آپ کی اردو درست کرنے والی کتاب

مہینے بھر سے مطالعے کی میز پر ایک کتاب دھری ہوئی ہے۔ میں ہر روز اس کتاب کی جستہ جستہ ورق گردانی کرتا ہوں اور اس کے ہر صفحے سے علم کا کوئی نیا موتی ہر روز چن لیتا ہوں۔ کتاب کا نام ہے ’’لسانی زاویے‘‘ـ۔ پروفیسر ڈاکٹر غازی علم الدین کی اس معرکہ آرا کتاب کا شہرہ پہلے سے سن رکھا تھا۔ مطالعے کی میز پرآئی تو معلوم ہوا کہ یہ ایسی کتاب نہیں جو سرسری مطالعے سے نمٹائی جاسکے۔ ہر چند کہ یہ کتاب فقط چند مضامین کا مجموعہ ہے، مگر اس کا ہر مضمون اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک کتاب ہے۔ اس کتاب کو ہر اُس شخص کے لیے پڑھنا لازم قرار دینا چاہیے جو اُردو لکھتا ہے اور ذرائع ابلاغ پر بزعم خود اردو بولتا ہے۔
اردو ہمارے ملک میں عوامی رابطے کی زبان ہے۔ اسے قومی زبان کا درجہ بھی حاصل ہے۔ آئین پاکستان کی رُو سے یہ سرکاری زبان بھی ہے۔ مگر اردو کی جو زبوں حالی ہے، اس کا ماتم تو وہ بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ اس زبوں حالی تک پہنچانے میں جن کا اچھا خاصا حصہ ہے۔ برسوں پہلے کی بات ہے، سابق مقتدرہ قومی زبان کی طرف سے ہمارے ملک کے پارلیمانی ارکان میں ایک دلچسپ رائے شماری کی گئی۔ مقتدرہ کے سوال نامے کا جواب دینے والے 131 ارکان میں سے 96 نے اُردو کو سرکاری زبان بنانے، اسمبلی کی کارروائی اُردومیں چلانے اور سرکاری خط کتابت اور سرکاری احکام اُردو میں جاری کرنے کے حق میں رائے دی تھی۔ 131 میں سے صرف 19 ارکان نے انگریزی کے حق میں رائے دی۔رائے شماری کی تفصیلات کے مطابق 131 ارکان میں سے چالیس فیصد ارکان انگریزی ذریعۂ تعلیم سے فارغ التحصیل تھے، تاہم ان میں سے 86فیصد ارکان نے اُردو کے حق میں رائے دی۔ انھیں میں سے 65 فیصد ارکان نے یہ بتایا کہ وہ اپنی تقاریر اور خط کتابت اُردو میں کرتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ پاکستان کے 8 ستمبر 2015ء کے واضح احکام کے باوجود اب تک آئین کی خلاف ورزی جاری ہے۔ اردو کو ملک کی سرکاری زبان بنانے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہوتی نظر نہیں آتی۔ زبان کے لحاظ سے ہم معلق قوم ہیں۔
اردو ذریعہ تعلیم والے تعلیمی ادارے ختم کردیے گئے۔ تعلیم کی زبان انگریزی ہوگئی۔ ہماری کِشتِ ویراں میں کاشت کے لیے ذریعۂ تعلیم کے طور پر ایسی اجنبی زبان کا پودا لاکر لگادیا گیا جوہماری مٹی کی نمی اور ہماری زمین کی زرخیزی کے باوجود ہمارے مطلوبہ برگ وبار نہیں لاسکتا۔ یہ اِس زمین کا تو کیا، ہمارے اردگرد پائے جانے والے پورے خطے کا پودا نہیں، چناں ہماری نژادِ نو اپنی زبان سے بیگانہ ہوگئی اور بیگانی زبان بھی اس کو نہ آئی۔ تعلیمی میدان میں ہم سر کے بل کھڑے ہونے کا شعبدہ دکھا رہے ہیں۔ ذریعۂ تعلیم اجنبی زبان ہے اور قومی زبان کوایک مضمون کے طور پر پڑھایا جارہا ہے۔ دنیا کی ہر ترقی یافتہ قوم اپنے بچوں کو اپنی زبان میں تعلیم دیتی ہے، اُس زبان میں کہ جس میں وہ خواب دیکھتے ہیں، سوچتے ہیں اور غور و فکر کرتے ہیں۔ اجنبی اور غیر ملکی زبانیں الگ مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہیں۔ تعلیمی اداروں سے نکل کر جو نسل ہمارے ذرائع ابلاغ اور دیگر اداروں میں پہنچ رہی ہے وہ آدھا تیتر آدھا بٹیر ہے۔ اس ملک میں انگریزی اخبارات پڑھنے والوں کی تعداد زیادہ ہے نہ انگریزی نشریات دیکھنے والوں کی۔ اردو ہی واحد ذریعۂ ابلاغ ہے۔ لہٰذا دیکھتے ہی دیکھتے انگریزی اخبارات بھی اپنی برقی نشریات اردو میں کرنے پر مجبور ہوگئے۔ مگر کارندگانِ نشر و اشاعت کو اُردو آئے تو کیسے آئے؟
پروفیسر ڈاکٹر غازی علم الدین کی کتاب ’’لسانی زاویے‘‘ ہمارے معاشرے میں رواج پا جانے والی زبان کو مختلف زاویوں سے دیکھتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایک مشفق اور ہمدرد معالج کی طرح لسانی امراض کی نہ صرف نشان دہی کرتے ہیں بلکہ دل سوزی سے علاج بھی کرتے جاتے ہیں۔ کتاب کی زبان آسان اور عام فہم ہے۔ اندازِ بیان ادبی چاشنی لیے ہوئے ہے۔ لسانی لطافت جا بجا پائی جاتی ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ اس عاجز نے نقاد کے طور پر نہیں، طالب علم کی حیثیت سے کیا ہے۔ چناں چہ جن باتوں کو خود اپنی اصلاحِ زبان کے لیے نشان زد کیا ہے، اُن میں سے چند، نمونے اقتباسات کی صورت میں قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیںتاکہ جو لوگ درست اردو لکھنا چاہتے ہیں اور درست اردو بولنا چاہتے ہیں انھیں اندازہ ہوسکے کہ اس کتاب کا مطالعہ اُن کے لیے کس قدر مفید اور ناگزیر ہے:
’’… اسی طرح ایک اور فقرہ لیجیے: ’’مرض الموت کے علاوہ ہر مرض کا علاج ہے۔‘‘ اگر غور سے دیکھا جائے تواس کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ مرض الموت کا بھی اور دیگر ہر مرض کا بھی علاج ہے۔ حال آں کہ جملے کا مدعا یہ تھا کہ مرض الموت کو چھوڑ کر باقی ہر مرض کا علاج ہے۔ لہٰذا جملہ یوں ہونا چاہیے تھا: ’’مرض الموت کے سوا ہر مرض کا علاج ہے۔‘‘ اگر کسی محفل میں کوئی یہ کہے کہ میرے علاوہ سب احمق ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ خود بھی احمق ہے۔ یہاں بھی ’علاوہ‘ کی جگہ ’سوا‘ کا محل ہے‘‘۔ (’علاوہ‘ کی ذو معنویت اور ابہام و اہمال)
’’ایک زمانہ تھا کہ فیصلہ ہونے تک، کسی کام کو رُکوانے کے لیے، لوگ عدالت سے حکمِ امتناع جاری کرواتے تھے۔ امتناع کا معنیٰ ہے روکنا، منع کرنا۔ بھلے وقتوںمیں، عدالتی کارروائی میں، حکم امتناع کی اصطلاح ہی چلتی رہی۔ عدالتی زبان اور اخبارات میں حکمِ امتناع ہی نظر آتا اور سنائی دیتا۔ زمانہ بدلا، زبان پر بھی بگاڑ کے اثرات مرتب ہوئے تو حکمِ امتناع سے حکمِ امتناعی ہوگیا، جیسے تقرر (Appointment) سے تقرّری اور تنزّل (Demotion/Decline) سے تنزّلی۔ اب خیر سے اس ترکیب کو حکمِ امتناعیّت کا درجہ مل گیا ہے‘‘۔ (’’یت‘‘ کا لاحقہ … کس حد تک جائز؟)
