5 مارچ 2011ء کا واقعہ ہے، ہم ہمدرد یونیورسٹی کراچی کے وسیع و عریض احاطے کے ایک حصے میں ایک خوش نما پنڈال میں موجود ہیں۔ ہمدرد یونیورسٹی کا سالانہ کانوکیشن منعقد ہورہا ہے۔ اس موقع پر ہمارے انتہائی فاضل کرم فرما جناب سید نعیم حامد علی الحامد کو اعزازی سند عطا کی جانی ہے، اسی نسبت سے ہم بھی وہاں موجود ہیں۔ یہ موقع نہ ہوتا تو شاید ہی ہم کانووکیشن کا حصہ بن پاتے۔ انتظار کی کوفت اور بھوکے پیاسے رہنے کی زحمت ہم جیسوں کی برداشت سے باہر ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہم نے اپنی سند بھی گھر بیٹھے ہی وصول کی تھی۔ نعیم صاحب کو سند دینے کا مرحلہ تقریب کے آخری حصے میں آیا۔ جیسے ہی انہیں سند تفویض کی گئی، انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے اشارے سے اپنے جذباتِ تشکر شعری قالب میں پیش کرنے کی اجازت چاہی، اور پھر اپنا پہلا شعر پیش کیا:
بہ فیض مقتدائے نغز گویان جہاں کہیے
بہ طرز بیدل اسطورہ شعر و بیاں کہیے
پھر وہ ایک ایک شعر پڑھتے رہے اور داد سمیٹتے رہے، مگر جب اس شعر پر پہنچے:
وہ پاکستان کے محسن جنہیں اے کیو خان کہیے
انہیں فخرِ جہانِ ملتِ اسلامیاں کہیے
تو مت پوچھیے کیا سماں بنا۔ زبانی داد و تحسین کے ساتھ تالیوں کا جو سلسلہ شروع ہوا تو دراز تر ہوتا چلا گیا۔ چند لمحوں کے لیے شعرخوانی موقوف ہوگئی۔ جب تالیاں زیادہ بڑھیں تو ڈاکٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے ہلکا سا ہاتھ ہلایا، اس پر تالیوں کا ارتعاش کئی گنا زیادہ ہوگیا۔ ہو یہ رہا تھا کہ جوں ہی تالیاں مدھم پڑنا شروع ہوتیں تو ایک جانب سے تازہ دم تالیوں کی نئی لہر پورے ہال کو پھر سے ڈھانپ لیتی، اور پھر مزید کچھ دیر یہی سماں رہتا۔ جب یہ سلسلہ پانچ سات منٹ سے بھی زیادہ دراز ہوگیا تو ڈاکٹر صاحب اپنی نشست پر کھڑے ہوگئے اور دونوں ہاتھ پھیلا کر شکریہ ادا کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر پورا پنڈال جو کم و بیش پانچ سے دس ہزار افراد پر مشتمل ہوگا، ایک ساتھ کھڑا ہوگیا اور پوری قوت کے ساتھ تالیاں پیٹی جانے لگیں۔ یہ سلسلہ کم و بیش پندرہ منٹ تک جاری رہا۔ اس کے بعد ہی کہیں جاکر تقریب اپنے ڈھب پر واپس آسکی۔ نائن الیون کے بعد ڈاکٹر صاحب پر بیتنے والی ایک انتہائی غیر معمولی آزمائش کے بعد کسی عوامی مجمع میں کم از کم ہمارے سامنے یہ پہلی اور بھرپور پذیرائی تھی۔
ڈاکٹر صاحب کو میں نے غالباً 1997ء میں کراچی یونیورسٹی میں شیخ زاید اسلامک سینٹر کے آڈیٹوریم میں دیکھا تھا۔ وہ اسٹیج پر تشریف فرما تھے اور مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے آخری گفتگو بھی انہوں نے فرمائی۔ اب یاد نہیں کیا سلسلہ تھا، لیکن کسی تعلیمی مقصد کے لیے فنڈ ریزنگ ہورہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے جہاں ایک جانب دوسرے حضرات کو عطیات کی ترغیب دی، وہیں اپنی جانب سے بالکل ابتدا ہی میں ایک لاکھ روپے چندے کا اعلان کیا، اور ساتھ میں یہ جملہ بھی کہا کہ یہ صرف اعلان نہیں ہے، یہ رقم یا اس کا چیک میں ابھی وائس چانسلر صاحب کے حوالے کررہا ہوں۔ اس روز بھی ڈاکٹر صاحب کی انتہائی عوامی پذیرائی کے مناظر نگاہوں میں محفوظ ہیں۔
