سفیانؒ کے حکیمانہ اقوال کتب ِتاریخ و ادب و سلوک میں بہ کثرت منقول ہیں۔ ہم یہاں ان کا انتخاب درج کرتے ہیں:
1۔ عالم طبیب اور روپیہ مرض ہے۔ پس جب طبیب خود مریض ہو تو وہ دوسروں کا علاج کیا کرے گا!
2۔ لوگوں کے لیے حدیث سے زیادہ نافع کوئی علم نہیں۔ نہ کوئی عمل طلب ِحدیث سے افضل ہے بشرطیکہ نیت صحیح ہو، لیکن یہ پُرخطر بہت ہے۔
3۔ اہلِ حدیث کو زکوٰۃ دینا لازم ہے، یعنی 32 احادیث میں سے کم از کم پانچ پر ضرور عمل کریں۔
4۔ جو درویش تونگروں کے آس پاس پھرے، وہ ریاکار ہے۔ جو بادشاہ کے پاس آمدورفت رکھے ،وہ چور ہے۔ اور جو اپنی ذات کو دوسروں سے افضل سے سمجھے وہ متکبر ہے۔
5۔ کھانے کی لذت اور بدمزگی ہونٹ سے حلق تک رہتی ہے۔ اس لیے اتنا صبر کر لو کہ وہ حلق سے اتر جائے۔ چونکہ یہ سفر بہت جلد طے ہو جاتا ہے اس لیے اتنا صبر چنداں دشوار نہیں۔
6۔ جو شخص خدا کی راہ میں ناپاک کمائی صرف کرتا ہے، گویا وہ پیشاب سے کپڑا پاک کرنا چاہتا ہے۔
7۔ جب خود عالم بگڑ جائیں تو بتائو ان کی اصلاح کرنے کون آئے!
8۔ جب تم کسی کو ایسا کام کرتے دیکھو جس کے تم خلاف ہوتو اُس شخص کی توہین نہ کرو۔
9۔ عقل مند کی شان یہ ہے کہ اگر اُس کا ہاتھ بٹانے والا کوئی ہو تو خود دنیا پر نہ جھکے۔
10۔ ایک شخص نے کہا کہ کچھ نصیحت کیجیے۔ آپؒ نے کہا ’’یہ غور کرتے رہنا کہ تمہاری روٹی کہاں سے آتی ہے‘‘۔
11۔ بڑے آدمی کے ساتھ سفر کبھی نہ کرنا، کیونکہ تم اُس کے برابر خرچ کرو گے تو تمہیں نقصان پہنچے گا اور اگر اُس سے کم اٹھائو گے تو وہ تم سے بچے گا۔
12۔ بیویوں کی کثرت دنیا داری نہیں کہی جا سکتی کیونکہ جناب علی، ازہد صحابہ میں تھے مگر آپ کے پاس چار بیویاں اور انیس باندیاں تھیں۔
13۔ اس زمانے میں نجات لوگوں سے پرہیز کرنے میں ہے۔ لہٰذا امرا سے بچو۔ لوگ تم سے کہیں گے کہ امرا سے ملاقات رکھنے کی صورت میں آپ ضرورت مندوں کی سفارش کر سکتے ہیں، مظلوم کی حمایت کر سکتے ہیں، ظلم کو روک سکتے ہیں، مگر یہ سب شیطان کا فریب ہے۔
14۔ اگر تم اپنے آپ کو پہچان لو تو لوگوں کی بری بات سے تکلیف نہ ہو۔
15۔ عادل امام پانچ ہیں: خلفائے اربعہ اور عمر بن عبدالعزیز۔ جو شخص ان کے سوا کسی کو عادل کہے، وہ حد سے بڑھ گیا۔
[”مقالاتِ عرشی“۔ ص 22…. مولانا امتیاز علی عرشی]
مجلس اقبال
جگر سے تیر پھر وہی پار کر
تمنا کو سینوں میں بیدار کر
علامہ امتِ مسلمہ کو کل کی طرح آج بھی یہ درس دے رہے ہیں کہ اپنے دلوں میں وہی ایمانی جذبے اور ایمانی حرارت و تڑپ پیدا کریں اور اپنے مقام کو پہچانتے ہوئے اپنے آپ کو ذلتوں سے نکال کر امامت و قیادت کے لیے تیار کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایمان و عمل کے جذبوں سے اپنے جگر چھلنی کریں اور سینوں میں ازسرِنو زندہ تمنائیں پیدا کریں۔