زندگی سے بھرپور ماں کا دودھ قدرت کا انمول تحفہ

”ڈاکٹر صاحب! اس میں ہم نے فلاں چیز شامل کردی ہے جو بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو بڑھانے کا کام کرتی ہے، اور یہ بھی شامل کردیا ہے (اس نے ایک کیمیکل کا نام لیا) جس سے بچوں کی بینائی تیز ہوتی ہے۔“
”ایک منٹ، یہ بتاؤ اس میں سے کون سی چیز ہے جو ماں کے دودھ سے ہٹ کر اضافی ہے؟“
”جی سب ہی شامل ہیں، کوئی اضافی چیز نہیں۔“
”تو پھر ماں کا دودھ کیوں نہیں؟ جس میں تمہاری بتائی ہوئی چیزوں سے بھی زیادہ چیزیں شامل ہیں۔ ماں کے دودھ میں کیا کچھ ہے شاید ہمیں ابھی اس کا صحیح طرح سے پتا نہیں، ورنہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ماں کے دودھ کے سوا کسی اور دودھ کا سوچیں۔“
بالکل منفرد غذا، ماں کا دودھ… پروٹین، چکنائی، اور گلوکوز کی قسم لیکٹوز پر مشتمل… ہزار سے زائد مختلف پروٹینز، کئی ہارمونز… اینٹی باڈیز، سفید خون کے ذرات، ننھے بڑھتے ہوئے جسم کے لیے گروتھ فیکٹرز، آئرن (Lactoferin) کی وہ قسم جو جلد دستیاب، زیادہ آسانی سے ہضم ہوجائے… معدنیات یعنی کیلشیم، میگنیشیم، میگنیز، مولیبینڈم، زنک کا خاص تناسب، پروبائیوٹک یعنی وہ فائدہ مند بیکٹیریا جو نومولود کی آنتوں میں دودھ کے ذریعے پہنچ کر اس میں اپنی کالونی بنائیں تاکہ جراثیم کو داخل ہونے سے روک سکیں اور بچے کو انفیکشن سے متاثر نہ ہونے دیں۔
ایک ایسی غذا جو خاص آپ کے بچے کے لیے مالکِ کائنات کی طرف سے اتاری گئی، جو بالکل منفرد ہے… یوں سمجھیں کہ آرڈر پر تیار ہوئی کوئی چیز۔
ماں کے دودھ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے:
کولسٹرم یعنی ابتدائی دودھ، جس کی ماہیئت (Composition) الگ، شروع کے پانچ دن۔ کم مقدار مگر زیادہ انرجی۔ چند قطروں سے ایک اونس پانچ دن میں۔ اس میں موجود مخصوص اینٹی باڈیز SIgA)) نومولود کے منہ سے لے کر آنت کے آخری سرے تک اس کو کوٹنگ کرکے بیماریوں سے بچاتی ہیں۔ سفید خون کے ذرات لاکھوں کی تعداد میں دودھ کے ذریعے بچے کے جسم میں داخل ہوکر جراثیم سے بچاؤ کا انتظام کرتے ہیں، اور جب ماں بچے کو ٹچ کرتی ہے، پیار کرتی ہے تو اس کے جسم سے ماں کے جسم میں منتقل ہونے والے جراثیم۔ ماں ان جراثیم کے خلاف اپنے جسم میں اینٹی باڈیز بناتی ہے، اور وہ دودھ کے ذریعے بچے کے جسم میں داخل ہوتی ہیں اور بچاؤ کا انتظام شروع ہوجاتا ہے۔
پانچ دن کے بعد دودھ کولسٹرم سے درمیانی مدت کا دودھ (Transitional Milk) میں تبدیل ہوجاتا ہے، جو کولسٹرم سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کے اندر پروٹین کا تناسب جسمانی ضروریات کے حساب سے تبدیل ہوجاتا ہے۔ پانچ دن سے دو ہفتے تک اس دودھ کی پیداوار بڑھتی ہے، اور اب اس میں شامل اجزاء بھی مختلف ہوجاتے ہیں۔ ماں کے دودھ میں دو پروٹین Whey اور Casein زیادہ مقدار میں شامل ہوجاتے ہیں۔
اس Transitional milk (درمیانی مدت کے دودھ) میں پروٹین کا تناسب Whey/ Casein 60/40 ہوجاتا ہے جو کہ کولسٹرم میں زیادہ تھا۔
اس ابتدائی دور میں بچے کے دماغ کی نشوونما بہت تیزی سے ہوتی ہے جب کہ جسم آہستہ آہستہ بڑھتا ہے، اور اس مقصد کے لیے Whey پروٹین کی مقدار خاص تناسب میں چاہیے جو کہ کسی اور دودھ میں نہیں۔ مثلاً گائے کے دودھ میں یہ تناسب 80/20 Whey/ Casein کا ہے، اس لیے بچے کے لیے صرف ماں کا دودھ ہی مناسب ہے، اور گائے کا دودھ ایک سال کی مجموعی عمر کے بعد۔
