امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین کے دو روزہ دورۂ پاکستان، اور پاکستان کی داخلی سیاسی صورت حال پر گہری نظروں سے تجزیہ کیا جائے تو حالات تبدیل ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وینڈی تو اپنا دورہ مکمل کرکے اسلام آباد سے اپنے وطن روانہ ہوگئی ہیں، وہ خالی ہاتھ گئی ہیں یا انہیں صرف مطمئن کرکے واپس بھیج دیا گیا ہے، اس بات کا اندازہ اگلے دو ہفتوں میں ہوجائے گا، اور پاکستان کی داخلی سیاست اور حکومت کے مستقبل کا رخ بھی اگلے دو ہفتوں میں ہی طے ہوجائے گا۔ اگلے دو ہفتوں میں بہت کچھ بدل سکتا ہے، کیونکہ صف بندی انہی دو ہفتوں میں ہونی ہے۔ ویسے تو اسلام آباد اور راولپنڈی کا زمینی فاصلہ کوئی پچیس کلومیٹر ہوگا، مگر سوچ کا دھارا اور موسم کی یکسوئی کا پیمانہ بدل گیا ہے، اور فلڈ گیٹ بھی کھل چکے ہیں۔ فی الحال اتنا ہی کہنا اور لکھنا کافی ہے۔
وینڈی شرمن نے اپنے دو روزہ قیام کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی، ان کی وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات متوقع تھی لیکن ملاقات نہیں ہوسکی۔ جس لمحے وینڈی اسلام آباد میں قومی سلامتی کے مشیر سے ملاقات کررہی تھیں عین اسی لمحے اسلام آباد میں قومی سلامتی کے امور پر بات چیت اور غور کے لیے وزیراعظم کی سربراہی میں ایک اہم اجلاس ہورہا تھا جس میں عسکری قیادت بھی شریک تھی۔ وینڈی کا دورۂ پاکستان اور دوحہ میں امریکہ طالبان مذاکرات ایک ہی سلسلے کی کڑی تھے۔ دوحہ میں جو بات چیت ہوئی یہ وہی نکات ہیں جن کا ذکر حال ہی میں امریکی سینیٹ میں پیش ہونے والے ایک بل میں کیا گیا ہے۔ بل کے نکات ہی دراصل امریکی مطالبات تھے جو دوحہ میں طالبان کے سامنے رکھے گئے۔ سیاسی اور سفارتی امور پر تجزیہ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ان ایشوز پر کسی کو عبور حاصل ہو، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سفارتی زبان اپنے لہجے سے پہچانی جاتی ہے۔ اگر کوئی سفارتی زبان کی پہچان اور اس کے اثرات دیکھ کر بعد میں بات کرے تو وہ کبھی سفارتی مہارت میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ وینڈی شرمن اسلام آباد آنے سے قبل بھارت گئی تھیں اور وہاں سے اسلام آباد کے لیے اڑان بھرنے سے قبل ایک جملہ کہا کہ ’’امریکہ افغانستان کے سوا کسی اور معاملے پر پاکستان سے بات چیت اور وسیع البنیاد روابط میں دلچسپی نہیں رکھتا، میرا دورۂ پاکستان ایک خاص مقصد کے لیے ہے، امریکہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے ساتھ وسیع تعلقات کا قیام نہیں دیکھتا، ہمیں اُس دور میں واپس آنے میں کوئی دلچسپی نہیں جب پاکستان اور بھارت سے یکساں سطح پر امریکہ کے روابط ہوا کرتے تھے۔‘‘ ممبئی ایئرپورٹ پر دیا گیا یہ بیان ڈومور کے لیے پاکستان پر دبائو ڈالنے کی پالیسی اور حکمت عملی کے لیے پلِ صراط پر چلنے کے لیے مجبور کرنے کا حصہ تھا، لیکن پاکستان نے بھی اب فیصلہ کرلیا ہے کہ ہم معذرت خواہانہ خارجہ پالیسی کے ساتھ نہیں چلیں گے، جارحانہ پالیسی اور عملیت پسندی اختیار کی جائے گی۔ وینڈی شرمن نے اسلام آباد پہنچنے کے بعد قومی سلامتی کے لیے وزیراعظم کے مشیر معید یوسف سے ملاقات کی، ان کے بعد وزیر خارجہ اور بعد میں آرمی چیف سے ان کی ملاقات ہوئی۔ ہر ملاقات میں انہوں نے یہی کہا کہ ہم تو افغانستان میںطالبان حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے مگر پاکستان کیوں ایسا مشورہ دے رہا ہے؟ پاکستان نے جواب دیا کہ افغانستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے، ہماری سرحد اس کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، اور ہم سماجی لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں، افغانستان میں جو کچھ بھی ہورہا ہے اور آئندہ جو بھی ہوگا اس کے اثرات براہِ راست پاکستان پر پڑتے رہے ہیں اور آئندہ بھی پڑیں گے، لہٰذا ہمارے اور امریکہ کے مسائل الگ الگ ہیں۔ پاکستان کے جواب کو یوں سمجھ لیا جائے کہ آج کی سیاسی اور عسکری قیادت نے جنرل پرویزمشرف کی پالیسی کو رد کرتے ہوئے ایک نئی لائن اختیار کی ہے۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا، جنرل ضیاء الحق کی لگائی ہوئی فصل جنرل پرویزمشرف نے اجاڑ دی تھی، اور اب جنرل پرویزمشرف کے بوئے ہوئے کانٹوں کو صاف کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ یہ معاملہ صرف پاکستان کے ساتھ ہی نہیں ہے، یہی حقائق امریکہ کے ساتھ بھی جڑے ہوئے ہیں کہ مجاہدین کو کبھی گلے لگایا اور کبھی انہیں دہشت گرد قرار دیا۔ ہر دور میں ہماری وزارتِ خارجہ خوش کن نعروں کے مینار تعمیر کرتی رہی، پاک امریکہ سفارتی تعلقات کئی دہائیوں سے اسی طرح چلتے رہے ہیں اور حادثے پر حادثہ ہی ہوتا آیا ہے۔ نہ جانے کب تک ہم داستانِ ابتلا لکھتے رہیں گے! ہماری خارجہ پالیسی ہمیشہ سے رنگ بدل بدل کر امریکی خواہشات کے نرغے میں رہی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے فیصلے اپنے تھے نہ پرویزمشرف کے فیصلے آزادانہ تھے۔ وینڈی نے پاکستان پہنچنے سے پہلے جس طرح اسلام آباد کے حوالے سے اپنی حکومت کی خارجہ پالیسی کا یہ بنیادی نکتہ واضح کیاکہ امریکہ اب پاکستان سے ربط ضبط میں خود کو صرف افغانستان کی صورت حال تک محدود رکھے گا، اس بیان نے پُرجوش استقبال کی گنجائش ختم کردی تھی۔ ردعمل تو یہی بنتا تھا کہ ایئرپورٹ پر ان کے استقبال کے لیے دفتر خارجہ کے کسی جونیئر آفیسر کو ہی بھیجا جائے، اور ایسا ہی ہوا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور مشیر قومی سلامتی معید یوسف سے ان کی ملاقات کے بعد کوئی بیان بھی جاری نہیں ہوا۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اگر حکومت نے اپنے اندر امریکہ کے حوالے سے کوئی تبدیلی پیدا کرلی ہے تو امریکی نائب وزیر خارجہ سے ملاقات میں جو اُن کی طرف سے کہا گیا اور جواب میں جو انہیں سنایا گیا دفتر خارجہ اس کی وضاحت کردیتا، مگر یہ نہیں ہوا۔ صرف وینڈی شرمن نے ہی ٹویٹ کیا کہ ’’میں نے آج پاکستان کے وزیر خارجہ سے ملاقات کی تاکہ افغانستان کے مستقبل اور امریکہ اور پاکستان کے اہم اور دیرینہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا جا سکے، ہم علاقائی اور عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے آگے بڑھنے کے منتظر ہیں۔ افغانستان کے حوالے سے وزیر خارجہ نے زور دیا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان پُرامن تصفیے کی ضرورت پر بنیادی ہم آہنگی موجود ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ افغانستان میں نیا سیٹ اَپ امن اور استحکام کے ساتھ ساتھ تمام افغان عوام کی زندگی کی بہتری کے لیے کام کرے گا‘‘۔
وینڈی کی اسلام آباد میں اخبارات کے مدیروں سے بھی ملاقات ہوئی، یہ ملاقات در اصل ’’آزاد ذرائع‘‘ سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش تھی جس میں امریکی نائب وزیر خارجہ سے بہت سے سوالات کیے گئے اور انہوں نے پاکستان کو نشانہ بنانے والے 22ری پبلکن سینیٹرز کی جانب سے ستمبر میں پیش کیے گئے بل کے بارے میں وضاحت کی کہ ہم پاکستان کے خدشات سے واقف ہیں اور حالات کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان اور امریکی صدر کے درمیان اب تک ٹیلی فون پر رابطہ نہ ہونے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے، جلد ہی رابطہ بھی ہوجائے گا۔
