ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا پہلا تاریخی انٹرویو ستمبر1984ء میں کیا گیا،اس انٹرویو نے ڈاکٹر صاحب کو عالمی شہرت عطا کی انٹرویو شائع کرنے والا جریدہ ’’عالمی اسلامی ڈائجسٹ‘‘ ضبط کرلیا گیا
سوال: آپ اپنی علمی اور پیشہ ورانہ زندگی پر کچھ روشنی ڈالیں گے؟
جواب: میں اپریل 1936ء میں بھوپال کے ایک تعلیم یافتہ اور معزز گھرانے میں پیدا ہوا۔ 1952ء میں ہائی اسکول پاس کیا اور اسی سال اگست میں کھوکھراپار کے راستے پاکستان چلا آیا۔ اس سفر میں تقریباً 8میل کا سفر پیدل ننگے پاؤں جلتی ریت میں طے کیا، اور اجمیر شریف سے موناباؤ تک ریل کے سفر میں ہندوستانی افسروں اور پولیس والوں کے ہاتھوں جو اذیت اور ذلت اٹھانی پڑی وہ تاحیات یاد رہے گی۔ ان ہی واقعات نے قائداعظم کا مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کی ضرورت کا پُرزور مطالبہ مجھ پر زیادہ اور بالکل واضح کیا۔ بہرکیف میں نے کراچی یونیورسٹی سے بی ایس سی کرنے کے بعد تقریباً 3سال ناپ تول کے انسپکٹر کی حیثیت سے ملازمت کی جو 24 امیدواروں کے مقابلے میں امتحان پاس کرکے حاصل کی تھی۔ لیکن اس میں کام کے سلسلے میں کوئی چیلنج نظر نہیں آیا۔ اس لیے مغربی برلن چلا گیا اور چار لائبرگ میں مشہور عالم ٹیکنیکل یونیورسٹی میں علم حاصل کرنے کافیصلہ کیا۔ یہ اُس دور کی بات ہے جب میں نے روزنامہ جنگ کے لیے ’’برلن سے ایک خط‘‘ کے کئی مضامین لکھے، چونکہ میرے خسر اور خوش دامن دی ہیگ میں رہائش پذیر تھے، اس لیے ہم نے ستمبر 1963ء میں ہالینڈ جانے کا فیصلہ کرلیا اور ہڈیلف کی مشہور ٹیکنیکل یونیورسٹی میں فزیکل میٹالرجی میں تعلیم جاری رکھی۔ میری کارکردگی تسلی بخش رہی اور عالمی شہرت یافتہ پروفیسر ڈبلیو جی برجرز کا معاون بنادیا گیا۔ 1967ء میں ایم ایس مکمل کرنے کے بعد میں فروری 1968ء میں پروفیسر برجر کے ساتھ ریسرچ اسسٹنٹ فیلو کے طور پر کام کرتا رہا۔ فروری 1968ء میں ہی مجھے بیلجیئم میں لووین کی قدیم یونیورسٹی سے ریسرچ فیلوشپ کی پیش کش ہوئی، اور 1972ء میں یہیں پر میں نے فزیکل میٹالرجی ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی سند حاصل کی۔ اس عرصے میں میرے تقریباً 20 عدد مقالے شائع ہوئے، جو کہ بے حد سراہے گئے۔ اس دوران ایمسٹرڈم سے شائع ہونے والی مشہور عالم کتاب ’’ٹوپکس ان فزیکل میٹالرجی‘‘ بھی میری تدوین شدہ ہے۔
1972ء کے اوائل میں ایک سابقہ رفیق کار کی خواہش اور ڈاکٹر ایم۔جے کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے میں ایف ڈی او ٹیکنیکل ایڈوائزر ایمسٹرڈم میں شامل ہوگیا۔ یہاں میں نے اپنی مہارت کی بدولت ہی ’’ڈچ سینٹری فیوجیکل‘‘ پروگرام کی بیش بہا خدمات انجام دیں۔ ہالینڈ میں قیام کے دوران نہ میں نے کسی سے یہ کہا اور نہ کسی کو یہ تاثر دیا کہ میں ہمیشہ ہالینڈ یا کسی دوسرے ملک میں رہنا چاہتا ہوں، کیونکہ میں ہمیشہ اپنے وطن واپس آکر اپنے ملک کی خدمت کرنا چاہتا تھا۔ میری اس خواہش سے میرے تمام رفقائے کار واقف ہیں اور وہ اس کی گواہی دے سکتے ہیں۔ دسمبر 1975ء میں ہم پاکستان آئے۔ میں یہاں آکر بیمار پڑ گیا اور چند ہفتوں تک بستر پر پڑا رہا۔ اس دوران میری ماں، بھائی اور بہنوں نے اصرار کیا کہ میں یہیں قیام کرکے خدمت انجام دوں! میری بیوی نے ہمیشہ کی طرح سمجھ داری اور تعاون سے کام لیتے ہوئے پاکستان میں رہنے کی ہامی بھر لی۔ لہٰذا میں نے ایف ڈی او سے استعفیٰ دے کر اپنی حکومت کی ملازمت کرلی۔ بعد میں جب میں نے حکومت کو یہ بتایا کہ میں سینٹری فیوج ٹیکنالوجی میں خاص مہارت رکھتا ہوں تو اس کام کو منظم طریقے پر کرنے کی ذمہ داری بھی مجھے سونپ دی گئی۔
سوال: ڈاکٹر صاحب آپ میٹالرجسٹ ہیں۔ بہت سے عام لوگوں کی مانند میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ نے اس قلیل عرصے میں ایٹمی چکر کے انتہائی پیچیدہ اور جاہ طلب پروجیکٹ پر کس طرح عبور حاصل کیا؟
جواب: میں صرف میٹالرجسٹ نہیں بلکہ ایک فریکل، میٹالرجسٹ سائڈ اسسٹنٹ بھی ہوں، چونکہ یہ شعبہ صحیح طور پر پاکستان میں نہیں ہے اس لیے لوگوں کے ذہن میں میٹالرجی سے لوہار کا تصور ابھرتا ہے۔ حالانکہ ایسا قطعی نہیں ہے، کیونکہ فزیکل میٹالرجی ایک بیش قیمت تربیت ہے۔ اس کا ماہر فولاد اور دیگر دھاتیں بنانا سیکھتا ہے، اور اس کے ساتھ میں نے 2 سال تیکنیکی فزکس، 2 سال ایٹمی فزکس، 2 سال سالڈ اسسٹنٹ فزکس، انجینئرنگ کے مضامین کی تربیت حاصل کی۔ مثلاً الیکٹرونکس، مشین، الٹس، ریپلائز میکانکس، میکانیکل ورکنگ وغیرہ۔ مزید برآں ان چیزوں میں تو مہارت حاصل کرنا ضروری ہی ہے، جیسا کہ ویلڈنگ ٹیکنالوجی، فائونڈری ٹیکنالوجی، کروژن سائنس، پروڈکشن تیکنیک، انڈسٹریل مینجمنٹ وغیرہ۔ جبکہ امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، جرمنی، جاپان میں فزیکل میٹالرجی کے ماہرین نے انتہائی پیچیدہ پراجیکٹ میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ سرایلن کاٹریل اور سرمونٹی فٹن جو کہ حکومت برطانیہ کے چیف سائنٹسٹ تھے، اعلیٰ معیار کے فزیکل میٹالرجسٹ تھے۔ آج بھی برطانوی حکومت کے چیف سائنٹفک ایڈوائزر پروفیسر ڈاکٹر آربی نکلسن ایک ماہر فزیکل میٹالرجسٹ ہیں، دیگر ممالک کی مثالیں بھی تقریباً ایسی ہی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اس شعبے کے ماہرین کی کمی ہے۔ میں اس بات کو واضح کرتا چلوں کہ اگر میں فزیکل میٹالرجسٹ نہ ہوتا تو جس پروجیکٹ پر کام کررہا ہوں وہ کامیاب نہ ہوپاتا۔ میں بطور فزیکل میٹالرجسٹ ہی اپنے رفقائے کار سے ان کی ذہنی سطح پر رابطہ رکھ سکتا ہوں، اور ہم ایک دوسرے کے مسائل و مشکلات سے آگاہ ہوسکتے ہیں۔ یہ ایک ٹیم ورک ہے اور میں نے اور میرے رفقائے کار نے اس پروجیکٹ کو کامیاب بنانے میں بڑی محنت کی ہے، اور میں اپنی تمام تر کاوشوں کو فزیکل میٹالرجی کی تعلیم و تربیت کا مرہونِ منت سمجھتا ہوں۔ میری بات واضح ہوگئی ہوگی۔
سوال: تقریباً 7 سال تک آپ نے کسی کو انٹرویو نہیں دیا اور نہ ہی کوئی خبر شائع ہوئی۔ لیکن اچانک آپ منظرعام پر آئے اور بین الاقوامی شہرت کا باعث بن گئے۔ یہ سب کیسے ہوا؟