مگر ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی نوبت بہت عرصے کے بعد آسکی۔ ڈاکٹر نعیم حامد علی الحامد صاحب کی ایک کتاب، شاید بیدل کی خدماتِ شاعری پر تازہ تازہ شائع ہوئی تھی، ان کی خواہش تھی کہ میں اس کتاب کے چند نسخے ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں پیش کروں- اسی دوران اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا تو میں نے نعیم صاحب سے عرض کردیا، اور ان ہی کے توسط سے مجھے گھر پر حاضری کی اجازت مل گئی۔ میں وقتِ مقررہ پر پہنچ گیا، تعارفی گپ شپ رہی۔ میں تو سنتا ہی رہا، وہی بولتے رہے۔ اپنی جوانی کے قصے، تعلیمی احوال یا پھر بھوپال، جو ان کا رومانس تھا… کچھ بھی ذکر کرتے، گھوم پھر کر بھوپال پر ضرور آجاتے۔ خیر نعیم صاحب کی کتابیں پیش کیں، شاید اپنی بھی کوئی کتاب پیش کی۔ لوازمات کے ساتھ چائے نوش کی اور واپس چلا آیا۔ اس سفر میں ہمارا قیام فیصل مسجد سے متصل آئی آر ڈی گیسٹ ہاؤس میں تھا، ڈاکٹر صاحب کے گھر سے وہاں پیدل کوئی دس منٹ کا فاصلہ تھا۔ سرد موسم تھا، نمازِ مغرب کا وقت تنگ ہوتا جارہا تھا، کمرے میں پہنچتے پہنچتے دس منٹ صرف ہوئے۔ وہاں پہنچ کر اپنے اضافی کپڑے ایک طرف رکھ کر وضو کیا، بہ مشکل نماز سے فارغ ہوا تھا کہ سعودی عرب سے نعیم صاحب کا فون آگیا۔ مصنوعی غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے کہ تم مل کر آگئے، اور بتایا تک نہیں! میں نے کہا کہ حضور ابھی کمرے میں آکر تازہ وضو سے نماز مغرب کی صرف تین رکعات ادا کی ہیں، میں آپ کو فون کرنے ہی والا تھا۔ بولے کہ جیسے ہی تم نے ان کے گھر سے واپسی کے قدم بڑھائے، انہوں نے فوراً مجھے کال کی اور اس ملاقات پر خوشی کا اظہار کیا، ان کا نمبر محفوظ کرلو، اب وہ تم سے خود رابطے میں رہیں گے، انہیں تم سے مل کر خوشی ہوئی ہے۔ اور واقعی اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے انتقال سے محض چند روز پہلے تک ازخود رابطہ رکھنے کی روایت ایسے نبھائی کہ باید و شاید۔ شاید سیکڑوں لوگوں کے ساتھ ان کا معمول یہ تھا کہ کچھ کو روزانہ اور کچھ کو ہر ہفتے جمعے کے روز ایک میسج ان کی جانب سے موصول ہوا کرتا تھا۔ چنانچہ برسوں یہ معمول رہا کہ صبح میں موبائل آن ہوتے ہی ڈاکٹر صاحب کا ایک خوبصورت سا میسج موصول ہوجاتا۔ مگر پھر یہ سلسلہ آج سے کوئی آٹھ، دس ماہ پہلے اچانک منقطع ہوگیا۔ دو ایک بار میسج ہی کے ذریعے ڈاکٹر صاحب کی خیریت دریافت کرنے کی کوشش کی، اس دوران وہ کئی بار علیل ہوئے، ہسپتال میں بھی داخل ہونا پڑا، اس لیے مناسب محسوس نہیں ہوا کہ انہیں کال یا میسج کے ذریعے زحمت دی جائے۔ لیکن دو تین ماہ پہلے ایک روز خیال ہوا اور میں نے ایک چھوٹا سا میسج واٹس ایپ کیا۔ تھوڑی دیر میں میسج کا جواب آگیا۔ میں نے میسج میں یہ پوچھا تھا کہ آپ کا روزانہ میسیج وصول ہونے کا سلسلہ منقطع ہے، خیریت تو ہے؟ فوراً جواب میں فرمایا کہ میرا موبائل تبدیل ہوا تھا، بہت سے نمبر ضائع ہوگئے، آپ کا نمبر محفوظ نہیں تھا۔ اور پھر روزانہ تو نہیں، ہر جمعہ میسج کا سلسلہ پھر سے شروع ہوگیا۔
