سردار سکندر حیات ،ایک عہد کا خاتمہ

آزادکشمیر ہی نہیں، قومی اُفق کے سینئر ترین سیاست دان سابق صدر اور سابق وزیراعظم سردار سکندرحیات خان 87 سال کی عمر میں ہفتہ کی شام انتقال کرگئے۔
سردار سکندر حیات خان کوٹلی فتح پور تھکیالہ میں 1934ء میں سردار فتح محمد کریلوی کے گھر پیدا ہوئے۔ سردار فتح محمد کریلوی ریاست جموں وکشمیر کی پہلی اسمبلی ’’پرجاسبھا‘‘کے رکن اور مقامی طور پر ایک فعال سیاست دان تھے، جنہوں نے ڈوگرہ حکومت کی طرف سے ناروا ٹیکسوں کے نفاذ کے خلاف زوردار احتجاجی تحریک چلائی، اور اس دوران قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔
سردار سکندر حیات خان نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گائوں اور پونچھ شہر میں حاصل کی، جس کے بعد وہ راولپنڈی کی مشہور درسگاہ گورڈن کالج میں زیر تعلیم رہے۔ انہوں نے قانون کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔ سکندر حیات خان کوٹلی بار ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہے۔ عملی سیاست کا آغاز آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس سے کیا، اور 1970ء کے انتخابات میں آزادکشمیر کے رکن اسمبلی منتخب ہوکر سردار عبدالقیوم خان کی کابینہ میں وزیر بھی رہے۔ ستّر کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف احتجاجی تحریک چلی تو مسلم کانفرنس قومی اتحاد کے 9ستاروں میں شامل تھی۔ سردار سکندر حیات خان کو پاکستان قومی اتحاد کا جنرل سیکرٹری بنایا گیا، اور وہ اس عرصے میں قومی سیاست میں پوری طرح سرگرم رہے۔ 1978ء میں انہیں مسلم کانفرنس کا قائم مقام اور بعد ازاں مستقل صدر بنایا گیا۔ وہ مسلسل دس سال یعنی 1988ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
آزادکشمیر میں پارلیمانی نظام کا احیا ہوا تو انتخابات میں مسلم کانفرنس نے کامیابی حاصل کی۔ سردار سکندرحیات خان پارلیمانی روایت کے مطابق آزادکشمیر کے صدر منتخب ہوئے۔ محمد خان جونیجو کے ساتھ ان کی گاڑھی چھنتی رہی، جبکہ سردار عبدالقیوم خان جنرل ضیاء الحق کے قریب رہے۔ یہ قربت اور دوری دونوں کے درمیان مزید دوری کا باعث بنتی چلی گئی۔ 1990ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے حکومت بنائی اور ممتاز حسین راٹھور وزیراعظم بنے۔ سردار سکندر حیات خان قائدِ حزبِ اختلاف کے منصب پر فائز رہے۔ اسمبلی ٹوٹنے کے بعد دوبارہ انتخابات میں مسلم کانفرنس ایک بار پھر جیت گئی تو سردار سکندر حیات خان صدر آزادکشمیر منتخب ہوئے۔ اس دور میں وزیراعظم سردار عبدالقیوم خان کی حکومت کے ساتھ ان کی کھٹ پٹ چلتی رہی۔ سردار سکندر حیات خان اپنی ہی جماعت کی حکومت پر کڑی تنقید کرتے رہے، انہوں نے حکومت کے خلاف چالیس نکاتی چارج شیٹ بھی پیش کی، جس میں حکومت پر بدعنوانی اور خلافِ ضابطہ تقرریوں کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ یہ چپقلش آگے چل کر مسلم کانفرنس کو دو دھڑوں قیوم اور سکندر میں تقسیم کرنے کا باعث بنی۔ بعد میں یہ تقسیم ختم ہوئی اور مسلم کانفرنس دوبارہ متحد ہوگئی۔
