احتساب کا نظام اور سمجھوتے کی سیاست

پاکستان میں احتساب کا نظام ہمیشہ سے کمزور اور سیاسی سمجھوتوں کا شکار رہا ہے۔ طاقت ور حکمران طبقات اور اشرافیہ کا بنیادی مقصد ملک میں احتساب کے نظام کو شفاف بنانے سے زیادہ اس نظام کو اپنی مرضی کے تحت چلاکر اپنے مفاد کو ہی ترجیح دینا ہوتا ہے۔ یہ معاملہ ملکی سطح پر کسی خاص حکومت یا کسی خاص طاقت ور گروہ تک محدود نہیں، اس جرم میں سارے ہی حکمران اور طاقت ور طبقات برابر کے شریک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں احتساب کم اور مخالفین کے خلاف سیاسی دبائو یا سیاسی سمجھوتے کے پہلو زیادہ نمایاں نظر آتے ہیں۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے 2006ء میں میثاقِ جمہوریت میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد نیب کو ختم کرکے ایک منصفانہ اور شفاف احتساب کا نظام قائم کریں گی، مگر یہ دونوں جماعتیں بھی منصفانہ اور شفاف احتساب کا نظام دینے کے بجائے سمجھوتوں کی سیاست کا شکار رہیں۔
نیب کے اختیارات اور چیئرمین نیب کی تقرری کے حوالے سے حالیہ دنوں میں حکومت کی جانب سے ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ قومی احتساب بیورو(نیب)کے 1999ء کے آرڈیننس میں کچھ ترامیم کرکے ایک نیا آرڈیننس جاری کیا گیا ہے، جس کو اب نیب آرڈیننس 2021کا نام دیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کا بنیادی نعرہ ہی ملک میں صاف اور شفاف احتساب کا نظام قائم کرنا تھا، اور اس کے بقول وہ اس معاملے میں کوئی سیاسی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ لیکن اب اس بات پر تجزیہ کرنا ہوگا کہ کیا اس نئے آرڈیننس کے بعد ملک میں شفاف اور بے لاگ احتساب ہوسکے گا؟ لیکن اس سوال سے پہلے یہ نیا آرڈیننس لانے کا جو سیاسی پس منظر ہے اسے سمجھنا ہوگا۔ نیب کو پاکستان میں مخالفین کی جانب سے سب سے زیادہ تنقید کا سامنا تھا۔ یہ تنقید محض سیاست دانوں تک محدود نہیں تھی بلکہ دیگر طبقات جن میں کاروباری طبقہ اور بیوروکریٹس بھی پیش پیش تھے، ان کے بقول نیب کی وجہ سے ملک کا سیاسی، قانونی اور کاروباری یا معیشتی نظام تباہ ہوگیا ہے، یہ نظام ملکی معیشت کو آگے بڑھانے کے بجائے پیچھے کی طرف لے جارہا ہے، اور سیاسی قوتوں کے بقول اس نظام سے جمہوری نظام کو مختلف سطحوں پر خطرات لاحق ہیں۔
اگر ہم حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں کی طرف سے نیب ترامیم کے حوالے سے دی گئی تجاویز کا تجزیہ کریں تو کہا جائے گاکہ اس میں سے بیشتر نکات وہی ہیں جو اس نئے ترمیمی آرڈیننس میں شامل کیے گئے ہیں۔ بظاہر حزبِ اختلاف نئے ترمیمی آرڈیننس پر بڑی تنقید کررہی ہے اور اسے قانونی محاذ پر چیلنج کرنے کی بات بھی کی جارہی ہے، لیکن عملی طور پر حزبِ اختلاف اور بالخصوص پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اس حالیہ ترمیمی آرڈیننس پر مطمئن اور خوش نظر آتی ہیں، اورامکان یہی ہے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں اس نئے آرڈیننس کو قانونی محاذ پر چیلنج نہیں کریں گی، البتہ سیاسی شور سیاسی اورمیڈیا کے محاذ پر ضرور دیکھنے کو ملے گا۔ چیئرمین نیب کی تقرری پر حکومت اور حزبِ اختلاف میں اعتراض نظر آرہا ہے۔ اس نئے ترمیمی آرڈیننس سے پہلے نیب آرڈیننس میں لکھا ہوا تھا کہ ’’قائدِ ایوان اور قائدِ حزبِ اختلاف کے درمیان بامقصد مذاکرات کے بعد ہی چیئرمین نیب تعینات ہوگا۔ اس معاملے میں فریقین کی طرف سے دیے گئے تین تین ناموں پر غور ہوگا، جس میں سے کسی ایک پر اتفاق کرنا ضروری ہے۔‘‘ لیکن اب نئے آرڈیننس کے تحت یہ تبدیلی کی گئی ہے کہ صدرِ مملکت کو اس میں شامل کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’اب صدرِ مملکت وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف کے ساتھ نیب کے چیئرمین کے لیے مختلف ناموں پر غور کریں گے اور اگر دونوں کے درمیان کسی ایک نام پر اتفاق نہ ہوا تو یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجا جائے گا جو اس بارے میں فیصلہ کرے گی۔‘‘ اس سے قبل صدر کا کردار محض نوٹیفکیشن جاری کرنے تک محدود تھا، جبکہ اِس ترمیمی آرڈیننس میں صدر کو نہ صرف مشاورت کا کردار دیا گیا ہے بلکہ پارلیمانی کمیٹی کا کردار بھی پہلی مرتبہ سامنے آیا ہے۔ اس ترمیمی آرڈیننس میں یہ بھی کہا گیاکہ جب تک نئے چیئرمین نیب کا تقرر نہیں ہوتا اُس وقت تک موجودہ چیئرمین اپنے عہدے پر کام جاری رکھیں گے۔
