بلوچستان سیاسی بحران کی زد میں

بدامنی اور دہشت گردی بلوچستان کا سنگین اور توجہ طلب مسئلہ ہے، جبکہ شفافیت اور اچھی حکمرانی عوام کی تمنا و خواہش ہے۔ امن کا خواب اگر تشنہ ہے تو اس کے کئی پہلو اور وجوہات ہیں۔ بعینہٖ شفافیت اور گورننس کی راہ میں اندرونی و بیرونی عوامل شامل ہیں۔ جب بھی کوئی اچھی پیش رفت ہوتی ہے تو مشکلات و مسائل کھڑے کردیے جاتے ہیں۔ نظام کی بربادی میں سیاسی و غیر سیاسی عناصرکے چہرے بھی بے پردہ نہیں۔ دراصل بلوچستان کا بڑا مسئلہ اشرافیہ کی حکومتیں ہیں جو نظام کے تسلسل میں حائل چلی آرہی ہیں۔ یہی اشرافیہ بگاڑ اور خرابیوں کی ماں ہے۔ صوبے کے اندر حالیہ سیاسی بحران اسی مائنڈ سیٹ کا پیدا کردہ ہے۔ عجب تو یہ ہے کہ جام کمال کی رقابت میں کوئی معقول عذر یا دلیل پیش کرنے کے بجائے گورننس کی ابتری کا کمزور مؤقف اپنایا گیا ہے۔ متحدہ حزبِ اختلاف لمحہ بہ لمحہ ان کی صفوں میں شامل رہی ہے۔ سردار اختر مینگل کہتے ہیں کہ بلوچستان حکومت کو گرانے میں ان کے دھکے کی ضرورت پڑی تو وہ دھکا ضرور دیں گے۔ دیکھا جائے تو سردار اختر مینگل کی پارٹی ہر لحاظ سے جام مخالف دیدہ و نادیدہ افراد کے شانہ بشانہ ہے، اور یہ بات بھی واضح ہے کہ حکومت کے بجائے محض جام کو ہٹانے کے لیے ہاتھ پائوں مارے جارہے ہیں۔ جنہیں سیاسی اسٹیج پر برا بھلا کہا جاتا ہے اُنھی کے ساتھ سردار اختر مینگل، مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کی جماعتوں کے اراکینِ اسمبلی بغل گیر ہیں۔ کوئی اجنبی اور ناتجربہ کار گمراہ ہو تو الگ بات ہے، یہاں تو گندی سیاست کے مارے ہی مکروہ سیاست کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ کیا ایسے میں ماضی میں جمہوری عمل کے خلاف محلاتی سازشیں درست تسلیم نہ کی جائیں؟ یعنی کیا7 دسمبر 1970ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی نیشنل عوامی پارٹی ( نیپ) اور جمعیت علمائے اسلام کی مخلوط حکومت جہاں سردار عطاء اللہ مینگل وزیراعلیٰ بنے تھے،کے خلاف پیپلز پارٹی کا وار صحیح عمل تھا؟ 1993ء میں تاج جمالی کو ہٹا کر نواب ذوالفقار علی مگسی کا وزیراعلیٰ بننا اگر درست تھا، تو یقیناً فروری1998ء میں سردار اختر مینگل کی حکومت گرا کر میر جان محمد جمالی کا وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر بیٹھنا بھی غلط اقدام نہ تھا۔ حیرت ہے نواب اسلم رئیسانی بھی قبیح روایات میں حصہ ڈال رہے ہیں، حالاں کہ وہ خود ایسی آزمائش سے گزر چکے ہیں۔ ان کی حکومت بدامنی اور بدانتظامی کے الزامات کے تحت معطل کرکے 14 جنوری 2013ء کو صوبے میں گورنر راج نافذ کیا گیا۔ اگر جام کمال کے خلاف سازش جائز سمجھی جاتی ہے تو آصف علی زرداری کا صوبے میں گورنر راج کا نفاذ بھی صائب فیصلہ تھا؟ تعجب ہے نواب ثناء اللہ زہری اب کہتے ہیں کہ انہوں نے وزارتِ اعلیٰ کی کرسی کو ٹھوکر ماری ہے۔ یہ تو کل کی بات ہے کہ کس کس طرح نواب ثناء اللہ زہری ان دیدہ و نادیدہ چہروں کے آگے عاجز بن گئے تھے، مستعفی ہونے پر مجبور کیے گئے تھے۔ اگر نواب زہری اُن لوگوں کی جانب مائل ہوتے ہیں جنہوں نے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا، تو ایسے میں نواب زہری کی حکومت کا انہدام بھی ٹھیک اقدام و فیصلہ سمجھا جائے گا۔
ہونا یہ چاہیے کہ صوبے کے اندر فساد کی سیاست کا خاتمہ ہو۔ سیاسی جماعتیں اور شخصیات وقتی اور جزوی مفاد کے بجائے جان دار روایات کی معمار بنیں۔ وگرنہ صوبہ یونہی اپنوں اور غیروں کے ہاتھوں پستی و گراوٹ کا نمونہ بنتا رہے گا۔