ڈاکٹر صاحب کے ان پیغامات کا سلسلہ زیادہ عرصے جاری نہ رہ سکا کہ وہ مسلسل علالت کا شکار رہے، اور آخر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے۔
ڈاکٹر صاحب اپنے بارے میں کہا کرتے تھے:
گزر تو گئی ہے تری حیات قدیر
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
آج وہ کوفیوں سے اٹھ کر مدنیوں میں منتقل ہوگئے۔ یقیناً ان کی بے قراری کو اب قرار آچکا ہوگا، یقیناً وہ مردِ حر اپنی مراد پاچکا ہوگا۔انا للہ وانا الیہ راجعون
ڈاکٹر صاحب عملی زندگی میں انتہائی مذہبی مزاج کے حامل تھے، اور مذہبی معاملے میں کیا، ہر معاملے میں عملیت پسند تھے، لمحوں میں فیصلہ کرتے اور جس قدر بس میں ہوتا لمحوں میں ہی اس پر عمل شروع کردیتے۔ ایک بار میں ڈاکٹر صاحب کے پاس موجود تھا، کسی ضرورت مند کا میسج آیا، ایک بیوہ خاتون کی دو بچیوں کی اکٹھے شادی کا معاملہ تھا، خدا جانے کس حوالے سے انہوں نے ڈاکٹر صاحب تک رسائی حاصل کی۔ میرے سامنے ڈاکٹر صاحب نے میسج پڑھا، اس کے بارے میں کچھ تفصیلات مجھے بھی بتائیں، اور چائے پیتے پیتے کراچی میں ایک سرمایہ دار شخصیت کو فون کیا، انہیں ان ہی کے حلقہ احباب میں سے مزید دو افراد کے نام دیے اور کہا کہ آپ تینوں افراد ایک ایک لاکھ روپے تیار رکھیں۔ اللہ کے ان بندوں نے بھی ڈاکٹر صاحب سے کوئی سوال نہیں پوچھا، ڈاکٹر صاحب نے ازخود صرف اتنا کہا کہ کسی کی ضرورت پوری کرنی ہے، میں میسج پر آپ کو ان کا اکاؤنٹ نمبر بھیج رہا ہوں، یہ رقم اس میں بھجوا دیجیے۔ پھر جس نمبر سے میسج آیا تھا اُسی وقت اسے ایک میسج کردیا کہ اپنا اکاؤنٹ نمبر بھیجیے تاکہ رقم بھیجی جا سکے۔ یہ بات لکھنے میں ہمیں زیادہ وقت صرف ہوا ہے، اس سے کہیں کم وقت میں ڈاکٹر صاحب نے یہ کام کرڈالا۔
ڈاکٹر صاحب کسی بھی نیک کام کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ غالباً دو ہزار ایک یا دو میں کسی وقت کراچی میں دعوہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ریجنل کیمپس کے لیے بھاگ دوڑ شروع ہوئی، ایک ٹرسٹ کی جانب سے ایسے پلاٹ کا انتظام ہوگیا جو اب تک کسی مصرف میں نہیں لایا جاسکا تھا۔ اُس وقت کے کچھ اہلِ دل نے ایک فنڈ ریزنگ تقریب کا اہتمام کیا۔ ڈاکٹر صاحب سے سرپرستی کی درخواست کی گئی۔ وہ تشریف لے آئے اور ان کی برکت سے اچھے خاصے فنڈز کا وعدہ ہوا، جن میں سے خاصی رقم میسر بھی آگئی، یوں ایک معقول درجے کا کیمپس عوامی چندے سے کھڑا ہوسکا۔ یقیناً یہ سینٹر بھی ڈاکٹر صاحب کے لیے صدقہ جاریہ کا درجہ رکھتا ہے، جو اُس وقت سے اب تک اپنی بساط کے مطابق مسلسل تعلیم اور تربیت کے مختلف دائروں میں سرگرم عمل ہے۔ الحمدللہ
ڈاکٹر صاحب کا ذہن اس عمر میں بھی انتہائی تیز رفتاری سے کام کرتا اور عملی منصوبوں کے حوالے سے بہت زرخیز تھا۔ وہ لمحوں میں ہر اعتبار سے کارگر ترکیبیں سوچ لیتے اور جزئیات تک طے کرڈالتے۔ ایک بار میں نے چلتا پھرتا سوال پوچھ لیا کہ اگر آپ کو موقع ملے تو آپ پاکستان میں بجلی کی کمی دور کرنے کے لیے کیا اقدام کریں گے؟ انہوں نے اچھی خاصی جزئیات کے ساتھ پورا منصوبہ کافی کی چسکیاں لیتے لیتے بیان کردیا، جس میں کم از کم میرے خیال میں کوئی خلا نہیں تھا۔ کاش ان سے ان کی سطح پر نہ سہی، حکمرانوں کی ہی سطح پر استفادہ کرلیا جاتا تو ملک و ملّت کے کتنے ہی مسائل حل ہوجاتے۔