جواب: ہالینڈ میں چلنے والے میرے مقدمے کو بین الاقوامی شہرت دی گئی اور اس نے پوری قوم کو مشتعل کردیا۔ پاکستانی پریس نے بھی سخت احتجاج کیا۔ بے شمار اداریے، مضامین، خطوط، خبریں اخبارات و جرائد میں شائع ہوئیں جن میں مطالبہ تھا کہ چونکہ حکومت کے ایک اہم فرد کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے اور پورے ملک کا وقار مجروح کیا جارہا ہے لہٰذا حکومت کو اس معاملے میں ضروری کارروائی کرنی چاہیے۔ قدرتی امر ہے کہ ان حالات میں کہانیوں نے جنم لیا جن میں بیشتر قیاس آرائیوں پر مبنی تھیں۔ آنجہانی اندروپوف کے جنازے میں جاتے ہوئے صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق سے صحافیوں نے اس معاملے میں استفسار کیا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ پاکستان یورینیم کی زرخیزی کی استطاعت رکھتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستانی ایٹمی پروگرام قطعی طور پر پُرامن ہے اور ایٹمی ہتھیار بنانے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں۔
سوال: ایسا کیوں ہے کہ ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک کی صحیح طور پر مدد کرنے سے گریزاں ہیں؟
جواب: دراصل بنیادی طور پر تمام ترقی یافتہ ممالک یہ نہیں چاہتے کہ ترقی پذیر اور تیسری دنیا کے ممالک اعلیٰ مہارت اور ٹیکنالوجی حاصل کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اجارہ داری رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ترقی پذیر ممالک ان کے دستِ نگر رہیں اور ان کی منڈیاں قائم رہیں۔ اس معاملے میں تمام ترقی یافتہ ممالک متحد ہیں۔ جہاں تک ایٹمی توانائی کا تعلق ہے، ترقی پذیر ممالک اس کی اہمیت سے آگاہ ہوچکے ہیں اور اسے حاصل کرنے کا مصمم ارادہ کرچکے ہیں۔
سوال: مغربی ممالک کے عوام کے ذہنوں میں یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ پاکستان ایٹمی ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کا مرتکب ہوسکتا ہے؟
جواب: ہماری ٹیکنالوجی کے بارے میں کسی کے ذہن میں یہ خدشہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارا ایٹمی پروگرام بالکل پُرامن ہے۔ حکومتِ پاکستان نے دنیا کو متعدد بار اپنے پروگرام کے پُرامن ہونے کا یقین دلایا ہے کہ ہماری تمام تر کوششیں بجلی کی پیداوار کے لیے ہیں۔ کہوٹہ کے پلانٹ پر تیار کیا گیا زرخیز یورینیم ہمارے ہلکے پانی کے ری ایکٹروں میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوگا تاکہ بجلی کی کمی دور کی جاسکے۔
سوال: کیا آپ اپنی ٹیم کے ہمراہ کسی دوسرے پروجیکٹ پر بھی کام کریں گے؟
جواب: میں یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ صرف 7 سال کے عرصے میں ہم نے انتہائی مشکل کام پر قابو اس لیے پایا کہ ہمارے سارے ساتھی انتہائی قابل اور محب وطن ہیں اور ہماری ٹیم کئی دوسرے میدانوں میں بھی ملک کی خدمت کرسکتی ہے، خاص طور پر صنعتی ترقی میں بے حد معاون ہوگی۔
