بچوں میں حسِ مزاح ان میں بلند آئی کیو اور ذہانت کو ظاہر کرتی ہے۔ اب ایک سروے سے معلوم ہوا ہے کہ بہتر معلومات اور زبانی دلائل کے ماہر بچوں کی فطرت میں ہنسی مذاق کی حس پائی جاتی ہے۔ اس ضمن میں ایک مطالعہ ترکی میں کیا گیا جس کی تفصیلات ہیومر نامی تحقیقی جرنل میں شائع ہوئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بالغان کے مقابلے میں کمرئہ جماعت کے مسخرے بچے ہی درحقیقت ذہین ہوتے ہیں، اور یوں بچوں میں ذہانت اور حسِ مزاح کا گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔ انسانی تاریخ میں حسِ مزاح کو بلند ذہانت قرار دیا جاتا رہا ہے، کیونکہ برجستہ جملوں کا اظہار ہوشیاری اور حاضر دماغی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سے قبل بڑوں میں اسی طرح کی تحقیق ہوئی ہے لیکن اب پہلی مرتبہ بچوں پر اس کے اثرات معلوم کیے گئے ہیں۔
اس ضمن میں 200 بچوں میں سے ہر ایک کو دس کارڈ دیئے گئے جن میں کارٹون بنائے گئے تھے۔ تمام بچوں سے کہا گیا کہ وہ اسے دیکھتے ہوئے کوئی مضحکہ خیز جملہ یا عنوان لکھیں۔ اس کے بعد سات مختلف ماہرین نے ان جملوں کی درجہ بندی کرتے ہوئے تحریر شدہ موضوع کو اول، دوم، سوم اور دیگر درجات دیئے۔ اس کے بعد تمام بچوں کے معیاری آئی کیو ٹیسٹ بھی لیے گئے۔ جب بچوں میں ذہانت اور حسِ مزاح کا جائزہ لیا گیا تو پتا چلا کہ جن بچوں کی حسِ مزاح بلند تھی اُن میں ذہانت کا معیار بھی اونچا تھا۔ 68 فیصد بچوں میں ذہانت اور حسِ مزاح کا واضح تعلق سامنے آیا۔ بالخصوص جن بچوں میں معلوماتِ عامہ یعنی جنرل نالج اور زبانی دلائل (وربل ریزننگ) کی صلاحیت بلند تھی ان میں مزاح کا عنصر اتنا ہی زیادہ تھا۔ تاہم ترک ماہرین کا خیال ہے کہ حسِ مزاح کی تعریف ہر معاشرے میں مختلف ہوتی ہے۔ ایک خطے کے لطیفے دوسرے علاقے کے لوگوں کے لیے نہیں ہوسکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حسِ مزاح کا تعلق معاشرے، رسوم اور اقدار سے ہوتا ہے۔