یہ Whey پروٹین اینٹی بیکٹیریا صلاحیت کے بھی حامل ہوتے ہیں، ان پروٹین کے ذریعے سارے Amino acid جو کہ نئے بچے کے لیے ضروری ہیں، ہارمونز، Enzymes، گروتھ فیکٹر، Stem cell جو کہ جادوئی سیل کہلاتے ہیں، اس کے علاؤہ یہ اسٹیم سیل ماں کے دودھ کے ذریعے بچے کے جسم میں داخل ہوتے ہیں اور جسم کے مختلف حصوں تک پہنچ کر وہاں اس حصے کے مطابق کام کرنے کی صلاحیت حاصل کرلیتے ہیں، یعنی یہ ڈھلنے والے زندہ سیل ہیں… سائنسی ریسرچ کا ایک نیا جہان، جس کے ذریعے بہت ساری بیماریوں کا علاج مستقبل میں ممکن ہے۔
دو ہفتے بعد ماں کا دودھ پختہ (Mature) دودھ کہلاتا ہے جس میں اب بہت زیادہ تغیر نہیں ہوتا، اور صرف ضرورت کے حساب سے مقدار بڑھتی اور گھٹتی رہتی ہے۔
تینوں مراحل میں ماں بچے کو وہ خاص دودھ پلاتی ہے جو اس کی ضروریات کے عین مطابق ہوتا ہے۔
اسی طرح پری میچور بچے کا دودھ اور اس کی ماہیئت، وقت پر پیدا ہونے والے بچے کے مقابلے میں مختلف ہوتی ہے۔ قدرت کا کیسا زبردست انتظام ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ ”دودھ کم ہے“ والی بات بہت ہی کم ہوتی ہے۔ بچہ جتنا زیادہ ماں کے دودھ کو چوسے گا، اتنا ہی بہتر دودھ اس کو ملتا رہے گا۔
ماں چاہے پاکستان کی ہو یا امریکہ کی… اس کے بچے کو دودھ اس کی ضرورت کے مطابق ملتا رہتا ہے۔ اور خاص بات یہ کہ ماں جو غذا استعمال کرے گی اُس کی خصوصیات دودھ کے ذریعے بچے تک پہنچ جائیں گی، (باقی صفحہ 41پر)
اور بچہ مستقبل میں جب کھانے کے قابل ہوگا تو اس کو ان غذاؤں سے عموماً کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ ہاں البتہ غذا کی مقدار اور پانی کی کمی کا ماں کی صحت پر اثر ہوگا جو اس کے دودھ میں کمی کا باعث بن سکتا ہے۔ کوئی خاص غذا ماں کے لیے مخصوص نہیں، وہ سب کچھ لے سکتی ہے۔
ماں کے دودھ میں ہزاروں ایسی چیزیں شامل ہیں جو آج کے دن تک کسی اور دودھ میں شامل نہیں۔
اینٹی باڈیز سے لے کر زندگی سے بھرپور Stem Cell، جراثیم سے لڑنے کی صلاحیت والے سفید خون کے ذرات، نشوونما کے لیے ضروری گروتھ فیکٹر، مختلف اقسام کی سو سے زائد Oligosaccharides جو انسانی اعضاء سے لے کر حفاظتی انتظامات کے لیے کارآمد، ہزار سے زائد پروٹین جن میں ضروری Amino acids، سائٹوکائنز، چکنائی کی خاص قسم MCT/ Medium Chain Fat، ہارمونز، معدنیات، وغیرہ وغیرہ۔
اب کچھ بات اُن ماؤں کے لیے جو بچے کو اپنا دودھ تو پلانا چاہتی ہیں مگر اپنی گھر سے باہر کام کی مصروفیات کے باعث مجبوراً کوئی اور دودھ بھی دینا چاہتی ہیں۔
کیا آپ کو علم ہے ماں کے دودھ کو محفوظ بھی کیا جاسکتا ہے؟ جی بالکل۔ مائیں اپنے فارغ اوقات میں یا کام کے اوقات میں بھی دودھ کو پمپ کریں اور محفوظ کریں۔
فریج میں چار ڈگری سینٹی گریڈ تک یعنی فریج کے نچلے خانے میں کم از کم دودن تک، اور اگر چاہیں تو فریزر یعنی اوپر والے خانے میں محفوظ کرتے ہوئے اس کو چھ ماہ تک جما دیں، فریز کردیں۔
اب جب پلانا چاہیں تو اس کو کمرہ کے درجہ حرارت پر یا ہلکے گرم پانی کے برتن میں رکھ کر بچے کے لیے پینے کے قابل بنا سکتی ہیں۔
فریزر یا فریج سے نکالے ہوئےدودھ کو چولہے پر یا مائیکروویو میں بالکل بھی گرم نہیں کیا جاسکتا۔
ایک مرتبہ فریج یا فریزر سے نکال کر دوبارہ فریز نہیں کرسکتے۔
یعنی گھر سے باہر جاب کرنے والی مائیں بھی اپنے بچوں کو محفوظ کیا ہوا دودھ اپنی غیر موجودگی میں پلوا سکتی ہیں۔
بچوں میں الرجی سے لے کر ذیابیطس اور دیگر بیماریوں میں خاطر خواہ کمی ماں کا دودھ پلانے سے ممکن ہے۔
ہر بچے کے لیے اُس کی ماں کا دودھ منفرد اور خاص اس کی ضروریات کے مطابق ہے۔ قدرت کے اس تحفے کی قدر کیجیے۔