سوال: مغربی پریس نے آپ کی صحت کے بارے میں بھی افواہیں پھیلائی ہیں کہ آپ اعصابی تھکن کا شکار ہیں؟ لیکن جہاں تک میں دیکھ رہا ہوں آپ مجھے بالکل توانا نظر آرہے ہیں بلکہ آپ تو اس کام کے مقابل بہت کم عمر نظر آرہے ہیں؟
جواب: آپ نے درست فرمایا، میں بالکل تندرست ہوں اور کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں ہے۔ ان کے محرکات کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا، ہاں البتہ یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ افواہیں اڑانے والے صریحاً قیاس کا شکار ہیں۔ یہ دراصل نفسیاتی جنگ کا ایک حربہ ہے جس میں وہ ماہر ہیں۔ میں صرف اتنا کہوں گا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں اور اپنے بدخواہوں کو مایوس کروں گا۔
سوال: ڈاکٹر صاحب آپ ایک نامور ایٹمی سائنس دان ہیں اور بیرونی دنیا میں آپ کے لیے بہتر مواقع فراہم ہوسکتے ہیں۔ کیا آپ پاکستان میں کام مکمل کرکے بیرونِ ملک جانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
جواب: میں سب کچھ گنوا کر اُس وقت پاکستان آیا جب میں ایک نوعمر لڑکا تھا۔ میں اپنے طور پر بیرونِ ملک گیا اور تعلیم و تجربہ حاصل کیا۔ میں 15 سال ملک سے باہر رہا، لیکن اپنی قومیت نہیں بدلی۔ کسی لالچ، غرض کے بغیر وطن واپس آیا، ملک کی خدمت کی، اور جب تک وطن کو ضرورت رہی اُس وقت تک کرتا رہوں گا۔ اگرچہ ایسے بہت سے خود ساختہ محب وطن موجود ہیں جو بیرونِ ملک عیش اڑاتے ہیں اور کبھی کبھار وطن آتے ہیں۔
سوال: ڈاکٹر صاحب! مغربی ممالک اور بھارت ذوقِ سلیم کی تمام حدود پھلانگ چکے ہیں اور ایٹمی ٹیکنالوجی کی اجارہ داری کے لیے آپ کا چیلنج قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کیا یہ جائز ہے؟
جواب: ہمارا ارادہ کسی ملک کو چیلنج کرنے کا نہیں، ہم تو فقط اپنی ضرورت کے تحت کام کررہے ہیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہم دنیا کے اُن چند ملکوں میں سے ایک ہیں جو کہ زرخیزی ٹیکنالوجی میں پیش پیش ہیں۔ ان لوگوں کے ذہن یہ قبول کرنے سے قاصر ہیں کہ ہمارا جیسا پسماندہ ملک اس پیچیدہ ٹیکنالوجی میں اتنے قلیل عرصے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ بھارت اور سوئٹزرلینڈ کی زرخیز یورینیم کی ترسیل روک دی گئی ہے اور انہیں سیاسی بلیک میل کیا جارہا ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ یورینیم کی زرخیزی انتہائی پیچیدہ اور وقت طلب کام ہے اور ایٹمی ایندھن کے چکر میں اسے خاص اہمیت حاصل ہے۔ برطانیہ، جرمنی اور ہالینڈ جیسے ترقی یافتہ ممالک نے بھی تقریباً 25 سال کی عرق ریزی اور 2 ہزار ملین ڈالر کے اصراف سے اس پر عبور حاصل کیا ہے۔ جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک نے ایک چھوٹے سے پلانٹ کی تعمیر کے لیے تقریباً 650 ملین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ امریکہ اپنی ریاست اوہایو میں پورٹ مائوتھ کے قریب 10 ارب ڈالر کی لاگت سے ایک سینٹری فیوج پلانٹ کی تعمیر کا ارادہ رکھتا ہے جو کہ 1989ء میں کام شروع کرے گا۔ ان حقائق کے پیش نظر دوسرے ممالک یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ پاکستان جیسا پسماندہ اور غریب ملک اتنی کم مدت میں اس میدان میں کامیابی حاصل کرلے گا! لہٰذا جیسے ہی انہیں اس حقیقت کا علم ہوا ہمارے خلاف غیر منصفانہ اور ناجائز پروپیگنڈہ شروع کردیا گیا۔ بے بنیاد کہانیاں جنم دی گئیں، الزام تراشی کی مہم شروع کردی گئی۔ انتہا یہ کہ ذاتیات پر حملے ہونے لگے۔ ہمارے صدر جنرل ضیاء الحق کی یقین دہانیوں کے باوجود یہ ممالک حقائق سے فرار اختیار کررہے ہیں اور غیر منصفانہ اور غیر شریفانہ پروپیگنڈے میں مصروف ہیں۔
سوال: بھارت ہمیشہ پُرامن اور صلح پسند ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، لہٰذا ہم اُن سے کیوں نا کوئی معاہدہ کریں جس کے تحت جنوب مشرقی ایشیا کو ایٹمی ہتھیاروں پر پاک رکھا جاسکے…؟
جواب: اگر بھارتی اتنے ہی امن پسند اور صلح جُو ہیں تو وہ ہمارے صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی منصفانہ پیش کش پر لبیک کیوں نہیں کہتے؟ اس میں کوئی مغربی ملک ان سے امتیاز نہیں برت رہا۔ یہ تو دو خودمختار ملکوں کے درمیان باہمی اعتماد اور معاہدے کی پیش کش ہے۔ لیکن وہ اس سے کیوں مفر کررہے ہیں؟ جواب صاف ظاہر ہے کہ بھارت اس زعم میں ہے کہ برصغیر میں صرف اُس کو ہی ایٹمی ٹیکنالوجی پر دسترس حاصل رہے اور پاکستان (کچھ پسماندہ ہونے کے ناتے) باہمی عزت اور برابری کا مستحق نہیں۔ اس زعم کا اظہار بھارتی ایٹمی انرجی کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر سیٹھنا کے حالیہ بیان سے بخوبی ہوتا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ بھارت بلاشبہ اس قابل ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار بنائے، جب کہ پاکستان کے پاس بذاتِ خود یہ استعداد نہیں! لیکن میں بھارت کو کنزین ری ایکٹر (CIRAS) کے خفیہ استعمال پر مبارک باد پیش کرتا ہوں! اس پر بھی اس نے امن پسندی کا لبادہ اوڑھ کر نہایت چالاکی سے ایٹمی دھماکا کیا (18 مئی 1974ء) اور اس سارے وقفے میں پوری دنیا کو دھوکے میں رکھا، اور اس سے بھی بڑی خوبی یہ کہ صاف بچ نکلا۔ لیکن یہ سارا کام اُس نے خود نہیں کیا۔ اس کے برخلاف ہم نے یورینیم کی زرخیزی کی صلاحیت کسی قسم کی دھوکا دہی اور کسی بیرونی امداد کے بغیر حاصل کی ہے۔ ڈاکٹر سیٹھنا اس بات کو بخوبی سمجھتے ہوں گے کہ اگر پاکستانی سائنس دانوں اور انجینئروں نے دنیا بھر کی پابندیوں، سامان اور آلات کے حصول میں رکاوٹوں کے باوجود اس پیچیدہ ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کرلیا ہے تو ان کے لیے اب کسی بھی مشکل ترین اور پیچیدہ کام کو سرانجام دینا مشکل نہیں۔ لیکن ہمارا پروگرام صرف پُرامن مقاصد کے لیے ہے، اور ہمارے صدر صاحب نے اس سلسلے میں بار بار یقین دہانی کروائی ہے۔
سوال: آپ بھارت اور ہمارے ایٹمی پروگرام کا کس طرح موازنہ کریں گے؟