’’بعض لوگوںکو بغیر کسی قرینے کے ’’بھی‘‘ کثرت سے لکھنے اوربولنے کا شوق ہوتا ہے، مثلاً ’’ترجمہ نگاری فن بھی ہے، ذوق بھی اور لیاقت بھی۔‘‘ قاعدہ یہ ہے کہ جملے میں اُجاگر کی جانے والی تین خاصیتوں میں سے پہلی خاصیت کے ساتھ ’بھی‘ نہیں آتا۔ درست اس طرح ہوگا: ’’ترجمہ نگاری فن ہے، ذوق بھی اور لیاقت بھی۔‘‘(فالتو لفظوں کی جھوٹی چمک)
’’ناظمِ مشاعرہ نے کسی شاعرہ کو مدعو کرتے ہوئے کہا: ’’اب میں گزارش کرنے جارہا ہوں فلاں شاعرہ سے کہ وہ اسٹیج پر تشریف لائیں اور…‘‘ ناظمِ مشاعرہ کی اس دعوت سے بھرپور تاثر مل رہا ہے کہ وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر گزارش کرنے جارہے (باقی صفحہ 41پر)
ہیں۔ اس تکلّف سے بچنے کے لیے انھیں کہنا چاہیے تھا: ’’اب میںگزارش کرتا ہوں‘‘ یا ’’کررہا ہوں۔‘‘ (فالتو لفظوں کی جھوٹی چمک)
’’سلیقے اورقرینے سے رکھے ہوئے بچوں کے نام ان کے والدین کے ذوقِ سلیم کا پتا دیتے ہیں۔ عاقب کا معنی ہے بعد میں پیدا ہونے والا۔ اگر پہلے بچے ہی کا نام عاقب رکھ دیا جائے تو والدین کی بد ذوقی ظاہر ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اگر بڑے بیٹے کا نام اصغر اورچھوٹے کا اکبر ہو توبات نہیں بنتی۔ یہی قاعدہ کبیر اور صغیر میں کارفرما ہوگا۔‘‘ (نام رکھنے، لکھنے اور پکارنے کی مشکلات)’’… اسی طرح بعض لوگ ’’السّلام علیکم‘‘ میں واؤ ڈال کر ’’السّلام و علیکم‘‘ لکھنے سے نہیں شرماتے۔ یہی صورت خط کتابت کی ہے جسے غلط طور پر خط و کتابت لکھا جاتا ہے، جس کا معنی بنتا ہے ’’خط اور لکھنا‘‘۔ خط کتابت اصل میں اضافتِ مقلوب ہے جس کی صحیح صورت کتابتِ خط ہے یعنی خط لکھنا۔ بعض لسان شناس بہاء الدین اور علاء الدین میںہمزہ کے ساتھ واؤ لکھنا معیوب قرار دیتے ہیں‘‘۔ (حرفِ عطف کا غلاط استعمال)
اس کتاب کاایک مضمون ’’اضافتِ مقلوب اور ہماری نافہمی‘‘ پہلے ہی ہفت روزہ ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ میں شائع ہوکر سماجی ذرائع ابلاغ پر خوب گردش کرچکا ہے۔ یہ مضمون بھی ابلاغیات سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کو ضرور پڑھنا چاہیے۔
’’لسانی زاویے‘‘میں ڈاکٹر صاحب کے کُل27 مضامین ہیں۔ ان کے علاوہ تین اکابر کے مضامین کتاب سے متعلق تفصیلی اظہارِ خیال پر مشتمل ہیں۔ یہ اکابر پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف، پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید اور جناب ندیم صدیقی ہیں۔
کتاب کا سرورق نہایت دیدہ زیب ہے۔ کُل صفحات 316 ہیں، قیمت 1000 روپے اور اشاعت کا اہتمام کیا ہے مثال پبلشرز نے، جن کا پتا ہے: رحیم سینٹر، پریس مارکیٹ امین پور بازار، فیصل آباد۔