اسی طرح اس نئے ترمیمی آرڈیننس میں چیئرمین نیب کے اختیارات بھی محدود کیے گئے ہیں، اور اس کی وجہ حکومت اور حزبِ اختلاف سمیت مختلف سیاسی، کاروباری اور انتظامی فریقین کی مشاورت اور اتفاقِ رائے بھی تھا۔ پہلے آرڈیننس میں چیئرمین نیب کے پاس گرفتاری سے لے کر کسی کے خلاف کسی بھی سطح پر انکوائری شرو ع کرنے اور ریفرنس دائر کرنے کے اختیارات تھے، لیکن اب یہ اختیار پراسیکیوٹر جنرل کو دے دیا گیا ہے، جس کے تحت اگر پراسیکیوٹر جنرل یہ سمجھتا ہے کہ کسی کے خلاف شروع کی گئی انکوائری یا دائر کیا گیا ریفرنس غلط ہے تو وہ اسے ختم کرسکتا ہے، جبکہ اس سے پہلے اس اقدام کے لیے چیئرمین نیب کی اجازت لینا ضروری تھا۔ اسی طرح اس نئے ترمیمی آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی کابینہ ملک کی ترقی کے لیے کوئی بھی فیصلہ کرتی ہے اور بیوروکریسی اچھی نیت سے اس پر عمل درآمد کرواتی ہے تو نیب کو ان معاملات میں مداخلت کرنے یا تحقیقات شروع کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ٹیکس کے معاملات میں بھی نیب مداخلت نہیں کرے گا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ کاروباری، سرمایہ دار طبقہ، تاجر برادری، چاہے وہ حکومت کے حامی ہوں یا حزبِ اختلاف کے، یا کابینہ میں بیٹھے افراد… سبھی یہ ترمیم چاہتے تھے، اور اسی بنیاد پر یہ ترمیم کی گئی ہے۔کیونکہ اعتراض یہ تھا کہ نیب کی وجہ سے بیشتر ترقیاتی منصوبے تاخیر کا شکار ہوئے ہیں اور مختلف فریقوں میں نیب کی مداخلت کا خوف پایا جاتا ہے۔اسی بنیاد پر مالیاتی بے قاعدگیوں کی تفتیش گورنر اسٹیٹ بینک کی پیشگی اجازت سے مشروط کی گئی ہے۔جبکہ ٹیکس اور لیوی سے متعلق انکوائری یا تفتیش کے اختیارات متعلقہ حکام اور وزارتوں کو منتقل ہوجائیں گے۔ عملی طور پر ان ترامیم کی مدد سے نیب کے دو دانت توڑ دیے گئے ہیںجن میں 90دن کا جسمانی ریمانڈاور تفتیش کا عمل اور اب ہائی کورٹ کے مقابلے میں نیب عدالت کو ضمانت کا اختیار دینا شامل ہے۔
یہ بات پیش نظر رہے کہ نیب نے پچھلے تین برسوں میں سابقہ سترہ برسوں کے مقابلے میں جو ریکارڈ مالیاتی ریکوری کی ہے اس کی بڑی وجہ ہائوسنگ سوسائٹیاں ہیں۔ لیکن اب خطرہ ہے کہ نیب کے لیے ریکارڈ ساز ریکوری ممکن نہیں۔ نیب کے مطابق ہم نے پہلے سترہ برسوں میں جو ریکوری کی تھی وہ17,965 ملین تھی، جبکہ سابقہ چار برسوں میں یہ ریکوری 14433ملین ہے جو کہ ماضی کے مقابلے میں تقریباً 188 فیصد زیادہ ہے۔ اسی طرح نیب نے پہلے سترہ برسوں میں 345، جبکہ محض چار برسوں میں 285 ریفرنسوں کا فیصلہ کیا جو کہ 200 فیصد بنتا ہے۔ حکومت کے حالیہ آرڈیننس میں کاروباری طبقے کو نیب سے محفوظ رکھنے کے ضمن میں بے جا قانونی شق کا اضافہ بھی کیا گیا جس کی رو سے نیب آئندہ کسی ایسے کاروباری یا پرائیویٹ فرد پر ہاتھ نہیں ڈال سکے گا
جس کا کسی پبلک آفس ہولڈر کے ساتھ کوئی باہمی ربط ثابت نہ ہورہا ہو۔ اس طرح عوام کو دھوکہ اورلالچ دے کر اربوں روپے بٹورنے والا مافیا این آر او حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے، جبکہ اس سے پہلے اُس پر نیب کا تھوڑا بہت رعب اور خوف قائم تھا۔ اب جبکہ نیب کا اختیار بیوروکریٹس، سیاست دانوں اورکاروباری طبقے کے لیے بھی محدود کردیا گیا ہے تو حکومت کو ان اختیارات کی بھی وضاحت کردینی چاہیے جن کے لیے نیب کا ادارہ قائم کیا گیا تھا۔بہرحال اب ملک میں احتساب کا عمل کمزور ہوگا، اوراس کی وجہ سمجھوتوں کی بنیاد پر سیاست اور قانون سازی ہے جو بڑا المیہ ہے۔