2001ء کے انتخابات میں مسلم کانفرنس نے کامیابی حاصل کی اور سردار سکندر حیات خان دوسری بار آزادکشمیر کے وزیراعظم بنے۔ ان کی وزارتِ عظمیٰ کا دوسرا دور ماضی کی نسبت کچھ زیادہ بھرپور نہیں رہا۔ مسلم کانفرنس کی پارلیمانی پارٹی میں انہیں اکثریت کا ساتھ حاصل نہیں تھا، اور پاکستان میں جنرل پرویزمشرف کی شخصی حکمرانی کی وجہ سے سیاسی نظام کی اسپیس گھٹ کر رہ گئی تھی۔ اس کے باوجود سکندر حیات خان نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کی مدت پوری کی۔
سردار سکندر حیات خان کے اس دور میں دو اہم واقعات ہوئے، یہ دونوں واقعات ایک ہی سال میں چند ماہ کی دوری پر ہوئے۔ ان میں پہلا واقعہ سری نگر مظفر آباد بس سروس کا آغاز تھا۔ سردار سکندر حیات خان نے 7اپریل 2005ء کو ایک پُرجوش تقریب میں پہلی بس کے مسافروں کو الوداع کہا، اور اُسی دوپہر سری نگر سے آنے والے وفد کا استقبال کیا۔ چند ماہ بعد 8 اکتوبر2005ء کو آزاد کشمیر تباہ کن زلزلے کا شکار ہوا۔ سردار سکندر حیات خان کا مسکن وزیراعظم ہائوس بھی ملبے کا ڈھیر بن گیا۔ اس کے چاروں جانب آفیسرز کالونی کے گرے ہوئے مکانات اور ان میں بے گوروکفن لاشے خود ان کو ذہنی طور پر اس حد تک مایوس کرنے کا باعث بنے کہ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا ’’میں قبرستان کا وزیراعظم ہوں‘‘۔ ان کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا اور تنقیدی اور توصیفی دونوں انداز میں زیربحث رہا۔ اس جملے سے دنیا کو حالات کی سنگینی کا احساس ہوا۔
سردار سکندر حیات خان اس کے بعد انتخابی سیاست سے ریٹائر ہوگئے مگر سیاست نے انہیں ریٹائر نہیں ہونے دیا، اور سیاست بار بار ان کے گھر ’سالار ہائوس‘ کا طواف کرتی رہی۔ وہ ڈرائنگ روم کی سیاست کے بادشاہ سمجھے جاتے تھے۔ آزادکشمیر میں مسلم لیگ (ن) کے قیام میں بھی ان کا اہم کردار رہا، مگر رائے ونڈ کی سیاست ان کے دل کو بھا نہ سکی۔ اس کی وجہ شریف گھرانے کے ساتھ ان کی ماضی کی کھینچا تانی تھی۔ وہ برملا کہتے رہے کہ نوازشریف نے انہیں آزادکشمیر میں مسلم لیگ (ن) کے قیام کے لیے سات کروڑ روپے کی پیشکش کی مگر مسلم کانفرنس کی محبت میں انہوں نے یہ پیشکش ٹھکرا دی۔ سردار سکندر حیات خان کو یہ قلق رہا کہ شریف خاندان نے سیاست میں سردار عبدالقیوم خان کو ان پر ترجیح دی۔ یہی وجہ تھی کہ نوازشریف کے ساتھ ان کی بات کبھی بن نہ سکی۔ وہ مسلم لیگ (ن) کے بانی اور اعلیٰ عہدیدار تو رہے، مگر مسلسل اکھڑے اکھڑے اور بیزار رہے، یہاں تک کہ انہوں نے اپنے راستے جدا کرلیے۔
سردار سکندر حیات خان ایک اچھے منتظم کی پہچان رکھتے تھے۔ وہ بیوروکریسی کو قابو اور خوش کرنے کا فن جانتے تھے۔ ان کا پہلا دورِ حکومت کرپشن اور برادری ازم کے الزامات کی زد میں رہا۔ شاید مجموعی طور پر اس عرصے میں کرپشن کو بے انتہا فروغ ملا۔ اس کی وجہ باہر سے آنے والے فنڈز اور ارکانِ اسمبلی کو دی جانے والی ترقیاتی اسکیمیں تھیں۔ ملک گیر سطح پر پارلیمانی نظام کے احیا کے ساتھ ہی کرپشن کو بے انتہا فروغ ملا۔
سکندر حیات خان ایک دبنگ اور صاف گو لیڈر تھے۔ وہ سیاست میں متحدہ ریاست کی آخری نشانیوں میں شامل تھے۔ اب آزادکشمیر کی سیاست میں اس قد کاٹھ کی کوئی دوسری شخصیت موجود نہیں، اور اس طرح یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ سردار سکندر حیات خان نے سیاست میں ایک خلا چھوڑا ہے جسے پُر نہیں کیا جا سکے گا۔