امریکہ پاکستان سے افغانستان پر براہِ راست نظر رکھنے کے لیے بہت کچھ مانگ رہا ہے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ جوبائیڈن انتظامیہ کے لیے افغانستان سے متعلق ’اوور دی ہورائزن‘(او ٹی ایچ) صلاحیت کے لیے اسلام آباد آئی تھیں۔ واشنگٹن میں کانگریس کے ایک اجلاس میں بائیڈن انتظامیہ یہ باور کرا چکی ہے کہ پاکستان کے ساتھ ایک ’’اہم چیز‘‘ کے استعمال پر براہِ راست بات چیت کی جارہی ہے جس کا تعلق افغانستان کے لیے ایئر کوریڈور کی فراہمی سے ہے، یہ صلاحیت پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ 22 ری پبلکن سینیٹرز نے امریکی سینیٹ میں جو بل پیش کیا ہے اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ پاکستان پر دبائو بڑھایا جائے۔ امریکی، جنرل پرویزمشرف کے دور میں ملنے والی رعایت پر بہت مطمئن رہے، اب مزید رعایت مانگ رہے ہیں۔ جوبائیڈن انتظامیہ مسلسل اصرار کررہی ہے اور رابطے بھی اسی لیے کیے جارہے ہیں۔ ہوسکتا ہے جب سازگار فضا بن جائے تب صدر بائیڈن کال بھی کریں۔ جوبائیڈن انتظامیہ کی توجہ 4 اہم نکات پر ہے جن میں کابل میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنا، افغانستان پر بین الاقوامی پابندیاں، زمین سے لینڈ لاک ملک تک رسائی اور انسداد دہشت گردی میں تعاون شامل ہے۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان بین الاقوامی برادری سے قبل طالبان حکومت کو تسلیم کرے۔ واشنگٹن چاہتا ہے کہ پاکستان متنازع امور پر طالبان کے مؤقف کو نرم کرنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے، وہ چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کی جانب سے طالبان پر لگائی جانے والی پابندیوں کا احترام پاکستان بھی کرے۔ جس روز وینڈی اسلام آباد میں ملاقات کررہی تھیں عین اسی وقت امریکی فوجی انخلا کے بعد امریکہ اور طالبان کی اوّلین ملاقات دوحہ میں ہوئی۔ ان دو روزہ مذاکرات میں امریکی مذاکراتی ٹیم میں مختلف حکومتی اداروں کے سینئر اہلکار شامل تھے، البتہ اِس بار زلمے خلیل زاد امریکی ٹیم کا حصہ نہیں تھے۔ امریکی مذاکراتی ٹیم میں امریکی وزارتِ خارجہ کے نائب خصوصی نمائندے ٹام ویسٹ، یو ایس ایڈ کی اہلکار سارہ چارلس اور خفیہ ایجنسیوں کے افراد نمایاں تھے۔ امریکی چاہتے ہیں کہ طالبان غیر ملکی شہریوں اور افغانوں کے انخلا میں مطلوب رعایت دیں۔ مذاکرات کے دوران 2020ء میں طالبان کے واشنگٹن کے ساتھ طے پانے والے امن معاہدے پر نظرثانی پر بھی بات چیت ہوئی۔ اس معاہدے کی وجہ سے امریکی انخلا کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ مذاکرات میں دہشت گردی پر بھی گفتگو ہوئی۔ 2020ء میں امریکہ طالبان معاہدہ ٹرمپ انتظامیہ نے کیا تھا، اب بائیڈن انتظامیہ اپنی ضرورت کے مطابق اقدام چاہتی ہے۔ امریکی چاہتے ہیںکہ طالبان امریکیوں اور دیگر غیر ملکی شہریوں کو افغانستان چھوڑنے دیں جو امریکی فوج کے لیے کام کرتے تھے۔ درجنوں امریکی شہری اب بھی افغانستان سے نکلنے کی کوشش کررہے ہیں جن میں ہزاروں گرین کارڈ ہولڈر اور ایسے افغان خاندان شامل ہیں جو امریکی ویزے کے اہل سمجھے جاتے ہیں۔ امریکی طالبان پر دباؤ ڈال رہے ہیںکہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کا مشاہدہ کریں، اور یہ بھی چاہتے ہیںکہ یو ایس ایڈ جیسے امریکی امدادی اداروں کو افغانستان کے ضرورت مند علاقوں تک مفت رسائی دی جائے۔
