اردو کا مقدمہ

کتاب
:
اردو کا مقدمہ
مصنف
:
پروفیسر غازی علم الدین
0345-9722331
prof.ghaziilmuddin@gmail.com
صفحات
:
104 قیمت:400 روپے
ناشر
:
محمد عابد۔ مثال پبلشرز، رحیم سینٹر
پریس مارکیٹ، امین پور بازار ،فیصل آباد

فون+92-41-615359-2643841

پروفیسر غازی علم الدین بجاطور پر آزاد کشمیر کے بابائے اردو کے بلند مقام پر فائز ہوچکے ہیں۔ ان کی اردو کے سلسلے میں متنوع خدمات قابلِ صد تحسین ہیں۔ پروفیسر مشتاق احمد ساقی شعبۂ اردو گورنمنٹ کالج میرپور تحریر فرماتے ہیں:
’’عصرِ حاضر میں اردو کی کشتی کو طوفانِ بلاخیز کا سامنا ہے، جس کے مقابل چند سربکف محبانِ اردو سینہ سپر ہیں جو اصلاحِ زبان کے ساتھ ساتھ دشمنانِ اردو کے حملوں کا بھرپور علمی اور استدلالی جواب بھی دے رہے ہیں اور اردو کا مقدمہ اردو والوں اور اربابِ بست و کشاد کے سامنے پیش بھی کررہے ہیں۔ دشمنانِ اردو کے شش جہات حملوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے والوں میں پروفیسر غازی علم الدین کا قلمی جہاد نفاذِ اردو میں نہ صرف مدد دے گا بلکہ اصلاحِ زبان اور بقائے اردو کا ضامن بھی ہوگا‘‘۔
پروفیسر ڈاکٹر غفور شاہ قاسم شعبہ اردو ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور اپنے جامع پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
’’اردو مر چکی ہے لیکن اُن کے لیے نہیںجو زندہ ہیں۔ اردو زندہ ہے لیکن اُن کے لیے نہیںجو مرچکے ہیں۔ پروفیسر غازی علم الدین کی اس کتاب کا ماحصل اس اختصاریے اور اس قولِ بلیغ میں مکمل طور پر سمٹ آیا ہے۔ کتاب میں شامل سات تحقیقی اور تنقیدی مقالات پروفیسر غازی علم الدین کے رت جگوں کا ریاض ہیں۔ ہر مقالہ اپنے موضوع کے لحاظ سے خود مکتفی اور اپنی قومی زبان سے غیر مشروط محبت کا آئینہ دار ہے۔ مجھے تو کتاب میں شامل ہر مقالہ فکر کی صلابت اور اظہار کی استقامت کی مثال دکھائی دیا ہے۔
اسلام اور اردو پاکستان کے بغیر زندہ رہے ہیں، زندہ رہیں گے، لیکن پاکستان اردو اور اسلام کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اردو اور پاکستان کا باہمی رشتہ وہی ہے جو انسانی زندگی میں روح کا جسم کے ساتھ ہوتا ہے۔ اردو پاکستان کے وجود کا جواز بھی ہے، اس کی بقا بھی۔ اردو پاکستان کی سمتِ سفر بھی ہے، منزلِ مقصود بھی۔ اردو پاکستان کا نقطۂ اتصال بھی ہے، نقطۂ کمال بھی۔ معروف صدا کار رضا علی عابدی نے اپنی کتاب ’’اردو کا حال‘‘ میں بڑی خوب صورت بات لکھی ہے:
’’اردو میرے ماتھے پر رکھی ماں کی ہتھیلی ہے۔ میرے آنگن میں بکھری روشنی اور میرے چمن میں پھیلی خوشبو ہے۔ میرے سینے میں دھڑکتی زندگی ہے۔ یہ میرے وجود پر برستی ٹھنڈک ہے۔ یہ زبان راحت، چین، سکون، آرام اور آسائش کا آمیزہ ہے‘‘۔
قومی زبان انسان کی سرشت میں ہوتی ہے، اس کے خمیر میں ہوتی ہے۔ اس کے شعور، لاشعور اور تحت الشعور میں ہوتی ہے، اور اس کے ذہن میں Programmed ہوتی ہے۔ ہزاروں سال کے ثقافتی ارتقا کے نتیجے میں، لکھے جانے والے انسان کے ثقافتی ڈی این اے میں اس کی اپنی زبان کی کوڈنگ ہوئی ہوتی ہے۔ لہٰذا اظہار، ابلاغ میں جو تفہیم اور سہولت انسان کو اپنی قومی زبان میں ہوسکتی ہے کسی بدیسی زبان میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ انسان کی تخلیقی اور اختراعی صلاحیتیں جس طرح اپنی زبان میں بروئے کار آتی ہیں کسی دیگر زبان میں قطعاً ممکن نہیں ہوتا‘‘۔
وہ مزید تحریر فرماتے ہیں:
’’زبان کی تخریب دراصل اس کی تضحیک کے مترادف ہے۔ اردو زبان کی نزاکتوں اور لطافتوں سے آگاہ ہمارے ممدوح پروفیسر غازی علم الدین نے ان مضامین و مقالات میں جابجا لسانی تخریب کاریوں کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی ہے۔ اردو زبان و ادب کے ہر طالب علم بالخصوص اردو اساتذہ کے لیے حواشی اور حوالوں سے مزین ان مقالات میں واضح رہنمائی موجود ہے۔ ہر سطح کے اردو اساتذہ کو ’’اردو کا مقدمہ‘‘ اپنی مستقل مطالعاتی ترجیحات میں شامل رکھنا چاہیے، اور اس نورِ بصیرت کو عام کرنا چاہیے، تاکہ وہ زبان دانی کے ضمن میں نسلِ نو کی صحیح خطوط پر تربیت کرسکیں۔
زبان اعضائے نُطق یا اعضائے تکلم سے ادا کی جانے والی آوازوں (نُطقی/ تکلمی) پر مشتمل ہوتی ہے، گویا نطق کا اظہاری روپ زبان ہے جو رب کائنات کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے۔ اس کے بولنے (تلفظ) اور لکھنے (املا) میں بے احتیاطی ناقابلِ معافی جرم ہے۔
زبان پر کسی بھی زاویے سے کی جانے والی تحقیق، لسانی کہلائے گی خواہ اس کا تعلق زبان کے آغاز و ارتقا کے نظریات سے ہو، خواہ صوتیات و نحویات پر مشتمل ساختیاتی مطالعے سے ہو، خواہ املا، رسم الخط اور تلفظ سے ہو۔
علمِ زبان، موجودہ لسانیات ابتداً انگریزی میں فلولوجی (Philology) سے موسوم تھی۔ یہی فلولوجی بعدازاں علم لسانیات (Linguistics) کہلایا اور اسے اب علوم، کلچر اور مابعد جدید رجحانات کا لازمہ قرار دیا جارہا ہے۔ اس نسبت سے لسانیات کا مطالعہ زبان و ادب کے ہر طالب علم کے لیے لازم قرار پاتا ہے۔ لسانیات کے قدیم تصور سے جدید تصور تک، تاریخی لسانیات سے عام لسانیات تک قدیم و جدید ادبی رجحانات کا ایک سلسلہ نظر آتا ہے۔ اپنی کتاب ’’لسانی مطالعے‘‘ سے لے کر زیر مطالعہ کتاب ’’اردو کا مقدمہ‘‘ تک پروفیسر غازی علم الدین کے سیّال تحقیقی سفر کا نمایاں پہلو لسانی ہے۔ سرسید احمد خان، علامہ اقبال، قائداعظم، بابائے اردو مولوی عبدالحق، مولانا صلاح الدین احمد، ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر وحید قریشی، حمید اللہ خان، ضیا اسلام پوری، سید انجم جعفری، جسٹس جواد ایس خواجہ، رضا علی عابدی، فاطمہ قمر، پروفیسر شریف نظامی اور پروفیسر غازی علم الدین تک محافظینِ اردو کی ایک طویل کہکشاں موجود ہے جس کا ہر ستارہ ضَو فشاں ہے۔ ان تمام محسنینِ اردو نے ہر محاذ پر اردو کا مقدمہ ناقابلِ تردید شواہد اور محکم دلائل سے پیش کیا ہے۔ اردو دنیا ان کی معترف اور ممنون ہے۔
راقم کے رفیقِ کار، اردو زبان و ادب کے سچے پرستار ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کے اس قطعے پر ان سطور کا اختتام کرنا چاہوں گا:
کہیں ریشم کہیں اطلس کہیں خوشبو رکھ دوں
یہ تمنا ہے تری یاد کو ہر سُو رکھ دوں
یہ تبسم، یہ تکلم، یہ نفاست، یہ ادا
جی میں آتا ہے ترا نام میں اردو رکھ دوں‘‘
کتاب میں جو مضامین اور مقالات شامل کیے گئے ہیں وہ درجِ ذیل ہیں، ان کی تعداد سات ہے:
اردو کا ملّی تشخص اور کردار، اردو کے خلاف قیامت کی چال، اردو تو بے زبان ہے کس سے کرے سوال (بھارت میں اردو کی زبوں حالی پر عظیم اختر کا شہرِ آشوب)، اردو زبان کوئی بے کار سا کھلونا نہیں ہے، فالتو لفظوں کی جھوٹی چمک، نفاذِ اردو کی راہ میں دو رکاوٹیں (انگریزی کا تسلط اور لسانی تعصب)، اقبال اور اردو (دو روزہ عالمی اقبال کانفرنس کے تعلق سے)
کتاب سفید کاغذ پر خوب صورت طبع ہوئی ہے، مجلّد ہے۔ سادہ لیکن حسین سرورق سے مزین ہے۔