ضلع ہزارہ:پوسٹ گریجویٹ کالج مانسہرہ لاکھوں کی آبادی میں لڑکوں کا واحد کالج

مانسہرہ کا شمار صوبے کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ لاکھوں کی آبادی کے اس شہر میں لڑکوں کا صرف ایک کالج ہے جو کہ آج سے 75 سال پہلے قائم کیا گیا تھا، جس کا نام پوسٹ گریجویٹ کالج مانسہرہ ہے۔ یہ کالج دہائیوں سے اس شہر کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کررہا ہے جس میں ابھی تک خاصی حد تک کامیاب رہا ہے۔ مگر پچھلے چند سال میں بی-ایس سسٹم کے قیام کی وجہ سے مانسہرہ میں اعلیٰ تعلیم کے حصول میں دشواریوں کا سامنا ہے اور یہ کالج اتنے طلبہ و طالبات کا بوجھ اٹھانے سے قاصر نظر آتا ہے جس کی تفصیل یہ ہے:
بی ایس سسٹم کی وجہ سے اس کالج میں اب لڑکے اور لڑکیاں دونوں داخلہ لے سکتے ہیں۔
شہر میں لڑکیوں کے پہلے سے دو کالج ہونے کے باوجود اس کالج کے اعلیٰ تعلیمی معیار کی وجہ سے زیادہ طالبات یہاں کا رخ کرتی ہیں (جو کہ ان کا بنیادی حق ہے کہ بہتر تعلیمی ادارے میں داخلہ لیں)۔ اس بنا پر لڑکوں کے لیے بی-ایس سسٹم میں داخلے کے واحد ذریعے کو اور بھی محدود کردیا گیا ہےٍ جس کی وجہ سے ہر سال ہزاروں بچے یونیورسٹی کی مہنگی تعلیم برداشت نہ کرسکنے، اور کالج میں داخلہ نہ ملنے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرپاتے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان نوجوانوں کی صلاحیتیں ضائع ہو جاتی ہیں اور مزید یہ کہ اعلیٰ تعلیم میں ہمارا شہر باقی شہروں کی نسبت خاصا پیچھے ہے۔
موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ مانسہرہ کالج کے 13 شعبوں کی کُل 520 نشستوں کے لیے دو ہزار سے زائد درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے 60 فیصد درخواستیں طالبات کی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس صورتِ حال میں یہ بچے کہاں جائیں؟ کس کے دروازے پر دستک دیں؟ یونیورسٹی جائیں تو جواب ملتا ہے کہ یہ کوئی خیراتی ادارہ نہیں، اور کالج میں مزید داخلوں کی گنجائش نہیں۔
اس لیے بابر سلیم سواتی صاحب و دیگر اربابِ اختیار سے تہِ دل سے میری اور مانسہرہ کی نوجوان نسل کی طرف سے گزارش ہے کہ مانسہرہ میں جلد از جلد ایک نئے بوائز کالج کا قیام عمل میں لایا جائے، تاکہ ہمارے یہ نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ملک و قوم کے لیے ایک مفید شہری ثابت ہوسکیں۔
اس وقت مانسہرہ میں کئی ایسی سرکاری عمارات خالی پڑی ہیں جہاں کالج کو عارضی بنیادوں پر شروع کرکے بچوں کا مستقبل تباہ ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔
……
ڈی پی او بٹگرام طارق محمود نے کہا ہے کہ منشیات کا کاروبار کرنے والے معاشرے میں ناسور کا کردار ادا کررہے ہیں اور نوجوان نسل کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ منشیات دیگر جرائم مثلاً چوریوں اور ڈکیتیوں کا بھی مؤجب بنتی ہے۔ علاقہ مشران اور نوجوان اس ناسور کو ختم کرنے کے لیے پولیس کے ساتھ تعاون کریں، ایسے مجرموں کی ضمانت نہ کرنے کی گارنٹی دیں اور ان کا معاشرتی بائیکاٹ کریں تو اس ناسور سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اصلاحی کمیٹی اجمیرہ کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ جہیز جیسی رسم بھی ختم ہوسکتی ہے اگر اہلِ علاقہ متفق ہوں۔ ہوائی فائرنگ کرنے والوں سے سختی سے نمٹیں گے اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے کسی کی سفارش کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔ اجمیرہ اصلاحی(باقی صفحہ 41پر)
کمیٹی کے وفد نے ڈی پی او بٹگرام طارق محمود کو اپنی کمیٹی کے مقاصد سے آگاہ کیا، وفد نے ڈی پی او سے کہا کہ ہم اپنے گاؤں سے منشیات جیسی لعنت اور جہیز جیسی فرسودہ رسموں کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور ہوائی فائرنگ پر پابندی کے مکمل حامی ہیں، اس کے لیے پولیس کے ساتھ بھرپور تعاون کریں گے اور اس قسم کی حرکات کے مرتکب لوگوں کا مکمل بائیکاٹ کریں گے۔
…….
سی پیک ہزارہ موٹر وے کے سائن بورڈز پر بٹگرام کا نام نہ لکھنے کے معاملے کے متعلق قوم پیرزائی ملکال کے مشر اور بٹگرام نوجوانوں کی پسندیدہ شخصیت فیاض محمد جمال خان نے این ایچ اے کی ہائی اتھارٹی کو تحریری درخواست دی تھی، جسے منظور کرلیا گیا۔ اب بہت جلد ہزارہ موٹر وے اور سی پیک کے سائن بورڈز پر بٹگرام کا نام لکھ دیا جائے گا۔
یاد رہے اس مسئلے کو ڈپٹی کمشنر بٹگرام نے کئی بار این ایچ اے حکام کے سامنے اٹھایا، اور خطوط بھی لکھے گئے کہ ہزارہ موٹر وے اور سی پیک کے سائن بورڈز پر بٹگرام کا نام لکھا جائے، لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود ان درخواستوں پر کسی قسم کا عمل درآمد نہیں کیا گیا تھا۔