جواب: پہلے بھارت ایٹمی پروگرام کے میدان میں ہم سے بہت آگے تھا۔ درحقیقت ان کا پروگرام بڑی ٹھوس بنیادوں پر قائم کیا گیا تھا، کیونکہ آنجہانی جواہر لال نہرو اس میں خود ذاتی دلچسپی رکھتے تھے، اور اس پر ان کا ذاتی کنٹرول تھا۔ بدقسمتی سے ہمارا معاملہ ایسا نہیں تھا۔ بہرکیف جب ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا چارج سنبھالا تو انہوں نے ہمارے ایٹمی پروگرام کو صحیح خطوط پر استوار کیا۔ یہ ان ہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ اب ہمارے پاس لوگ ایک انجینئر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ سائنس دان بھی ہوتے ہیں، اور یہ کہ ان ہی کاوشوں سے PNSTECK اور کراچی میں ایٹمی پلانٹ تعمیر ہوئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کئی سائنس دانوں اور انجینئروں کو بیرونِ ملک تعلیم و تربیت کے لیے بھیجا۔ ان باتوں سے ظاہر ہے کہ تدابیر ایٹمی توانائی کے پروگرام میں بہت دیر سے شروع کی گئیں، اور ان کے تعاون سے ہماری پوری کوشش یہ ہے کہ ہم اس کمی کو کم از کم مدت میں پورا کریں۔ بہرحال یورینیم کے معاملے میں ہم نے بھارت کو کئی سال پیچھے چھوڑ دیا ہے، اور یہ امر میرے اور میرے رفقائے کار کے لیے باعثِ فخر ہے۔ ہم نے پاکستان کو اس میدان میں اتنے قلیل عرصے میں صفِ اوّل میں لاکھڑا کیا ہے۔
سوال: مغربی ممالک کے اخبارات کا رویہ پاکستان کے مختصر و پُرامن ایٹمی پروگرام کے معاملے میں اتنا معاندانہ کیوں رہا ہے؟
جواب: جیسا کہ آپ جانتے ہیں، تمام مغربی ممالک بشمول اسرائیل نہ صرف پاکستان کے دشمن ہیں بلکہ تمام عالمِ اسلام کے مخالف ہیں۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر پاکستان کے علاوہ کسی اور بھی اسلامی ملک نے یہ کامیابی حاصل کی ہوتی تو ان دشمنوں کا رویہ اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا۔ عراق اور لیبیا کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ عرصۂ دراز تک یہ دونوں ممالک ایٹمی اختراع حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اس کے باوجود مغربی نشریاتی ادارے ان کے خلاف زوردار پروپیگنڈے میں مصروف ہیں۔ عراق کے مشہور سائنس داں اور ایرانی ایٹمی پروگرام کے سربراہ یحییٰ الشہید کو پیرس کے میریڈن ہوٹل میں دن دہاڑے قتل کیا گیا۔ ان کے زیر تعمیر ایٹمی ری ایکٹر پر سوچی سمجھی اسکیم کے تحت اسرائیلی فضائیہ نے حملے کیے۔ مغربی حکومتوں کو خدشہ ہے کہ اگر پاکستان نے اس ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کرلیا تو اس کے فوائد تمام اسلامی ممالک کو حاصل ہوجائیں گے۔ یہ خدشات دشمنوں کو بھارت کے معاملے میں نہیں ہیں۔ وہ اس لیے کہ بھارت نے لیبیا اور عراق سے انتہائی دوستانہ تعلقات کے باوجود ان سے ایٹمی میدان میں تعاون نہیں کیا۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی ممالک بھارت کی ایٹمی پالیسیوں کی اعانت کرتے رہے ہیں، اور غیر منصفانہ طور پر ایٹمی زرخیزی کے میدان میں ہماری کاوشوں کے بارے میں شکوک و شبہات کو ہوا دے رہے ہیں۔ ہمارے توانائی کے پروگرام کی ایک بڑی رکاوٹ سرمائے کی کمی ہے۔ یہ تو یقینی بات ہے کہ ایٹمی توانائی ارزاں ہونے کے باعث ہماری بڑھتی ہوئی ضرورت کا واحد علاج ہے۔ لہٰذا ہم ویسے بھی اپنے ایٹمی پروگرام کو توانائی کے حصول تک محدود رکھنے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ ہماری محدود استعداد اور سرمائے کی کمی ہمیں ارزاں توانائی کے حصول کے حصار سے آگے نہیں بڑھنے دیتی۔
