مغربی میڈیا کا دہرا معیار ،نیو کیسل یونائیٹڈ کی فروخت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں

گزشتہ ہفتے کی خبر یہ تھی کہ افغانستان میں برطانوی حکومت نے باضابطہ طور پر 289 بے گناہ افراد کی ہلاکت کی نہ صرف تصدیق کی بلکہ ان کے لواحقین کو شرمناک حد تک کم ترین خون بہا ادا کیا، لیکن اس پر مغربی اور برطانوی میڈیا کا کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آسکا اور
خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
کے مصداق خبر آئی اور چلی گئی۔ دوسری طرف انسانی حقوق کی تنظیموں کا بھی کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آسکا۔ اس کی بنیادی وجہ شاید مغرب کا وہ دہرا معیار ہے جو کہ اپنے لیے کچھ، اور دوسروں کے لیے کچھ اور ہے۔ اس کی ایک جھلک یہ خبر بھی ہے کہ معروف برطانوی فٹ بال کلب نیوکیسل یونائیٹڈ کی خریداری کا معاہدہ سعودی عرب کی ایک قومی انویسٹمنٹ کمپنی پی آئی ایف نے کیا ہے، اور یہ خریداری 300 ملین برطانوی پاؤنڈ کی ہے، جس کے تحت سعودی کمپنی 80 فی شیئرز کی مالک ہوگی۔ اس ڈیل کی خبر کے ساتھ ہی برطانیہ میں ایک طوفان برپا ہے اور برطانوی میڈیا اس ڈیل کو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ جوڑ رہا ہے۔ برطانوی اخبار دی گارجین اور میڈیا خاص طور پر بی بی سی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان (جو کہ پی آئی ایف کے چیئرمین بھی ہیں) پر تنقید کرتے ہوئے اس سودے کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کرنے والوں کو فٹ بال کلب فروخت کرنے سے منسلک کررہے ہیں۔ ادھر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اس ڈیل پر تنقید کرتے ہوئے اسے ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے والوں کو یہ کلب بیچنا درست نہیں۔ اس ضمن میں دوسری جانب نیوکیسل یونائیٹڈ کے حامیوں نے اس ڈیل کا خیرمقدم کیا ہے، اور کلب کے سابق مالک مائیک ایشلے پر شدید تنقید کی ہے جوکہ ایک برطانوی تاجر ہیں۔ اس ڈیل کا باضابطہ اعلان ہوتے ہی کلب کے حامیوں نے اس خوشی میں کلب کے باہر ریلی نکالی اور جشن منایا۔ لیکن اس خبر میں بھی کہ جس میں کلب کے فین سابق مالک مائیک ایشلے کے کلب کی جان چھوڑنے پر جشن منارہے ہیں، اس کو بھی زبردستی تبدیل کرنے کی کوشش کی، اور اس مظاہرے کو بھی کلب کے نئے مالک یعنی پی آئی ایف سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے جوڑنے کی کوشش کی۔ برطانوی میڈیا کی اس مہم جوئی کے بعد انگلش پریمیئر لیگ بھی سامنے آئی اور بیان جاری کیا کہ کلب کے 80 فیصد شیئرز خریدنے کے باوجود بھی کلب کا انتظامی کنٹرول پی آئی ایف کے پاس نہیں ہوگا۔ یہ ایک ایسی انوکھی بات ہے جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
برطانیہ میں معیشت شدید دباؤ کا شکار ہے اور حکومتِ برطانیہ نے اس دباؤ سے نکلنے کے لیے ٹیکس بڑھانے کا بھی عندیہ دے رکھا ہے، اس کے علاؤہ ایندھن کا بحران بھی شدت اختیار کرتا جارہا ہے جس میں گزشتہ دو ہفتوں سے جاری پیٹرول بحران کے علاؤہ اب خبر یہ ہے کہ موسم سرما میں بھی ایندھن کے بحران کا خدشہ ہے جس کی وجہ سے برطانیہ تیل و گیس فراہم کرنے والے ممالک سے بالواسطہ رابطے کرکے اس بات کو یقینی بنانے میں مصروف ہے کہ تیل و گیس کی ترسیل بلاتعطل جاری رہے۔ گوکہ اس وقت بھی برطانیہ میں ایندھن کی قیمتیں یورپ کے بعض ممالک سے 600 فیصد زیادہ ہیں، لیکن اگر ایندھن کی فراہمی میں تعطل آیا تو یہ قیمتیں مزید بڑھ سکتی ہیں جس کا براہِ راست اثر عام صارف پر پڑے گا۔ برطانوی معیشت کے اس بحران میں 300 ملین برطانوی پاؤنڈ کی ڈیل معیشت میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوسکتی تھی، لیکن برطانوی میڈیا کی مہم جوئی اس بات کو ثابت کررہی ہے کہ اس کو ان کٹھن حالات میں تعاون کرنے والوں کے بجائے اپنے مقررہ ایجنڈے پر کام کرنا ہے۔ حالانکہ افغانستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے باضابطہ اقرار کے بعد بھی برطانوی میڈیا اس مسئلے پر خاموش رہا، اور اب یمن اور صحافی جمال خاشقجی کے قتل کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں قرار دے رہا ہے۔ سوال اس پر نہیں کہ کیا یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں؟ بلکہ سوال اس پر ہے کہ اگر دونوں ہی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جوکہ یقیناً ہے، تو پھر یہ دہرا معیار کیوں؟
برطانوی میڈیا رائی کو پہاڑ اور پہاڑ کو رائی بناکر پیش کرنے میں کوئی تامل نہیں کرتا۔ گوکہ میڈیا کا کام خبر کو میرٹ پر نشر کرنا اور اس میں توازن پیدا کرنا ہے، تاکہ دونوں فریق کا مؤقف سامنے آسکے۔ لیکن یہ توازن برطانوی میڈیا میں نظر نہیں آرہا، جس کے باعث خود برطانوی معاشرہ بھی ایک انتشار کا شکار نظر آتا ہے، خاص طور پر یورپین یونین سے اخراج کے فیصلے میں میڈیا کا کردار سب کے سامنے ہے، جس کے باعث برطانیہ خود شدید مسائل میں گھرا ہوا ہے لیکن میڈیا اس پر بھی اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں، بلکہ اس کا پورا ملبہ سیاست دانوں پر ڈال رہا ہے۔
برطانوی حکومت نے ایندھن اور غذا کے متوقع بحران سے نمٹنے اور کرسمس سے قبل حالات کو معمول پر لانے کے لیے ہنگامی طور پر ٹینکرز اور ٹرک ڈرائیورز کے لیے تین ماہ کے مختصر عرصے کے لیے 300 ویزوں کے اجراء کا اعلان کیا تھا، لیکن اس پر بھی ڈرائیورز نے برطانیہ آنے کو ترجیح نہیں دی اور 300 ویزوں کے حصول کے لیے صرف 127 درخواستیں دی گئی ہیں۔ اب حکومت نے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک اور نئی اسکیم کا اجراء کیا ہے اور ٹرک ڈائیورز کے ویزوں کی مدت میں مزید تین ماہ کی توسیع کی ہے۔ ادھر فوڈ چین اور پیٹرولیم مصنوعات کی انجمنوں نے حکومت کے اقدامات کو ناکافی قرار دیا ہے۔ اب ایک اور ایندھن بحران سر اٹھا رہا ہے اور حکومت نے قبل از وقت اقدامات کرتے ہوئے سردیوں میں گھریلو صارفین کو بجلی اور گیس کی فراہمی بلاتعطل جاری رکھنے کے لیے زیادہ ایندھن استعمال کرنے والی صنعتیں مثلاً اسٹیل، سرامکس وغیرہ کو بند کرنے کے احکامات دیئے ہیں۔
برطانوی معیشت شدید دباؤ میں ہے اور ایک کے بعد ایک بحران سامنے آرہا ہے، لیکن اس سب کے باوجود برطانوی میڈیا 300 ملین پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کو بھی خاص زاویہ نظر سے اجاگر کرکے اپنے متعصب ہونے کا ثبوت فراہم کررہا ہے۔ آئندہ آنے والا موسم سرما شاید برطانوی معیشت کے لیے زیادہ اچھا ثابت نہ ہو، اور لامحالہ اس کا اثر برطانوی حکومت اور آئندہ آنے والے انتخابات پر پڑنے کا امکان ہے۔