جام کمال کی یہ بات درست ہے کہ انہوں نے وزیراعلیٰ ہائوس کو بروکرز، ٹھیکیداروں، ٹرانسفر پوسٹنگ کے دلالوں کا ٹھکانہ نہیں بننے دیا۔ بی این پی عوامی کے اسد بلوچ، بی اے پی کے ظہور بلیدی، لالہ رشید، سکندر عمرانی، سردار عبدالرحمان کھیتران، جان جمالی، اکبر آسکانی سمیت کوئی وزیر، مشیر اور پارلیمانی سیکریٹری محروم نہ رہے۔ ان وزراء اور اراکینِ اسمبلی کے حلقوں میں ان کی مرضی و خواہش کے مطابق ترقیاتی فنڈز جاری کیے جاچکے ہیں۔ یقیناً مجرم ہیں وہ لوگ اور حلقے جنہوں نے صوبے پر نشے کی لت میں مبتلا، قزاق صفت اور منشیات کے اسمگلروں کو مسلط کیے رکھا ہے۔ حسبِ منشا تبدیلی کی بھنک پڑتی ہے تو ٹھیکیدار اور تاجر متحرک ہوجاتے ہیں۔ حیرت ہے کہ عبدالقدوس بزنجو 8اکتوبر کو رات ڈیڑھ بجے اسلام آباد سے خصوصی طیارے میں کوئٹہ آتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ایئرکرافٹ سیلز اینڈ سروسز (پرائیویٹ) لمیٹڈ کا ’’لیئر جیٹ طیارہ ‘‘چارٹر کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اس کے اخراجات کس نے اور کس مقصد کے لیے کیے ہیں؟ نواب زہری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران آصف علی زرداری نوازشات کرچکے تھے۔ عبدالقدوس وزیراعلیٰ بنے تو پیپلز پارٹی کے قیوم سومرو نے انہیں وزیراعلیٰ کی کرسی پر بٹھایا، ساتھ کہا کہ قدوس بزنجو ان کا آدمی ہے۔ اس چھے ماہ کی حکومت میں وہ کچھ ہوا جس کی نظیر نہیں ملتی۔ آواران سمیت ترقیاتی منصوبوں پر غریب صوبے کے آٹھ ارب روپے غت ربود ہوئے، اور برسرِ زمین کچھ دکھائی نہیں دیا۔ اس ذیل میں وزیراعلیٰ انویسٹی گیشن ٹیم اور پاک فوج کے 41 ڈویژن کے کمانڈر کی رپورٹ چشم کشا ہے۔ آواران صوبہ بلوچستان کا انتہائی شوریدہ خطہ ہے جہاں امن و امان کی فضا اطمینان بخش نہیں ہے۔ وہاں فوج اور دوسری فورسز مختلف ذمے داریاں نبھا رہی ہیں۔ سو فوج کی بدنامی کا خدشہ پیدا ہوا۔ اُس وقت لیفٹیننٹ جنرل عامرریاض کمانڈر سدرن کمانڈ تھے، تب تحقیقات میں بدعنوانی کی نشاندہی ہوئی۔ جنرل عامر ریاض ترقیاتی فنڈز کے بے دردی سے ہڑپ کیے جانے پر تشویش میں مبتلا تھے، اور یقیناً وہ اس معاملے کے گواہ ہیں۔ چناں چہ سوال یہ ہے کہ پھر کیوں جام کمال کی حکومت متزلزل کی جارہی ہے؟ کیوں دانستہ صوبے کو بحران میں دھکیلا جارہا ہے؟ باپ پارٹی سے وابستہ جام مخالف بعض اراکینِ اسمبلی کے محکموں کے اندر بدعنوانی کی فائلیں نیب کے پاس موجود ہیں۔ یہاں عام مشاہدہ یہ ہے کہ جب سیاسی وفاداری تبدیل کرانا ہوتی ہے، تب نیب کارروائی شروع کرتا ہے۔ گویا نیب کی بروقت کارروائی سے گریز کی وجہ بدیہی طور پر یہی ہے۔ عوام کو البتہ دلچسپی اس امر میں بھی ہے کہ جام کے خلاف بغاوت میں ساتھ دینے پر کس کو کتنا دینے کا وعدہ ہوا ہے؟ اس مقصد کے لیے خطیر رقم کہاں سے آئی ہے؟ یقیناً متحدہ حزب اختلاف کسی اصول یا خدا واسطے اس سیاہ کھیل میں شریک نہیں۔ تحریک انصاف مخلوط حکومت کا حصہ ہے۔ پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی نصیب اللہ مری اگر وزارت سے ہٹائے گئے ہیں تو یہ فیصلہ ان کی اپنی جماعت کا ہے۔ وہ اگر پارٹی پالیسی کے برعکس مخالفین کی صف میں کھڑے ہیں، تو پی ٹی آئی کی مرکزی و صوبائی قیادت کا فرض ہے کہ نصیب اللہ مری کی سرزنش کرے، دوسری صورت میں ان کی اسمبلی رکنیت ختم کرانے کے لیے الیکشن کمیشن کو درخواست دی جائے۔