سوال: بھارتی وزیراعظم اور سابق چیئرمین بھارتی ایٹمی توانائی کمیشن نے اپنے ایک حالیہ بیان میں یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ ’’بھارت ایٹمی ٹیکنالوجی کے تمام شعبوں میں پاکستان سے آگے ہے‘‘۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
جواب: ڈاکٹر سیٹھنا اور حال ہی میں بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کے بیانات کہ بھارتی ایٹمی پروگرام پاکستان سے بہت آگے ہے، غلط ہے۔ یہ انہوں نے اپنے عوام کو دھوکا دینے کے لیے جھوٹ گھڑا ہے تاکہ ان کے حوصلے پست نہ ہوں۔ جبکہ اٹل حقیقت یہ ہے کہ زرخیزی کی ٹیکنالوجی میں نہ صرف یہ کہ ہمیں مؤثر کامیابی ہوئی ہے، بلکہ ہم نے بھارت کو کئی سال پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اور جب کوئی ملک اس ٹیکنالوجی پر دسترس حاصل کرلیتا ہے تو وہ ایٹم بم تو کیا ہائیڈروجن بم بھی بناسکتا ہے، جس کے لیے زرخیز یورینیم بطور ٹریگر استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے پاکستان اور عالم اسلام کے دشمن جانتے ہیں کہ پاکستان ایٹم بم تو کیا ہائیڈروجن بم بھی بنا سکتا ہے۔ بھارتیوں کے پاس نہ ٹیکنالوجی ہے اور نہ صلاحیت، لیکن ہم ایٹمی ہتھیاروں میں قطعی کوئی دلچسپی نہیں رکھتے اور ہمارا زرخیزی پروگرام فقط پُرامن مقاصد کے لیے ہے جو کہ آئندہ سالوں کے لیے توانائی کی ضرورتوں کو پورا کرے گا۔
سوال: آپ اور آپ کے رفقائے کار اب کس پروجیکٹ پر کام کرنا چاہیں گے؟
جواب: حکومتِ پاکستان ہماری صلاحیتوں سے بخوبی واقف ہے۔ ہم ہر خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ جو بھی کام سونپا جائے گا ہم پوری کوشش کریں گے کہ ان کی امیدوں پر پورے اتریں۔
سوال: پاکستان کو اپنے ایٹمی یا دیگر پروگرام میں کون سی مشکلات کا سامنا ہے؟
جواب: مسائل تو کئی ہیں، لیکن میں چند کا ذکر کروں گا۔ سب سے بڑا مسئلہ سرمائے کی کمی ہے۔ اس کے بعد ترقی یافتہ ممالک کی لگائی ہوئی پابندیاں ہیں جو اسلام دشمنی پر مبنی ہیں۔ ماہر اور تربیت یافتہ کارکنوں کی کمیابی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ خاص طور پر میٹالرجی کے میدان میں، کیونکہ میٹالرجی کے ماہرین کے بغیر نہ تو ایٹمی ری ایکٹر بنائے جاسکتے ہیں اور نہ اس کے لیے ایندھن تیار کیا جاسکتا ہے۔
سوال: آپ نے حکومت کو خود خدمات پیش کی تھیں یا حکومت نے آپ سے وطن واپسی کے بعد آپ کی خدمات حاصل کیں؟
جواب: میں پہلے ہی حکومت کی خدمت کررہا تھا۔ جب ان کو میٹالرجی اور ایٹمی ٹیکنالوجی کے میدان میں میری مہارت کا علم ہوا تو انہوں نے اس سے استفادہ حاصل کرنا چاہا تو میں نے اپنا فرض ادا کردیا۔