اسلام آباد میں مذاکرات کے تازہ ترین دور کے بعد امریکہ اور پاکستان دونوں نے وسیع البنیاد تعلقات کو بحال کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ دوحہ میٹنگ میں شریک طالبان کے نمائندہ وفد کے سربراہ عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کے ملک کے منجمد اثاثے فوری طور پر بحال کرے تاکہ ان کے استعمال سے ملک اور عوام کی معاشی حالت کو بہتر کیا جا سکے۔ فریقین نے میٹنگ میں دونوں ملکوں کے تعلقات کا نیا باب شروع کرنے پر بھی فوکس کیا۔ قطر اور پاکستان عالمی برادری پر زور دے رہے ہیں کہ طالبان سے مکالمہ لازمی ہے، طالبان کو تنہا نہ کیا جائے۔
وینڈی سے قبل سی آئی اے کے سربراہ بھی اسلام آباد آئے تھے، ڈ وینڈی شرمین، امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے بعد محکمہ خارجہ کی سب سے سینئر عہدے دار ہیں۔ امریکہ طالبان کے حوالے سے دو طرح کی پالیسی اپنا رہا ہے۔ وہ افغان اثاثے منجمد کرکے طالبان پر دباؤ برقرار رکھے گا اور دوسرے ممالک پر دباؤ ڈالے گا کہ وہ طالبان حکومت کو تسلیم نہ کریں، تاہم وہ طالبان کے ساتھ بات چیت بھی جاری رکھے گا۔ وائٹ ہاؤس کا ایجنڈا دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ عارضی طور پر واشنگٹن کی ترجیحات کی فہرست سے نکل چکا ہے۔ اس کی توجہ اب چین، روس اور اس خطے پر لگی ہوئی ہے۔ بائیڈن ایران کو براہِ راست دھمکی دے چکے ہیں کہ واشنگٹن تہران کو کبھی جوہری طاقت نہیں بننے دے گا۔
پاکستان کی کمزور اقتصادی صورت حال ہمارے لیے پریشان کن ہے، اور یہی امریکی دبائو کا باعث بھی ہے۔ پاکستان کے مجموعی غیر ملکی قرضے 86 ارب ڈالر ہیں، جبکہ مقامی قرضے 167ارب ڈالر ہیں۔ کُل قرضوں میں غیر ملکی قرضوں کا حجم 34 فیصد اور مقامی قرضوں کا حجم 66 فیصد ہے۔ تمام قرضوں کا تخمینہ 157.3روپے فی ڈالر کے تناسب سے ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق کُل غیر ملکی قرضے جی ڈی پی کے 74.9فیصد کے مساوی ہیں۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے 7.38ارب ڈالر کے قرضے لیے ہیں۔ پیرس کلب کے 10.72 ارب ڈالر اور غیر ملکی 33.83 ارب ڈالر کے قرضے ہیں۔ ورلڈ بینک سے حاصل کردہ قرضوں کا حجم18.13 ارب ڈالر اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے قرضوں کا حجم13.42 ارب ڈالر ہے۔ 2018ء میں پاکستان کا کُل بیرونی قرضہ 96 ارب ڈالر تھا، 3 سال میں بیرونی قرض میں 26 ارب ڈالر سے زائد کا اضافہ ہوا۔ پاکستان کا بیرونی قرضہ 122 ارب ڈالر سے زائد ہونے کی تفصیلات قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اقتصادی امور میں دی گئی ہیں۔ پاکستان پر بیرونی واجب الادا قرض کا حجم 122 ارب 44 کروڑ ڈالر سے زائد ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے 124 منصوبوں کے لیے 22 ارب 37 کروڑ ڈالر سے زائد قرض لیا گیا ہے، کورونا کے دوران 4.1 ارب ڈالر قرض لیا گیا، پیرس کلب کا کل قرضہ 3 ارب 78 کروڑ 50 لاکھ ڈالر ہے، جس میں 2 ارب 97 کروڑ ڈالر سے زائد قرض اور 81 کروڑ 40 لاکھ ڈالر شرح سود ہے، کورونا کی وجہ سے پیرس کلب کی جانب سے قرضوں پر ریلیف دیا گیا، یہ ریلیف اُس وقت ملا جب ڈالر آج سے 50 روپے سستا تھا، اب ہمیں نئے ایکسچینج ریٹ کے مطابق ادائیگی کرنی ہوگی، لہٰذا آئی ایم ایف آٹا، گھی، چینی سمیت 5 اشیاء پر سبسڈی ختم کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے، اور مطالبہ ہے کہ احساس پروگرام میں شامل افراد کو ہی ٹارگٹڈ سبسڈی دی جائے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات میں بہت کچھ طے ہونے جارہا ہے۔ یہ بات چیت رواں ماہ ہوگی۔ کامیاب مذاکرات کی صورت میں آئی ایم ایف مزید ایک ارب ڈالر قرض کی قسط جاری کرے گا، لہٰذا تب تک کے لیے پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا بوجھ برداشت کرنا ہوگا۔