انہوں نے ایک ملاقات میں گزشتہ ایک حکومت کے وزیر منصوبہ بندی کا نام لے کر بتایا کہ انہوں نے اپنے بیانات میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا خوب ذکر کیا تو میں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی عالمی سطح کا معیار رکھنے والی ایک یونیورسٹی کا پورا منصوبہ تحریری شکل میں پیش کردیا۔ لیکن عرصے تک ان کی جانب سے جب وصولی کی رسید تک موصول نہیں ہوئی تو پھر کچھ قریبی احباب کے ذریعے رابطہ کرکے انہیں یاددہانی کرائی، اس کا بھی صرف اس قدر جواب آیا کہ اس پر ہم غور کریں گے، لیکن کچھ بھی نہ ہوسکا۔ یہ صاحب وہ تھے جن سے ڈاکٹر صاحب کے پرانے خاندانی مراسم بھی رہے تھے۔ سچ ہے کہ سیاست و انتظام کے اس حمام میں کپڑے کسی کے تن پر بھی نظر نہیں آتے۔
ڈاکٹر صاحب سے جب بھی ملاقات ہوتی تو بھوپال اور ناظم آباد کا ذکر ضرور آتا۔ ڈاکٹر صاحب بھوپال میں پیدا ہوئے اور 1952ء میں کراچی منتقل ہوگئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب بھوپال سے نکل تو آئے تھے لیکن بھوپال ان کے رگ و پے میں آخری لمحے تک موجود رہا۔ بھوپال کا موسم، بھوپال کے کھانے، بھوپال کے لوگ، بھوپال کا کلچر یا پھر بیگماتِ بھوپال… کون سی بات تھی جو بار بار ان کی زبان پر نہ آتی! ہماری نانی کا تعلق بھوپال سے ہے، جب ڈاکٹر صاحب کو اس بات کا علم ہوا تو ان کی گفتگو میں بھوپال کا تذکرہ مزید بڑھ گیا۔ ایک بار ہم نے ہمت کرکے پوچھ لیا کہ آپ پاکستان کی بات تو بہت کرتے ہیں مگر آپ نے شادی باہر کی؟ کہنے لگے کہ ہمارے ہاں بھوپال میں بدکرداری بالکل نہیں تھی، سب صاف ستھری زندگی گزارتے تھے، جب ہم تعلیم کے سلسلے میں ہالینڈ گئے تو ہمیں اندازہ ہوا کہ پاکیزہ زندگی کے لیے شادی ضروری ہے، چناں چہ ہم نے وہیں کی ایک مسلم خاتون سے شادی کرلی۔ ڈاکٹر صاحب کو اپنے بھوپالی ہونے پر اس لیے بھی فخر تھا کہ ان کے بقول بھوپال نے کبھی کوئی غدار پیدا نہیں کیا۔ یہی حال ناظم آباد کا تھا۔ ہم نے جب اپنی رہائش کا بتایا کہ ہم ناظم آباد میں رہتے ہیں تو ان سے ایک اور رشتہ نکل آیا، اور وہ بڑی للک کے ساتھ بتانے لگے کہ ناظم آباد نمبر تین میں فلاں جگہ ہماری رہائش تھی، فلاں فلاں بس سے ہم سفر کرتے، فلاں ہوٹل کی چائے، فلاں مقام کی کچوری اور فلاں جگہ کے کباب مشہور تھے۔ ہم شام میں فلاں جگہ ٹہلا کرتے، اور فلاں فلاں معروف افراد سے ہماری گپ شپ رہتی،وغیرہ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ناظم آباد کے مشاہیر کی تاریخ مرتب کی جائے تو کئی جلدوں میں بھی یہ سلسلہ مکمل نہ ہوسکے۔ کون کون وہاں نہیں رہا! ادیب، شاعر، علما، سیاست داں، کھلاڑی، فن کار، بیوروکریٹ، فوجی افسران۔ خیر بھوپال کا ذکر نکلتا تو وہاں کی حکمراں بیگمات کا بھی ذکر خوب کرتے۔ ان کی اصلاحات، خداترسی، فلاحی کاموں کا جذبہ اور مذہب پسندی… سب ہی کا ذکر کرتے اور خوب مدح و ستائش کے ساتھ۔ اور سچی بات یہ ہے کہ وہ اس سے زیادہ کی مستحق تھیں۔ کتنی ہی نیکیاں ان کی ذات سے وابستہ ہیں۔ علامہ شبلی اور سید سلیمان ندوی رحمہما اللہ کی مشترکہ کاوش ”سیرت النبیؐ“ کے لیے مالی وسائل انہوں نے ہی فراہم کیے۔ تنِ تنہا یہ کارنامہ ہی انہیں تاریخ میں امر کرنے کے لیے کافی ہے۔ ویسے ان کی خدماتِ سیرت پر الگ سے لکھا جاسکتا ہے،اور یہ کام امت پر قرض ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا ادبی ذوق بھی بہت بلند تھا۔ کتنی ہی ادبی انجمنوں اور شخصیات کے سرپرست رہے۔ ایک بار عندالملاقات ہمیں چند دیگر کتب کے ساتھ معروف بیوروکریٹ جناب مرتضیٰ برلاس کی کلیات اپنے دستخط کے ساتھ عطا کی، اور اس کی تعریف میں اس قدر مبالغہ کیا کہ ”میں اس شخص کو فیض سے بڑا شاعر مانتا ہوں“۔ ہمیں یہ بات خاصی مبالغہ آمیز معلوم ہوئی، گو کہ ہم نوّے کی دہائی میں، جب وہ کمشنر بھاول پور تھے، ان کا ایک مجموعہ پڑھ چکے تھے، اور ان کے کلام اور قدرتِ کلام دونوں سے قدرے واقف تھے، مگر جب ان کی بات ذہن میں رکھ کر کلیات کا مطالعہ شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ واقعی ان کا کلام نہایت توجہ طلب ہے۔ بیوروکریسی کی چھاپ بھی ایسی ہے کہ اچھے خاصے ادیب کو بھی ملازمت سے ہٹتے ہی گم نام بنا ڈالتی ہے، یہی کچھ اس زندہ شاعر کے زندہ کلام کے ساتھ ہوا ہے۔ پھر ہمارے ہاں ہر طبقے میں گروپ بندی نے ہر اُس فردکو غیر متعلق بناڈالا ہے،جو اپنے آپ کواس گروپ بندی بلکہ گروپ بازی سے مجتنب رکھنا چاہتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کھانوں کے بے حد شوقین تھے اور اس بارے میں معلومات بھی رکھتے اور ذوق بھی۔ ایک بار کہنے لگے کہ کراچی میں پیر پگارا (موجودہ پیر صاحب کے والد اور معروف پیر پگارا) کے گھر بننے والی بریانی سے بہتر میں نے کہیں نہیں کھائی۔ ایک زمانے میں ڈاکٹر صاحب کراچی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج رہے، اس مدت میں پیر صاحب انہیں طرح طرح کے کھانے بھیجتے رہے، اس کا ذکر آپ خوب فرماتے۔
ایک بار میں ڈاکٹر صاحب کے گھر ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اپنے دیرینہ ملازم سے پوچھنے لگے کہ باورچی آج کے لیے کیا پکا رہا ہے؟ وہ ملازم سیدھا سادہ، اپنی پنجابی نما اردو میں بولاکہ سالم مچھلی کا کچھ تیار کررہاہے۔بولے: تمہیں کچھ نہیں پتا،وہ فلاں ڈش تیار کررہاہے۔پھر اس کی ترکیب اور اس کا تعارف آپ نے اہتمام کے ساتھ بیان کیا،پھر بولے: اسے کہوکہ فلاں خاص قسم کے آلو بھی تیار کرلے،ہمیں وہ بہت پسند ہیں۔ہم نے ان کی تفصیل جاننی چاہی تو بتایا کہ افریقہ کے فلاں علاقے میں یہ آلو پائے جاتے ہیں،اب اسلام آباد میں بھی فلاں جگہ دستیاب ہیں،وہ ہمیں بہت پسند ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی باتیں یاد آتی رہیں گی،ان کے قصے بیان ہوتے رہیں گے،ان کے کارنامے تازہ کیے جاتے رہیں گے،لیکن وہ اپنی زندگی گزار کرجاچکے،بات وہی ہے،ایک ابدی حقیقت:
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزازکے ساتھ
(احمد ندیم قاسمی)
مگر ہم تو صحیح معنی میں پورے اعزاز کے ساتھ شاید دفنا بھی نہیں سکے۔