ خلیل الرحمٰن چشتی مدظلہ تحریر فرماتے ہیں:
’’اچھی شاعری سچی شاعری ہوتی ہے۔ اسلام سب سے بڑی سچائی ہے، بلکہ صرف اور صرف واحد سچائی ہے۔
ہر شاعر کا بڑا شاعر ہونا ضروری نہیں۔ ہمارے معاشرے میں شعرا خودرو پودوں کی طرح ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ ایسے میں اسلام اور حق کے نام لیوائوں کا وجود ایک نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ زمانۂ رسالت میں حضرت عامر بن الاکوعؓ، حضرت ابن مالکؓ، حضرت عبداللہ بن رواحہؓ اور حضرت حسان بن ثابتؓ نے حق کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ باطل کی ہجوکی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’یہ اظہار ہے، اس کا اچھا پہلو حسین، خوب صورت (نافع) ہے، اور اس کا قبیح پہلو بدنما فحش (مضر) ہوتا ہے‘‘۔ (مسندابی یعلیٰ:4760، حسن)
ڈاکٹر اورنگ زیب نے اپنی اسلامیت کو چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی، ان کے نزدیک یہ جہاد بھی ہے اور عبادت بھی۔ ان کے مترنم نغمے زمانۂ طالب علمی ہی سے طلبہ اور نوجوانوں کے خون کو گرماتے رہے ہیں۔ وہ نوجوان نسل کو امیدوں، آرزوئوں اور خوابوں سے مالامال کرتے رہے ہیں:
جن آنکھوں میں خواب نہیں مہتاب نہیں
ان آنکھوں کے موسم بھی شاداب نہیں
وہ نفاق زدہ معاشرے کی لذتِ گفتار پر چوٹ کرتے ہیں:
بادل آئیں مینہ نہ برسے، پھول کھلیں اور باغ نہ مہکے
رہبرؔ دنیا کیا بدلے جب ہوں کردار سے خالی باتیں
ڈاکٹر اورنگ زیب نے ایسے سادہ لیکن پُرمغز شعر لکھے ہیں کہ انسان حیرانی کے سمندر میں غرق ہوجاتا ہے۔
وہ مرے عین سامنے ہوگا
سوچتا ہوں کہ کیا گھڑی ہوگی
قیام پاکستان کو 74 سال ہونے کو ہیں لیکن اسلامی معاشرے کے قیام کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے، لیکن ڈاکٹر صاحب مایوس نہیں:
یہ دیس جگمگائے گا نورِ لا الٰہ سے‘‘
جناب احمد حاطب صدیقی (ابونثر) جو خود بھی شاعر اور ادیب ہیں، لکھتے ہیں:
’’اسلام اور پاکستان سے محبت رکھنے والے حلقوں میں ڈاکٹر محمد اورنگ زیب رہبرؔ بہت محبوب اور مقبول شاعر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر رہبرؔ کا ایک ترانہ وطنِ عزیز پاکستان کے گوشے گوشے میں زباں زدِ خاص و عام ہوکر ملتِ اسلامیہ پاکستان میں عوامی مقبولیت حاصل کرچکا ہے۔ بھلا کون ہے جس نے یہ ترانہ سن کر ایک نیاعزم اور حوصلہ نہ پایا ہو:
یہ دیس جگمگائے گا نورِ لا الٰہ سے
سکون و چین آئے گا نورِ لا الٰہ سے
رہبرؔ کی شاعری ولولہ انگیز جذبات کی شاعری ہے۔ ان کے اشعار میں ایسا سحر ہے جو دلوں کو موہ لیتا ہے اور پُراثر کلام وہ ہے جو قلب و ذہن میں جاگزیں ہوجائے، فکرو عمل کے نئے دریچے کھول دے اور ایک نئی دنیا کی نوید عطا کرے۔ رہبرؔ کے کلام میں یہ تمام خوبیاں موجود ہیں۔ ان کا تخلص بھی کوئی تعلی نہیں، فی الواقع وہ اپنی شاعری کے ذریعے سے رہبری ہی کرتے ہیں۔
ارادتاً کی جانے والی نظریاتی شاعری بالعموم ایک کھوکھلا پروپیگنڈا بن کر رہ جاتی ہے۔ شوکتِ الفاظ سے مملو اور نعرے بازی سے مزین۔ دیکھا گیا ہے کہ اکثر نظریاتی شعرا کی شاعری اُن کے دل کی آواز نہیں ہوتی، دوسروں کے افکار کا آہنگ بن کر رہ جاتی ہے۔ لیکن اگر عقیدہ و نظریہ دل و دماغ کا جزوِ لاینفک بن جائے، قلب و روح میں رچابسا ہو اور پوری شخصیت کا جذباتی حصہ ہوچکا ہو تو سچی شاعری معرضِ ظہور میں آتی ہے۔ ذرا یہ اشعار ملاحظہ فرمایئے:
نہ منزلوں کا پتا ہے، نہ راستے کی خبر
یہ قافلہ یونہی پھرتا رہا اِدھر سے اُدھر
ہوس گزیدہ نگاہیں، خزاں رسیدہ چمن
خدا کو بھولنے والوں کا اور کیا ہے ثمر؟
نظر نظر کی طرح ہے، نہ دل ہی دل کی طرح
خموشیوں کا چلن اور بے حسی کا سفر
رہبرؔ ایک حساس دل رکھتے ہیں اور حالاتِ حاضرہ کی نامساعد صورتوں کا حل صرف رب کی طرف رجوع کرنے میں دیکھتے ہیں۔ کورونا کی وبا کے حوالے سے یہ اشعار دیکھیے:
ایسی مشکل ہے کہ ہر وہم و گماں سے باہر
اے خدا کچھ بھی نہیں تیری اماں سے باہر
خوف میں لپٹی ہوئی چاندنی سر پہ اُتری
دھوپ رنجیدہ ہے اب میرے مکاں سے باہر
ظلم و عصیاں سے پلٹ آئیں خدا کی جانب
لوگ نکلیں تو سہی اپنے گماں سے باہر
غلبۂ اسلام کی جدوجہد کرنے والے نوجوان، ڈاکٹر اورنگ زیب رہبرؔ کی نظر میں، ملت کا سرمایہ ہیں۔ ایک آزاد نظم میں کہتے ہیں:
’’جواں مسافر
سراب سے جو نکل چکے ہیں،
حیات کی شاہراہ پر ہیں،
جو ہر زمانے کی روشنی ہیں، ہر اک زمانے میں معتبر ہیں‘‘
رہبرؔ کے دل میں امت کا درد انہیں ہر سانحے پر بے چین رکھتا ہے۔ کشمیری مسلمانوں پر ہونے والے مظالم ہوں یا فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک… وہ ملت کی ہر تکلیف پر تڑپتے ہیں۔ جہاد کی عظمت اجاگر کرنے والے شیخ احمد یٰسین کی شہادت پر کہتے ہیں:
خدا کی راہ میں جدوجہد پہ حجت ہے
تمھاری زیست تو سرمایۂ عزیمت ہے
شہیدِ راہِ وفا قافلہ تھمے گا نہیں
حیاتِ نو سے عبارت تری شہادت ہے
کوئی حساس شاعر اپنے قریبی ماحول سے لاتعلق کیسے رہ سکتا ہے؟ کراچی کے حالات پر کراچی کے ہر شہری کی طرح رہبرؔ بھی دل گرفتہ تھے۔ سو، شہر کراچی سے نفرتوں کی فضا کے خاتمے پر وہ اپنی پُرامید نظم میں کہتے ہیں:
خدا کی راہ میں بہتے ہوئے لہو کا ثمر
یہ کاروانِ عزیمت، یہ روشنی کا سفر
نشانِ عظمتِ رفتہ، نویدِ فتح و ظفر
فصیلِ آخرِ شب گر گئی، مبارک ہو
ڈاکٹر اورنگ زیب رہبرؔ نظم ہی کے نہیں، غزل کے بھی بہت عمدہ شاعر ہیں۔ ان کی غزلوں سے چند اشعار کا انتخاب ملاحظہ فرمایئے:
آپ کے خیال میں غم بھلا دیے گئے
خوشبوئیں بکھر گئیں، گھر سجا دیے گئے
……٭٭٭……
ہم تو سب کچھ بھلا کے بیٹھے ہیں
آپ کیا کیا شمار کرتے ہیں
……٭٭٭……
کچھ بھی تو نہیں بدلا واعظ کی نگاہوں نے
مشکل بھی وہی ٹھہری، وعدے بھی وہی ٹھہرے
……٭٭٭……
ڈاکٹر محمد اورنگ زیب رہبرؔ کا مجموعہ کلام ’’آنکھوں میں نمی رکھنا‘‘ رنگارنگ افکار کا مرقع ہے۔ اس میں شخصیات کی منقبت بھی ہے، واقعات پر نظمیں بھی ہیں، جذبات کو مہمیز دینے والے ترانے بھی ہیں اور جوئے نغمہ خواں کی طرح گنگناتی غزلیں بھی۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ ڈاکٹر رہبرؔ کو تندرست و توانا رکھے اور ہم اُن کی توانا شاعری سے محظوظ ہوتے رہیں۔ آمین‘‘۔
ان کی ایک بامقصد اور عمدہ نصیحت سے بھرپور غزل ملاحظہ ہو:
جب بھی موقع ملے تلاوت ہو
زندگی میں بڑی حلاوت ہو
ذکر و توبہ، نماز و صدقہ
ہر مصیبت میں اپنی طاقت ہو
معاف کر دیجیے، دعا کیجیے
فائدہ کیا ہے گر عداوت ہو
جس سے ملیے، خوشی خوشی ملیے
وسعتِ قلب ہو سخاوت ہو
ہاتھ میں ہو عَلَم محبت کا
ظلم و عصیان سے بغاوت ہو
کام ایسے کیا کرو رہبرؔ
نیک نامی کی جو کہاوت ہو
کتاب خوب صورت طبع ہوئی ہے۔ مجلّد ہے۔ رنگین سرورق سے مزین ہے۔ کتاب کا نام ان کے اس شعر سے مستعار ہے:
طوفانوں کے ٹلنے میں، موسم کے بدلنے میں
اِک سوزِ دروں رکھنا، آنکھوں میں نمی رکھنا
nn